آپریشن ضرب عضب کی کامیابیاں
(S.M Irfan Tahir, Lahore)
سردار محمد طاہر تبسم
ہماری بہادر افواج وزیرستان میں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں نبرد آزما ہیں
انکی یہ جنگ دراصل پاکستان کی بقاء اور سلامتی کی جنگ ہے جو وہ بہادری کے
ساتھ لڑرہی ہے اور قوم کو ان عظیم سپوتوں پر بے حد فخر ہے۔ یہ جنگ حکومت کے
ایماء پر 6 ماہ التواء میں رہی کیونکہ کالعدم تحریک طالبان اور اسکے
ہمدردوں کا اصرار تھا کہ مذاکرات کے ذریعے اس کا حل نکالا جائے لیکن
مذاکرات کے آغاز ہی میں تحریک کے ترجمان نے کہا کہ ہم آئین پاکستان کو
تسلیم ہی نہیں کرتے کیونکہ اسکی بہت ساری شقیں غیر اسلامی ہیں۔ مذاکرات
بوجہ جاری رہے تاہم انکی آڑ میں طالبان نے سفاکی اور حملے جاری رکھے بلکہ
یہی نہیں اس دوران طالبان نے ایف سی کے29 اہلکاروں کو بھی شہید کردیا۔
کوئٹہ ، کراچی، پشاور اور راولپنڈی میں بھی حملے اور دھماکے کئے گئے ان
حملوں میں زیادہ غیر ملکی شدت پسند ملوث تھے۔ کراچی ایئرپورٹ پر بھی حملہ
ہوا جس میں20 سے زائد اہلکار اور شہری اپنی قیمتی جانیں گنوا بیٹھے۔ ان
واقعات سے پاکستان کی بدنامی میں مزید اضافہ ہوا پشاور چرچ پر حملہ، میجر
جنرل ثناء اﷲ نیازی کی شہادت اور اس نوع کے کئی واقعات نے تحریک طالبان کی
غیر سنجیدگی کو تشت ازبام کرکے رکھ دیا۔ اور حکومت کو بھی یقین ہوگیا کہ
لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے۔ وزیراعظم میاں نوازشریف نے مسلح افواج
کو آپریشن کرنے کی منظوری دی جو کامیابی سے جاری ہے ۔ گزشتہ عرصہ میں افواج
نے وزیرستان میں دہشتگردوں کے ٹھکانوں اسلحہ فیکٹریوں اور تربیتی مراکز کو
تباہ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی 2 ہزار سے زائد دہشت گرد، 100 سے زائد
ٹھکانے بمباری سے خاکستر ہوچکے ہیں ان میں اکثریت کا تعلق پاکستان سے نہیں
ہے۔ یہ دہشت گرد اپنی انا اور خود سری کے ساتھ ساتھ بیرونی آقاؤں کو خوش
کرنے کیلئے ملک میں عدم استحکام پیداکرنے کی کوششیں کرتے آرے ہیں جسکا دین
اسلام، آئین پاکستان اور اخلاقی ضابطوں میں قطعی کوئی جواز نہیں ہے۔
حکومتی اتحاد اور سیاسی و دینی جماعتوں اور انکے قائدین نے آپریشن ضرب عضب
کی بھرپور حمایت کا اعلان کیا ہواہے۔ یوں بھی مسلح افواج پاکستان ملک کی
جغرافیائی اور نظریاتی سرحدوں کی حفاظت کے ساتھ ساتھ بدامنی، انتشار اور
تخریب کاری کے خاتمے کیلئے ہر دم سینہ سپر ہیں۔ جنگ اور امن دونوں حالات
میں افواج کا کردار بے مثال اور ناقابل فراموش رہا ہے۔ فوج قومی سلامتی کی
حقیقی ضامن ہے اور پوری قوم فوج کے ساتھ کھڑی ہے۔ مضبوط فوج ہی ہماری عزت و
ناموس کی محافظ ہوسکتی ہے اور ہماری بہادر فوج کی دھاک ایک طویل عرصہ سے
دنیا پر بیٹھی ہوئی ہے۔ ہمارے شہیدوں کے خون پر مادر وطن کوہمیشہ ناز رہا
ہے اور ہر فرد اسکی مثالی کارکردگی پر نازاں ہے۔ فوج کے جوان علامہ اقبال
کے حقیقی شاہین ہیں انکی عقابی آنکھیں ہر دشمن کو پہلے سے بھانپ لیتی ہیں
اور اسے عبرتناک سبق سکھانے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔
دہشت گردی کی عفریت کو صرف فوج نے روکا ہے حکومتیں کئی بار کوششوں کے
باوجود انکے زور کو نہیں توڑ سکیں۔ فوج نے لازوال اور انمٹ قربانیوں کی
ایسی داستانیں رقم کی ہیں جو رہتی دنیا تک یاد رکھی جاسکیں گی۔ ہماری فوج
عزم و استقلال اور جرات و جوانمردی کی لمبی تاریخ رکھتی ہے جو سنہری حروف
سے لکھے جانے کے قابل ہے۔ بعض عالمی قوتیں فوج کو ہی پاکستان سمجھتی ہیں۔
فوج کو اقلیت اورحکومت کو اکثریت سمجھنے والے دھوکے میں ہیں۔ فوج اور حکومت
ایک گاڑی کے دو پہیے ہیں جنکے تعاون کے بغیر ملک کا نظام نہیں چل سکتا۔
ہمارا ملک مزاحمتی جدوجہد میں ہے جب تک کشمیر آزاد نہیں ہو جاتا یہ مزاحمت
ٹل نہیں سکتی۔ لہذا ہماری فوج کی مضبوطی ہی ہماری طاقت ہے۔ میڈیا کے بعض
ادارے بھی فوج کو کمزور کرنے کے درپے ہیں ایسے لگتا ہے کہ انکی تاریں بھی
باہر سے ہل رہی ہیں لیکن وہ شائد یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ فوج کی وجہ سے
وہ حفاظت اور عزت سے رہ رہے ہیں۔
دہشتگردی کی امریکی جنگ میں بھی فوج کے ادارے کا کردار عزم و حوصلے کا باعث
رہا ہے۔7 ہزار سے زائد سکیورٹی اہلکاروں اور40 ہزار شہریوں نے اپنے ملک کی
سلامتی اور دفاع کی خاطر اپنی جانیں قربان کیں اور اب بھی کررہے ہیں۔ پوری
قوم کو روز اول سے اپنی افواج پر مکمل اعتماد اور بھروسہ رہا ہے ہماری
سیاست آلودگی اور حرص و ہوس کی لپیٹ میں ہے۔ سیاست میں ایسے لوگ شامل ہوچکے
ہیں جنکا اوڑھنا بچھونا کرپشن، رشوت اور اقربا پروری ہے۔ چند روز قبل لندن
میں ملک کوا ندھیروں میں دھکیلنے اور اپنے خاندان کوروشن کرنے والے
سیاستدانوں کے پلازے،قیمتی جائیدادیں اور مکانات دیکھ کر افسوس رہا۔ لیکن
فوج پر ابھی تک ایسا کوئی الزام نہیں ہے۔ جنرل راحیل شریف نے مسئلہ کشمیرپر
پالیسی بیان دیکر فوج کی درست سمت میں رہنمائی کردی ہے۔ دہشت گردی کے خاتمے
میں جنرل کیانی، جنرل راحیل شریف اور آئی ایس آئی کے موجودہ اور آمدہ چیفس
نے بے مثال کردارادا کیا ہے اگر دہشت گردی اور ملک کے دفاع اور قیام امن
میں فوج ہی نے ذمہ داریاں پوری کرنی ہیں تو پھر سیاستدان کس مرض کا علاج
ہیں۔ پارلیمانی نظام میں اتنی خرابیاں پیداہوچکی ہیں کہ اسکا مداوا ممکن
نہیں ہے۔ ماہرین قانون اور پالیسی سازوں کو ان خرابیوں سے بچنے کے لیے
صدارتی نظام کا تجربہ کرنا چاہیے۔ جسکے بغیر کوئی چارہ کار نظر نہیں آتا۔ |
|