انتظامی یونٹس کیوں ضروری ہیں؟

پہلے 4صوبوں کو تو کنٹرول کرکے چلا جائے 30,40صوبوں کا انتظام و انصرام کیسے چلے گا؟ یہ بیان مولانا سراج الحق امیر جماعت اسلامی نے دیا جس کاواضح مطلب یہ تھا کہ فی ا لحال ملک میں صوبے بنانے کی بات نہ کی جائے جو صوبے پہلے سے موجود ہیں اگر ان میں ہی حکومتی رٹ اور آئین و قانون کی بالادستی قائم کر لی جائے تو بہت بڑی کامیابی ہو گی ایک لحاظ سے دیکھا جائے تو مولانا کی بات وزن رکھتی ہے کہ چار صوبوں کو بد نظمی،بد عملی ،کرپشن ،دہشت گردی،منگائی جیسے عفریت منہ کھولے سب کو نگلنے کو تیار ہیں۔ جہاں پر بنیادی سہولتیں صرف بڑے شہروں تک محدود ہیں ۔ دوردراز کے علاقوں اور چھوٹے شہروں کو سوتیلی اولاد کی طرح نظرانداز کیا جارہاہے ۔ یہ سب اس لیے ہو رہا ہے کہ پنجاب کو مسلم لیگ تقسیم نہیں کرنا چاہتی ۔ وزیر اعلیٰ پنجاب چاہتے ہیں کہ سارا کام میرے ذریعے سے ہوں۔ میں ہر جگہ "جن"کی مانند حاضر ہو جاؤں تو پھر یہ حکومتی مشینری کس ’’کھیت کی مولی ‘‘ہے۔ کہ جب سارے کام اور معاملات خادم اعلیٰ نے دیکھنے ہیں ۔ پنجاب کا رقبہ وسیع ہے اور چونکہ وزیراعلیٰ انسان ہیں اس لئے مشینری کو ہی فعال کرناہوگا۔ منظم کرنا ہو گا ۔ سٹرکچر بنانا ہوگا ۔اسی طرح وزیراعلیٰ سندھ قائم علی شاہ تو کو معلوم ہی نہیں کہ انکی jurisbictionمیں کون کونسے علاقے آتے ہیں ۔ وہاں کتنے لوگ بستے ہیں ۔ ان کی ضروریات اور مسائل کیا ہیں ۔ انہیں دعوتیں اڑانے ، نیند کرنے اورچٹکلے چھوڑنے کے علاوہ کوئی فکر نہیں۔ کہ سندھ میں کیا ہو رہا ہے ۔سندھ کے عوامی نمائندوں بالخصوص سیپکر آغاسراج درانی کی مس کمیونیکشن کا یہ حال ہے کہ جب طرف شورمچار ہوا تھا کہ نیلوفرطوفان سے بڑی تباہی کا اندیشہ ہے پوری انتظامیہ ہائی الرٹ ہے تو موصوف پوچھتے ہیں کہ نیلوفر کیا ہے ؟کچھ تو خدا کا خوف کریں دعوی بڑے بڑے ہیں مگر کام صفر۔اس طرح خیبر پختونخواہ اور بلوچستان میں بھی صورت حال کچھ مختلف نہیں ہے اس لئے بڑے صوبے کو انتظامی یونٹس میں تقسیم کرنا بہت ضروری ہے ۔ تاکہ تمام معاملات کو احسن طریقے سے چلایا جاسکے۔

جب ہم طالب علم ہو اکرتے تھے تو کمپیوٹر سائنس میں ایک مضمون زبانو ں (languages) کے حوالے سے بھی تھاجس میں ہمیں یہ بتایا اور سمجھایاگیاکہ اگر آپ ایک اچھے پرو گرامر بننا چاہتے ہیں تو پھر آپ بڑے پروگرام کو یونٹ (modules)میں تقسیم کریں ۔پھر ان یونٹس پر کام کریں۔ جب تمام یونٹس اپنی اپنی جگہ صحیح اور درست کام کرنے لگیں تو پھر انہیں یکے بعد دیگرے جوڑتے جائیں اس طرح سے آپ ایک بہتر اور بڑے پروگرام کو ترتیب دے سکتے ہیں ۔اور اس کی مدد سے اپنے مسائل حل اور ضروریات پوری کر سکتے ہیں ۔کیونکہ یونٹس بنانے سے ایک تو پروگرام کو سمجھنا آسان ہوجاتا ہے دوسرا یہ کہ بڑے پروگرام کو کنٹرول کرنے میں سہولت اور آسانی میسر آجاتی ہے۔غلطیوں اور کوتاہی کی گنجائش کم ہوجاتی ہے ۔مسائل کوتلاشنا اور اسے دور کرنا آسان ہوجاتا ہے ۔

یہ تو ایک پروگرام کی بات ہے ہم تو ملک چلانے کی بات کررہے ہیں اتنے بڑے ملک کا نتظام وانصرام جو اب نہایت حد تک بگڑ چکاہے تو اسے کنٹرول کرنے ،درست کرنے اور عوام کی فلاح میں استعمال کرنے کیلئے ضروری ہے کہ صوبوں کو انتظامی یونٹس میں تبدیل کر دیا جائے تاکہ کم رقبہ، کم لوگ ،کم مسائل کو مناسب افرادی قوت اور مشینری کی مدد سے آسانی کے ساتھ ڈیل کیا جاسکے ۔ اور بالفرض جو سہولیات اور مراعات آپ عوام کو ان کی دہلیز پر دینا چاہتے ہیں انکی بنیادی ضروریات کو پورا کرنا چاہتے ہیں انہیں روٹی ،کپڑا اور مکان دینا چاہتے ہیں ۔ انصاف کے تقاضوں کو پورا کرنا چاہتے ہیں مزدور کو خوشحال دیکھنا چاہتے ہیں تو اس کیلئے آپ کا، حکومتی و سرکاری افراد و مشینری کا ان کے قریب ترین ہو نا ضروری ہے ۔ جتنی زیادہ رسائی آسان ہو گی اتنا ہی مسائل کے حل میں آسانی ہو گی۔ مسائل پر توجہ کا ارتکاز بڑھے گا ۔ ان کے حل کیلئے کوششیں تیز ہونگی۔ مثال کے طورآپ ایک شہر(تحصیل) میں امن وامان کو کنڑول کرنے کیلئے پولیس کو یونٹس میں تقسیم کرتے ہیں ۔سٹی پولیس ،صدر پولیس جبکہ ڈی ایس پی الگ سے سپروائز کرتاہے تاکہ مسائل اور امن و امان کے حوالے سے بہتر نتائج آسکیں ۔علاوہ ازیں 20سے50کلومیڑ کے دائرے میں ڈی پی او ان سب کو سپروائزکرتا ہے اس کے باوجود چوری ڈکیتی ،امن وامان اور تحفظ کے مسائل بر قرار رہتے ہیں ۔کیونکہ وسائل اور افرادی قوت کا فقدان ہے ۔اب اگر ان چند لوگوں کو ڈویثرن دے دیاجائے تو ہر طرف مسائل ہی مسائل نظر آئیں گے اور صورتحال مخدوش ہوتی جائیگی ۔بعینہ اگر حکومت اس نہج پر سوچتے اور عمل کرتے ہوئے کہ جس کی آئین و قانون بھی اجازت دیتا ہے اگر ملک میں نئے صوبے( انتظامی یونٹس )بنادے جائیں تو بہت سے مسائل اپنی موت آپ مر جائیں گے آپ بھی سر فراز ہو جائیں گے ۔ اورویسے بھی وزیراعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف نے بھی اس بات کی تائید و حمایت کردی ہے کہ آئین و قانون میں اسکی گنجائش موجود ہے اور ہم اس پر سوچ رہے ہیں رسم دنیا بھی موقع بھی دستور بھی ہے اور بالفرض اس کی گنجائش نہ بھی ہو تو نظر یہ ضرورت کے تحت اس کی گنجائش نکالی جاسکتی ہے تاکہ عوام کی مستفید کیا جاسکے۔ اور عوام کی دہلیز تک سہولیات اور انصاف کو پہنچانے کا آپ کا دعوی پورا ہوسکے۔
liaquat ali mughal
About the Author: liaquat ali mughal Read More Articles by liaquat ali mughal: 238 Articles with 211966 views me,working as lecturer in govt. degree college kahror pacca in computer science from 2000 to till now... View More