ملائم سنگھ یادونے سابقہ
اورحالیہ وزرائے اعظم کا موازنہ کرتے ہوے ایک نہایت دلچسپ بات کہی۔ وہ بولے
منموہن کچھ بولتے ہی نہیں تھے اورمودی بے تکان بولے چلےجاتےہیں۔ سیاستدانوں
کو جب بولنے کیلئے کچھ نہیں سوجھتا تو وہ دہشت گردی کا راگ الاپنے لگتے ہیں
ایسا ہی کچھ ہمارے بڑبولے والے وزیر اعظم کے ساتھ حالیہ آسٹریلیا دورے کے
موقع پر ہوا۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے مشرقی ایشیا سربراہ اجلاس میں دہشت
گردی کے خلاف سخت موقف اختیار کرتے ہوئے اعتراف کیا کہ دہشت گردی اورانتہا
پسندی کے چیلنج بڑھتے جا رہے ہیں اس لئےتمام ممالکمذہب اور دہشت گردی
کےدرمیان ہرتعلق کاخاتمہ کردیں۔وزیر اعظم نے کہا کہ دہشت گردی کا جامع طور
پر جواب دینےکے لیے بین الاقوامی اشتراک کی ضرورت ہے۔ برس بن میں منعقدہ جی
۲۰اجلاس میں بھی انہوں نے دہشتگردی کے خاتمہ کےلئے عالمی اتحاد کوناگزیر
قرار دیا۔وزیر اعظم نے دولت اسلامیہ (داعش) سے متعلق اعلانیہ کو ہندوستان
کی حمایت کا بھی اعلان کیااورتمام ملکوں کو تلقین کی کہ امن و استحکام کے
لیے بین الاقوامی قوانین اوراصولوں کی پابندی کریںکیونکہ عالمگیریت کے اس
دور میںاس کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے۔ وزیراعظم نے یہ بھی کہا کہ حکمرانی
تبدیلی کا نقطۂ آغاز ہے اور یہ تجارت کے لیے بھی اتنا ہی اہم ہے جتنا عوام
کے لیے۔ آپ بھارت میں یہ تبدیلی پائیں گے۔
عالمی و قومی ذرائع ابلاغ میں جس وقت یہ بیانات نشر کررہا تھا اس دوران
دہلی کی ہمسایہ ریاست ہریانہ کے شہر حصارمیں بابا رام پال آشرم کے مناظر
ٹیلی ویژن کے پردے ان بلند بانگ دعووں کی ہنسی اڑا رہے تھے۔ جب انہوں نے
کہا’’ دہشت گردی اورانتہا پسندی کے چیلنج بڑھتے جا رہے ہیں‘‘ تو ایسا لگا
گویا وہ حصار کی صورتحال پر تبصرہ فرمارہے ہیں۔ جب بولے کہ ’’ مذہب اور
دہشت گردی کےدرمیان ہرتعلق کاخاتمہ کردیں‘‘ تو یوں لگا گویا نوزائیدہ وزیر
اعلیٰ کھتر کو نصیحت کررہے ہیں۔لیکن جب وزیر اعظم نے کہہ دیا کہ’’ دہشت
گردی کا جامع طور پر جواب کے لیے بین الاقوامی اشتراک کی ضرورت ہے‘‘ تو
اندیشہ ہواکہیں وہ اقوام متحدہ سے درخواست کرکے ہریانہ میں بین الاقوامی
امن فوج نہ طلب کرلیں۔ اس لئے کہبرسبنمیںوہ
دہشتگردیکےخاتمہکےلئےعالمیاتحادکوناگزیر قرار دے چکے تھے۔وزیر اعظم نے جب
داعش سے متعلق اعلانیہ کو ہندوستان کی حمایت کا اعلان کیا تو خیال ہوا کہ
جس ملک کے چالیس ہزار حفاظتی دستے کئی دنوں تک ایک سادھو کو گرفتار نہ
کرسکیں وہ بھلا داعش کا کیا مقابلہ کریں گے۔ آپ نے جب تمام ملکوں کوتلقین
کی کہ امن و استحکام کے لیے بین الاقوامی قوانین کی پابندی کریںتو اس وقت
وزیراعلیٰ ہریانہ ہاتھ جوڑ کر رام پال بابا کے بھکتوں سے گزارش کررہے تھے
کہ برائے کرم عدالتی احکامات کے نفاذ میں رکاوٹ نہ بنیں ۔ اگر اس کے جواب
رام پال بابا کے بھکت بھی وشوا ہندو پریشد والا جواب دے دیتے کہ رام مندر
ہماری شردھا کا ویشہ ہے اس بابت ہم کسی عدالت کی مداخلت نہیں برداشت کریں
گے تو ان کو کیسا لگتا؟ وزیر اعظم کے بیان’’ حکمرانی تبدیلی کا نقطۂ آغاز
ہے ۰۰۰۰۰۰ آپ بھارت میں تبدیلی پائیں گے‘‘ سننے کے بعد جی چاہا کہ سامعین
کو ان ریاستوں کا دورہ کرنے کی دعوت دی جاے جہاں بی جےپی برسرِ اقتدار
آچکی ہے تاکہ وہ اس عظیم تبدیلی کا بچشمِ خود مشاہدہ کرکے اپنی آنکھوں کو
ٹھنڈا کرسکیں دور نہ سہی تو دہلی کے بغل میں ہریانہ ہے وہیں چلے جائیں۔
رام پال بابا کے بارے میں یہ جاننے کے بعد کہ وہ بی جےپی کیلئے داعش سے
زیادہ خطرناک ثابت ہواہے قارئین یہ جاننا چاہیں گے آخر یہ ہے کون؟ اس لئے
کہ وزیراعظم کے بابت لوگ وہ سب بھی جان گئے ہیں جو وہ نہیں ہیں۔رام پال کی
پیدائش نریندر مودی کے ایک سال بعد ماہ ستمبرہی میں میں ہوئی۔ اس طرح دونوں
کی جنم کنڈلی ایک جیسی ہے۔ خوش قسمتی سے رام پال کو بچپن میں کوئی سنگھ کی
شاکھا نہیں ملی ورنہ وہ بھی وارنٹ کے نکلتے ہی یدورپاّ کی طرح کسی ہسپتال
میں داخل ہوتا اور وہاں سے عدالت میں جاکر ضمانت پر رہا ہوجاتا۔ رام پال
بابا کس قدر خطرناک آدمی ہے اس کا اندازہ کرنے کیلئے جودھپورکورٹ میں
کاپرڈا کے مہندرکھاروال کا لگایا ہوا الزام کافی ہے۔ مہندر کے مطابق اس کے
والد جگدیش رام کو اغواء کرکے اس کی بلی چڑھایا گیا ہے۔ شکایت کنندہ کے
مطابق مہیش میواڑ اور اس کی ماں جشودہ دھوکے سے جگدیش رام کو رام پال کے
آشرم میں لے گئے اور وہاں اولاد کے حصول کی خاطر اس کی بلی چڑھا دی۔ مہندر
۱۰ جون ۲۰۱۳کو جب ست لوک آشرم میں پہنچا تو اسے اپنے والد کی کٹی پھٹی
لاش ملی ۔ اس کے پیر کی انگلی کٹی ہوئی تھی اور پیر داغا گیا تھا۔ کنپٹی،
سینے، کندھے ، گردن اور دونوں ہاتووں پر کسی دھاردار ہتھیار سے زخم کے کئی
نشان تھے ۔
رام پال بابانےانجینئر بننے کے بعد ۱۹ سالوں تک محکمہ زراعت میں ملازمت کی
۲۰۰۰ میں لاپرواہی کے سبب اسے نکال دیا گیا ۔ اس سے قبل ۱۹۹۹ میں وہ
کرونتھا کے اندراپنا ست لوک آشرم قائم کر چکا تھا ۔ ۲۰۰۱ میں بروال کا
آشرم بنا جو ۳ ایکڑ پر تھا لیکن ۲۰۰۸ تک ۱۲ ایکڑ میں پھیل گیا۔ دیکھتے
دیکھتے ہریانہ وہ دیگر ریاستوں میں بھی کئی کئی ایکڑ پر بہت سارے آشرم
عالمِ وجود میں آگئے۔شروعات میں سب کچھ ٹھیک تھا مگر ۲۰۰۶ میں رام پال
بابا نے دیانند سرسوتی پر تنقید کردی جس سے کرونتھا کے آریہ سماجی چراغ پا
ہوگئے۔ ۱۲ جولائی ۲۰۰۶ کو جب آریہ سماجی ست لوک آشرم کے باہر مظاہرہ
کررہے تھے تو ان پر اندر سے گولی چلائی گئی جس میں ایک نوجوان ہلاک ہو گیا۔
اس معاملے میں رام پال اور اس کے ۳۷ ہمنواوں پر مقدمہ درج ہو گیا۔ اس کے ۷
سال بعد پولس اور مظاہرین کے درمیان جھڑپ میں ۳ لوگوں کی موت واقع ہوگئی۔
۱۴ مئی ۲۰۱۳ کو پولس نے کرونتھا کا آشرم خالی کرایا اس کے بعد رام پال
بروال چلے آئے۔ رام پال کی ایسی ٹھاٹ ہے کہ ۱۴ مئی ۲۰۱۴کو ویڈیو
کانفرنسنگ کے ذریعہ اس کی حصار عدالت میں پیشی ہوئی اس طرح اس نے ثابت
کردیا کہ اگر پابندی کے باوجود نریندر مودی ویڈیو کے ذریعہ امریکہ اپنی
تقریر نشر کرواسکتے ہیں تو وہ بھی عدالت میں قدم رکھے بغیر پیش ہوسکتے
ہیں۔بابارام پال تو عدالت میں نہیں گئے لیکن ان کے بھکتوں نے عدالت میںگھس
کر خوب ہنگامہ کیا اور نعرے بازی کرتے ہوئے وکیلوں کے ساتھ ہاتھا پائی بھی
کی۔
عدالت اس کا سخت نوٹس لیا اورتوہین عدالت کا الزام لگا کر غیر ضمانتی وارنٹ
جاری کردیا۔ عدالت نے انتظامیہ کو حکم دیا کہ وہ پہلے ۵ اور پھر۱۰ نومبر تک
رام پال کو حاضر کرے لیکن پولس اور نئی نویلی بی جے پی حکومت سوتی رہی ۔ اس
کے بعد ۱۷ نومبر تک کا وقت دیا گیا انتظامیہ اس بار بھی ناکام رہا تو عدالت
نے حکومت اور پولس دونوں کوزوردار پھٹکار لگائی اور ۲۱ نومبر تک کسی صورت
ملزم کو حاضر کرنے کا حکم دیا۔ اب انتظامیہ ہوش میں آیا اور اس نے حفاظتی
دستوں کو جمع کرنا شروع کیا یہاں تک کے ۴۵ ہزار جوان جمع ہوگئے اور ان پر
۴۰ کروڈ روپئے پھونک دئیے گئے۔ اس کے بعدوزیراعلیٰ نے ایمرجنسی اجلاس بلایا
اور بابا کے بھکتوں سے ہاتھ جوڑ کر پرارتھنا کی کہ وہ پولس کو قانون کی
بجاآوری کرنے دیں ۔اس کے بعد آشرم کی بجلی اور پانی کا کنکشن کاٹ دیا گیا
اور حفاظتی دستوں نے آشرم کی جانب یوں پیشقدمی کی گویا مہابھارت کی جنگ
لڑنے کیلئے کروکشیتر جارہے ہوں۔ یہ خبر بھی گرم ہے کہ پولس فورس میں ۱۰
فیصد بابا رام پال کے بھکت ہیں اس لئے پولس افسران تذبذب کا شکار ہیں۔
حکومت جس وقت یہ تیاریاں کررہی تھی رام پال کے بھکت اپنی پیش بندی میں لگے
ہوئے تھے۔ انہیں پتہ تھا کہ آگے کیا کچھ ہو سکتا ہے اس لئے ان لوگوں نے
بھکتوں کی ایک بہت کثیر تعداد کو آشرم میں جمع کرلیا جس میں بڑی تعداد
عورتوں اور بچوں کی تھی تاکہ انہیں انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کیا
جاسکے۔خوراک اور پانی کا بڑا ذخیرہ جمع کرلیا گیاتاکہ حصار کے دوران
باآسانی وقت گزرے یہانتک کے جنریٹر اور ڈیزل بھی لے آئے جس سےبجلیکے بغیر
گزارہ کیا جاسکے۔ آشرم کے اندر بھکتوں کے پاس اشیائے خوردونوش کے علاوہ
اچھی خاصی مقدار میں اسلحہ اور پٹرول بم بھی ہے جس کا وہ نہایت چابکددستی
کے ساتھ استعمال بھی کرچکے ہیں ۔ دو ہفتہ قبل جب عدالت نے وارنٹ جاری کیا
اس وقت یہ آشرم سونا پڑا تھا اور رام پال کو گرفتار کرنا نہایت آسان تھا
لیکن سرکار اور انتظامیہ گھوڑے بیچ کر سورہی تھی اور بابا کے بھکت تیاری
کررہے تھے اب چڑیا کھیت چگ چکی ہے اس لئے پچھتانے سے کوئی فائدہ نہیں۔چین
کو دھمکی دینے والے بے دست پا وزیرداخلہ راج ناتھ سنگھ اپنی ہی جماعت کے
وزیراعلیٰ سے رپورٹ طلب کررہے ہیں ۔ بہتر یہ ہے کہ وہ تل ابیب میں اپنےقلبی
شراکت دار نتن یاہو سے رابطہ کرکے پوچھیں کہ اس مسئلہ پر کیسے قابوپایا
جائے ؟
رام پال کے حامی دیوار پر چڑھے ہوئے ہیں ۔ ان کے ہاتھوں میں پٹرول اورتیزاب
بم نیزپتھر ہیں جنہیں وقتِ ضرورت پولس کی جانب اچھال دیا جاتا ہے۔ ڈی جی پی
کے مطابق آشرم سے گولیاں بھی چلائی گئیں ۔ پولس ایکشن کے ۶ گھنٹوں میں ۹۰
راؤنڈ فائرنگ ہوئی۔ دونوں جانب سے ۳۳۰ لوگ زخمی ہوئے جن میں ۱۲۵ پولس
اہلکار ہیں ان میں سے ۹ کو گولی لگی ہے اور ۷۶ کی حالت نازک بتائی جاتی ہے۔
آشرم کے ذمہ دار کا کہنا ہے اس کارروائی میں ۸ لوگ ہلاک ہوئے جن میں پانچ
خواتین ہیں پولس نے ہلاکتوں کی تردید کی ہے لیکن آشرم سے ۵ لاشیں باہر
آچکی ہیں ۔ ۴۵ ہزار کا عظیم دستہ ۶ گھنٹے بعد صرف ایک دیوار گرانے میں
کامیاب ہوسکا اس لئے کہ سامنے گیس سلنڈر لگا کررکھے گئے تھے ۔ پولس تو یہ
دیکھ کر ٹھٹک گئی ۔ بابا کے بھکتوں نے اس کا فائدہ اٹھا کر پٹرول کی بالٹی
دیوار گرانے والےجے سی بی پر پھینک کر اسے آگ لگا دی۔ اس بیچ دہلی کی
نرملا دیوی اور احمدآباد کی گیتا دیوی نے خود کشی کی کوشش کی۔ یہ بات
قابلِ توجہ ہے کہ دہلی اور احمدآباد دونوں شہروں کا تعلق فی الحالوزیراعظم
سے ہے ۔
رام(پال) کے بھکتوں کی آنکھ مچولی سے بیزار فورس نے اپنا غصہ ٹی وی
رپورٹروں پر اتار ا ۔ پہلے انہوں نے ٹائمز ناؤ کے نامہ نگار کو پیٹا اور
پھر آج تک چینل کے رپورٹر کی دھنائی کردی۔ کل ۳۰ نامہ نگاروں کے زخمی ہونے
کی اطلاع آ چکی ہے۔ رام پال کے حامی حصارسے نکل کر دہلی پہنچ گئے ہیں اور
جنتر منتر پر مظاہرہ کررہے ہیں۔ ان کا ارادہ سپریم کورٹ کے محاصرے کا بھی
ہے۔اناج ختم ہو جانے کے سبباس میں شک نہیں کہ جلد ہی آشرم انتظامیہ کے
قبضے میں ہوگا اور رام پال عدالت میں لیکن اس واقعہ نے زعفرانی دہشت گردی
کو پوری طرح بے نقاب کردیا اور اس کے مقابلے میں رام بھکتوں کی نااہلی کی
قلعی بھی کھول دی ہے۔ رام پال کے مقابلے رام دیو بابا بہت زیادہ طاقتور ہے
اس کے باوجود جس آسانی سے کانگریس نے اس کو قابو میں کرلیا اس مہارت کا
مظاہرہ بی جے پی نہ کرسکی ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ پرچارک وزیراعلیٰ مدن لال
کھتر اپنے کارکنان کے ساتھ وزیراعظم کی واپسی کا انتظار کررہے ہیں ۔ ان
کارکنا ن کی اخلاقی حالت ظاہر کرنے والا واقعہ اس وقت سامنے آیا جب
کھترانتخاب میں کامیابی کے بعد پہلی مرتبہ اپنے حلقۂ انتخاب کرنال پہنچے
۔ایک عظیم الشان جلسہ میں ان کا زبردست استقبال کیا گیا۔ انہوں نے موقع کا
فائدہ اٹھا کر کارکنان کو نظم و ضبط کی نصیحت دی لیکن اس کی قلعی اس وقت
کھل گئی جب پروگرام کے بعد لڈو کے ڈبے کھلے اور کارکنان آپے سے باہر ہوکر
ان پر ٹوٹ پڑے۔ جس جماعت کے لوگ لڈو کو دیکھ کر قابو سے باہر ہو جاتے ہیں
وہ بھلا رام پال بابا کے بھکتوں کا کیا خاک مقابلہ کریں گے؟ |