تھر میں سسکتی انسانیت اور ارباب اختیار
(Muhammad Siddique, Layyah)
چھبیس اکتوبر کے ایک قومی اخبار
میں تھرپارکر سے خبر ہے کہ تھر پاررکر میں قحط سالی سے بیس بچوں کی اموات
کے بعد سندھ حکومت کو ہوش آگیا۔شہری علاقوں میں مفت گندم کی فراہمی شروع
کردی ہے۔تاہم دوردرازکے علاقوں کے افراد نقل مکانی پر مجبور ہیں۔تھرپارکر
میں قحط سالی کاشکاربیس بچے کم خوراکی کی نذرہوگئے۔ہزارواں افرادنقل مکانی
کرگئے۔چھبیس روزمیں بیس بچوں کی اموات ہوچکی ہیں۔تیس اکتبوبر کے ایک مقامی
اخبارمیں چھاچھروتھر سے خبر ہے کہ تھرپارکر کی تحصیل ڈاھلی کے شہر کھینسر
میں بجلی کی سہولیات ہونے کے باعث بھی شہر کے مین ہسپتال کوایک سال کے عرصے
سے بجلی نہیں مل سکی۔ہسپتال کوسپلائی کرنے والے دو ٹیوب ویل مکمل طورپر
ناکارہ بن گئے ہیں۔تھرپارکر کے ۳۵ دیہاتوں کا مین ہسپتال مسائل کا شکار ہے
زیادہ تر بچے غذائی قلت کا شکار ہیں۔ڈاکٹر سلیم راہموں ، وزیراعلیٰ سندھ نے
کہا ہے کہ بچے غربت کا شکار ہیں بھوک سے نہیں مر رہے ہیں۔اکتیس اکتوبر کے
ایک قومی اخبار میں خبر ہے کہ صوبائی وزیرسندھ خوراک وصحت جام مہتاب ڈاہر
نے تھر کے علاقے چھاچھرو میں بچوں کی ہلاکتوں کے متعلق رپورٹ طلب کرلی۔بیان
میں صوبائی وزیر نے کہا کہ غفلت برتنے والوں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے
گی۔پاک فوج کی جانب سے خشک سالی سے متاثرہ تھرپارکر کے متعدد علاقوں میں
امدادی سرگرمیاں جاری ہیں۔آئی ایس پی آر کے مطابق متاثرہ علاقوں میں اب تک
۱۲۸ ٹن خوراک تقسیم کی جاچکی ہے۔دوردراز کے علاقوں میں دو ہیلی کاپٹروں کے
ذریعے خوراک کے تھیلے گرائے گئے۔آئی ایس پی آر کے مطابق پاک فوج کی جانب سے
قائم چار میڈیکل کیمپ متاثرین کو طبی امداد فراہم کررہے ہیں۔ان میڈیکل
کیمپوں میں اب تک ۱۴۴۳ مریضوں کو علاج معالجہ کی سہولت فراہم کی گئی
ہے۔وزیراعظم نواز شریف نے سندھ کے علاقوں میں قحط سالی کی خبروں کا نوٹس
لیتے ہوئے پاک فوج کو ضرورت مند متاثرہ افراد کو خوراک اور ادویات کی فوری
فراہمی کی ہدایت کی ہے۔وزیراعظم نے نیشنل ڈیزاسٹڑ منیجمنٹ اتھارٹی کو اس
ضمن میں رپورٹ پیش کرنے کی بھی ہدایت کی۔انہوں نے بینظیر انکم سپورٹ
پروگرام کے حکام کوبھی گذشتہ ۶ ماہ کے دوران تھر کے رہائشیوں کو دی جانے
والی مالی امداد کے حوالے سے رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کی ہے۔سات نومبر کے
مقامی اخبار میں خبر ہے کہ دھرنے کے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے عمران خان نے
کہا کہ وقت آگیا ہے کہ پاکستانیوں کو ایک قوم بنایا جائے اورہم تب تک ایک
قوم نہیں بنیں گے جب تک عوام کو حقوق نہ دیں گے۔آج ملک میں ہر ایک کو نیا
صوبہ چاہیے لیکن صوبے بننے سے کچھ ٹھیک نہیں ہوگا۔کیونکہ نئے صونے مسائل کا
حل نہیں مسائل صرف انصاف سے حل ہوں گے۔ملک میں ہرسال چارلاکھ بچے گندا پانی
پینے سے مررہے ہیں۔تھرپارکر میں لوگ بھوکے مررہے ہیں لیکن وزیراعلیٰ سندھ
کو کچھ پتہ بھی نہیں۔آٹھ نومبر کے ایک قومی اخبار میں خبر ہے کہ صوبائی
وزیر جیل خانہ جات منظور وسان نے کہا ہے کہ تھر کی صورتحال کو آصف زرداری
اور بلاول بھٹو خود مانیٹر کررہے ہیں۔اپنے ایک بیان میں منظور وسان نے کہا
کہ تھر میں جو صورتحال دیکھی وہی رپورٹ میں لکھا تھر کی صورت حال گذشتہ
سالوں کی نسبت اب بدتر ہے۔تھر کی صورتحال کے حوالے سے میں نے ایک رپورٹ
تیارکی جوآسف زرداری اور بلاول بھٹو کو دی ہے۔انہون نے کہا کہ تھر میں اب
جو صورت حال ہے اس میں کچھ افسر اور مقامی لوگ شامل ہیں۔جن کے بارے میں
بلاول بھٹوزرداری کو آگاہ کردیا ہے۔اس معاملے میں وہ خود کوئی ایکشن لیں
گے۔اسی روز کے ایک علاقائی اخبار میں ہے کہ صوبائی وزیر منظور وسان کی جانب
سے ترتیب دی گئی رپورٹ میں تھر میں ہونے والی ہلاکتوں کا ذمہ دارسندھ حکومت
اور صوبائی اداروں کو ٹھہرایا گیا تھا۔جس کا نوٹس لیتے ہوئے چیئرمین
پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری نے وزیراعلی سندھ اور صوبائی وزیر منظوروسان
کو شوکاز نوٹس جاری کردیا۔ ۹ نومبر کے ایک قومی اخبار میں مٹھی سے خبر ہے
کہ حکومتی دعوؤں کے برعکس تھر میں بھوک کا راج ہے۔قحط کی صورت حال برقرار
رہنے اور ہسپتال میں مناسب انتظامات نہ ہونے کی وجہ سے اموات کا سلسلہ
بڑھتا جارہا ہے۔متاثرین کا کہنا ہے کہ حکومت دعوے کرنے کے بجائے عملی
اقدامات پر زور دے۔پی پی میڈیا سیل سے جاری بیان کے مطابق وزیراعلی سندھ
قائم علی شاہ اور صوبائی وزیر منظور وسان کو جاری کیا جانے والا شوکازنوٹس
بلاول بھٹو کی ہدایت پر واپس لے لیا گیا ہے۔شوکازنوٹس میڈیا میں آنے والی
غلط رپورٹ پر جاری کیا گیا تھا۔رپورٹ کے مطابق واقعے کی مزید تحقیقات کے
لیے بلاول بھٹو زرداری کی سربراہی میں کمیٹی بنادی گئی ہے۔یہ نوٹس ان کو
میڈیا میں تھر میں بد انتظامی کی خبریں آنے پر جاری کیا گیا تھا۔بارہ نومبر
کے علاقائی اخبار میں تھر پارکر سے خبر ہے کہ ہسپتال میں طبی سہولتون کی
عوم دستیابی کی وجہ سے بیماروں کی زندگی پر موت کے سائے مزیر گہرے ہورہے
ہیں۔امدادی کارروائیاں مٹھی شہر تک محدود ہونے کی وجہ سے دوردراز کے دیہات
میں بسنے والوں کی مشکلات کم نہین ہوسکی ہیں۔چھاچھرو اور ڈاھلی میں ایک ایک
لقمے اور پانی کی ایک ایک بوند کوترسنے کے بعد مجبور اور بے بس لوگوں نے
نقل مکانی بھی شروع کر دی ہے۔۱۴ نومبر کے ایک علاقائی اخبار میں کراچی سے
ہے کہ مسلم لیگ سندھ کے صدر حلیم عادل شیخ نے کہا ہے کہ تھر پر سیاست بند
کرکے عملی اقدامات شروع کیے جائیں۔رواں ماہ کے اختتام تک سردیوں میں اضافہ
ہوجائے گا۔سندھ حکومت نے اگر اس کا سدباب نہ کیا تو بوھک سے مرتے بچوں کی
اموات میں اضافہ ہوگا۔اور بچے مرغی کے چوزوں کی طرح مرنے لگیں گے۔سندھ غموں
کی آماجگاہ ہے۔تھر کے ایک گوٹھ جھمرانی میں ایک خاندان کے چوبیس افراد
معذور ہیں۔سندھ میں رہنے والے مستحق لوگوں کی خدمت وہاں کے منتخب نمائندوں
کی ذمہ داری ہے۔سندھ میں خشک سالی میں گڈ گورننس کا ڈھول پٹنے والوں کو
معلوم ہے کہ تھر میں تین سو کے قریب گھروں والے مقامات پر بھی ایک بھی پانی
کا ٹیوب ویل نہیں لوگوں کو میلوں سفر کرکے اپنے لیے پانی لانا پڑتاہے۔سندھ
حکومت کہتی ہے کہ تھر میں اگر تین سال سے بارش نہین ہوئی تو یہ رب کی مرضی
ہے۔ حکومتی وزیروں اور مشیروں کے بچے نہاتے بھی منرل واٹر سے ہیں۔صرف رعایا
کے لیے اوپر سے آنے پر یقین رکھتے ہیں۔اسی دن کے ایک قومی اخبار میں کراچی
سے خبر ہے کہ وزیراعلی سندھ قائم علی شاہ نے اعتراف کیا ہے تھر میں واقعی
قحط سالی موجود ہیں۔صوبائی حکومت نے قحط زدہ علاقوں میں گندم کی تقسیم تیز
کردی ہے۔صوبائی وزیر سندھ سیّد علی مراد شاہ کی اہلیہ کے انتقال پر تعذیت
کرنے کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے قائم علی شاہ نے مزید کہا کہ خشک
سالی کے خاتمے تک یہ امداد جاری رہے گی۔میٹھے پانی کی فراہمی کو یقینی
بنایا جارہا ہے۔بچوں اور بڑوں کی بیماری سے نمٹنے کے لیے سرکاری ہسپتالوں
میں ادویات کی فراہمی کو یقینی بنایا گیا ہے۔ریلیف گندم کی تقسیم کو مزید
شفاف بنانے کے لیے صوبائی کابینہ نے کمیٹی تشکیل دی ہے ۔جو گندم کی تقسیم
کی مانیٹرنگ کرے گی۔وزیراعلی سندھ نے کہا کہ ضلع تھر پارکر میں شہید بینظیر
بھٹو کی برسی کے موقع پر ایک سو تیس آراوپلانٹ کا افتتاح کیا جائے گا۔جب کہ
سات سو پچاس آراوپلانٹ کا کام جون دوہزارپندرہ تک مکمل کر لیا جائے
گا۔پلانٹس کے بعد تھر میں پانی کی کمی اسی فیصد دور ہوجائے گی۔بقیہ بیس
فیصد علاقوں میں پانی پائپ کے ذریعے پہنچایا جائے گا۔پندرہ نومبر کے ایک
قومی اخبار میں ہے کہ سندھ اسمبلی کے اجلاس سے قبل شرجیل انعام میمن نے کہا
کہ تھر پارکر میں قدرتی آفت گذشتہ پچاس سے ساٹھ سال پرانی ہے۔ان کا کہنا
تھا کہ تھر پارکر پر سیاست کرنے والے بتائیں کہ کیا ایک رات میں سب کچھ
ٹھیک کیا جاسکتا ہے۔شرجیل میمن نے کہا کہ وزیراعلی سندھ پر تنقید کا مطلب
سندھ حکومت پر تنقید کرنا ہے۔انہوں نے کہا کہ گذشتہ ۶ برس میں سندھ حکومت
نے تھر پارکر میں جو ترقی کی ہے۔اس کی ماضی میں مثال نہیں ملتی۔تھر پارکر
کے عوام کا سب سے بڑا مسئلہ پینے کے صاف پانی کا ہے۔اس کے لیے سندھ حکومت
نے گذشتہ برسوں میں بھی آراوپلانٹس لگائے ہیں۔اور اب مزید سات سو پچاس آراو
پلانٹس لگائے جارہے ہیں۔جس سے تھر کی ۹۰ فیصد آبادی کو پینے کا صاف مفت
فراہم ہوسکے گا۔شرجیل میمن نے کہا کہ ہم آج میڈیا کو بھی دعوت دیتے ہیں کہ
آئیں اور دیکھیں کہ تھر پارکر کے دوران کس طرح سڑکوں کے جال بچھائے گئے
ہیں۔تھر پارکر میں ترقیاتی کاموں میں ریکارڈ قائم ہوئے ہیں۔سولہ نومبر کے
ایک قومی اخبار میں ہے کہ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے متحدہ قومی موومنٹ
رابطہ کمیٹی کے رکن حیدر عباس رضوی نے کہا کہ وڈیروں اور جاگیرداروں نے
سندھ کو برباد کردیا ہے۔تھر مین تین سو سے زائدبچوں کی اموات ہوئی
ہیں۔محلات میں بیٹھنے والوں کو کیا معلوم کہ معصوم پھول جیسے بچوں کی لاشیں
دفنانا کتنا بڑا عذاب ہے۔تھر کی ہلاکتوں کی ذمہ دار سندھ حکومت ہے۔اسی تھر
کا بہت سا حصہ ہندوستان میں ہے وہاں پر اس قسم کی پے درپے ہلاکتیں نہیں
ہوتیں۔حییدر عباس رضوی نے انکشاف کیا کہ تھر کے کوئلے کو تاحال استعمال
نہیں کیا گیا۔جو کہ سندھ اور پاکستان پر ظلم ہے۔کیونکہ عالمی سطح پر کوئلے
کے استعمال پرپابندی کا قانون لاگو ہورہا ہے۔جس کے بعد تھر کا اربون ٹن
کوئلہ کسی کام کا نہیں رہے گا۔کشمیر تک گیس پائپ لائن بچھائی جاسکتی ہے
توتھر کو پینے کا پانی دینے کے لیے کوتاہی سمجھ سے بالا تر ہے۔۱۷ نومبر کے
ایک قومی اخبار مین مٹھی سے خبر ہے کہ تھر میں قحط اور حکومتی غفلت کے سبب
غذائی قلت کا شکار بچے موسم کی تبدیلیوں میں کے اثرات کامقابلہ نہیں کرپا
رہے ہیں۔بڑھتی ہوئی سردی نے پیاسے صحرا میں اموات میں بھی اضافہ کردیا
ہے۔سول ہسپتال مٹھی میں مختلف امراض میں مبتلا چالیس بچے زیر علاج ہیں۔جبکہ
صحرائے تھر کے دور دراز علاقوں سے مریضون کو ہسپتال لانے کا سلسلہ تھمنے کا
نام نہیں لے رہا۔دوسری جانب صوبائی حکومت کی طرف سے اب تک کیے جانے والے
اقدامات دعووں تک ہی محدود ہیں۔نجی فلاحی تنظیموں کی جانب سے لگائے گئے
میڈیکل کیمپ اور اشیاء کی تقسیم کاکام مٹھی اوردیگر چند ایک قصبات میں ہی
کیا جارہا ہے۔جس کی وجہ سے دوردرازکے علاقوں میں مقیم افراد قحط کے باعث
بدحالی کا شکار ہیں۔اٹھارہ نومبر کے ایک قومی اخبار میں تھرپارکر سے خبر ہے
کہ ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسر ڈاکٹر عبدالجلیل بھرگڑی کا کہنا ہے کہ اموات کی وجہ
غذائی قلت قبل ازوقت پیدائش اور وزن میں کمی ہے۔محکمہ صحت کے مطابق تھر کے
سرکاری ہسپتالوں میں غذائی قلت اور اس سے ہونے والی بیماریوں کے باعث
دوہزارگیارہ سے اکتیس اکتوبر دو ہزار چودہ تک سولہ سو سے زائد بچے جاں بحق
ہوچکے ہیں۔دوسری طرف تھرمیں صاف پانی کی دستیابی خواب بن چکا ہے۔پیاسے تھر
کے باشندے ایک ایک بوند کو ترس رہے ہیں۔تھر کے صحرا میں غریبوں کی قسمت کو
بدلنے کے وعدے کبھی پورے نہیں ہوئے مگر پھر بھی زندگی جس حال میں تھی
گزررہی تھی۔مگر مسلسل تیسرے سال پڑنے والے قحط نے تو علاقہ میں کیا انسان
کیا حیوان سب کو ایک ہی قطار میں کھڑا کردیا ہے۔پیاس کی شدت نے انسان اور
جانوروں کو ایک ہی گھاٹ سے پانی پینے پر مجبور کر دیا ہے۔حکومتی وزراء اور
سیاستدانوں کی کارکردگی سول ہسپتال اور ڈی سی او آفس جبکہ سماجی فلاحی
ادارون کا کام ضلعی ہیڈ کوارٹر مٹھی تک محدود ہے۔شاید ان کی نظر میں سارا
قحط یہیں اتر آیا ہے۔جبکہ چھاچھرو ، ڈیپلو اور ننگر پاررکر کے سرحدی دیہات
اور دوردراز کے وہ علاقے جو قحط سالی سے انتہائی متاثرہ ہیں کوئی توجہ دیتا
نظر نہیں آتا۔دوردراز کے علاقوں میں قحط کی صورت حال یر گزرتے دن کے ساتھ
سنگین ہوتی جارہی ہے۔متاثرین کا کہنا ہے کہ اگر ان علاقوں پر توجہ نہ دی
گئی توتو بدترین المیے جنم لے سکتے ہیں۔مسلم لیگ کی راہنما ماروی میمن نے
کہا ہے کہ پیپلزپارٹی نے پانی کے جو پلانٹ لگائے ہیں۔ان میں سے بھی زیادہ
تر کاغذ پر ہیں۔میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ سندھ حکومت نے
مٹھی میں حالات بہتر کر لیے مگر اسلام کوٹ سمیت تھر کے دیگر علاقوں
نیوٹریشنٹ موجود نہیں انہوں نے کہا کہ تھر کی بہتری کے لیے وفاقی حکومت
اقدامات کررہی ہے۔انیس نومبر کے ایک قومی اخبار میں مٹھی اور تھر پارکر سے
خبر ہے کہ گیارہ ماہ کے دوران غذائی قلت اوردیگرامراض سے جاں بحق ہونے والے
بچوں کی تعداد ۵۲۳ ہوگئی ہے۔مٹھی کے سول ہسپتال میں وینٹی لیٹر اورسٹی
سکینر سمیت دیگر سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے بچوں کوروزانہ دیگر ہسپتالوں
میں ریفر کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔گیارہ ماہ کے دوران تین سو سے زائد بچوں کو
ریفر کیا جاچکا ہے۔چھاچھرو اورڈاہلی میں گیسٹرو اورنمونیا کی آفت بھی آن
پڑی ہے۔مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ وڈیروں اور سیاسی مداخلت کے باعث غریب
اور متاثرہ لوگوں کوگندم نہیں مل رہی سرکار کے اعلانات صرف بیانات تک محدود
رہ چکے ہیں۔
تھر میں قحط کی صورت حال کے بارے میں پڑھ اور سن کر یوں لگتا ہے کہ کسی کو
اس کا احساس ہی نہیں۔اس سانحہ کی ذمہ دار ایک طرف صوبائی حکومت ہے تو وفاقی
حکومت بھی اس سے بری الذمہ نہیں ہوسکتی۔یہ سیاسی نہیں انسانی مسئلہ ہے۔سب
کو اس طرف توجہ دینا ہوگی۔وزیراعظم کا پاک فوج کو امداد پہنچانے کا حکم
دینا ہی کافی نہیں۔ ان کو خود قحط سے متاثرہ علاقوں میں امدادی کارروائیوں
کی نگرانی کریں ۔ نواز شریف اپنی تمام سیاسی اور دیگر مصروفیات کو معطل
کرکے تھر پارکر کا دورہ کریں۔ اور ان علاقوں کے قحط متاثرین کو سب سے پہلے
خوراک، پانی، ادویات اور دیگر ضروریات زندگی اپنے ہاتھ سے تقسیم کریں جن
علاقوں میں ابھی تک یہ امدادی کارروائیاں نہیں ہوئیں یا بہت کم ہوئیں ہیں۔
پھر ان علاقوں میں امداد تقسیم کریں جن علاقوں میں کسی نہ کسی صورت میں
امدادی سرگرمیاں جاری ہیں۔گورنر سندھ اور وزیر اعلی سندھ کو بھی متاثرین کے
ساتھ رہنا چاہیے وہاں امدادی سرگرمیوں کی براہ راست نگرانی کرنی چاہیے۔ یہ
وقت محلات اور اسمبلی ہالوں میں نہیں تھر پارکرمیں گزارنے کا ہے۔سندھ کے
وزراء، سرکاری افسران، سیاستدانوں ، تاجروں اور دیگر نمائندہ طبقات کو بھی
قحط زدہ علاقوں میں متاثرین کی مدد کرنی چاہیے۔تمام وزراء اور سرکاری
افسران زیادہ نہیں تو تین دن کی تنخواہ ، تمام تاجر حضرات اپنی دو دن کی
آمدنی، تمام ڈرگ کمپنیاں ، کورئیر کمپنیاں ، اور دیگر کمپنیاں اپنی دو دن
کی آمدنی، تمام وکلاء ایک ایک مقدمہ کی فیس قحط کے متاثرین کودیں۔تھر کے
باشندوں کو صرف چند دن امداد دے کر ہی نہ بہلایا جائے بلکہ ان کی مشکلات کو
آسان کرنے کے لیے مستقل بنیادوں پر اقدامات کیے جائیں۔ایک دوست کہہ رہا تھا
کہ یہ قحط اگر پنجاب میں آیا ہوتا تو شہباز شریف متاثرین کے ساتھ دکھائی
دیتا۔سندھ حکومت پینے کے پانی کی فراہمی کے لیے تو اقدامات کررہی ہے۔ خوراک
اور ادویات کی فراہمی کے لیے بھی اقدامات کرے۔وفاقی اور صوبائی حکومتیں
امدادی سامان متاثرین تک پہنچانے کے لیے خصوصی اقدامات کریں۔تھر میں اس
صورت حال کے ذمہ داروں کا تعین کرکے ان کے خلاف ایسی کارروائی کی جائے کہ
آئندہ کسی کو یہ غفلت کرنے کی سوچ بھی نہ آئے۔ |
|