اچھی امید

جس وقت دھاندلی کے خلاف ہزاروں لوگ سڑکوں پر تھے، جس وقت ریاست بچانے کے لیے ہزاروں لوگ گھر بار چھوڑ چکے تھے ، جس وقت جمہوریت بچانے کے لیے جمہوریت کے دعوے دار مشاورتوں میں مگن تھے، جس وقت کرسیاں بچانے کے لیے معاملات طے ہورہے تھے، وفود گفت وشنید میں مصروف تھے، جس وقت فرسودہ نظام سدھارنے کے لیے بلند و بانگ دعوے کیا جارہے تھے ، جس وقت اسی فرسودہ نظام کو چلانے والے نظام بچانے کے لیے بھاگ دوڑکر رہے تھے ، جس وقت سیاسی جشن آزادی پر کروڑوں روپے خرچ کر دیے گئے تھے، جس وقت ملک کا بچہ بچہ سیاسی صورت حال پر تجزیہ نگار بن چکا تھا ، جس وقت اس سارے عمل کو میڈیا ریٹنگ بڑھانے کے چکر میں بریکنگ نیوز کی صورت میں چلا رہے تھے ٹھیک ۔۔۔ٹھیک اسی وقت اس نظام ، اس جمہوریت اور ان سیاسی شعبدہ بازوں کی بے حسی سے ناامیدہوکر گاؤں سامو بھیل تھرپارکر کی 30سالہ مہروبھٹ اپنے بچوں کو کھانا مہیا نہ کرسکنے کی وجہ سے خودکشی کر بیٹھی ۔23اگست 2014کی رات مہرو بھٹ کے بچوں نے بھوک و ننگ کا تذکرہ شاید اپنی والدہ سے کیا ہو مگر والدہ تو خاموش ہو گئی ،بے سدھ اور بے حس۔

آخر کب تک وہ بچوں کو بھوک و ننگ میں سسکتا ، بلکتا دیکھتی ؟کب تک وہ بادشاہ وقت کا انتظار کرتی ؟کب تک وہ بھائی چارے کے اصول پر عمل درآمد کرتے لوگوں سے آس لگائے منتظر رہتی۔سب سے ناامید ہوکر وہ ، وہ اقدام کر بیٹھی جس کا تصور بھی اذیت ناک ہوتا ہے وہ اقدام کے جس کو کرنے والا تو کر جاتا ہے مگرزندوں کے لیے شرمندگی کا باعث بن جاتا ہے فہم و فراست والے سوچ بچار کر کے اقدامات کرتے ہیں جب کہ باقی صرف افسوس۔خود کشی والی خودکشی تو کر گئی مگر اس کی خودکشی کے بعد کیا ہوا ؟کیا اس کے بچوں کے لیے وظیفہ مقرر ہوا ؟کیا مستقبل کے لیے ایسے سانحات کی روک تھام کے لیے ٹھوس او ردورس اقدامات کیے گئے ؟کیااقتداروں پر برجمان لوگوں سے لے کر اقتدار مہیا کرنے والے لوگوں تک کسی نے اپنا احتساب کیا ؟ نہیں ایسا نہیں ہوا ۔۔۔اقتدار والوں نے تصاویر بنوائی ، بچوں کے سر پر ہاتھ پھیرااور اس فوٹو سیشن کے بعد اخباری رپورٹروں اور کیمرہ مینوں کو اگلے حادثے کے لیے اپاؤنٹمنٹ دے دی جب کہ یہ خبر پڑھنے ، سننے اور دیکھنے والوں نے صرف آہ کی اور خاموش۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا مہروبھٹ کی بھوک و ننگ سے تنگ ہوکریہ پہلی خودکشی تھی ؟حالات و واقعات کا جائزہ لینے سے اس کا جواب نفی میں ملتا ہے ۔ پہلی ہوتی تو یقیناکہیں نہ کہیں کھلبلی ضرور مچتی ۔اب تو خود کشیاں روٹین بن گئی ہیں اقتدار والے یہ خبریں سن سن کر بے حس ہوچکے ہیں عوام بے سدھ اور میڈیا کے لیے اب یہ خبر بریکنگ نیوز نہیں رہی۔

تھرپارکر ڈسٹرکٹ میں بھوک و ننگ ، غربت و افلاس کی وجہ سے یہ پہلی خودکشی نہیں تھی بل کہ ایک تازہ ترین رپورٹ کے مطابق 2011میں 24اور 2012میں 35افراد حکمرانوں کی بے حسی اور عوام کی لا پرواہی کی وجہ سے خودکشی کے مرتکب ہوچکے ہیں کیوں کہ انھیں دور دور تک کہیں امید نظر نہیں آرہی تھی نہ ایوان بالا (حکمرانوں)سے اور نہ ایوان زیریں (عوام)سے ۔شاید انھیں ایوان بالا یا ایوان زیریں سے امید کی ایک ہلکی سی کرن بھی نظر آتی تو یہ اس انتہائی اقدام کے مرتکب نہ ہوتے ۔بے حسی اور لا پرواہی کا اس سے بڑا عالم اور کیا ہوگا کہ 2011اور 2012کی نسبت 2014کے صرف ابتدائی 7ماہ میں 31افراد بھوک و ننگ ، غربت و افلا س اور بے حسی و لاپرواہی سے تنگ آکر خودکشی کر چکے ہیں آگے کیا ہوگا ؟امیداچھی رکھنی چاہیے مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا حکمرانوں اور عوام کی ترجیحات سے اچھی امید کی آس لگائی جاسکتی ہے ؟ماضی بھی سیکھنے کے لیے ہوتا ہے اور اگر ماضی کو پرکھا جائے تو تھرپارکے لوگوں کے لیے ماضی سے کچھ نہیں سیکھا گیا اگر تو سیکھا جاتا اورمناسب اقدامات کیے جاتے تو یقینا7ماہ میں ہونے والی خودکشیوں کی تعداد 2011اور 2012کے پورے سال کی نسبت بہت کم کیا ہوتی ہی نہیں مگر شاید ووٹ بنک کے لیے جلسے اور فیسٹیولز ان انسانی جانوں سے زیادہ اہمیت رکھتے ہیں جن کو مرنے کے لیے بے آسرا چھوڑ کر یہ دھام دھڑلے سے منائے جاتے ہیں ۔

ووٹ بنک ، جلسے جلوسوں اور فیسٹیولز سے یاد آیا کہ آج کل سننے ،دیکھنے اور پڑھنے میں آیا ہے کے سند ھ پر برجمان حکومتی پارٹی سندھ فیسٹیول پر کروڑوں لٹانے کے بعد آج کل کسی جلسے پر کروڑوں لگا رہی ہے اور سندھ کی انتظامیہ نے جلسے کو کامیاب کرنے کے لیے رات دن ایک کیا ہوا ہے جب کہ کچھ نے تو جلسہ کی کامیابی کے لیے سر دھڑ کی بازی بھی لگائی ہوئی ہے جب کہ مرکزی حکومت بھی اس صوبائی حکومت کے اس’’ پاور شو‘‘ کو کامیاب کرنے کے لیے ہمہ تن حاضر ہے ۔ضلعی انتظامیہ کی اس چابک دستی کے کارنامے میڈیا کے مختلف ذرائع سے راقم نے پڑھے ، سنے اور دیکھے ہیں مگر انتظامیہ کی تھرپارکر کے قحط زدہ جمہور کے لیے شان دار چابک دستی اور کیا ہوگی کہ قحط زدہ متاثرین کے لیے منرل واٹر کی 3لاکھ بوتلیں ضائع ہوگئیں ان 3لاکھ بوتلوں میں 3لاکھ لٹرسے زائد پانی تھا اور اگر یہ پانی جون 2014سے پہلے پہلے تھر پارکر کے متاثرین کو دیا جاتا تو یقینا بھوک و پیاس سے مرنے والوں کی تعداد بہت ہی کم ہوتی مگر اس سے شاید سندھ انتظامیہ اور حکمرانوں کو وہ سکون نہ ملتا جو جلسے اور فیسٹیولز کرنے سے حاصل ہوتا ہے اس لیے تو یہ پانی سرکاری گوداموں میں پڑا رہا اور جون 2014کو خراب ہو گیا یعنی پانی پر لگایا جانے والا سرمایہ بھی ضائع کر دیا گیا جلسوں اور فیسٹیولز کی طرح ۔بہرحال امید اچھی رکھنی چاہیے مگر ماضی کو پرکھا جائے ، عوام اور حکمرانوں کی ترجیحات کو جانچا جائے تو امید کی کرن دھندلی بھی دکھائی نہیں دیتی ہے لیکن پھر بھی امید اچھی رکھنی چاہیے۔

Nusrat Aziz
About the Author: Nusrat Aziz Read More Articles by Nusrat Aziz: 100 Articles with 86079 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.

Achi Umeed - Find latest Urdu articles & Columns at Hamariweb.com. Read Achi Umeed and other miscellaneous Articles and Columns in Urdu & English. You can search this page as Achi Umeed.