ریاست کے سبھی حصوں میں جو
حکمران و سیاست کاروقوع پذیر ہوئے ان میں سے زیادہ تر حالات و واقعات سے
متاثر ہو کر ،بالا دست قوتوں کے جاہ و جلال ،وزیران و مشیران کے لمبے لمبے
پر کشش جلوس اور کالے شیشوں والی کالی گاڑیوں سے مانوس اور سیاست کو ایک
آسان زریعہ معاش سمجھتے تشریف لائے جہاں اہلیت ،قابلیت،ایمانداری اور
وفاداری جیسے الفاظ کی گنجائش نہیں بلکہ منافقت و وطن فروشی جیسے سبجکٹ میں
پی ایچ ڈی افراد ،دولت شہرت و اختیارات کی حامل پر آسائش زندگی کے حصول میں
کامیاب ہوتے ہیں یہی وہ بنیادی عوامل و خواب ہیں جواس دیس کے ساستکار دل
میں بسائے ،آستینیں چڑھاکر ،کشتیاں جلا کر اس میدان کار زار میں آتے رہے
اور قومی جذبات سے کھلواڑ کرتے رہے ۔محدودزاتی خواہشات کے پجاری اس کھیل
میں ساری زندگی گزار کر چند جھوٹے خطابات ساتھ لئے اس جہان فانی سے چلے
جاتے ہیں ۔یہ ظالم جن کے لئے قومی غیرت ،محب الوطنی و سرفروشی جیسے الفاظ
بے معنی ہوتے ہیں ،ان کے راستے میں اگر اس نوح کی کوئی مشکل آن پڑھے تو یہ
سب متحد و منظم ہو کراسے ٹھکانے لگا نے میں دیر نہیں لگاتے ۔کوئی مانے ناں
مانے اس سارے کھیل میں ریاست جموں کشمیر کے عوام کی اہمیت محض ’’رامٹیریل
‘‘ کی سی ہے جو صرف بوقت ضرورت استعمال کی جاتی ہے جب جب غیر ملکی آقاؤں کی
خوشنودی مقصود ہو۔
1586میں ریاستی علماء کا ایک وفد شیخ یعقوب صرفی اور بابا داؤد خاکی ،کی
قیادت میں دہلی اکبر کے دربار میں پہنچا اورمادر وطن میں غیر ملکی آقا
درآمد کرنے کی ایسی شرمناک بنیاد رکھی کہ قوم آج کئی صدیاں گزرنے کے بعد
بھی اس مرض سے نجات حاصل نہ کر سکی۔اور اس روائت نے بیسویں صدی کے وسط میں
ایک بھیانک شکل اختیار کی جب ملک آزاد و خود مختار تھا اور یہاں ایک زمہ
دار و بااختیار عوامی حکومت کی تحریک چلی ۔اسی دوران ہندوستان بھی تقسیم ہو
گیا اور دو ممالک وجود میں آئے اور ان دونوں ممالک نے ریاست جموں کشمیر کو
اپنا سیاسی اکھاڑہ بنا لیا ۔ ریاست بھی تقسیم سے دوچار ہوئی اور دو ممالک
کی افواج یہاں آن بسیں ۔ پھر شروع ہوا ان دو حصوں میں جھوٹی شان و شوکت و
اقتدار کا کھیل ۔وہ تمام لوگ جو کبھی قومی آزادی کے علمبردار تھے وہ اقتدار
کے پجاری نکلے ۔ یہ بھی سچ ہے کہ دونوں حصوں میں قائم ہونے والی حکومتیں با
اختیار تھیں اور عوامی قوت کی بنیاد پر ان اختیار ات وآزاد حیثیت کوقائم
رکھ سکتے تھے لیکن ریاستی لیڈرشپ کی نااہلیت و عاقبت نا اندیشی کہ دونوں
حصوں کے سیاستکار حوص اقتدار میں ایک ایک کر کے تمام تر اختیارات سے
خوددستبردار ہوتے رہے ۔
۴۔۲۴، اکتوبر کو اس پار ایک انقلابی حکومت کا علان ہوا جس کے چارٹر کے
مطابق دفاع کے علاوہ تمام تر اختیارات اس کے پاس تھے ۔پھر کیا ہوا ؟ سب سے
پہلے معائدہ کراچی کر کے گلگت بلتستان کو پاکستانی بیوروکریسی کے ہاتھ بیچا
پھر وزارت امور کشمیر ۔۔۔پھر چیف سکرٹری جس کے ایک اشارے پر یہاں کی
حکومتیں بنتی اور ٹوٹنا شروع ہوئیں اور اس جانب حوس اقتدار کے باعث آلہ
کاروں میں بھی اضافہ ہوتا رہا اور اس اضافے کے باعث لفظ ’’کشمیر‘‘کی قیمت
بھی کم ہوتی رہی اور وہ مسئلہ کشمیر جو اقوام متحدہ میں نمبر ایک
تھاروزافزوں دنیا کی عدم توجی کا شکار ہوا ۔اس خطہ کی وہ آرمی جسے بڑے کٹھن
حالات میں ’’مرحوم خان صاحب ‘‘ کی انتھک کوششوں سے کھڑا کیا گیا تھا اسی
کاروبار میں اس کا بھی سودہ ہو گیا اور وہ پاک آرمی میں ضم ہوگئی ۔ایک غیر
ملکی ایکٹ کے نفاذ سے یہاں کے تمام اختیارات کشمیر کونسل کے چئر مین جو کہ
پاکستانی وزیر اعظم ہوتے ہیں جو کسی صورت کشمیری عوام کے سامنے جوبدہ نہیں
کو سونپ دیا گیا اور جب انہیں عوام کو دھوکہ دینے کے لئے کچھ باقی نہ رہا
تو انہوں نے خطہ میں موجود پولیس (صرف سپاہی ) اور محکمہ تعلیم میں بغیر
میرٹ کے ملازمتیں نیلام ہونے لگیں وقت بدلنے کے ساتھ ساتھ جب اس میں بھی
کوئی کشش باقی نہ رہی تو پاکستان کے مختلف’’متوقع حکمراں ‘‘ سیاسی خاندانوں
سے تعلق کو استعمال کرنے کی کوشش کیجاتی رہی ہے اور آج کل اس ایک ملک میں
مختلف نوح کے کئی ’’آقا‘‘بت تراش لئے گئے ہیں اور یہ نام نہادکشمیری لیڈر
ہمہ وقت گڑھی خدابخش ،رایؤنڈ اور اب بنی گالہ کا طواف کرتے نظر آتے ہیں ۔آج
کل تو یہ’’ مقابلہ حسن آقا ‘‘برطانیہ میں زور وشور سے جاری ہے ہر طرف ایک
ہی ترانہ گونج رہا ہے ’’اساں تے جاناں اے بلو دے گھر ‘‘
دوسرے جانب بھی فضا زیادہ مختلف نہیں البتہ معیار کچھ بہتر ہے ۔وہاں تقسیم
کشمیر کے فوراً بعد مہاراجہ کے ساتھ شیخ عبداﷲ منتظم اعلی بنے اور پھر ایک
قدم نیچے آئے وزیر اعظم اور صدر جو کہ انڈین حکومت بھیجتی ،چونکہ حوس
حکمرانی سے مجبور ایک لمبی قطار ہوتی اور غیر ملکی آقاؤں کو الٓہ کاروافر
مقدار میں میسر ہوئے تو جلد ہی نہائت آسانی سے یہ سٹ اپ بدل کر وزیر اعلیٰ
اور گورنر کا نظام لائے اور خطہ کو بھارتی صوبہ کی شکل دے دی اور کشمیری
عوام کے حقوق پر کشمیری لیڈران کی ایما پر پہ در پہ شب خون مارنے کی روائت
قائم رہی اور ایک ایک کر کے سارے اختیارات صلب کر لئے گئے اور خطہ کو بھارت
کا اٹوٹ انگ قرار دیدیا گیا۔اس کے بعد وہاں کے لیڈران کے پاس دکان چلانے کے
لئے صرف ایک ہی آپشن باقی بچاکہ ہم ہی ہیں جنہوں نے کشمیر کو پاکستان بننے
سے روکا ہوا ہے ۔اس میں جو زیادہ کارکردگی دکھاتا اقتدار کے مزے لوٹتا پھر
وہ وقت آیا جب وہاں مسلح جدوجہد شروع ہوئی تو جیسے متعدد سیاسی کمپنیوں کے
ٹینڈر نکل آئے اور وہ دہلی کو خوش کرنے کے لئے ایک دوسرے پر بازی لیجانے
اور تحریک آزادی کو ثبوتاژ کرنے میں اس کے معاون ہونے کے دعویدار بنے ۔ پھر
جب بھارت تحریک کو کمزور کرنے میں کافی حد تک کامیاب ہو گیا تو سب کمپنیاں
پھر سے بے روزگار ہو گئیں ۔ریاستی وسائل واختیارات پر بھارت کا مکمل کنٹرول
اور آٹھ لاکھ فورسز ریاست میں براجمان اور اب بھارت کی نئی حکومت اپنے
طریقہ سے مسئلہ کشمیر حل نہیں ’’ختم ‘‘ کرنے کا عزم کئے ہوئے آگے بڑھ رہی
ہے اس کا پہلا پڑھاؤ ریاست میں ہر جائز و ناجائز ہتھکنڈوں سے انتخابات میں
کامیابی کا حصول اور پھر بھارتی آئین سے دفعہ ۳۷۰جو ریاست کو ایک الگ شناخت
دیتا ہے کا خاتمہ تو مسئلہ کشمیر خود بخود ختم شد۔۔۔مقام فکر ہے کہ اس کام
میں ہاتھ بٹانے کے لئے ریاستی پارٹیاں بڑھ بڑھ کر اپنی خدمات پیش کررہی ہیں
مقصد صرف پانچ برس کی نوکری ۔۔۔اور جہاں اتنا کچھ بکا یہ بھی تو بک ہی
جائیگا اور یہ پانچ برس بھی بیت ہی جائیں گے۔۔۔ اے غلام ابن غلام پھر کیا
بیچو گے ۔۔۔؟تقسیم کر دیا ،زمین بیچ دی ، اختیار بیچ دیا ،ہموطن بیچے
،اعتبار بیچ دیا ،دریا بیچے ،پہاڑ و جھرنے بیچے ،ایمان بیچ دیا ،ضمیر بیچ
دیا ،فضا بیچ ڈالی ،باغ و بہار بیچ دئے ،سہاگنوں کا سنگار بیچ دیا ،ماں کا
تاج بیچا ،باپ کا پیار بیچ دیا ،بہنوں کی عصمتیں بیچ دیں ،شہداء کا مان بیچ
ڈالا ۔۔۔ارے تم نے قوم کی غیرت کو سربازار بیچا ہے اور اب اور کیا بیچو گے
۔۔۔؟کب تیری بھوک مٹے گی جب کچھ نہ ملا تو شہداء کا کفن بیچو گے ۔۔۔؟ |