تقسیم برصغیر کے بعد1947 ء میں
جموں کے مسلمانوں نے خودکوغیرمحفوظ سمجھتے ہوئے پاکستان کی جانب ہجرت کا
سفرشروع کیا۔ ڈوگرہ فوج نے مسلمانوں کے کئی قافلوں کوپاکستان پہنچانے کا
جھانسہ دیتے ہوئے راستے میں بیدردی سے ہلاک کردیا۔ جموں کے مسلمانوں کے قتل
عام کا یہ سلسلہ 1947 ء میں خزاں کے اختتام تک جاری رہا۔ اس دوران ہزاروں
مسلمان خواتین کواغواء بھی کیا گیا جن میں ریاست کی اولین سیاسی جماعت مسلم
کانفرنس کے قائد چوہدری غلام عباس کی بیٹی بھی شامل تھی۔ تقسیم برصغیر کے
وقت لاکھوں انسانوں کا قتل عام جدید دور میں انسانیت کے ماتھے پر ایک کلنک
کا داغ ہے۔ سرینگر مظفرآباد بس سروس شروع ہونے سے پہلے مقبوضہ جموں وکشمیر
سے صحافیوں کے ایک وفدنے مظفرآباد کا دورہ کیا۔ ان میں جموں سے تعلق رکھنے
والا ’’سٹار نیوز‘‘ٹی وی چینل کا پرجوش ڈوگرہ صحافی بھی شامل تھا۔ ان
صحافیوں کوچکوٹھی کادورہ بھی کرایا گیا۔ چناری ریسٹ ہاؤس میں گفتگو کے
دوران اس بھارتی صحافی نے پرزور انداز میں دعویٰ کیا کہ ’’جموں میں دو لاکھ
مسلمانوں کے قتل عام کی بات ٗ تذئین داستان‘‘ کے طورپربیان کی جاتی ہے اور
اس وقت جموں میں مسلمانوں کی اتنی آبادی نہیں تھی۔‘‘ تاہم اس حوالے سے
غیرجانب دار حلقوں کی طرف سے بیان کردہ اعداد وشماربھارتی صحافی کے اس دعوے
کو جھٹلانے کے لئے کافی ہیں۔
ہورس الیگزینڈر نے ڈیلی ’’سپکٹیٹر‘‘ (16 جنوری 1948 ء)میں لکھا کہ ’’ریاستی
حکومت نے حکمت عملی کے تحت قتل عام کیا اور قتل ہونے والے مسلمانوں کی
تعداد دو لاکھ تک پہنچ گئی۔ ’’دی ٹائمز‘‘ لندن (10 اگست1948 ء) نے اپنی ایک
رپورٹ میں لکھا کہ ڈوگرہ فوج نے ہندؤوں اورسکھوں کی مدد سے دولاکھ سینتیس
ہزارمسلمان باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت ہلاک کئے۔ جب تک کہ وہ سرحد پار کر
کے پاکستان نہیں چلے گئے۔‘‘
ڈیلی ’’سٹیٹمین‘‘ کے ایڈیٹر آئن سٹیفن نے اپنی کتاب ’’آنرڈ مون‘‘ میں
لکھاکہ1947 ء میں خزاں کے اختتام تک دولاکھ سے زائدمسلمان ہلاک کئے
گئے‘‘۔خود بھارتی حلقے بھی جموں میں ہونے والے اس قتل عام کی تصدیق کرتے
ہیں۔ نیشنل کانفرنس کے ایک سابق صدر سرداربدھ سنگھ نے ایک تقریر میں اعتراف
حقیقت کرتے ہوئے کہا ٗ ’’ سچ پوچھو تو ہمارے ہندو بھائی ہی راجوری اور
میرپور و جموں کے قتل وخون کے ذمہ دار ہیں۔ یہی ناحق قتل وخون کے حالات سن
کرقبائلی سرینگرکی طرف بڑھے۔ (ہفت روزہ سچ ٗ جموں 25 مئی 1949 ء)
وزیراعظم مسٹر نہرو نے بھارتی پارلیمنٹ میں جموں کے قتل عام کاذکرکرتے ہوئے
بتایا ٗ ماہ نومبرکیاوائل میں جموں کے قریب بعض ایسے حوادث پیش آئے جن
پرمجھے افسوس ہے۔مسلم پناہ گزینوں کاقافلہ جموں سے جارہاتھا اس پرغیرمسلم
پناہ گیروں اوردوسرے لوگوں نے حملہ کیااور بہت سے لوگ مقتول اورزخمی
ہوگئے۔محافظ فوج نے اپنا فرض بعزت طریق پر ادا نہ کیا‘‘۔
شیخ محمد عبداﷲ نے 12 نومبر 1947 ء کوایک بیان میں جموں کے حادثات کا
ذکرکرتے ہوئے کہاٗ صوبہ جموں کے حالات خوشگوارنہیں مگریہ ان حالات کاردعمل
ہے جوکچھ مغربی پنجاب (پاکستان) میں ہواہے‘‘۔ ان واقعات سے متاثر
ہوکربرطانیہ کے اخبار ’’ٹائم اینڈ ٹائیڈ‘‘ نے لکھا کہ ٗ ’’جب کشمیر میں امن
وامان قائم ہو جائے گا سیاستدان کہتے ہیں کہ ایک استصواب رائے عامہ ہوگا۔
کیا خاک استصواب ہوگا؟ اور کس سے استصواب کیا جائے گا۔ جب رائے دینے والے
موت کی نیند سو چکے ہوں گے یاخوف کے مارے جن کی زبانیں ہوں گی‘‘۔
معروف کشمیری دانشور صحافی خواجہ عبدالصمد وانی (مرحوم) اپنی کتاب ’’ کشمیر
کی کہانی‘‘ میں لکھتے ہیں کہ
’’اکتوبر1947 ء کے آخری ہفتے میں جموں کے دیہاتوں میں مسلمانوں کی بستیوں
کولوٹنے اور جلانے کی کارروائیاں شروع ہو چکی تھیں نومبرکاپہلاہفتہ تو قتل
عام کیلئے موثر ہو چکاہے۔ 5 نومبر کو جموں شہر کے مسلمانوں سے کہا گیاکہ وہ
ایک جگہ جمع ہوکرپاکستان جانے کیلئے تیارہیں اورجب چالیس ٹرکوں کاپہلاقافلہ
روانہ ہوا توراستہ میں ان کا راستہ بدل کرایک میدان میں اتارا گیاجہاں
ڈوگرہ غنڈہ پہلے سے تیار تھے۔ اورتمام قافلہ ختم کیاگیا۔چھ نومبرکو70 ٹرکوں
پردوسرا قافلہ روانہ ہوا۔ ان کو بھی اسی طرح ختم کیاگیا بے گناہ مسلمانان
جموں کایہ قتل عام نومبر کے آخیرتک جاری رہا۔ اس دوران پانچ لاکھ سے زیادہ
مسلمان پاکستان میں دھکیل دیئے گئے۔دولاکھ کے قریب شہید ہوگئے۔16 ہزار عصمت
مآب نوجواان خواتین کواغواء کیا گیا ۔ان دلخراش واقعات کو قلم بند کرنے کے
لئے بڑی ہمت کی ضرورت ہے ۔جموں کاقتل عام انسانی تاریخ کاایک شرمناک حادثہ
ہے‘‘۔
2004 ء میں ایک وفد کے ہمراہ مجھے جموں شہر کا دورہ کرنے کا موقع ملا۔ جموں
شہر کے استاد محلہ کی مسجد ہجری میں درجنوں مسلمانوں سے ملاقات کا موقع ملا
۔ مسجد میں موجود مسلمانوں نے کہا کہ انہیں پاکستان کاویزے لینے میں بہت
مشکلات کاسامنا ہے نئی دہلی میں قائم پاکستانی ایمبیسی میں جموں کے
مسلمانوں سے وزیرے کے حصول کے سلسلے میں یوٹلیٹی بلز کا طلب کئے جاتے ہیں
جموں کے مسلمانوں نے کہاکہ ان کی درخواست حکومت پاکستان کوپیش کی جائے کہ
انہیں اپنے عزیزواقارب سے ملنے کیلئے پاکستان ویزے جاری کرنے میں آسانی
پیدا کی جائے۔ اس موقع پر جموں کے مسلمانوں نے حکومت پاکستان کے نام پر ایک
تحریری درخواست وفدکے ارکان کودی جس میں استدعاکی گئی کہ جموں اور سیالکوٹ
کے درمیان بھی لوگوں کوآمدورفت کی اجازت دیجائے۔ ہم نے جموں میں تحریک
آزادی کشمیر کے گڑھ اورجموں میں مسلمانوں کے اکثریتی علاقے تالاب کھٹیکاں
کا دورہ بھی کیا۔
آزادی کی راہ میں قتل عام کے اس اندوہناک واقعہ کے 63 سال گزر جانے کے بعد
ہم ان عظیم اور بے نظیر قربانیوں اوراس مقصد کوسراسر فراموش کربیٹھے ہیں جس
نے برصغیر نے برصغیرکی تاریخ کو بدل دیا۔ریاست جموں وکشمیر کے اکثریتی
مسلمانوں کی اپنی آزادی کے لئے جدوجہد اور شہادتوں کاسفراب بھی جاری وساری
ہے لیکن قومی امور کے حوالے سے ہماری مفاد پرستی اور بدکرداری اتنا ہی
بڑاسانحہ ہے جتنے 1947 ء میں قتل عام کے واقعات ہیں۔ہماری باتیں کھوکھلی ٗ
کردارسے عاری اور فلمی ڈائیلاگ کی مانند ہیں۔ ہمیں جہالت اور بدکرداری
کواپنا ۔رہنمابنانے کے بجائے باکردارافراد کو آگے لانے اور ان کی رہنمائی
حاصل ہونے کی خواہش ہی نہیں کوشش بھی ہونی چاہئے۔ |