اسلام آباد کے ریڈ زون میں جیسے
شام ِ غریباں کا منظرہو قدم قدم پر رقت آمیز مناظر نے دیکھنے کو والوں کو
بھی رلا دیا۔۔۔کئی ہچکیاں اورسسکیاں لیتے دکھائی دئیے ۔۔سب افسردہ تھے
خواتین کی اکثریت اور جوانوں کے چہروں پر آنسو ستاروں کی مانند چمکنے لگے
ٹوٹے دل کے ساتھ خیمے لپیٹے جارہے تھے،سامان اکھٹا ہونے لگاانقلاب لانے کی
آرزو لے کر آنے والوں کی اس وقت چیخیں نکل گئیں جب ڈاکٹر طاہرالقادری نے
70روز بعد دھرنا ختم کرکے شرکاء کو گھروں میں جانے کی اجازت دیدی لوگ ایک
دوسرے سے لپٹ لپٹ کر رونے لگے۔۔دوسرے کنٹینرپر موجود عمران خان اور ان کے
ساتھیوں نے ڈاکٹر طاہرالقادری کے دھرنا ختم کرنے کی خبرپر یقین ہی نہ کیا
اور حیرت سے ایک دوسرے کو گم صم ہوکر تکنے لگے انقلاب آیا نہ سانحہ ٔ
لاہورکے نامزد ملزمان گرفتارہوئے اور سب سے بڑھ کر وزیر ِ اعظم اور
وزیراعلیٰ میں کسی نے بھی استعفیٰ نہ دیا۔۔بادی النظر میں انقلاب مارچ
ناکام ہوگیا۔۔۔پاکستان کی سیاست میں دھرنا سیاست کا آغاز نہ جانے کس نے کیا
لیکن آج تک کوئی دھرنا اپنے منطقی انجام تک نہیں پہنچا شایددل کے ارمان
آنسوؤں میں بہہ گئے اسی کو کہتے ہیں قاضی حسین احمدنے بے نظیر دور اور پھر
نواز شریف دور میں واجپائی کی لاہور آمدپر دھرنا دیا تھا لیکن گذشتہ برس جب
ڈاکٹر طاہرالقادری نے اسلام آباددھرنا دیا تھا لہو منجمند کرتی شدید سردی
کے باوجود ہزاروں بچے ،بوڑھوں نوجوانوں اور خواتین نے کھلے آسمان تلے دھرنا
دیکر اسے امرکردیااس سال عمران خان۔۔ آزادی مارچ اور ڈاکٹر طاہرالقادری۔۔
انقلاب مارچ کے نام سے ایک ہی دن مگر الگ الگ اسلام آباد روانہ ہوئے ان کی
اٹھان بڑی زبردست تھی ایک بار تو انہوں نے حکومت کو ہلا کررکھ دیا۔۔ریڈ زون
سے پارلیمنٹ ہاؤس کی جانب جاتے ہوئے حکومت نے دونوں جماعتوں کے کارکنوں پر
ہزاروں آنسو گیس کے شیل برسائے گئے۔۔انہوں نے گولیاں کھائیں متعدد ہلاک اور
درجنوں زخمی ہوئے۔۔۔بلاشبہ یہ دھرنے پاکستان کی تاریخ کا ناقابل فراموش باب
ہیں اور سیاست میں مزاحمتی تحریک کا پیش خیمہ بھی ثابت ہو سکتاہے برصغیرپاک
و بنگلہ ہند میں آج سے پہلے ایسی تحریک کی کوئی مثال موجود نہیں ہے اور
شاید آئندہ کوئی سیاسی جماعت ایسا کرنے کی جرأ ت ہی نہ کرے کہ کہیں یہ
دھرنے گلے ہی نہ پڑ جائیں۔۔۔کہتے ہیں لندن میں عمران خان اور ڈاکٹر
طاہرالقادری کے درمیان میاں نواز شریف حکومت کے خلاف تحریک چلانے پر اتفاق
ہوا لیکن دونوں کے درمیان کوارڈی نیشن کا فقدان شروع ہی سے دیکھنے میں آیا
پہلے ہی دن آزادی مارچ اور انقلاب مارچ والوں نے ایک دوسرے کا ساتھ نہ دیا
شنیدہے کہ عمران خان چاہتے تھے کہ ڈاکٹر طاہرالقادری کو ساتھ لے کرلاہور سے
روانہ ہوا جائے لیکن دو مخدوموں نے ایسا نہ ہونے دیا ۔۔۔عمران خان۔۔ زمان
پارک میں پرجوش کارکنوں کے درمیان موجود تھے اور ڈاکٹر طاہرالقادری منہاج
القرآن سیکرٹریٹ میں کنٹینروں کے حصار میں مقید تھے پورے ماڈل ٹاؤن کے
داخلی اور خارجی راستے بندکردئیے گئے تھے۔۔۔پھرنہ جانے کیا ہوا انہیں بھی
اسلام آباد جانے کی اجازت دیدی گئی لوگ بتاتے ہیں ڈاکٹر طاہرالقادری کے
انقلاب مارچ کے شرکاء کی تعداد عمران خان کے کارکنوں سے زیادہ تھی پھر
آزادی مارچ اور انقلاب مارچ والوں نے ریڈ زون میں دھرنے کا آغاز کردیا
حکومت کے حامیوں نے اس پرشدید ردِ عمل کااظہار کیاان کا کہنا تھا احتجاجی
سیاست کے ذریعے غیر جمہوری قوتیں اپنی من مانی کرنا چاہتی ہیں جو ملک،قوم
اور جمہوریت کیلئے ہرگز نیک شگون نہیں ہے جس کو تبدیلی کا شوق ہے یا جو
انقلاب لانا چاہتے ہیں وہ ووٹ کے بل بوتے پر پارلیمنٹ میں آئے اکثریت ہے تو
حکومت بنالے کسی کو جمہوریت پر ڈاکہ ڈالنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی یہ تو
گن پوائنٹ پر وزیر اعظم سے استعفیٰ مانگنے والی بات ہے اس ایک پوائنٹ پر
پارلیمنٹ میں موجود قریباً تمام جماعتوں نے جمہوریت بچانے کیلئے میاں
نوازشریف کی حمایت کااعلان کردیا عمران خان اور ڈاکٹر طاہرالقادری کا موقف
تھا یہ جمہوریت نہیں چند لوگوں کے مک مکا پرمبنی سیاست ہے ۔ اس میں کوئی شک
نہیں عوام موجودہ نظام سے عاجز آئے ہوئے ہیں جس میں گذشتہ نصف صدی سے صرف
چہرے تبدیل ہوتے ہیں سسٹم وہی رہتا ہے ہر آنے والے حکمران کے دور میں عوام
کا استحصال جاری رہتاہے در حقیقت عوام کو کسی نجات دہندہ کی تلاش تھی جو
بھی لیڈر خوشنما باتیں، بلند و بانگ دعوے اور عوام کی نبض پر ہاتھ رکھ کر
موجودہ نظام کی خرابیاں، حکومتی کرپشن اور عوام کی حالت ِ زار کا نقشہ پیش
کرتاہے عوام آوے ای آوے کے نعرے لگاتے اس کے پیچھے لگ جاتے ہیں ان حالات
میں یہ الگ داستان ہے کہ آصف زرداری اور میاں نواز شریف کی مفاہمتی پالیسی
،میثاق ِ جمہوریت اور عوام کو ریلیف نہ دینے کے طرز ِ عمل نے عمران خان اور
ڈاکٹرطاہر القادری کو لیڈر بناڈالااور اب یہ کمبل بن کر اس نظام کو چمٹ گئے
ہیں بہرحال موجودہ سیاسی منظر نامہ میاں نوازشریف کی حکومت کیلئے امتحان ہے
جس میں ابتدائی طورپر موجودہ حکمران کامیاب ہوکر بھی ناکام ہوگئے ہیں فی
الوقت ملکی سیاست، بحث و مباحثے اورہر محفل کا مرکزو محور عمران خان اور
شیخ الاسلام ڈاکٹرطاہر القادری ہیں جو بڑی خوبصورتی سے حکومت، جمہوریت ،سیاست،
معیشت ،پارلیمنٹ الغرض ہر چیزپر حاوی ہوگئے ہیں نظام بدلنے کی جو باتیں
تواترسے عمران خان اور شیخ الاسلام ڈاکٹرطاہر القادری کررہے ہیں یہ عوام کی
محرومیوں کو زبان ملنے والی بات ہے واقعی موجودہ سسٹم سے کوئی بہتری آہی
نہیں سکتی عوام کے وہی مسائل ، وہی محرومیاں اور آہ و بکا ہے تھانہ ، کچہری
اور عدالتوں میں انصاف کی صورت ِ حال سب کے سامنے ہے عام آدمی کی کہیں
شنوائی نہیں ، جمہوریت میں بھی لوگوں کے بنیادی حقوق صلب ہوں یہ تمام تر
عوامل ایسے ہیں جس سے جمہوریت کے ثمرات عام آدمی تک کبھی نہیں پہنچے اگر
عمران خان اور شیخ الاسلام ڈاکٹرطاہر القادری اس کرپٹ نظام کو تبدیل کرنے
کی بات کرتے ہیں نیا پاکستان بنانے کیلئے جو دھرنے جاری ہیں انقلاب لانے کی
تیاریاں کی جارہی ہیں شہر شہر جلسے کئے جارہے ہیں عوامی حقوق کی جدوجہدکی
نوید سنائی جارہی ہے تو یقینا عام آدمی کی ہمدردیاں یقینا ان کے حصہ میں
آرہی ہیں لوگ تو متاثر ہورہے ہیں یہ الگ بات کہ یہ دونوں لیڈر بھی عوام کی
امیدوں اور توقعات پر پورے اترتے ہیں یا نہیں یہ بہت بعد کی بات ہے۔۔۔فی
الحال تو میڈیا اور عوام میں طاہرالقادری کا دھرنا ختم کرنے کے تناظرمیں
ڈیل کی خبریں منظر ِ عام پرآرہی ہیں کہ سانحہ ٔ ماڈل ٹاؤن کے شہداء کی دیت
میں اربوں روپے لے لئے گئے ہیں طاہرالقادری نے سختی سے ان الزامات کی تردید
کرتے ہوئے لینے اور دینے والے کو جہنمی قراردیاہے۔۔۔کہنے والے یہ بھی کہتے
ہیں کہ اسلام آباد کے ریڈ زون میں جیسے شام ِ غریباں کا منظرہو قدم قدم پر
رقت آمیز مناظر نے دیکھنے کو والوں کو بھی رلا دیا۔۔۔کئی ہچکیاں اورسسکیاں
لیتے دکھائی دئیے ۔۔سب افسردہ تھے خواتین کی اکثریت اور جوانوں کے چہروں پر
آنسو ستاروں کی مانند چمکنے لگے ٹوٹے دل کے ساتھ خیمے لپیٹے جارہے
تھے،سامان اکھٹا ہونے لگاانقلاب لانے کی آرزو لے کر آنے والوں کی اس وقت
چیخیں نکل گئیں جب ڈاکٹر طاہرالقادری نے دھرنا ختم کرکے شرکاء کو گھروں میں
جانے کی اجازت دیدی لوگ ایک دوسرے سے لپٹ لپٹ کر رونے لگے۔۔اب سوال یہ
پیداہوتاہے کہ انقلابی دھرنا ختم کیوں کیا گیا؟ اس سلسلہ میں دو تین باتیں
بڑی اہم ہیں۔۔۔پہلی بات تویہ ہے کہ بادی النظرمیں دھرنے ناکام ہوگئے تھے،
حکومت سنبھل گئی یہ دھرنے مزید دو تین ماہ بھی جاری رہتے تو میاں نواز شریف
کو استعفیٰ دینے پر مجبور نہیں کیا جاسکتا تھا۔۔۔دوسری تحریک ِ انصاف
پارلیمنٹ کے اندرتھی عوامی تحریک پالیمنٹ سے باہر۔۔۔تحریک ِ انصاف کے پاس
ایک صوبے کی حکومت ہے عوامی تحریک کے پاس کچھ بھی نہیں اس لئے ضروری تھا کہ
دھرنوں میں وقت ضائع کرنے کی بجائے شہر شہرجلسے کئے جاتے عوامی تحریک کی
تنظیم سازی کیلئے ماحول سازگار بنانے کیلئے سیاسی میدان میں عملی جدوجہدکی
جاتی۔۔تیسری بات چوہدری برادران دھرنا ختم کرنے کے حق میں تھے طاہرالقادری
نے چوہدری شجاعت حسین سے کہا مسلسل 70دن چوبیس گھنٹے دھرنے میں موجود رہنے
سے لوگ تھک گئے ہیں۔۔ سردی بڑھ رہی ہے خواتین اور بچے متاثرہونے کااحتمال
ہے۔۔۔ ماہ ِمحرم کی آمد آمد ہے اس مسلک سے تعلق رکھنے والے کافی لوگ اپنے
گھروں کو جانا چاہتے ہیں آپ ا یسا کریں مسلم لیگQکے 1000ورکرز دو ہفتوں
کیلئے دھرنے میں بھیج دیں ۔۔۔یہ سن کر چوہدری گم صم ہوگئے جس پر عوامی
تحریک کے دیگر اتحادیوں کی مشاورت سے اسلام آباددھرنا ختم کرنے کافیصلہ کیا
گیا۔۔لیکن جذباتی کارکن اور عوام یہ فیصلہ سن کر افسردہ ہوگئے۔۔۔ جس انداز
سے لاہور میں عوامی تحریک کے درجن بھر کارکنوں کو بیدردی سے موت کے گھاٹ
اتارا گیا 100کے قریب لوگوں کو گولیاں ماری گئیں بڑی جدوجہد کے بعد پرچہ
درج ہوا لیکن اس پر ابھی تک کوئی ایکشن نہیں لیا گیا اخلاقی طورپر عوامی
تحریککی برتری ہے اور ذہنی طورپر حکمران بھی ان سے مرعوب بھی۔۔اگرحکومت اور
ڈاکٹرطاہرالقادری کے درمیان ڈیل یا دیت لینے کی خبریں واقعتا اور حقیقتاً
من گھڑت ثابت ہوتی ہیں تو مستقبل میں عوامی تحریک کو ایک مو ٔثر سیاسی قوت
بننے سے کوئی نہیں روک سکتا لگتاہے آئندہ عام انتخابات میں تحریک ِ انصاف،
مسلم لیگQ،عوامی تحریک، عوامی مسلم لیگ اور جماعت اسلامی کے درمیان انتخابی
ایڈ جسٹمنٹ ہو سکتی ہے یا ایک الائنس بن سکتاہے دھرنے والے میاں نواز شریف
کی حکومت گرانے میں تو کامیاب نہیں ہو سکے لیکن عوام میں شعور اوربیداری کو
ضرور اجاگرکردیا ہے اور یہی دھرنے کا اصل کمال ہے۔۔۔یہ ابتداہے۔۔۔اور
حکمرانوں کیلئے لمحہ ٔ فکریہ ۔۔۔حالات بتاتے ہیں الیکشن دوڑے چلے آرہے ہیں
گو نواز گو کے نعرے۔۔۔ عجب کرپشن کی غضب ناک کہانیاں بھی تعاقب میں ہیں آگے
آگے دیکھئے ہوتاہے کیا؟ |