احتیاط لازم ہے

تحریر: سکینہ سالار سلطان

علامہ طاہر القادری صاحب جب سیلاب زدگان سے اظہار ہمدردی کیلئے پہنچے تو منظر دیکھ کر کہیں سے بھی یہ نہیں لگا کہ علامہ صاحب سیلاب زدگان سے ہمدردی کیلئے آئے ہیں۔ جس طرح سے علامہ صاحب کی گاڑی پر منوں کے حساب سے گلاب کی پتیاں نچھا ور کی گئی اور ڈھول بجا بجا کر جیوے طاہر جیوے کے نعرے لگائے گئے۔ یہ سیلاب زدگان کی ہمدردی کا منظر نہیں بلکہ کسی کی شادی کا منظر لگ رہا تھا۔ یہ تو ایسے ہی ہے کہ جب ہمارے گھر ہمارے کسی عزیز کی موت واقع ہوجائے اور کوئی اہم شخصیت ہم سے تعزیت کرنے آئے تو اس کے حامی اس پر ڈھیروں ڈھیر پھول نچھاور کرتے اور ڈھول بجاتے اور نعرے لگاتے ہمارے گھر آئے تو ہمیں کیسا لگے گا؟ سیلاب سے پنجاب اور سندھ میں اتنی تباہی آئی کہ غریبوں نے اپنی ساری کمائی جمع پونجی گنوادی، جانی اور مالی بے انتہا نقصان ہوا اور ان غم کے ماروں سے ایسے اظہار ہمدردی یا اظہار تعزیت کیلئے جانے سے نہ جانا ہی بہتر تھا۔ اب جبکہ علامہ صاحب نے میدان سیاست میں عملی طور پر قدم رکھنے کا فیصلہ کر ہی لیا ہے تو لگتا یہ ہے کہ عملی سیاست میں قدم رکھتے ہی انہوں نے ویسے ہی بے حس سیاستدانوں کی روش اپنائی جن کے خلاف لانگ مارچ، دھرنے اور خطابات کرتے رہے۔ نئے نئے سیاست میں آئے ہے تو اپنے نام کے نعرے لگوانے ، خود پر پھول نچھاور کرانے اور ڈھول نجوانے کا شوق ہے۔ ان کا یہ شوق اپنی جگہ لیکن کیا یہ موقع مناسب تھا اپنے شوق شوق پورا کروانے اور شاہانہ استقبال کروانے کیلئے؟ بے حس سیاستدانوں کے خلاف بولنے والے علامہ صاحب نے خود بے انتہا بے حسی کا مظاہرہ کیا اور یہ نہ سوچا کہ سیلاب میں جن کے گھر اجڑے ، جن کے عزیز، رشتہ دار کی موت ہوئی، جن کی فصلیں تباہ ہوئی ان کے دلوں پر کیا گزری ہوگی۔ علامہ صاحب ایک عالم دین بھی ہے۔ اب ان پر دوہری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ قدم قدم پر انسانی جذبات و احساسات کا خیال رکھیں اور جن سیاستدانوں اور حکمرانوں کو صرف تنقید بناتے رہے، انکی روز کو اپنانے کے بجائے نیک دلی سے عوام کے مسائل کے حل کیلئے جد و جہد کو اپنا عزم بنائے اور کام کرے۔ سیلاب زدگان سے ہمدردی کیلئے جب وہ پہنچے تو ان کے استقبال کا طریقہ نہ تو سیاسی لحاظ سے ٹھیک تھا نہ مذہبی لحاظ۔ نہ جانے پاکستان کی سیاست میں کیا ہے کہ سیاست میں آنے سے پہلے ہر بندہ ٹھیک ہوتا ہے۔ جب سیاست میں آتا ہے تو نجانے کیوں اچھا بھلا بندہ بہک جاتا ہے اور الٹے سیدھے کام شروع کردیتا ہے۔ علامہ صاحب کو اپنی دینی ذمہ داری نبھاتے ہوئے ایک مثالی سیاستدان کے طور پر کام کرنا چاہئے۔ سیاست کو عبادت سمجھ کر کرے گا تو میدان مارے گا وگرنہ آج جیسے وہ ان بے حس سیاستدانوں و نظام کے خلاف دھرنے ، لانگ مارچ، جلسوں میں سراپا احتجاج ہے تو گھڑی کی سوئیاں عوام الٹا بھی گھما سکتی ہے۔ تو علامہ صاحب میدان سیاست اور ہے، میدان خطابت اور ہے۔ احتیاط لازم ہے یہ میدان خطابت نہیں میدان سیاست ہے۔
Abid Ali Yousufzai
About the Author: Abid Ali Yousufzai Read More Articles by Abid Ali Yousufzai: 97 Articles with 83078 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.