بلاول کا جلسہ ‘ تخریب کاری کا خدشہ ‘ سندھ کی محبتیں اور پاکستان کا مستقبل ؟

پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک کی جانب سے انقلاب مارچ کی ناکامی اور اسلام آباد میں جاری دھرنوں کے باعث اسلام آباد میں ہمہ اقسام سرگرمیوں کی معطلی و قومی معیشت کی بربادی کے باوجود حکومت نے ان دونوں جماعتوں کی تحریک ‘ مارچ اور دھرنو ں کو درخور اعتنا ء نہ جانتے ہوئے یکسر نظر انداز کردیا توانقلاب مارچ کے ذریعے حکومت کی رخصتی کے ساتھ عید سے قبل قربانی کا خواب دیکھنے والوں کیلئے بھی اپنے خوابوں کو حقیقت کا روپ دینے کیلئے نئی حکمت عملی کی ترتیب پر مجبور ہونا پڑا جس کے بعد پاکستان تحریک انصاف اور عمران خان نے ہی نہیں بلکہ پاکستان عوامی تحریک اور ڈاکٹر طاہرالقادری نے بھی ملک بھر میں بڑے بڑے جلسوں کے جس سلسلے کا آغاز کیا ہے اس سے یہ تاثر مستحکم ہورہا ہے کہ ’’تبدیلی ‘‘ آئے نہ آئے البتہ حکومتی رخصتی یقینی ہوچکی ہے جس کے آثار ملتان کے انتخابی دنگل میں عوام ملتان کی جانب سے مسلم لیگ (ن) کے حمایت یافتہ ’’باغی‘‘ یعنی جاوید ہاشمی کو ’’داغی‘‘ بنانے اور پاکستان تحریک انصاف کے حمایت یافتہ ’’خرگوش ‘‘ یعنی عامر ڈوگر کی فتح نے عوام کی بدلتی ہوئی کیفیات کا پتا تو دیا ہی ہے الیکشن کمیشن کی نااہلی اور اس نا اہلی سے حکمران طبقات کی جانب فوائد اٹھانے کے اس راز پر سے بھی پردہ اٹھادیا ہے جس کے باعث 2013ء کے قومی انتخابات کی شفافیت مشکوک اور موجودہ حکومت کا عوامی مینڈیٹ جعلی قرار پاکر ’’گو نوازگو ‘‘ کی گردان کا باعث بنا اور اب اس گردان میں جس شدت سے تیزی آتی جارہی ہے اس کے بارے میں تجزیہ و تبصرہ نگاروں کی رائے ہے کہ اس سال کے اختتام سے قبل یہ نعرہ حقیقت کا روپ دھار جائے گا ۔

دوسری جانب سیاست کی موجودہ رفتار اور تیل کی دھار دیکھ کر جمہوریت کے نام پر یکجا ہوکر حکومت و نظام بچانے کی کوشش کرنے والے سیاستدان بھی وقت کے ساتھ رنگ بدلنے لگے ہیں اور قومی انتخابات 2013ء میں قومی جماعت کا اعزاز کھوکر پنجاب ‘ سرحد اور بلوچستان میں عوامی حمایت سے محروم دکھائی دینے اور صرف سندھ میں اقتدار حاصل کرنے والی جماعت پیپلز پارٹی حالات کو دیکھتے ہوئے’’ حقیقی‘‘ سیاست پر مجبور ہوچکی ہے اور آنے والے وقت میں مسلم لیگ فنکشنل ‘ آل پاکستان مسلم لیگ ‘ تحریک انصاف اور متحدہ قومی موومنٹ کی مشترکہ حکومت کے خطرے کے پیش نظر پیپلز پارٹی نے بھی سندھ میں انتخابی انداز سیاست کا آغاز کردیا ہے جو اس بات کا ثبوت ہے کہ پاکستان آہستگی سے وسط مدتی انتخابات کی جانب بڑھ رہا ہے یہی وجہ ہے کہ آل پاکستان مسلم لیگ کے چیئرمین پرویز مشرف نے بھی اپنی جماعت کو فعال بنانے اور انتخابات میں کھڑے ہونے والے نمائندوں کے حصول کیلئے ملک گیر دوروں اور جلسوں کا عندیہ دیا ہے اور وسط مدتی انتخابات کے یقینی انعقاد کیلئے اب صرف عوامی نیشنل پارٹی ‘ فنکشنل لیگ ‘ بی این پی اور متحدہ قومی موومنٹ کی جانب سے انتخابی طرز سیاست کے آغاز کی دیر ہے کیونکہ مسلم لیگ (ن) سرکاری وسائل کے ساتھ انتہائی ذہانت سے اپنی حکمرانی کی ناکامیوں کو بھی قومی مفادات قرار دیکر انتخابی فوائد کے حصول کا آغاز پہلے ہی کرچکی ہے ۔

تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک کے انقلاب مارچ سے شروع ہونے والی انتخابی سیاست کے تحت کراچی میں عمران خان کی جانب سے تحریک انصاف کے جلسہ عام کے ذریعے عوامی قوت کے اظہار کے جواب میں پیپلز پارٹی کی جانب سے بلاول بھٹو نے مزار قائد پر جلسہ کا اعلان ہی نہیں کیا بلکہ ان نا عاقبت اندیش مشیروں کے مشوروں پر متحدہ قومی موومنٹ اور اس کے قائد الطاف حسین کو بھی لتاڑ بیٹھے جن مشیروں کے مشوروں کے باعث آج پنجاب کے ساتھ سرحد اور بلوچستان سے بھی پیپلز پارٹی کا وجود مٹ چکا ہے اور بھٹو کی تشکیل کردہ پاکستان کی سب سے بڑی قومی و عوامی جماعت پیپلز پارٹی قومی جماعت سے سکڑ کر سندھ کی ایسی صوبائی جماعت کی شکل میں ڈھل چکی ہے جسے سندھیوں اور سندھ کے تمام عوام کی حمایت حاصل نہیں ہے ۔ مشیروں کے مشوروں پر پیپلز پارٹی کے کارکنان کو ذرہ بھی تکلیف پہنچنے پر لندن میں ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین کی زندگی مشکل بنانے کی دھمکی دینے والے بلاول بھٹو یقینابھٹو کے جانشین ہیں اور مستقبل کے بڑے لیڈر ہیں مگر انہیں فی الوقت ایسی اشتعال انگیزی سے گریز کی ضرورت ہے جو ان کے سیاسی کیریئر کے عروج کیلئے عوامی زندگیوں کا خراج مانگے ۔

آج مزار قائد پر پیپلز پارٹی کی جانب سے جلسہ عام اور دانشوروں کی نگاہ میں سرکاری وسائل کے استعمال سے طاقت کا مظاہرہ ہورہا ہے جس سے بلاول بھٹو زرداری نے خطاب کرنا ہے اس جلسہ عام کیلئے پاکستان کی تاریخ کے سب سے مؤثر اور گراں انتظامات و اقدامات کئے گئے ہیں جبکہ فول پروف سیکورٹی کو بھی مدنظر رکھتے ہوئے نہ صرف مزار قائد سے منسلک راستوں کو کئی کلومیٹردور سے ہی ٹریفک کیلئے بند کردیا گیا ہے بلکہ بلاول بھٹو ‘ آصف علی زرداری اور پیپلزپارٹی کے سرکردہ رہنماؤں کیلئے بلٹ و بم پروف گاڑیوں ‘ استراحت گاہوں اور مؤثر و جدید مانیٹرنگ سسٹم کا بھی انتظام کیا گیا ہے اور میڈیا پر جلسے کی تیاریوں کے حوالے سے منظر پر آنے والے انتظامات سے یہ جلسہ اپنی نوعیت کا منفرد ‘ منظم ‘ محفوظ اور اب تک سیاسی جلسوں میں سب سے بڑا جلسہ ہونے جارہا ہے یا پیپلز پارٹی اس خواہش کے ساتھ اس جلسے کے انتظامات کررہی ہے۔

اس جلسے کا سیاسی مستقبل کیا ہوگا اور بلاول اس جلسے میں اپنے خطاب سے پیپلز پارٹی کے کھوئے ہوئے سیاسی مقام کو کس حد تک بحال کرنے اور تحریک انصاف کی سندھ کی جانب بڑھتی پیش قدمی کو روکنے میں کس حد تک کامیاب ہوں گے یہ تو آنے والا وقت بتائے گا مگر دانشوروں کے تئیں جلسے کا پر امن رہنا ضروری ہے کیونکہ جلسے میں کسی بھی قسم کی تخریب کاری سندھ کی شہری اور دیہی آبادی کے مابین ایک بار پھر نفرتوں کو جنم دے گی اور زور خطابت میں الطاف حسین کو للکارنے والے بلاول کیلئے اپنے سیاسی مفاد کیلئے خفیہ قوت کی اس تخریب کاری کو ایم کیو ایم کے کھاتے میں ڈالناضروری ہوگا جس کے بعد کراچی ایکبار پھر 1988ء ‘ 1990ء اور1992ء کی دہلیز پر کھڑا ہوگا اور سندھ میں گھولے جانے والے نفرت کے زہر سے اس قدر انسانی لہو بہے گا کہ موجودہ حکومت کا قائم رہنا ممکن نہیں رہے گا اور ملک وسط مدتی انتخابات کی بجائے اس سے بھی آگے کی راہ پر گامزن ہوجائے ۔

مزار قائد پر آج کے جلسے میں کسی بھی بد امنی کا بظاہری فائدہ تو پیپلز پارٹی کو ہوگا اور وہ مظلوم کہلائے گی جس سے اس کیلئے ایکبار پھر عوامی حمایت کا حصول آسان ہوجائے گا جس کے بعد وسط مدتی انتخابات کی صورت وہ2013ء کی نسبت زیادہ بہتر انتخابی نتائج حاصل کرسکے گی مگر پوشیدہ قوتوں کی بد امنی کی یہ سازش جمہوری قوتوں کیلئے کسی بھی طور سودمند نہیں رہے گی کیونکہ قومی سیاسی فضاء ابھی وسط مدتی انتخابات کیلئے سازگار نہیں ہے۔ موجودہ حالات میں کوئی بھی سیاسی جماعت عوام میں اس قدر اعتماد و اعتبار کی حامل نہیں ہے کہ وہ انتخابات میں سادہ اکثریت بھی حاصل کرپائے نتیجتاً انتخابات کے نتیجے میں بننے والی اتحادی حکومت ملک و قوم کی خدمت کی بجائے اپنی بقا کی جنگ لڑنے پر مجبور ہوگی جس کی وجہ سے نہ تو اسے آئینی مدت کی تکمیل کی ضمانت حاصل ہوگی اور نہ ہی وہ عوام کو کسی بھی قسم کا ریلیف فراہم کرنے میں کامیاب ہوگی نتیجتاً اس اتحادوحکومت میں شامل جماعتوں کا سیاسی مستقبل 2013ء کے انتخابات میں پیپلز پارٹی کے حشر سے زیادہ عبرتناک ہوگا اسلئے ملک و قوم ہی نہیں بلکہ سیاسی جماعتوں کے اپنے مفادات میں بھی یہی ہے کہ موجودہ جمہوری نظام اپنی آئینی مدت پوری کرے تاکہ اس وقت تک سیاسی جماعتیں عوامی اعتماد کے سہارے مضبوط سیاسی ساکھ کے قیام میں کامیاب ہوجائیں مگر اس کیلئے تمام سیاستدانوں کو دھمکیوں اور اشتعال انگیزی کی طفلانہ سیاست سے بچتے ہوئے اس ملک کے امن کو ہر حال میں برقرار رکھنے کیلئے اپنا کردار ادا کرنا ہوگا وگرنہ پوشیدہ قوتیں جلسے جلوسوں میں تخریب کاری کا وسیع تجربہ ومہارت رکھتی ہیں اور عوام ان قوتوں کی اس صلاحیت سے مکمل طور پر آگاہ ومعترف ہونے کے ساتھ دعا گو بھی ہیں کہ اﷲ پوشیدہ قوتوں کو ناکام بناتے ہوئے امن ہمیشہ قائم رکھے اور بلاول کے جلسے کو ہر قسم کی تخریب کاری سے محفوظ رکھتے ہوئے سندھ میں امن و محبت کی فضا برقرار رکھے …………آمین
Imran Changezi
About the Author: Imran Changezi Read More Articles by Imran Changezi: 194 Articles with 147336 views The Visiograph Design Studio Provide the Service of Printing, Publishing, Advertising, Designing, Visualizing, Editing, Script Writing, Video Recordin.. View More