آہ ....آہ ...!!یہ کیا مذاق ہے...؟
(Muhammad Azam Azim Azam, Karachi)
آپ یقینامیری بات سے متفق ہوں گے
کہ جب سے وطنِ عزیز پاکستان کا قیام عمل میں آیا ہے اُس وقت سے لے کر آج تک
ہمارے حکمران اور ہم اپنے سے زیادہ غیروں کے زورِبازوؤں پر ہی بھروسہ کرتے
آئے ہیں ،یہی وجہ ہے کہ ہم ابھی تک اپنے پیروں پر اُس طرح کھڑے نہیں ہوسکے
ہیں آج جس طر ح ہم سے بعد میں آزاد ہوکر معرضِ وجودمیں آنے والی ریاستوں نے
دنیابھر میں اپنی کامیابی اور کامرانی کا لوہامنوالیاہے ،آج جنہیں دنیابھی
مانتی ہے اور اِن کا احترام بھی کرتی ہے اِن کی اِس کامیابی و کامرانی کی
ایک سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ اِنہوں نے ہمیشہ دوسروں سے زیادہ اپنے زورِ
بازوؤں پر بھروسہ کیا ا ور آج اِنہیں اِسی اعتماداور بھروسے نے کہاں سے
کہاں پہنچادیاہے کہ اِن کی قدر و اہمیت کو دنیا کے ترقی یافتہ ممالک بھی
تسلیم کرتے ہیں۔
جبکہ ہم نے اپنے سے زیادہ دوسروں کے مشوروں اور بازوؤں پر بھروسہ کیا توآج
ہماری حالت پستی زدہ اقوام سے بھی بدتر ہوگئی ہے ، ہمیں اِس حال تک پہنچانے
میں غیروں کے ساتھ ساتھ ہمارے اپنوں کا بھی کردارمتحرک اور فعل رہاہے جبکہ
ہم اَب تک نصف صدی سے بھی زیادہ کا عرصہ حالتِ کسمپرسی میں گزارچکے ہیں
مگرآج بھی ایسالگتاہے کہ جیسے ہمارے حکمران، سیاستدان، بیوروکریٹس، شرافیہ
اور ہمارے بہت سے( آمنے اور سامنے اور ظاہر و باطن رہنے والے)اہم اداروں کی
بہت سی اہم عہدوں پر فائز شخصیات وا فراد بھی غیروں کے ہی زورِ بازوؤں پر
بھروسہ کئے ہوئے ہیں اور اُن ہی کے دیئے ہوئے مشوروں اور ڈکٹیشنز پر سختی
سے عمل پیراہیں آج یوں مُلک پر مسلط غیروں کے دوست ساری پاکستانی قوم کو
اپنی مرضی سے ہانک رہے ہیں اور قوم کو اِس کی درست راہ سے بھٹکاکراِسے
اُدھر لے جارہے ہیں اِنہیں جدھرکا کہاجارہاہے... آج میری قوم کا یہ حال ہے
کہ ذہن رکھنے کے باوجود بھی دماغ کے استعمال سے قاصر ہے، پچھلے کئی ماہ سے
مُلک میں جاری رہنے والے سیاسی بحرانوں پرقوم کو جہاں اپنی آنکھیں کھلی
رکھنی چاہئے تھیں مگرافسوس ہے کہ اِنہیں یہ بندکئے ہوئے ہے،یہ جانتے ہوئے
بھی کہ اِس کی خستہ اور زبو حالی اپنی اِنہی کوتاہیوں اور بدعقلی کاہی
نتیجہ ہے، کہ یہ اپنے بنیادی حقوق سے بھی محروم ہے مگر خداجانے کیوں...؟آج
بھی یہ باربارآزمائے ہوؤں کے پیچھے بھاگنے سے بازنہیں آرہی ہے،اوریہ اپنے
حکمرانوں ، سیاستدانوں ، اشرافیہ اور بہت سے ظاہر و باطن اشخاص کے دیئے
ہوئے پروگراموں اور منصوبوں کے پیچھے بھوکوں کی طرح دوڑے جارہی ہے ۔
آہ ...آہ ...!!!آج یہ پاکستانی قوم کے ساتھ کیاا ور کیسامذاق ہے ....؟ کہ
دوماہ تک ریڈزون میں دھرنادے کر بیٹھنے والے راتوں رات خاموشی سے دھرناختم
کرکے چلے گئے ہیں، کیااِس بات کا اِن سیاسی مداریوں کواحساس ہے کہ
بغیرنتیجہ نکلے دھرناختم کرنے سے قوم کے جذبات اور احساسات پر کیا گزری
ہوگی ...؟ اور اُن ا نقلاب کے متوالوں کاکیابناہوگا...؟؟جو انقلاب کی تلاش
میں ساری کشتیاں جلاکراور اپنے پیاروں کو چھوڑچھاڑ کر دوماہ سے انقلابیوں
کے ساتھ فائرنگ و شیلنگ اور لاٹھی، ڈنڈا کھاکر اوراسلام آباد کی گرمی و
بارش کو برداشت کرکے بے یارومددگارپڑے ہوئے تھے ... !!!دھرنے کے نام پر
اپنی سیاست چمکانے والوں نے دھرناختم کرنے کا مضحکہ خیز اعلان کرکے قوم کی
اُمیدوں پر اورارمانوں پر اُوس کے ڈرمز گرادیئے ہیں۔اَب اِس منظر میں مجھے
برک کا یہ قول یاد آگیاہے اِس کا کہناہے کہ’’ اقوام جن کی راہنمائی چھوٹے
دماغوں، چھوٹے دلوں سے ہوتی ہے اِنہیں اپنے آپ کوصدموں، آفتوں اور خاتمے کے
لئے تیاررکھناچاہئے‘‘اور آج لگتاہے کہ جیسے میری قوم کے لوگوں کو بھی یہ
احساس شدد سے ہونے لگاہے کہ برک کا قول ہم اور ہمارے مُلک پر صادق ہونے
جارہاہے۔بہرحال...!آج قوم کو اپنی راہ خودہی متعین کرنے کے لئے اپنے اندر
ہیجانی کیفیات ختم کرنی ہوں گیں، اور اپنی منزل کے تعین کے لئے اپنے جذبات
اور کسی کے جذباتی نعروں اور تقایرکے پیچھے بھاگنے کے بجائے اپنے دل و دماغ
سے مشورہ کرتے ہوئے اپنے اور اپنے دیس کے لئے سوچناہوگااور اِس نقطے کو
اچھی طرح ذہن نشین رکھناہوگاکہ جن اقوام میں اپنے پرائے کی سازشوں اور
مشوروں کو سمجھنے اور نظم و ضبط کا فقدان ہوتاہے اُن اقوام کے لئے ترقی و
خوشحالی کے دن و لمحات کا حصول مشکل ہی نہیں ناممکن بھی ہوجاتاہے جبکہ جو
قومیں وقت کی قدر،اور غوروفکرکرتی ہیں اِن کی خصلت میں نظم و ضبط
پیداہونالازمی ہوتاہے اوردنیاکی تاریخ گواہ ہے کہ ایسی ہی قومیں تحقیق
وانکشافات کے میدان میں اُوجِ ثُریاتک پہنچ جاتی ہیں اور دنیامیں اپنی عظمت
و احترام کے جھنڈے گاڑتی ہیں۔
آئیں عہدکریں کہ اَب ہمیں اغیارکے زورِ بازوؤں پر بھروسہ کرنا چھوڑکر اپنے
بازوؤں پر اعتماد اور بھروسہ کرناہوگااور دنیاکو یہ بتادیناہوگاکہ ہم حقیقی
معنوں میں ایک زندہ اور پائندہ قوم ہیں، اَب ہمیں کوئی ہمارے عزم وہمت سے
بھٹکانہیں سکتاہے،اور اَب ہم اور ہمارے کسی بھی شعبے میں کوئی گلوبٹ نہیں
ہوگا، جو اپنے ہی بھائیو ں ، بہنوں ، بیویوں اور بیٹیوں پر کسی کے بہکاوے
میں اِنسانیت سوز مظالم کے پہاڑ نہیں توڑے گا، اَب کوئی گلوبٹ قانون کی
دھجیاں بھی نہیں بکھیرے گا، اور جب قانون جاگ جائے گاتو پھر اِس کی پکڑمیں
آجانے کے بعد اپنی جان بچانے کے لئے یہ نہیں کہے گاکہ میں بدمعاش نہیں
ہوں،جو کیا معافی کا طلب گارہوں،جن پر میں نے ظلم کیا یقین جانو کہ ایک
میرے والد اور دوسرامیرے ماموں کی طرح ہے...!!آج جو گلوبٹ یہ کہاہے
ذراسوچیں کہ اُس نے بھی دوسروں کے زورِبازوؤں پر بھروسہ کرکے نہتے لوگوں
پرکیاکیاظلم نہیں کئے تھے مگراَب جب یہ قانون کی پکڑمیں آگیاہے تودیکھیں یہ
اپنی رہائی کے لئے کیسے کیسے جتن کررہاہے..؟آج ہم اور ہمارے حکمرانوں ،
سیاستدانوں اور اشرافیہ کی مثال بھی گلوبٹ جیسی ہے جو دوسروں کے زورِبازوؤں
پر بھروسہ کرکے مُلک اور قوم کا تو بیڑاغرق اور ستیاناس تو کرہی رہے ہیں
مگر افسوس ہے کہ یہ معافی بھی نہیں مانگ رہے ہیں آہ ..آہ ..! ذراسوچیں کہ
یہ کیا مذاق ہے...؟؟؟(ختم شُد) |
|