کانگو وائرس کیا ہے

کانگو وائرس
کانگو وائرس کوئی نئی بیماری نہیں بلکہ پاکستان میں سال 2002 ء میں کانگو وائرس کی وجہ سے سات افراد لقمہ اجل بنے تھے اور اس وائرس کی2002 میں جس طرح سے تشہیر عام کی گئی تھی اس نے عام شہریوں سمیت ڈاکٹروں اور نرسوں میں بھی شدید خوف وہراس پھیلا دیاتھا اس وقت اس وبائی مرض سے کم ازکم7افراد ہلاک ہو گئے تھے جن میں ایک نوجوان لیڈی ڈاکٹر اور4کمسن بچے بھی شامل تھے- دنیا بھر میں تیزی سے پھیلنے والی وبائی بیماری ہے-

کانگو وائرس کیا ہے
کانگو وائرس کا سائنسی نام ’کریمین ہیمریجک کانگو فیور‘ ہے جس کی 4 اقسام ہوتی ہیں۔ اگر کسی کو کانگو وائرس لگ جائے تو اس سے انفیکشن کے بعد جسم سے خون نکلنا شروع ہوجاتا ہے۔ خون بہنے کے سبب ہی مریض کی موت واقع ہو سکتی ہے۔

یہ وائرس زیادہ تر افریقی اور جنوبی امریکہ ‘مشرقی یورپ‘ایشاء اورمشرقی وسطی میں پایا جاتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ سب سے پہلے کانگو سے متاثرہ مریض کا پتہ انہی علاقوں سے چلا اسی وجہ سے اس بیماری کو افریقی ممالک کی بیماری کہا جاتا ہے۔ اور حالیہ رپورٹ کے مطابقبھارت کی ریاست گجرات میں ایک نئے \'\' کریمیئن کانگو ہیمیرجک فیور\'\' وائرس کا پتہ چلا ہے جس سے تین افراد ہلاک ہوگئے اور کچھ بیمار افراد کو ہسپتال میں داخل کیا گیا ہے، اْن پر اس وائرس میں مبتلا ہونے کا شبہ ہے۔ سانند کے علاقے کے آس پاس کے پانچ کلومیٹر کے دائرے میں بیس طبی ٹیموں کو روانہ کردیا گیا ہے۔

اور یہ سب سے پہلے1944کو کریمیا میں سامنے آئے اسی وجہ سے اس کا نامکریمین ہیمرج رکھا گیا-

پھیلاؤ
ماہرین صحت اور معالجین کا کہنا ہے کہ کانگو وائرس کے ٹکسTick (جراثیم یا ایک قسم کا کیڑا)مختلف جانوروں مثلاًبھیڑ، بکریوں، بکرے، گائے، بھینسوں اور اونٹ کی جلد پر پائے جاتے ہیں۔ ٹکس جانور کی کھال سے چپک کر اس کا خون چوستا رہتا ہے۔

اور یہ کیڑا ہی اس بیماری کے پھیلاؤ میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔یہ کیڑا اگر انسان کو کاٹ لے یا پسو سے متاثرہ جانور ذبح کرتے ہوئے بے احتیاطی کی وجہ سے قصائی کے ہاتھ پر کٹ لگ جائے تو یہ وائرس انسانی خون میں شامل ہو جاتا ہے۔ اور یوں کانگو وائرس جانور سے انسانوں اور ایک انسان سے دوسرے جانور میں منتقل ہوجاتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ اسے چھوت کا مرض بھی خیال کیا جاتا ہے اور یہ کینسر سے بھی زیادہ خطرناک ہے۔ کانگو میں مبتلا ہونے والا مریض ایک ہفتہ کے اندر اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے-

کانگو وائرس کی اقسام
اس وائرس کی چار اقسام ہیں
ڈینگی وائرس(Dengue)
ایبولا وائرس(Ebola)
لیسا وائرس(LASSA)
ریفٹی ویلی وائرسRiftVally))

مریض کی علامات
کانگو وائرس کا مریض تیز بخار میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ اسے سردرد، متلی، قے، بھوک میں کمی، نقاہت، کمزوری اور غنودگی، منہ میں چھالے، اورآنکھوں میں سوجن ہوجاتی ہے۔ تیز بخار سے جسم میں وائٹ سیلس کی تعداد انتہائی کم ہوجاتی ہے جس سے خون جمنے کی صلاحیت متاثر ہوتی ہے۔ متاثرہ مریض کے جسم سے خون نکلنے لگتا ہے اورکچھ ہی عرصے میں اس کے پھیپھڑے تک متاثر ہوجاتے ہیں، جبکہ جگر اور گردے بھی کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں اور یوں مریض موت کے منہ میں چلا جاتا ہے۔

لیبارٹری تیسٹ
کانگو کے ٹیسٹ نہایت اعلٰی کوالٹی بائیوسیفٹی لیب میں ہی ممکن ہو سکتے ہیں
1-147ELISA148 or 147EIA148 methods
2-antigen detection;
3- serum neutralization;
4-RT-PCR
5-virus isolation by cell
culture.

کانگو وائرس اور پاکستان
حالیہ دنوں پمز ہسپتال اسلام آباد میں لائے گئے مریض بھی متاثرہ گائے کو ذبح کرنے کے باعث کانگو وائرس کا شکار ہوئے باب اور تینوں بیٹے پیشہ کے اعتبار سے قصاب تھے اور ان کا تعلق ایبٹ آباد سے تھا-

بلوچستان میں کانگو وائرس نے پھر سر اٹھا لیا، صوبے میں وائرس کا شکار ایک درجن سے زائد افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے اور کئی زیرعلاج ہیں، کانگو وائرس نے بلوچستان میں پنجے گاڑھ لئے، چمن سے کانگو وائرس کا نیا کیس سامنے آ گیا، محکمہ صحت کے مطابق رواں سال بلوچستان میں کانگو وائرس کے 56 کیسز رپورٹ ہوئے، جن میں 12 خواتین بھی شامل ہیں، خطرناک وائرس سے 13 مریض دم توڑ چکے ہیں۔ طبی ماہرین کے مطابق بروقت علاج سے جان بچائی جا سکتی ہے، کوئٹہ کے فاطمہ جناح جنرل اینڈ چیسٹ اسپتال میں آئسولیشن وارڈ تو موجود ہے تاہم کانگو وائرس کی تصدیق کیلئے لیبارٹری میں سہولت دستاب نہیں-

کانگو سے بچاؤ کی احتیاطی تدابیر:
کانگو سے بچاؤ اور اس پر قابو پانا تھوڑ ا مشکل ہے کیوں کہ جانوروں میں اس کی علامات بظاہر نظر نہیں آتیں تاہم ان میں چیچڑیوں کو ختم کرنے کے لیے کیمیائی دوا کا اسپرے کیا جائے-
کانگو سے متاثرہ مریض سے ہاتھ نہ ملائیں۔
مریض کی دیکھ بھال کرتے وقت دستانے پہنیں۔
مریض کی عیادت کے بعد ہاتھ اچھی طرح دھوئیں۔
لمبی آستینوں والی قمیض پہنیں۔
جانورمنڈی میں بچوں کوتفریحی کرانے کی غرض سے بھی نہ لے جایا جائے
یشی منڈی میں جانوروں کے فضلے کے اٹھنے والا تعفن بھی اس مرض میں مبتلا کر سکتا ہے
کپڑوں اور جلد پر چیچڑیوں سے بچاؤ کا لوشن لگائیں۔
جانوروں کی خریداری کیلیے فل آستیں والے کپٹرے پہن کر جائیں کیونکہ بیمار جانوروں کی کھال اورمنہ سے مختلف اقسام کے حشرت الارض چپکے ہوئے ہوتے ہیں جو انسان کوکاٹنے سے مختلف امراض میں مبتلا کرسکتے ہیں۔
جانوروں کی نقل وحمل کرتے وقت دستانے اور دیگر حفاظتی لباس پہنیں، خصوصاً مذبح خانوں ،قصائی اور گھر میں ذبیحہ کرنے والے افراد لازمی احتیاطی تدابیراختیار کریں۔
مذبح میں جانوروں کے طبی معائنہ کیلئے ماہر ڈاکٹروں کی ٹیم کا ہونا بہت ضروری ہے جو ایسے جانوروں کی نشاندہی کر سکیں-
مذبح خانوں کی صفائی کاخاص خیال رکھیں۔

Disclaimer: All material on this website is provided for your information only and may not be construed as medical advice or instruction. No action or inaction should be taken based solely on the contents of this information; instead, readers should consult appropriate health professionals on any matter relating to their health and well-being. The data information and opinions expressed here are believed to be accurate, which is gathered from different sources but might have some errors. Hamariweb.com is not responsible for errors or omissions. Doctors and Hospital officials are not necessarily required to respond or go through this page.

H/Dr.Muhammad Amin
About the Author: H/Dr.Muhammad Amin Read More Articles by H/Dr.Muhammad Amin: 13 Articles with 56645 views i am A homeopath Doctor.. View More