داخلی استحکام کے بغیر خارجی ترقی ممکن نہیں

قیام پاکستان کے بعد سے آج تک اقتدار میں آنے والی حکومتوں نے ظاہری ،وقتی اور نمود و نمائش جیسے اقدامات پر زیادہ توجہ دی جن سے یہ ظاہر ہو کہ حکومت ملک و عوام کی خیرخواہ ہے۔ اس کے برعکس داخلی استحکام، طویل المدتی اور بنیادی باتوں کو نظر انداز کرنے کی پالیسی پر گامزن رہے۔ حکمراں یہ بات بھولے رہے اور آج بھی یہی صورت حال ہے کہ تمام تر صلاحیتیں اور وسائل وقتی اور دکھاوے پر لگائے جارہے ہیں حقیقی ترقی کی جانب توجہ نہیں حالانکہ داخلی استحکام اور ترقی کے بغیر خارجی ترقی ممکن ہیں۔

جب تک قومی سطح پر تسلسل کے ساتھ ٹھوس اقدامات نہیں کیے جائیں گے ملک کو داخلی استحکام نصیب نہیں ہوگا ملک میں خارجی اور حقیقی ترقی کا پہیا جام رہے گا۔ مولانا وحید الدین خان نے اپنی کتاب ’رازِ حیات‘ میں داخلی استحکام کی مثال درخت سے دی ہے کہ ’ درخت کاایک حصہ تنا ہوتا ہے اور دوسرا حصہ اس کی جڑیں۔ کہا جاتا ہے کہ درخت کا جتنا حصہ اوپر ہوتا ہے تقریباً اتنا ہی حصہ زمیں کے نیچے جڑ کی صورت میں پھیلا ہوا ہوتا ہے۔ درخت اپنے وجود کے نصف حصے کو سرسبز و شاداب حقیقت کے طور پر اس وقت کھڑا کر پاتا ہے جب کہ وہ اپنے وجود کے بقیہ نصف حصہ کو زمین کے نیچے دفن کرنے کے لیے تیار ہوجائے۔ درخت کا یہ نمونہ انسانی زندگی کے لیے خدا کا سبق ہے ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ زندگی کی تعمیر اور استحکام کے لیے لوگوں کو کیا کرنا چاہیے‘۔ ملک کی ترقی کی بھی یہی صورت ہے جس طرح درخت زمین کے اوپر کھڑا ہے مگر وہ زمین کے اندر اپنی جڑیں جماتا ہے ۔ وہ نیچے سے اوپر کی طرف بڑھتا ہے نہ کہ اوپر سے نیچے کی طرف ۔درخت کا یہ عمل ہمیں یہ سبق دے رہا ہے کہ داخلی استحکام کے بغیر خارجی ترقی ممکن نہیں۔

منصوبہ ساز وں کو اچھی طرح معلوم ہے کہ ترقی کے دو طریقے ہیں ایک مختصر مدتی منصوبے دوسرے طویل المیعاد تیرقی کے منصوبے۔ طویل المیعا د منصوبے ملک کو استحکام اور مضبوطی کی جانب لے جاتے ہیں جب کہ مختصر المیعادمنصوبے عوام کو فوری ریلیف دینے کے لیے شروع کیے جاتے ہیں۔ ہماری بد قسمتی یہ ہے کہ ہماری سیاسی جماعتیں جب اقتدار میں آتی ہیں تو عوام کو وقتی طور پر خوش کرنے کی جانب اپنی تمام تر توانائیاں صرف کردیتی ہیں۔ طویل المیعاد منصوبے تیار نہیں کیے جاتے۔ چھوٹے چھوٹے منصوبے عوام کے لیے ظاہری چمک کے سوا کچھ اور نہیں ہوتے۔ ابھی وہ منصوبے بھی مکمل نہیں ہوپاتے کہ حکومت کے خلاف مختلف قسم کے جھوٹے سچے الزامات شروع ہوجاتے ہیں ۔ اب حکومت ان منصوبوں کو بھی ادھورا چھوڑ کر اپنے خلاف اٹھنے والی سیاسی ہوا کا رخ موڑنے میں لگ جاتی ہے۔ انجام حکومت کے اختتام پر ہوتا ہے ۔ ایک ایک کرکے تمام حکومتوں کا جو حال ہوا وہ ہمارے سامنے ہے۔

آصف علی زرداری کی سابقہ حکومت (۲۰۰۸ء ۔۲۰۱۳ء) کا جائزہ لیں تو پتا چلتا ہے کہ اس حکومت نے اپنی مقررہ میعاد تو مکمل کی جو سیاسی اعتبار سے ایک اچھا پیغام سامنے آیا لیکن اس کی کارکردگی صفر ہی رہی، اس حکومت نے اپنی تمام تر توانائیاں اس بات پر لگادیں کہ سب کو ساتھ لے کرچلنا ہے۔ اس کے پیچھے صرف اور صرف ایک مقصد صاف نظر آتا ہے وہ یہ کہ ہر صورت حکومت برقرار رہے۔ اس دور میں ملک میں داخلی استحکام اور طویل المیعاد ترقیاتی منصوبوں پر توجہ نہیں دی گئی اس کے برعکس ظاہر ی منصوبوں ، مختصر المیعاد پروگراموں پر اپنی صلاحیتیں صرف کی گئیں۔ ایک پروگرام ایسا شروع کیا گیا جس میں فی خاندان ایک ہزار روپے ماہانہ امداد دی گئی۔ بھلا اس دور میں ایک ہزار روپے کی کیا حیثیت ہے۔ اس پروگرام کی تشہیر پر قومی خزانہ خوب خوب لٹایا گیا۔ یہی حال باقی منصوبوں کا بھی ہوا۔ حکومت ختم ہوئی ، چین کی بانسری بجانے لگے، پانچ سال حکومت میں رہنے والی سیاسی جماعت اب حکومت ِ وقت سے مطالبہ کررہی ہے کہ کراچی کو بڑی امداد کا پروگرام دیا جائے ۔ حیرت کی بات ہے کہ اب کراچی کے لیے بڑے منصوبے کا خیال آرہا ہے جب اپنی حکومت تھی تو کراچی کو کتنے بڑے منصوبے دیے گئے تھے؟

موجودہ حکومت کا حال یہ ہے کہ اسے ابھی سال ہی ہوا تھا کہ اس کے خلاف مضبوط قسم کی انقلابی اور تبدیلی مہم شروع ہو گئی دھرنوں ، جلسے، جلوسوں اور ریلیوں کی سیاست عروج ہے ۔ اس کی نوبت اس قدرجلد کیوں آئی۔ اس امر پر ہی غور کریں تومعلوم ہوگا کہ حکومت نے ہوم ورک نہیں کیا تھا، ملک کو حقیقی معنوں میں ترقی دینے کے لیے منصوبے ہی نہیں تھے۔ وہی عارضی اور مختصر المیعاد پروگرام سامنے آئے، کوئی ایک بھی ٹھوس قسم کا منصوبہ جس کے بارے میں یہ کہا جاسکے کہ اس کی تکمیل سے ملک میں دخلی استحکام آئے گا اور ملک میں خارجی ترقی ممکن ہو سکے گی سامنے نہیں لایا گیا۔ دانش اسکو ل منصوبہ شروع ہوا اور بلبلے کی مانند بیٹھ گیا، جنگلا بس ایک شہر کے لیے سہولت، ھنر مند نوجوان اسکیم کے تحت ۹۸ ہزار ذہین طلبہ کو لیب ٹاپ کا منصوبہ جس پر چار بلین قومی سرمایہ صرف ہوگا ، غریب و نادار طلبہ کی فیس کی واپسی کا منصوبہ، قرض حسنہ اسکیم، سود سے مبرا لون اسکیم، اپنا روزگار اسکیم یا غیر ملکی دوروں کے دوران مختلف قسم کے معاہدوں پر دستخط ایسے منصوبے اور اقدامات ہیں کہ جنہیں ملک کی حقیقی ترقی کاضامن قرار نہیں دیا جاسکتا۔ ڈاکٹرشاہد مسعود نے پاکستان کوایم اہ یوز کا گریویارڈ قرار دیا ہے۔ پا بجلی کے بحران کی جانب ٹھوس قدم نہیں اٹھایا گیا، پیٹرول اور گیس کی قیمتیں مسلسل اوپر کی جانب گامزن ہیں، وزارتِ منصوبہ بندی و ترقی کی ویب سائٹ کو دیکھیں تو اس میں تصاویر ، امدادی چیک دیتے ہوئے، میٹنگ کرتے ہوئے یا تقریرکرتے ہوئے نظر آتی ہیں۔اگر حکومت نے ٹھوس بنیادوں پرمنصوبہ بندی کی ہوتی، سچائی اور ایمانداری سے ملک کو ترقی کی جانب لے جانے کے منصوبوں پر عمل کرتی تو اس قدر جلد حکومت کے خاتمے کی تحر یکیں شروع نہ ہوتیں۔ اگر واقعی چاہتے ہیں کہ ہمارا ملک خارجی اعتبار سے ترقی کی جانب گامزن ہوجائے تو ہمیں ملک کے داخلی استحکام پر توجہ دینا ہوگی۔

بصورت دیگر ہماری آئندہ نسلیں بھی ہماری طرح اچھائی کی امید کے سہانے خواب دیکھتے دیکھتے اپنی زندگی پوری کرلیں گیں۔ (۴نومبر ۲۰۱۴ء)
Prof. Dr Rais Ahmed Samdani
About the Author: Prof. Dr Rais Ahmed Samdani Read More Articles by Prof. Dr Rais Ahmed Samdani: 852 Articles with 1283601 views Ph D from Hamdard University on Hakim Muhammad Said . First PhD on Hakim Muhammad Said. topic of thesis was “Role of Hakim Mohammad Said Shaheed in t.. View More