دہلی میں فسادات کی تیاری،اﷲ خیر کرے

آج کل ہندوستان کی راجدھانی اور ترقی پذیر شہر کے حالات دھماکہ خیزبنے ہو ئے ہیں ۔بالخصوص مسلم اکثریتی علاقوں میں تو ہو کا عالم ہے اور خوف و ہراس کے باعث لوگ گھروں میں قید رہنے پر مجبور ہیں ۔مشرقی دہلی کے تر لوک پوری میں معمولی کہا سنی سے شروع ہونے والی واردات نے جس طرح فرقہ وارانہ رنگ لیا اور پولیس نے حسب عادت اقلیتی فرقے کو ہی اپنے ظلم کا نشانہ بنایا ،انھیں گر فتار کیا اور ملک کے تئیں ان کی وفاداری پر سوالات کھڑے کیے نیز جس طرح بھا رتیہ جنتا پارٹی کے مقامی کونسلر نے بر گشتہ اور اسلحہ سے لیس جلوس کی قیادت کی اس نے اہل اہل دہلی کے دل میں پوری طرح خوف و ہراس پیدا کر دیا ۔ انھیں اس بات کا بخوبی احساس ہو گیا کہ ان کے لاکھ یقین دلانے پر بے رحم پولیس کو ان کی بے گناہی پر یقین نہیں آئے گا۔کر ے گا کو ئی اور بھرنا انھیں پڑے گا۔اس صورت حال نے فرقہ پرست دہشت گر دوں بالخصوص بھگوا اورگیروی رنگ کے علم برداروں کے حوصلوں اور مضبوط کر دیا ہے ۔وہ پوری دہلی میں مہلک ہتھیاروں کو لہراتے ہو ئے دندناتے پھر رہے ہیں۔پولیس انھیں دیکھ رہی ہے مگر اسے ان کا’خود حفاظتی ‘ اسلحہ کہہ کر ان کی ’وکالت ‘کررہی ہے۔

جس وقت میں یہ تحریر سپرد قرطاس کر رہا ہوں تر لوک پوری کے بعد دہلی کا ایک اور مسلم اکثریتی علاقہ بوانہ فرقہ پر ستوں کے چنگل میں پھنسا ہوا ہے ۔ وہا ں کسی بھی وقت بھیانک فسادات پھوٹ سکتا ہے۔ اس کے باوجود افسوس کامقام ہے کہ دہلی انتظامیہ اس جانب سے لاپروا بنی ہو ئی ہے اور مرکزی وزارت داخلہ سے تو خیر امید کر نا ہی فضول ہے۔

دہلی باشندگان کے مطابق ترلوک پوری ،بوانہ،نندنگری ،سیلم پور،نیو سیلم ، عثمان پور، موجپور، کھجوری، مہرولی جیسے مسلم علاقوں کی صورت حال ان دنوں جس قدر تشویش ناک ہے ایسی کبھی نہیں ہو ئی تھی ۔۱۹۸۴ء کے سکھ مخالف فسادات کے دوران بھی انھیں اس طرح کی صورت حال سے دوچار نہیں ہونا پڑاتھا ۔اﷲ خیر کر ے اس مرتبہ دہلی کا کیا بننے جارہا ہے۔کس طرح آتش وآہن کی کارفرمائی کی تیاری ہے اور کہاں کہاں آگ لگانے کے ناپاک منصوبے ہیں ،اس کے متعلق سوچ سوچ کر ہی کلیجہ منہ کو آرہا ہے۔

کچھ لوگ ان باتو ں کو محض افوا ہ اور ہوائی بات کہہ کر ٹال دینے کی کوشش کر رہے ہیں جب کہ سچی بات یہ ہے کہ فرقہ پر ستوں سے کچھ بعید نہیں ہے۔ وہ کبھی محض افواہ یا دھمکی پر ہی منحصر نہیں رہے بلکہ علی الاعلان من کا چاہا کر گزرنے کا ان کا طویل تجر بہ ہے۔تقسیم ہند کے بعد سے انھوں نے جس طرح مسلم علاقو ں کو ببانگ دہل نشانہ بنایاہے اوران کی املاک کو اعلان کر کے تباہ و تاراج کیا گیا ہے ،اس طرح کے واقعات سے’ ہندوستانی مسلمانوں کی تاریخ‘ کے صفحات کے صفحات بھر ے پڑے ہیں۔موجودہ برس، مظفر نگر جس طرح کی منصوبہ بندی کی گئی وہ سب سے کے سامنے ہے۔پولیس دیکھتی ہی رہ گئی اور بھگو ا لاشوں کا بازار سجا گئے۔یہی نہیں بلکہ اس کے بعدیا اس سے پہلے اترپردیش کے دیگر علاقوں میں جس طرح خون کی ہو لی کھیلی گئی ۔وہ بھی ایک مسلّم حقیقت ہے۔ہر یانہ کے فرید آباد کے تحت ہتھین اور میوات کے پنہانہ میں جوہوا وہ ناقابل انکار سچائی ہے۔

تر لوک پوری میں جس طرح پولیس کے ذریعے یک طرفہ کارروائی کی گئی ،یہ بھی کو ئی نئی بات نہیں ہے۔ہمارے ساتھ آزادی کے بعد سے یہی ریت اپنائی گئی ہے۔ہم نے آہ کی ،اس کی پاداش میں ہمیں ہی قتل کیا گیا۔انھوں نے ہمیں قتل کیا اور ان کی چھاتیوں پر تمغے سجائے جا رہے ہیں ۔ان پولیس اہل کاروں کی تعریف و بہادری کے چرچوں سے فرقہ پرست اخبارروزانہ بھرتے ہیں اور وزارت داخلہ انھیں اعزاز سے نوازتی ہے۔
پہلے ہو سکتا ہے ہندوستان میں یہ رجحان اس قدر بڑے پیمانے پر نہ ہو،مگر ان دنوں جب کہ پورے ملک کو’ کانگریس فری کر کے بھگوایانے ‘ کی مہم زوروں پر ہے ،کچھ زیادہ ہی ہو گیا ۔نہ صرف دہلی بلکہ پورے ہندوستان میں بڑے پیمانے پر فساد بر پا کر نے کے لیے فرقہ پرست دہشت گرد پر تول رہے ہیں اور ان کی پشت پناہی مرکز کی بھارتیہ جنتا پارٹی کررہی ہے۔مسلمانوں کاوجود اس ملک کے لیے اب دن بدن آنکھ کا کانٹا بنتا جارہا ہے۔حالانکہ مسلمانوں نے فرقہ پرستوں اور بھا رتیہ جنتا پارٹی کے منصوبوں میں کو ئی رکاوٹ نہیں پیدا کی مگر انھیں ضد یہ ہے کہ ہند میں ناقوس ہی کی آوازیں آئیں اذانیں ہم نہیں سنیں گے ۔

نئی حکومت باتیں بناتے ہو ئے تو کہتی ہے کہ مسلمان اس ملک کے تئیں بہت وفادار ہیں لحاظہ ہمیں ان سے اعراض نہیں کر نا چاہیے بلکہ ان کی سلامتی کی کوششیں کر نی چاہئیں۔ہندوستان کا مسلمان القاعدہ ،داعش یا دیگر انتہا پسند تنظیموں کے ساتھ نہیں جا سکتا وغیرہ لیکن دوسری جانب یہی حکومت اور اس کی مسلم دشمن لابی مسلمانوں کی جڑیں کاٹ دینے کا ناپاک منصوبہ بنائے ہو ئے ہے۔جس کا مظاہرہ تر لوک پوری اور بوانہ کے متوقع مسلم مخالف فساد سے شروع ہو گیا۔

۱۹۸۴ ء جیسی قیامت کے بعد دہلی والوں کو پھر ایک قیامت دکھانے کی تیاریاں کی جارہی ہیں جن کی تفصیل اسی وقت سامنے آئے گی جب فرقہ پر ستوں دہشت گر دو ں کا طوفان گزرجائے گا۔

ایسا ہو گا یا نہیں ،اﷲ کر ے یہ محض اندیشے ہوں ،مگر سوال ہو تا ہے کہ فرقہ پر ست دہشت گر دوں کو اتنا مضبوط کیوں کر دیا گیا؟کیوں ایک جمہوری سیکولر ملک میں فرقہ پرستی کے ناگ کو اتنا سر اٹھانے کی اجازت مل گئی؟کیسے ایک مختلف طبقاتی ملک میں اقلیتی فرقوں کے خلاف نفرت و عداوت کے رجحانوں کو فروغ دیا گیا یا دیا جارہا ہے؟کیوں فرقہ پرست دہشت گردی پر قدغن نہیں لگا ئی جارہی ؟

یہ وہ سوال ہیں جنھیں ہر وہ شخص پوچھ رہا ہے جو مادر ہندوستان اور اپنے وطن کی مٹی سے محبت کر تا ہے۔جو اس مٹی کواس کی حفاظت کی خاطر خون پلانے میں یقین رکھتا ہے اور ناجائز خون سے اسے لال نہیں کر نا چاہتا یہ ہرسوالات اس شخص کادرد ہیں جس نے تقسیم کے وقت سرزمین ہند میں رہنے کو ترجیح دی اوریہاں کی بنجر زمین کو اپنا خون جگر پلا کر ہر بھرا اور آباد کیا۔کیوں فرقہ پر ست دہشت گر د اس کی عظمت کو خاک میں ملانے کا منصوبہ بنائے ہو ئے ہیں اور کیوں اس جنت کو جہنم میں جلانے کی بات کررہے ہیں ؟

مگر ان سوالوں کو جواب آج تک نہیں ملا۔اس کا اہم سبب یہ ہے کہ
ہم کو ان سے وفا کی ہے امید
جو نہیں جانتے وفا کیا ہے

لیکن اس المیے کے لیے کیا کیا جائے کہ ہندوستانیوں نے ایسے ہی لوگوں کے ہاتھ میں اس ملک کی با گ ڈور دیدی اور دیتے ہی جارہے ہیں۔پہلے راجستھان،مدھیہ پر دیش اور چھتیس گڑھ دیا اور اس کے بعد مرکز،ہر یانہ اور مہارشٹر بھی سونپ دیا۔یہ کیسی دانش مندی ہے۔اب تو ہم نے شیر کے پنجرے میں بکری کو بند کر دیا جہاں سے اس کا سلامت بچ کر آجانا کسی طرح ممکن نہیں ہے۔
IMRAN AKIF KHAN
About the Author: IMRAN AKIF KHAN Read More Articles by IMRAN AKIF KHAN: 86 Articles with 61306 views I"m Student & i Belive Taht ther is no any thing emposible But mehnat shart he.. View More