اُمیدِ بہار رکھ
(Prof Riffat Mazhar, Lahore)
عشروں سے اقتدار پر قابض وہی
سٹیٹس کو کے نمائندے ہیں جن کے اجداد یا تو پاکستان کے مخالف تھے یا پھر
حصولِ پاکستان کی جدوجہد سے لاتعلق۔اسی بنا پر قومی سیاست میں ’’سٹیٹس
کو‘‘مضبوط سے مضبوط تر اور جمہوریت کمزور سے کمزور تر ہوتی چلی جا رہی ہے
۔ہم لاکھ آزادیٔ جمہور کے ترانے گائیں ،تلخ حقیقت تویہی ہے کہ اب جمہوریت
اور آمریت میں تمیز کرنا مشکل ہوگیا ہے ۔آمریتیں بھی آتی رہیں اور آمرانہ
جمہوریتیں بھی لیکن بھوکوں مرتے عوام کا بھلا کسی کے ہاتھوں نہ ہوا
۔مایوسیاں اُگتی رہیں ،محرومیاں پَلتی رہیں اور اشرف المخلوقات کی حالت یہ
کہ
فرشتوں نے جسے سجدہ کیا تھا
وہ کَل فُٹ پاتھ پہ مُردہ پڑا تھا
پھرسٹیٹس کو کے خلاف ایک توانا آواز اُٹھی اور حالات کے کچلے انسانوں
،خصوصاََ نوجوانوں نے اُس آوازپر والہانہ لبیک بھی کہاکہ وہ اپنے خون سے
پَلنے والی جونکوں کو مزید مہلت دینے کے لیے تیار نہیں تھے ۔یہ توانا آواز
عمران خاں صاحب کی تھی جو 1992ء کا ورلڈ کپ جیتنے کے بعد قومی ہیرو کا درجہ
حاصل کر چکے تھے ۔ورلڈ کپ تو ہر چار سال بعد عالمی برادری کاکوئی نہ کوئی
کپتان جیت ہی جاتا ہے لیکن عمران خاں صاحب کا اصل کارنامہ تو شوکت خانم
کینسر ہسپتال اور نَمل یونیورسٹی ہے ۔یہ کارنامے ایسے ہیں کہ جن کی جتنی
بھی تحسین کی جائے کم ہے۔قوم نے سوچا کہ اگر ایک تنہاشخص اپنے عزمِ صمیم کے
ساتھ ایسے کارنامے سر انجام دے سکتا ہے تو یقیناََ قوم کی تقدیر بھی بدل
سکتا ہے ۔لاریب اُس وقت خاں صاحب کی مقبولیت سمندروں سے وسیع اور ہمالیہ سے
اونچی تھی لیکن گَڑ بَڑ وہاں ہوئی جہاں ’’سٹیٹس کو‘‘کے نمائندوں اور فصلی
بٹیروں نے دھڑادھڑ تحریکِ انصاف میں شمولیت اختیار کرنا شروع کی اور خاں
صاحب کا رویہ ہر کسی کے لیے کچھ یوں کہ ’’میرا دَر کھُلا ہے ،کھُلا ہی رہے
گا تُمہارے لیے‘‘۔تَب اذہان وقلوب میں شَک کے سنپولیے رینگنے لگے اور سوچوں
کا محور یہ کہ ’’کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے‘‘۔اِس کے باوجودبھی لوگوں نے
سوچا کہ خاں صاحب کی قَدآور شخصیت سٹیٹس کو کے اِن نمائندوں کو سیدھاکر دے
گی ۔خاں صاحب نے بھی باربار یہ کہا کہ اگر سَربراہ دیانتدار ہوتو کوئی
بَددیانتی کی جرأت نہیں کرسکتا۔ شخصی خامیوں کے بارے میں لوگ یہی کہتے تھے
کہ معصوم عن الخطاتوکوئی بھی نہیں ہوتا ۔اسی لیے قوم نے 2013ء کے انتخابات
میں تحریکِ انصاف کو پاکستان کی دوسری بڑی سیاسی جماعت کے درجے پر فائز کر
دیا ۔تحریکِ انصاف کو خیبرپختونخوا کی حکومت بھی ملی اور پاکستان کے سب سے
بڑے صوبے کی حزبِ اختلاف کی قیادت بھی ۔پہلے پہل تو اپنی اِس کامیابی پر
کپتان صاحب مطمعن بھی نظر آئے لیکن پھر ’’صلاح کاروں‘‘کے ایسے ہتھے چڑھے کہ
’’نے ہاتھ باگ پر ہے نہ پا ہے رکاب میں‘‘کی سی کیفیت ہوگئی ۔وہ کپتان کہ
جنکے بارے میں ہم وثوق سے کہا کرتے تھے کہ اُن کی باتیں سچائی کی مہکارسے
لبریز ہیں ،اُسی کپتان نے اتنے یوٹرن لیے اور ایسی زبان استعمال کرنا شروع
کی کہ ندامت محسوس ہونے لگی ۔ایچی سَن اور رآکسفورڈ کے پڑھے عمران خاں ایسے
تو ہرگز نہ تھے جیسے اب ہیں،پتہ نہیں یہ زہراُگلتی زبان کس کی ہے۔کہا جا
سکتا ہے کہ یہ اُس صحبت کا اثر ہے جو آجکل خاں صاحب کو میسرہے۔اسی لیے تو
کہا جاتا ہے
با بداں کم نشیں کہ صحبتِ بَد
گَر چہ تُو پاکی ترا پلید کنند
خاں صاحب کے پہلو میں براجماں شیخ رشید نامی ایک فصلی بٹیرے کو تو ہم بھی
جانتے ہیں جو انتخابات سے پہلے تک نوازلیگ میں واپسی کے لیے ہر کسی کے
تَلوے چاٹتا رہا لیکن جب کسی نے گھاس نہ ڈالی تو کپتان صاحب کی
’’چوکیداری‘‘میں ہی عافیت ڈھونڈلی ۔ننکانہ صاحب کے جلسے میں اُس نے اپنی
بَدزبانی اور بَدکلامی کی انتہا کر دی ۔پیپلزپارٹی پرگرجتے ہوئے اُس نے کہا
’’قائم علی شاہ کہتے ہیں کہ مِٹھی میں بچے بھوک سے نہیں مرے ،قائم علی شاہ
کو شرم سے ڈوب مرنا چاہیے ۔اگر یورپ میں کوئی کُتے یا بِلّی کا بچہ بھی
بھوک سے مرتا ہے تو حکومت ختم ہوجاتی ہے ‘‘۔بالکل بجا کہ عین اسلام یہی ہے
اور حضرت عمرؓ تو اِس بات سے بھی لرزہ بَراندام تھے کہ اگر دریائے فرات کے
کنارے بھوک سے ایک کُتا بھی مَر گیا تو روزِقیامت اُن کی پُرسش ہوگی ۔سوال
مگر یہ ہے کہ شیخ صاحب کا اپنا کردار کیاہے؟۔اُن کے مربی و محسن آمرمشرف کے
دَور میں مظلوموں ،مجبوروں اور مقہوروں کے ساتھ کون سا ظلم ہے جو روا نہیں
رکھا گیا،کتنے بے گناہ قتل ہوئے اور کتنے پاکستانیوں کو عالمی دہشت
گردامریکہ کے ہاتھوں بیچاگیالیکن اُس وقت توشیخ صاحب بڑے فخرسے کہا کرتے
تھے کہ پرویزمشرف کی والدہ نے اُن کواپنا بیٹا بنارکھا ہے ۔اگر شیخ صاحب
میں ذراسی بھی شرم ہوتی تو بھلے ڈوب نہ مرتے ،کم از کم وزارت سے چمٹے تو نہ
رہتے ۔ننکانہ صاحب میں شیخ صاحب نے بڑھکیں لگاتے ہوئے کہا ’’عوام کرپٹ ،چور
،ڈاکو ،بے ایمان ،کمینے ،کمینی حکومت کے خلاف 30 نومبر کو باہر نکلیں ،
ماریں ،مَرجائیں ،جلاؤ گھیراؤ کریں‘‘۔ قوم کو حکومت کے خلاف بغاوت پر
اکسانے والایہ پیغام تحریکِ انصاف کے پلیٹ فارم سے دیاگیا اِس لیے لامحالہ
یہی سمجھاجائے گا کہ تحریکِ انصاف قوم کو بغاوت پر اکسا رہی ہے ۔میں نے
ذاتی طور پر تحریکِ انصاف کے چند لوگوں سے رابطہ کرکے استفسار کیا کہ کیا
تحریکِ انصاف شیخ رشید کے اِس بیان کی ذمہ داری قبول کرتی ہے ؟۔مجھے خوشی
ہے کہ سبھی نے اِس سے بیزاری کا اظہار کیا اور اب تو محترم عمران خاں صاحب
نے بھی بہ اندازِحکیمانہ شیخ رشید صاحب کے اِس بیان سے یہ کہہ کر لاتعلقی
کا اظہار کردیا ہے کہ ’’30 نومبر کے بعد حکومت کے خلاف جو کچھ کریں گے وہ
پُرامن ہی ہوگا‘‘۔اکابرینِ تحریکِ انصاف بھی’’ٹاک شوز‘‘میں شیخ صاحب کی
بڑھکوں سے لاتعلقی کااظہار ہی کرتے نظرآتے ہیں اِس لیے ہم اب بھی تحریکِ
انصاف سے نا اُمید نہیں۔ اگر خاں صاحب شخ رشید جیسے فصلی بٹیروں سے جان
چھڑالیں تو وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ وہ ملکی سیاسی تاریخ کااثاثہ ثابت
ہوسکتے ہیں۔اسی بنا پرہم کہتے ہیں کہ اُمیدِ بہاررکھنے میں ہرج ہی کیا ہے۔ |
|