میاں شوباز شریف صاحب کو میاں اشتہار باز کہا جائے تو یہ
غلط نہ ہو گا۔کیونکہ ٹی وی پر اس قدر اشتہارات کمپنیوں کی پراڈکٹ کے نہیں
آتے جتنے پنجاب حکومت کے کارناموں کے آتے ہیں۔ایسا لگتا ہے جیسے پنجاب
حکومت بھی ایک پرائیوٹ لمیٹڈ کمپنی ہے اور اپنی سیل بڑھانے کے لیے مارکیٹنگ
کر رہی ہے۔ جس طرح تمام بڑی بڑی کمپنیاں اشتہاری مہم کی مد میں اچھا خاصا
بجٹ رکھتی ہیں۔تا کہ اپنی بنائی ہوئی چیز کے بارے میں زیادہ سے زیادہ
معلومات لوگوں تک پہنچاسکیں۔ اور اپنی سیل بڑھا کر منافع میں خاطر خواہ
اضافہ کر سکیں۔ اسی طرح پنجاب حکومت بشمول وفاقی حکومت ملک و قوم کا بہت سا
سرمایہ پانی کی طرح بہارہی ہے۔ اپنا منافع بڑھانے کے لیے اشتہارات کی
بھرمار کر کے لوگوں کی سوچ بدلنا چاہتی ہے۔یہ اشتہارات کچھ اس طرح کے ہوتے
ہیں۔"یہ ہے پنجاب حکومت کا تیار کردہ انڈر وئیر (معافی چاہتا ہوں انڈر پاس
کہنا چاہ رہا تھا)۔ اسے ہم نے چھ ماہ کی مدت میں تیار کیا ہے۔ اس انڈر پاس
کی تیاری پر دس ارب روپے لاگت آئی ہے۔ اس کے اشتہارات پر آنے والا خرچہ اس
کے علاوہ ہے"۔ ایک اور اشتہار ملاہذا فرمایئے۔ "پنجاب حکومت کی فخریہ پیش
کش۔ آئیے ہم آپ کو دکھاتے ہیں کہ اس پل کے او پر سے بیک وقت کتنی گاڑیاں
گذر سکتی ہیں۔اس پل کی تیاری میں جو سریا استعمال ہوا ہے وہ ہمارے سیاسی
دشمنوں کو بہت چبھتا ہے۔ اس پر آنے والی مالیت پندرہ کروڑ روپیہ ہے۔ اس پل
کی اشتہار بازی پر آنے والا خرچہ پل کی تعمیر سے دو گنا ہے۔ اس سے بڑھ کر
فخر کی بات کیا ہو سکتی ہے"۔ ایک اور اشتہار آپ کی نظر کر رہا ہوں۔" عوام
کی سہولت کے لیے پیش خدمت ہے نئی میٹرو۔ چلے لمبے۔۔۔ روٹ پر۔ جس کے آنے سے
بے روزگاری میں کمی آئی ہے۔ لوگوں کے سفر کے اوپر اُٹھنے والے اخرجات میں
خاطر خواہ کمی آئی ہے۔ بیس روپے کا ٹکٹ لیں اور پائیں گجومتہ سے شاہدرہ تک
کا خوشگوار سفر۔بہاولپو ر ، جھنگ، ملتان، پتوکی اور کوٹ رادھا کشن کے
باسیوں کے لیے ایک شاندار تحفہ۔اس پراجیکٹ کا سارا ریکارڈ جلا دیا گیا ہے۔
تاکہ آڈٹ ہو جانے ہر قوم کو جھٹکا نہ لگے۔ ہے نہ عوام دوست حکومت کا عوام
سے دوستی کا جیتا جاگتا ثبوت"۔
جو بھی چینل ٹیون کریں پنجاب حکومت کے رنگ برنگے اور مرچ مصالحہ سے بھرے
ہوئے اشتہارات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ پروگرام کے ایک وقفے کے دوران ایک ہی
پراجیکٹ کا اشتہار کم از کم پانچ دفع ضرور آتا ہے۔ ابھی پچھلے تین چار دنوں
سے دو اشتہار بڑے زورو شور چلائے جا رہے ہیں۔ ایک ہے "اپنی گاڑی اپنا کام"۔
چلو مان لیا پنجاب حکومت بے روزگاروں کو آسان اقساط پر گاڑیاں دے رہی ہے۔
یہ ایک قابل تعریف عمل ہے۔ لیکن فائدہ تو اُسے ہی پہنچے گاجس کی قسمت میں
یہ نادر تحفہ لکھا جا چکا ہوگا۔ اور جو یہ تحفہ حاصل کرنے میں کامیاب ہو
جائے گا اُس کے لیے نون لیگ ایک مسیحاثابت ہو گی۔ اور اس سکیم سے فائدہ
حاصل کرنے والے کا پورا خاندان آئندہ الیکشن میں اپنا ووٹ اپنی محسن پارٹی
کو ہی دے گا۔ اس کے برعکس جسے اس نعمت سے محروم رکھا گیا وہ اپنے دوہزار
روپے ڈوب جانے کے ساتھ ساتھ اس پورے نظام کو کوستا رہے گا۔تو پھر اتنے
مہنگے اشتہارات کا کیا فائدہ؟ دوسرا اشتہار پیٹرول کی قیمتیں کم ہونے پر
کرایوں میں کمی کا ہے ۔یوں لگتا ہے حکومت پیٹرول سستا کر کے عوام پر بہت
بڑا احسان کیا ہے۔ گویا یہ حکومت کا کام نہیں تھا جو اُس نے کر دکھا یا۔اس
کارنامے پر حکومت نوبل انعام کی حق دار ہے۔جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ یہ سب کچھ
عمران خان کے شور مچانے کا نتیجہ ہے وہ بالکل غلط کہتے ہیں۔ اگر دیکھا جائے
توحکومت کا میڈیا پر اشتہارات کی بھرمار کرنا صدقہ جاریہ ہے۔ وہ یوں کہ
میڈیا کے ملازمین ہمیشہ تنخواہ نہ ملنے یا دیر سے ملنے کی اکثر شکایات کرتے
رہتے ہیں۔ ان اشتہارات کی آمدن سے کم از کم میڈیا کے بے بس ملازمین کی
امیدیں تو ضرور جاگی ہوں گی۔ یہ الگ بات ہے کہ اُنہیں اُن کا حق مل پاتا ہے
یا نہیں۔حق تو یہاں کسی کو نہیں ملتا۔ البتہ جو طاقتور ہے وہ تو چھین لیتا
ہے لیکن جو کمزور ہے وہ بے چارہ دھرنے دیتا ہے یا پھر گو نواز گو کے نعرے
لگاتا پھرتا ہے۔
عوام اتنی بھی بیوقوف نہیں ہے جس قدر اُسے بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ملک
میں ترقیاتی کام ہو رہے ہوں تو نظر بھی آتے ہیں۔ میاں اشتہار باز صاحب جس
قدر سرمایہ اشتہارات پر ضائع کر رہے ہیں وہ اگر پیداواری کاموں پر لگا ئیں
تو شائد پسماندہ علاقوں کے لوگ بھی اپنا حق حاصل کر سکیں۔چھوٹے میاں صاحب
کا سابقہ دور ہو یا موجودہ دور، پنجاب حکومت صرف لاہور تک ہی محدود
ہے۔میٹرو لاہور کے لیے، پل لاہور کے لیے، انڈر پاس لاہور کے لیے اور سڑکیں
لاہورکے لیے۔لاہور کی ہی بات کریں تو اس شہر کے کئی علاقے ابھی تک محرومیوں
کا شکار ہیں۔ میاں صاحب کی ساری کی ساری توجہ سڑکوں اور پلوں پر ہی ہے۔
ہسپتال اور سکول اُن کے لیے کوئی اہمیت نہیں رکھتے۔ اگر ہسپتالوں کی حالت
سنوارنے کا کچھ خیال ہوتا تو خود کا علاج کروانے کے لیے باہر تشریف نہ لے
جایا کریں۔ باقی رہی بات تعلیم کی، سرکاری سکولوں میں تو صرف غریبوں کے بچے
ہی تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ غریبوں کے بچوں کی اتنی اوقات کہاں کہ وہ اچھی
تعلیم حاصل کر سکیں۔ وہ اچھی تعلیم حاصل کر لیں گے تو اُن کے لیے روزگار کے
بھی اچھے مواقع ہوں گے۔ایسا کیونکر ہو سکتاہے کہ غریب کا بچہ پڑھ لکھ کر
افسر بنے اور کسی امیر کے بچے کے برابر کھڑا ہو جائے۔
حال ہی میں بڑے میاں بمع چھوٹے میاں چائنہ سے واپس تشریف لائے ہیں اور اب
وہ جرمنی کے دورے پر ہیں۔ اب دیکھنا کہ چند دنوں کے اندر نئے اشتہارات
میڈیا کی زینت بنیں گے۔ ایک نیا لالی پاپ دیا جائے گا۔ کروڑوں نہیں بلکہ
اربوں روپے بہائے جائیں گے۔جتنی مالیت ایک پراجیکٹ کی ہوتی ہے اُس سے کئی
گنازیادہ اُن کی تشہیر پر لگا دیا جاتا ہے۔ حقیقت میں یہ سب کچھ حکومت اپنے
من پسند ٹی وی چینل کو نوازنے لیے کرتی ہے تاکہ حکومت کی غلطیوں پر پردہ
ڈالا جا سکے۔حکومتی ترجمان کا کہنا ہے کہ ہم یہ سب کچھ عوام کو کمیونیکیٹ
کرنے کے لیے کرتے ہیں۔ یعنی عوام اندھی اور بہری ہے کہ اُسے اپنے آس پاس
کچھ نظر نہیں آرہا اور ان اشتہارات کی مدد سے عوام کی آنکھیں اور کان کھولے
جا رہے ہیں۔عوام کی آنکھیں بھی کھل چکی ہیں اور اُن کے کان بھی۔عوام جان
چکی ہے کہ یہ بے تہاشا اشتہارات اصل میں اُنہی کے خون اور پسینے کی کمائی
کا نچوڑ ہیں۔اگر حکومتیں اشتہارات پر ہی چلتی ہیں تو اس کی ایک الگ وزارت
بھی ہونی چاہیے۔ جس کا کام گلے میں ڈھول لٹکا کر گلی گلی ڈھنڈورا پیٹنا
ہو۔ایسا محنت طلب کام صرف اور صرف میاں اشتہار باز ہی کر سکتے ہیں۔ |