چودھری رحمت علی !کوئے یار کو ترستا مسافر

آج زندگی میں پہلی بار احساس ہوا کہ کاش میں گجر نہ ہوتا وہ اس لئے کہ میں جب تحریک پاکستان کے دلیر اور دناشور بانی کی بات کرتا ہوں تو لوگ اسے برادری پرستی گردانتے ہیں۔پوری تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں چودھری رحمت علی کبھی بھی برادری پرستی کی بات نہیں کی کسی انجمن گجراں کی سر پرستی نہیں کی تمام عمر امت مسلمہ کی نشاط ثانیہ کے لئے سرگرداں رہے کوشش جد و جہد کرتے کرتے جہان فانی سے چلے گئے مگر اپنی عظیم الشان جد وجہد کے ایسے نشان چھوڑ گئے جو تا قیامت یاد رہیں گے۔کچھ تو ایسے تھے جو مونٹ ایورسٹ سر کر گئے اور کچھ اپنی جانیں دے گئے۔ضروری نہیں کہ ہر ایک کہ نصیب میں کامیابی لکھ دی گئی ہو کئی ایسے بھی ہوتے ہیں جن کا نام کوشش کرنے والوں میں شمار ہوتا ہے۔چودھری صاحب بھی انہی میں سے ہیں۔انہیں تحریک پاکستان کا ابوذر غفاری بھی کہا گیا اور مظلوم مجاہد بھی۔

۔اس بات پر تو اﷲ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ اس نے مجھے مسلمان گھرانے میں پیدا کیا۔عمر کی ۵۹ویں سالگرہ دو ہفتے پہلے منائی ہے۔یہ احساس تفاخر ہی رہا کہ میں مسلمان ہوں میں پاکستانی ہوں میں گجر برادری سے تعلق رکھتا ہوں لیکن جب بھی نومبر کا دوسرا ہفتہ آتا ہے ااور مجھے نقاش پاکستان کے لئے لکھنا پڑھتا ہے یا کوئی تقریب منانا پڑتی ہے تو مجھے دکھ ہوتا ہے جب قلم پکڑتا ہوں اب تو ان پیج پر انگلیاں ہوتی ہیں دکھ اس بات کا کہ میں اس کے لئے لکھ رہا ہوں جس نے ساری زندگی گجر ہونے کو احساس تفاخر نہیں بنایا میرا ایمان ہے بر صغیر پاک و ہند میں جب کسی نے یک پہلی مرتبہ کلمہ طیبہ پڑھا پاکستان تو اسی وقت بن گیا اس لئے کہ اس کے برتن الگ کر دئے گئے اس کو سونے کے لئے الگ جگہ دے دی گئی وہ جب ان کے چوکے کی طرف بڑھا تواسے ملیچھ قرار دے دیا گیا مسلہ اس کا نام تھا۔جب کبھی اسے پیاس لگی تو بلندی سے ایک آبشار بنا کر بک میں اسے پانی پینا پڑھا۔اس نے مسلمان ہونے کی بڑی قیمت چکائی ہو گی۔مدینے والے تو جانتا ہے کہ میرے بڑھوں نے جب اسلام قبول کیا تھا تو انہیں یہاں تمہارے بلال جیسی صعوبتوں کا سامنا کر نا پڑا تھا۔اس کے دکھوں کو طیبہ کی سرکار تو بڑے اچھے طرہقے سے جانتا ہے۔اﷲ کا نام لینا اب بھی مشکل ہے اس وقت ان دیوانوں پر کیا گزری ہو گی ذات پات سے ہٹ کر جب اس نے اسلام قبول کیا تو اس پر بھی وہی گزری جو مکہ میں گزرا کرتی تھی۔وہاں ابو جہل تھا یہاں بھی کوئی بلدیو سنگھ تھا وہاں ابو سفیان تھے تو یہاں بھی کیا کم ظلم تھا۔شودروں سے بڑھ کر دکھ اٹھانے والے لوگ۔بہت پرانی بات نہیں کرتاتحریک پاکستان کے دنوں سے چند سال پہلے کی بات ہے۔انڈین سول سروس کے ایک مسلمان آفیسر قدرت اﷲ شہاب ہوا کرتے تھے سول سروس کے آفیسر جو کم از کم مجسٹریٹ ہوا کرتے تھے انہوں نے لکھا کہ میں ایک جگہ کا دورہ کرنے نکلا تو میرے اعزاز میں پر تکلف دعوت دی گئی بہت اچھے برتن لگائے گئے میں بہت خوش ہوا کہ ہندو نے مسلمان کی دعوت کی ہے۔انہوں نے لکھا میں چند سال بعد گیا تو وہی برتن لگائے گئے میں سمجھ گیا کہ انہوں وہی برتن جو ان کے نزدیک ایک ملیچھ ناپاک کے زیر استعمال آ گئے تھے الگ سے رکھ دیے ہوں گے۔یہ تھی اوقات مسلمانوں کی۔ہندو پانی مسلمان پانی آج کسی بچے سے کہیں کہ پانی کا بھی دھرم ہوتا ہے بولے گا نا ممکن مگر تھا۔بر صغیر کے مسلمانوں کو اس وقت ہندو مسلم اتحاد کا سبق پڑھایا جا رہا تھا سب اس شوق میں لگے ہوئے تھے کہ انگریز کے جانے کے بعد سب مل جل کر رہیں گے اس وقت مسلم لیگ کا قیام تو ہو چکا تھا مگر مسلم لیگ کانگریس سے مل کر آزادی حاصل کرنا چاہتی تھی۔یہ بیسویں صدی کی ابتداء ہے دوسرے عشرے کا درمیانی سال ۱۹۱۵ ایک نوجوان جس کا نام چودھری رحمت علی ہے والد صاحب چودھری شاہ محمد گجر ہیں اور گجروں کی گوت ہے گورسی۔انہیں فکر لاحق ہوتی ہے جمہوریت اعداد کا کھیل ہے اور اس کے چکمے میں اگر مسلمان آ جاتے ہیں تو ایک ایسی غلامی میں آ جائیں گے جو انگریز کی غلامی سے کئی گناہ بڑھ کر اذیت ناک ہو گیانہوں نے اسلامیہ کالج کی بزم شبلی میں نیا نعرہ پیش کیا کہ مسلمانوں کو ایک خاص حصے میں اپنا الگ سے گھر چاہئے جہاں وہ اپنی مرضی سے رہ سکیں انہیں شدت سے احساس ہوا کہ یہ قوم ماری جائے گی اس کے پلے کچھ نہیں رہے گا اگر یہ ہندو کی غلامی میں چلی جائے گی انہیں مکمل ادراک تھا کی غلام ہندو تو بہتر ہوتا ہے حاکم کبھی بھی مسلمانوں کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کرے گا۔یہ چند لوگوں کی بھول ہے کہ وہ جاتے ہوئے ان کو اقتتدار دے کر جائے گا جن سے لیا تھا۔یہی بھول کانگریسیوں کو رہی کہ ہم ہندوؤں کے ساتھ مل کر آزادی حاصل کرلیں گے اور مزے کریں گے۔ایسا نہ ہونا تھا اور نہ ہو ہوا۔چودھری رحمت علی جس پاکستان کی بات کر رہے تھے اس میں پنجاب افغانہ(صوبہ سرحد) سندھ اور بلوچستان تھا انہوں نے قطعا بندل کی بات نہیں کی۔۱۹۱۵ کو سب سے پہلے دو قومی نظریہ دینے والے چودھری رحمت علی تھے۔یہاں میں کہوں گا کہ چودھری صاحب اور علامہ اقبال کو دو مختلف سوچوں سے دیکھا جائے۔اقبال کی پوری شاعری اٹھا کر دیکھ لیں انہوں مسلم امہ کی نشاط ثانیہ کی بات کی ہے وہ صوبوں علاقوں کے شاعر نہ تھے۔چودھری رحمت علی کی جد جہد اٹھارہ سال سے جاری تھی ا ور یہ کوشش ان کی وفات تک رہی ۔میں نئی نسل کے لئے ان کی زندگی کو مہ و سال میں پرکھتے ہوئے کچھ بتانا چاہتا ہوں تا کہ پاکستان کی اس نسل کو جو اب ان کا نام تک نہیں جانتی انہیں پتہ چل سکے کہ چودھری صاحب کون تھے ان کی کیا کوشش تھی انہوں نے پاکستان کو کب سوچا اور اس کے لئے انہیں کیا کیا تکالیف برداشت کرنا پڑیں۔

۱۔تاریخ پیدائش ۱۶ نومبر ۱۸۹۷ گاؤں موہراں۔۱۹۰۶ میں بالوچر سے پرائمری اسکول مکمل کیا۔روہن سے گاؤں سے مڈل کا امتحان پاس کیا۔۱۹۱۲ میں سنسکرٹ ہائی اسکول جالندھر سے میٹرک کیا۔اسلامیہ کالج ریلوے روڈ سے ۱۹۱۵ میں ایف اے کا امتھان پاس کیا اور یہی وہ سال ہے جس مین انہوں نے بزم شبلی میں دو قومی نظریہ پیش کیا۔پنجاب یونیورسٹی سے بی اے کی ڈگری ۱۹۱۸ میں حاصل کی۔ا۸۱۹ سے ۱۹۲۳ تک ایچی سن کالج لاہور مین پڑھایا۔ ۱۹۲۳ سے ۱۹۲۵ تک پنجاب یونیورسٹی سے لاء کیا۔۱۹۲۳ سے ۱۹۳۰ تک چیف آف نزاری ٹرئیب میر دوست محمد کے روجھان میں پرایؤیٹ سیکریٹری رہے۔چودھری رحمت علی ۱۹۳۰ میں انگلینڈ کے لئے روانہ ہو گئے وہاں نومبر ۳۰ کو مڈل ٹیمپل اسکول میں بار ایٹ لاء کی تعلیم کے لئے داخل ہو گئے ۱۹۳۰ میں ایمانوئل کالج مین داخلے کے لئے درخواست دے دی اور اگلے سال داخلہ مل گیا جون ۳۲ میں پارت ٹو پاس کیا اور ۱۹۳۳ میں مشہور زمانہ پمفلٹ NOW OR NEVER شائع کیا ۱۹۳۳میں بے اے کی ڈگری مل گئی ۱۹۳۳ میں انہوں نے پاکستان نیشنل موومنٹ کے اغراض و مقاصد شائع کئے ۱۹۳۵ میں انہون نے برٹش ممبرز آف پارلیمنٹ کی آئینی کمیٹی کو کھلا خط لکھا جس میں چودھری صاحب نے انہیں کھل کر بتایا کہ ہندوستان میں ایک قوم نہیں رہتی اور آئین میں مسلم حقوق کا خیال رکھنا ہو گا۔۱۹۳۷ میں انہوں نے پیرس کا دورہ کیا اور اسی سال میں انہوں نے جرمنی کا بھی دورہ کیا ۔۱۹۳۸ میں ٹائمز آف لندن میں مقالہ تحریر کیا اور برطانوی قوم کو امت مسلمہ کی صورت حال سے آ گاہ کیا۔اسی سال ان کی ملاقات چودھری خلیق الزمان سے ہوتی ہے۔۱۹۳۹ میں وہ بوسٹن امریکہ پہنچتے ہیں۔چودھری رحمت علی اسی سال جاپان بھی آتے ہیں۔ان ممالک کی سیاسی پارٹیوں کے اکابرین سے ملاقات ان کے سفر کا بڑا مقصد ہوتا ہے اور وہ دنیا بھر میں ملت اسلامیان ہند کے حقوق کے لئے بحری جہازوں پر دور دراز کا سفر کرتے ہیں۔اس لحاظ سے وہ واحد لیڈر ہیں جنہوں نے قوم کے لئے اس دور میں سب سے زیادہ سفر کی صعوبتیں برداشت کیں۔جنوری ۱۹۴۰ میں وہ ہانگ کانگ آتے ہیں اور اگلے ماہ ممبئی پہنچتے ہیں اسی مہینے میں ان کا جہاز کراچی پہنچتا ہے مارچ ۱۹۴۰ کو وہ پاکستان نیشنل موومنٹ کے مرکزی کونسل سے بھی خطاب کرتے ہیں اپریل ۱۹۴۰ کو چودھری رحمت علی ممبئی کے لئے روانہ ہو جاتے ہیں اور وہ اسی سال کیمبرج پہنچتے ہیں اور یونیورسٹی آف کیمبرج سے ایم اے کی ڈگری حاصل کرتے ہیں ۱۹۴۱ میں انہوں نے ملت اسلامیہ اور اور اس کی منزل پر تحقیقی مقالہ شائع کیا بر اعظم دینیہ جو نام انہوں نے بر صغیر کر دے رکھا تھا اس کے مستقبل پر ان کی تحقیق قابل توجہ ہے۔۱۹۴۲ میں ملت اور اس کے مشن پر ان کا مقالہ شائع ہوا انہوں نے ملت اسلامیہ اور اس کی منزل کے موضوع پر مڈل ٹمپل ان بار سے خطاب کیا یہ برصغیر کے تمام لیڈران میں سے انہیں اعزاز حاصل ہوا ۱۵ مارچ ۱۹۴۳ کو ناہوں نے ملت اسلامیہ اور ان کی اقلیتیں کے موضوع پر چودھری رحمت علی کا مقالہ آج بھی پاکستان کے تازہ مسائل کا حل پیش کرتا ہے چعدھری رحمت علی نے ۱۹۴۴ میں ملت اسلامیہ کی دس بنیادیں بیان کیں ۱۹۴۵ میں برصغیر دینیہ ان کا موضوع تھا ۱۹۴۶ میں چودھری رحمت علی نے پاکستان قومی موومنٹ اور برطانوی سوچ کے موضوع پر انہوں نے لکھا ۱۹۴۶ میں میں ہی ان کا مقالہ بعنوان بر اعظم دینیہ انڈیا کے نام سے شائع کیا اسی سال انہوں نے بنگلستان کے موضوع پر لکھا جو پاکستان بننے کے بعد چند ہی سالوں میں حقیقت بن گیا ۱۹۴۷ میں انہوں نے پاکستان فادر لینڈ آف پاک نیشن پر لکھا ۱۹۴۸ میں وہ لاہور آئے انہوں نے اسی سال انڈیا میں رہ جانے والے مسلمانوں کے لئے یونائٹڈ نیشنز کے سیکریٹری جنرل کو خط لکھا اکتوبر ۱۹۴۸ میں انہیں حکومت پاکستان نے پاکستان چھوڑ دینے کو کہا۔یہاں میں کہنا چاہوں گا کہ آخر کیا وجہ تھی کہ انہیں اس ملک سے نکال باہر کیا گیا۔اس میں تو کوئی شک نہیں کہ چودھری رحمت علی جو پاکستان چاہتے تھے وہ یہ پاکستان نہ تھا ان کی خواہش تھی کہ پاکستان کو پورا کشمیر ملنا چاہئے تھا جس میں اسے دریاؤں کے سوتے بھی ملتے۔آپ کو تو یہ معلوم تھا کہ پاکستان کے بانی حضرت قائد اعظم ان دنوں شدید علیل تھے کہتے ہیں انہوں نے ایک بار مکمل تیاری کی علالت کے باوجود انہوں چودھری رحمت علی کا استقبال کرنے کی تیاری کی لیکن لیاقت علی خان کی حکومت نے ان دو عظیم لیڈروں کو ملنے نہیں دیا۔یہ وہی زمانہ تھا جب قائد اعظم بیمار ہوتے ہیں اور کچھ عرصے کے لئے زیارت بلوچستان جاتے ہیں۔اس دوران آپ کو علم ہو گا کہ محترمہ فاطمہ جناح نے لکھا کہ میرے بھائی نے مجھے بتایا کہ کچھ لوگ جو نیچے ملنے آئے ہیں وہ دراصل یہ دیکھنے آئے ہیں کہ میں کب مروں گا۔یہ الزام لیاقت علی خان پر لگایا جاتا ہے۔ہم دراصل اشخاص کا بت بناتے ہیں اور پھر ان کو پوجتے ہیں شہید ملت ہونا اپنی جگہ مگر ان کا قائد سے یہ سلوک تاریخ کا حصہ بن چکا ہے وہ ہماری اور آپ کی طرح انسان تھے ان سے بھی غلطیاں ہوئیں چودھری رحمت علی سے بدسلوکی بھی انہی کے دور میں ہوئی اور خفیہ والوں نے ان کی زندگی اجیرن بنا دی۔

اسی ایجینسی کی قوم پر سب سے بڑی زیادتی یہ ہوئی کہ اس نے ان دو عظیم لیڈروں کو ملنے نہیں دیا اور پاکستان کو نام دینے والے جنہیں لوگ نقاش پاکستان کہتے ہیں انہیں دھکے دے کر اس ملک سے نکال دیا۔
منزل انہیں ملی جو شریک سفر نہ تھے
والی بات یہاں سچی ہوتی ہے۔رحمت علی انگلینڈ چلے آتے ہیں گھر سے نکلتے وقت جو ان پر گزری سو گزری۔ایک ایسا ملک جہاں باچا خان کے پجاری جنہوں نے نہ صرف قیام پاکستان کی مخالفت کی بلکہ قائد اعظم اور محترمہ فاطمہ جناح کی ذات پر رکیک حملے کئے جن کا تذکرہ کرنے سے ہاتھ کانپتے ہیں وہ کانگریسی ملا جو آج پاکستان پر حکومت کر رہے ہیں انہیں تو عزتیں ملیں اور جس نے ملت اسلامیہ میں پاک ستان جیسی حقیقت کا خواب دیکھا کوشش کی وہ اس ملک سے نکال باہر کیا جاتا ہے۱۹۵۱ میں انگلینڈ میں نمونیے کا شکار ہوتے ہیں اور ۳ فروری کو ۱۹۵۱ کو اس دنیا سے رخصت ہو جاتے ہیں۱۹۵۱ فروری ۲۰ کو وہ دفن کئے گئے۔ان کی نماز جنازہ دو مصری طلباء نے پڑھائی۔برادر نذیر تبسم گورسی نے ان کے آخری ایام پر چند روز پہلے سرسید اکیڈمی میں اپنے خطاب میں بیان کرتے ہوئے ہماری معلومات میں اضافہ کیا جس کے مہمان خصوصی سردار یوسف تھے۔

چودھری صاحب کی بد قسمتی جو میں نے اپنے کالم کے شروع میں بیان کی تھی وہ اب خو ش قسمتی میں بدل رہی ہے اس لئے کہ اس مشن کی یوسف عزیز جیسے سکالر تزین اختر جیسے مدبر صحافی اور بریگیڈئر شفیع جیسے نامور لوگوں نے باگ دوڑ سنبھال لی ہے جو سارے ہی نان گجر ہیں۔میں جناب الطاف حسن قریشی کا ذکر بھی کرنا چاہوں گا جنہوں نے اس موضوع پر بڑا خوبصورت کالم لکھا ہے۔بدقسمتی یہ رہی کہ ایک میڈیا ہاؤس نے ان کے جسد خاکی کو پاکستان لانے کی مخالفت کی اور جہاں چودھری شجاعت حسین نے ان کے جسد کو لانے کی ٹھانی وہیں انہی کے گھر سے چودھری پرویز الہی نے مخالفت کر دی۔اب جناب نظامی صاحب بھی اسی دنیا میں جا چکے ہیں جہاں رحمت علی ہیں وہاں ضرور ان سے پوچھا ہو گا چودھری صاحب نے کہ نظامی صاحب میں نے کون سا نقصان کیا تھا کہ آپ مجھے لاہور ائر پورٹ سے واپس بھجوا رہے تھے۔دل چسپ بات ہے میں نے نظامی صاحب کو لکھ دیا تھا کہ لگتا ہے کہ مردہ چودھری رحمت علی آپ کے دفتر پر قبضہ کر لے گا۔دنیا چل چلاؤ ہے اﷲ ان دونوں کو غریق رحمت کرے۔بس التجا ہے کہ گجرو ذرا مہربانی کرو تنظیمیں بناؤ مگر غیر گجروں کو آگے لاؤ۔ہم سب کی دلی خواہش ہے کہ چودھری صاحب کو ان کا اصل مقام دیا جائے اور کیمبرج سے پاکستان لا کر دفن کیا جائے۔اس کے لئے لاہور میں جگہ بھی لی جا چکی ہے۔ویسے تو ہونا چاہئے کہ کہ کراچی میں قائد اعظم اور شہید ملت مدفون ہیں لاہور میں علامہ اقبال بہتر ہے انہیں اسلام آباد میں دفن کیا جائے تاکہ یہ شہر بھی معتبر ہو جائے۔
Arif Kisana
About the Author: Arif Kisana Read More Articles by Arif Kisana: 276 Articles with 264954 views Blogger Express Group and Dawn Group of newspapers Pakistan
Columnist and writer
Organiser of Stockholm Study Circle www.ssc.n.nu
Member Foreign Pr
.. View More