داعش اور دیگر دہشت گردوں کی
کارروائیوں سے شام کے پچانوے لاکھ افراد بے گھر ہو چکے ہیں ۔ جو شام کی
آدھی آبادی کے برابر ہے۔ اور ایک بڑی تعداد موت کی آغوش میں چلے گئے ہیں۔
نقل مکانی کرکے دوسرے ممالک میں پناہ گزین ہونے والوں میں پچیس لاکھ شامی
باشدوں کی زیادہ تر تعداد ترکی ،عراق ،مصراردن اور لبان میں ہے۔ لبان میں
پناہ گزینوں کی تعداد سب ممالک کے مقابلے میں زیادہ ہے۔ جو دس لاکھ سے زائد
بتائی جاتی ہے۔جو لبان کی آبادی کا چو تھا حصہ بنتا ہے۔ جبکہ لبان پہلے ہی
سے اندرونی مسائل کی دلدل میں دھنسا ہوا ہے۔ اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے این
ایچ سی آر کی ایک رپورٹ کے مطابق شامی پناہ گزینوں کے باعث لبان کی معیشت
پر اثر پڑا ہے۔
پہلے اطلاعات موصول ہوئی تھیں کہ عراق میں کرد فو جیوں نے عراق کے شمال میں
داعش کے مسلح افراد کو پسپا کرکے ’’ زومار ‘‘ قصبے پر دوبارہ کنٹرول حاصل
کرلیا ہے۔دوسری طرف عراقی فورسز بغداد کے قریب جرف السخر میں داعش کو پسپا
کر رہی ہیں ۔ تاکہ اس راستے پر کنٹرول کر رہی ہیں جو شیعہ زائرین استعمال
کرتے ہیں۔ داعش کے لڑاکا مسلح گروہوں نے عراق اور شام کے وسیع علاقوں پر
قبضہ کر رکھا ہے۔جسے واگزار کروانے کے لیے امریکہ اور اسکے اتحادی شام اور
عراق میں داعش کے ٹھکانوں پر فضائیہ کی مدد سے حملے کر رہے ہیں۔اور تازہ
ترین اطلاعات کے مطابق امریکہ اور اتحادیوں کی جانب سے داعش کے اڈوں پر
درجنوں حملے کیے جا چکے ہیں۔جن میں داعش کے بہت سارے مسلح افراد مارے گئے
ہیں۔
تازہ ترین موصولہ خبروں میں بتایا گیا ہے کہ شام کی فورسز نے قصیر نامی شہر
پر مکمل کنٹرول حاصل کر لیا ہے لبنان کی ملیشیا حزب اﷲ کے ٹی وی ’’المنار‘‘
اور شام کے سرکاری ٹی وی سے یہ خبر نشر کی جا رہی ہے۔
عالمی میڈیا کے مطابق حزب اﷲ شام میں داعش اور دیگر جنگجووں کے خلاف شام کے
اندر داخل ہوکر لڑ رہی ہے۔ادھر داعش کے فوجی سربراہ کا کہنا ہے کہ انکے
جوان لبنان کے اندر جا کر حزب اﷲ کے ساتھ لڑنے کو تیار ہیں۔
داعش کے بڑھتے قدموں سے خوف زدہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے بشارالسد کو
اقتدار سے بے دخل کرنے کے منصوبے کو پس پشت رکھ دیا ہے۔ اور اپنی تمام تر
توجہ داعش کو تہ نہس کرنے ، انکے زیر قبضہ علاقوں کو واگزار کرنے پر مبذول
کر رکھی ہے۔شام کی آزاد فوج کے سربراہ جنرل ادریس کا کہنا ہے کہ شام کے
مستقبل میں بشارالااسد کا کوئی کردار نہیں ہوگا۔ لیکن ایران ،عراق اور حزب
اﷲ بشارالااسد کے بغیر کسی حل کو قبول کرنے پر تیار نہیں ہیں۔ ایران ،عراق
اور لبنان کی حزب اﷲ پوری شدو مد کے ساتھ شامی صدر بشار الااسد کی پشت پر
کھڑے ہیں۔ اور بشار الااسد کی حکومت کے استحکام اور اسکے باغیوں کی بیخ کنی
کے لیے سردھڑ کی بازی لگائے ہوئے ہیں۔
شام اور عراق کے اندھر سرگرم عمل داعش کے مسلح گروہوں کو اسلحہ کہاں سے مل
رہا ہے؟ اور اسکی خریداری پر اٹھنے والے اخراجات کی ادائیگی کہان سے ہو رہی
ہے؟ یہ ابھی تک سوالیہ نشان بنا ہوا ہے۔ ایک رپوورٹ کے مطابق ماہرین کا
کہنا ہے کہ داعش کو اسلحہ عرب ممالک کے داعش کے حامی سرمایہ دار ہی فراہم
کرتے ہیں۔ اور یہ چھوٹے پیمانے کے ہتھیار ہو سکتے ہیں ۔لیکن بڑے ہتھیار
داعش کے مسلح گروہ سرکاری افواج سے چھین کر انکے خلاف ہی استعمال کرتے ہیں۔
اس حوالے سے بحرین کا نام بھی لیا جا رہا ہے۔ اس حوالے سے کوئی حتمی رائے
قائم نہیں کی جا سکتی۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا امریکہ اور اس کے اتحادی عراق اور شام کو داعش کے
قبضہ میں جانے سے روک پائیں گے یا نہیں؟ جیسا کہ خبریں شائع ہو ئی ہیں کہ
داعش کے مسلح جنگجو عراق کے دارالحکومت بغداد سے صرف چند کلو میٹر کے فاصلے
پر رہ گے ہیں۔ موصل شہر پہلے ہی داعش کے زیر کنٹرول آ چکا ہے۔ کیا اس بات
کے قوی امکانات موجود ہیں کہ عراق اور شام کے اندر سنی اور شیعہ ریاستیں
قائم کر دی جائیں۔اس طرح عراق اور شام کی فوجی طاقت بھی کمزور ہوجائے گی
اور سنی شیعہ لڑائی بھی ہوتی رہے گی جس سے ان ریاستوں میں امن و امان کے
قیام کا خواب شرمندہ تعبیر نہ ہو سکے گا۔ اس طرح بین الااقوامی سطح پر
مسلمانوں کو کمزور کرنے کے منصوبہ پر عمل درآمد ممکن ہو پائے گا۔
اگر امریکہ اور اتحادی داعش کے خلاف کارروائی میں ناکام بنانے میں کامیاب
نہ ہوئے تو دنیا کے امن کا کیا ہوگا؟ شام اور عراق کے بعد داعش نہ صرف
پاکستان میں اپنے قدم مضبوطی سے گاڑ چکی ہے بلکہ پورے برصغیر میں وہ اپنا
وجود قائم کرنے اور اپنی شناخت بنانے میں کامیاب ہو چکے ہیں۔ بتایا جاتا ہے
کہ بھارت ،کابل اور پاکستان میں تو انکی آمد و رفت جاری ہے۔ طالبان اور
القاعدہ کے عہدے دار تیزی ست داعش میں شمولیت اختیار کرتے جا رہے ہیں۔
عالمی امن کے ذمہ داران کے لیے لمحہ فکر یہ ہے۔ |