تیز بخار، نزلہ، کھانسی، جسم میں
درد، جسم، ہونٹوں اور انگلیوں کا نیلا ہونا، سانس لینے میں مشکل سوائن فلو
کی علامات ہیں۔
20 دسمبر2009 ایک اطلاع کے مطابق لاہور میں سوائن فلو کے تین اور مریض
سامنے آگئے ہیں جن میں ایک ڈاکٹر اور دو نرسیں شامل ہیں۔ سوائن فلو کے ان
مریضوں کا تعلق بھی سوشل سکیورٹی اسپتال سے ہے۔ اسپتال ذرائع کے مطابق دو
ہفتے قبل اسی اسپتال کے فزیو تھراپسٹ کی موت سوائن فلو سے واقع ہوئی تھی جس
کے بعد اس کا علاج کرنے والے عملے اور اس کے رشتے داروں کے بلڈ سمپل ٹیسٹ
کے بھجوائے گئے۔ ٹیسٹ رپورٹ میں ایک ڈاکٹر اور دو نرسوں میں سوائن فلو کی
تصدیق ہوگئٍی ہے۔ اسپتال کے آرتھو پیڈک سرجن اشرف نظامی نے بتایا کہ سوائن
فلو سے دوچار ہونے والے عملے کا علاج جاری ہے امید ہے کہ یہ لوگ جلد صحت
یاب ہوجائیں گے۔ انہوں نے بتایا کہ اس سے پہلے دو نرسیں شفایاب ہوکر اسپتال
سے ڈسچارج ہوچکی ہیں۔
تیز بخار، نزلہ، کھانسی، جسم میں درد، جسم، ہونٹوں اور انگلیوں کا نیلا
ہونا، سانس لینے میں مشکل سوائن فلو کی علامات ہیں۔ اگر تیز بخار (102 ڈگری
سے زیادہ) تین دن میں نہ اترے تو یہ تشویش کی بات ہے۔ ڈاکٹرز کے کہنے کے
مطابق آج کل سوائن فلو کا خطرہ شدید ہے اس لئے اگر کسی کو فلو کی علامات
ہیں تو اسے چاہئے کہ وہ دیگر لوگوں (گھر والوں سے بھی) الگ ہو جائے۔
کھانستے اور چھینکتے وقت زیادہ احتیاط سے کام لے۔ ضروری ہے کہ ایک شخص سے
دوسرے شخص کے درمیان 6 فٹ کا فاصلہ ہو۔ ایسے مریضوں کے لئے ضروری ہے کہ وہ
بار بار صابن سے ہاتھ دھوئیں۔ جو ٹشو استعمال کریں اسے احتیاط سے ضائع کر
دیں۔ رومال کو جراثیم کش پانی سے دھوئیں۔ سوائن فلو کا وائرس بہت نازک ہوتا
ہے۔ 7 ڈگری درجہ حرارت یا صابن سے ضائع ہو جاتا ہے۔ ڈاکٹرز کا کہنا ہے کہ
ایسے افراد جن کو یہ علامات ہوں کے لئے بہتر ہے کہ وہ عوامی مقامات،
اسکولوں، بسوں، اسپتالوں کی او پی ڈیز میں جانے سے گریز کریں۔ ضرورت اس بات
کی ہے کہ حکومت ایسے افراد کو ڈاکٹروں سے مشاورت کے لئے ٹول فری فون نمبرز
کا اعلان کرے۔
انہوں نے کہا کہ سوائن فلو سے سب سے زیادہ خطرہ ہیلتھ کیئر ورکرز کو ہوتا
ہے۔ سوائن فلو کی ویکسینیشن سے متعلق ان کا کہنا تھا کہ اس کی بھی زیادہ
ضرورت ہیلتھ کیئر ورکرز کو ہوتی ہے تاہم حاملہ خواتین، 6 ماہ سے کم عمر بچے،
دمے کے مریض اور بہت زیادہ موٹے افراد کو بھی یہ ویکسین لگوا لینی چاہئے۔
انہوں نے کہا کہ سوائن فلو کے لئے بنائے گئے آئسولیشن وارڈ اسپتال میں ایسی
جگہ ہونے چاہئیں کہ وہ اسپتال کے دیگر وارڈز سے الگ تھلگ ہوں۔
وائس آف امریکہ کے مطابق پچھلے چند ماہ کے دوران چین کے کچھ حصوں میں لہسن
کی قیمتوں میں 40 گنا اضافہ ہوچکا ہے۔ چین دنیا کو سب سے زیادہ لہسن فراہم
کرنے والا ملک ہے۔ لہسن کی کم فصل اور اس سے منسلک دلچسپ قیاس آرائیوں سے
ملک بھر میں خریدار قیمتوں میں اضافے کی شکایت کرتے دکھائی دیتے ہیں،
کیونکہ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ لہسن سے ایچ ون این ون سے بچاؤ میں مدد مل
سکتی ہے۔
وانگ ین لین گزشتہ پانچ برس سے بیجنگ کے مشرقی حصے کی ایک مارکیٹ میں
سبزیاں فروخت کررہی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ پچھلے مہینے سے کئی خریدار قیمتوں
میں اضافے بالخصوص لہسن کی قیمت بڑھنے کی شکایت کررہے ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ
اس سال آدھ کلو لہسن کی تھوک قیمت 65 سینٹ تک پہنچ گئی ہے جو کہ پچھلے سال
20 سینٹ کے لگ بھگ تھی۔
اس سال موسم خزاں کے آغاز سے چین کو لہسن کی قیمتوں میں بڑے پیمانے پر
اضافے کا سامنا ہے۔ لہسن پیدا کرنے والے چینی صوبے شان ڈونگ کےکچھ علاقوں
میں اس کی قیمتوں میں 40 گنا تک کا اضافہ ہوچکا ہے۔ بڑے شہروں کی تھوک
مارکیٹوں میں قیمتیں 10 گنا بڑھ چکی ہے اور ملک بھر میں گاہکوں میں اسٹوروں
پر چیزوں کی چار گنا تک زیادہ قیمت ادا کرنا پڑ رہی ہے۔ مثال کے طورپر خام
تیل اور تابنے کی قیمت اس سال دگنی ہوچکی ہے۔
چین دنیا کو 75 فی صد لہسن فراہم کرتا ہے۔ کم مزدوری کے باعث چینی لہسن
سستا ہوتا ہے۔ پچھلے سال مالیاتی بحران کے باعث طلب میں کمی ہوئی تھی اور
لہسن کی زیادہ تر فصل فروخت نہیں ہوسکی تھی۔ چنانچہ اس سال کاشت کاروں نے
پچھلے سال کی نسبت 50 فی صد کم لہسن کاشت کیا ۔
کاشت میں کمی اور بعض قیاس آرائیوں کے باعث اس سال لہسن کی خریداری بڑھ گئی
ہے کیونکہ لہسن جلد خراب نہیں ہوتا۔ چنانچہ یہ ممکن ہوتا ہے کہ اسے خریدنے
کے بعد قیمت بڑھنے پر فروخت کیا جائے۔ بیجنگ اورینٹ ایگری بزنس کے ایک
کنسلٹنٹ چن شووئی کہتے ہیں کہ چونکہ لہسن کی مارکیٹ زیادہ بڑی نہیں ہے ، اس
لیے اس پر آسانی سے اثر انداز ہونا ممکن ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ اگرچہ اس سال کاشت کاروں نے پچھلے سال کی نسبت کم فصل
بوئی ہے، لیکن یہ چیز مارکیٹ پر اثرانداز نہیں ہوسکتی۔ وہ کہتے ہیں افواہوں
کے زیر اثر ایسے لوگوں نے لہسن کی خریداری کی ہے جو کاروبار کا کوئی زیادہ
علم نہیں رکھتے۔ چن کہتے ہیں کہ انہوں نے شان ڈونگ کے ویئر ہاؤس کے کارکنوں
کے ایک ایسے گروپ کے بارے میں سنا ہے جس نے سات سو ٹن لہسن کو خریدنے اور
بیچنے کے عمل میں لاکھوں چینی یوان بنائے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ قیمتوں میں اس اضافے کی وجہ بڑے پیمانے پر سرمائے کی فراہمی
ہے جو چین کے اقتصادی امداد کے پروگرام کے تحت بینکوں نے قرضوں کی شکل میں
فراہم کیا ہے۔
چین کے میڈیا نے لہسن کی قیمت میں اضافے کی ایک اور وجہ کی طرف بھی اشارہ
کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ طلب میں اضافے کی ایک وجہ یہ ہے کہ چینی طریقہ
علاج کے معالج لوگوں سے یہ کہہ رہے ہیں لہسن ایچ ون این ون انفلونزا سے
بچاؤ میں مفید ہے۔ شنگھائی کے نزدیک ہانگ زہو کے شہر سے شائع ہونے والے ایک
اخبار کے مطابق ایک ہائی سکول نے اپنے طالب علموں کو ایچ ون این ون وائرس
سے بچانے کے لیے چار سو پونڈ لہسن خریدا ہے۔
چینی طریقہ علاج کے ایک معالج لین یی فانگ کہتے ہیں کہ وہ اپنے مریضوں کو
نزلے سے بچاؤ کے لیے روزانہ تھوڑی مقدار میں لہسن کھانے کا مشورہ دیتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں لہسن انسان کے مدافعتی نظام کو مضبوط بناتا ہے اور اس سے وہ
ایچ ون این ون وائرس سے بچ سکتاہے۔ان کا کہنا ہے کہ جاپان اور جنوبی کوریا
سمیت کئی ایشیائی معاشروں میں معالج لہسن کے استعمال کا مشورہ دیتے ہیں۔
جب کہ بیجنگ کے بیماریوں پر کنٹرول سے متعلق مرکز کے ایک عہدے دار کا کہنا
ہے کہ ایسا کوئی سائنسی ثبوت موجود نہیں ہے کہ لہسن سے ایچ ون این ون سے
بچاؤ میں مدد ملتی ہو۔ چین میں اس وائرس سے تین سو سے زیادہ افراد ہلاک
ہوچکے ہیں۔
سبزی فروش وانگ ین لین کا کہنا ہے کہ گزشتہ کچھ مہینوں سے قیمتوں میں اضافے
کی وجہ سے اسے لہسن کی فروخت میں گاہکوں کے اعتراضات سننے پڑتے ہیں۔ ان کا
کہنا ہے کہ سب سے اچھی سبزی بند گوبھی ہے جس کی قیمت کبھی نہیں بڑھتی۔
مزید تصاویری معلومات کیلئے الطاف گوہر کا بلاگ | Altaf Gohar's Blog
https://altafgohar.wordpress.com |