ترقی یافتہ ممالک میں صحافیوں کو موزوات بہت مشکل سے ملتے
ہیں کہ جن پر وہ لکھیں لیکن ترقی پذیر اور غر یب ممالک میں موزوات کی بھر
مار ہوتی ہے ۔ پاکستان میں آج کل موزوات کی انتہا ہے ‘ہر موزوچیخ چیخ کر
آواز لگارہا ہے کہ مجھے بھی شامل کرولیکن بد قسمتی سے جگہ کی کمی کی وجہ سے
ہر موزوپر لکھنا مشکل ہو تا ہے ۔ہمیں دوسرے اہم موزات جیسے کہ پنجاب میں
اقلیت برداری کے میاں بیوی کو زندہ جلایا گیایا زمیندار نے مزدور کے ہاتھ
کاٹ دیے۔ کراچی میں ایدھی صاحب جیسے مقدس ہستی کے آفس میں ڈاکے نے مجھ سمیت
ہر پا کستانی کا دل دکھیا کہ ظلموں نے عبدالستار اید ھی جیسے نیک انسان کو
بھی نہیں بخشا۔ آرمی چیف کا دورہ امر یکا سمیت کئی ایک موزوات ہے جن پر
لکھنے کو دل چاہتا ہے لیکن میڈ یا میں زیادہ تر کر نٹ موزوات کو تر جیح دی
جاتی ہے‘پھر لوگ بھی زیادہ تر کر نٹ مو زو پر لکھنے کو کہتے ہیں لہٰذا ہمیں
بھی مجبوراًقارئین کی دلچسپی اور رائے کو مدنظر رکھنا پڑ تا ہے۔
جماعت اسلامی کا تین روزہ اجتماع کا آج اتوار کو آخری دن ہے۔ یہ اجتماع اس
حوالے سے بھی اہمیت کا حامل ہے کہ ملک بھر میں سیاسی درجہ حرارت عروج پر ہے
۔ تحر یک انصاف بھی ملک بھر میں جلسے کر رہی ہے‘ پیپلز پارٹی اور ایم
کیوایم نے بھی جلسے کیے اور مزید جلسے کر نے کی خواہاں نظر آرہی ہے۔جماعت
اسلامی بھی جلسے کر رہی تھی لیکن اپنی قوت کا باقاعدہ اور بڑا مظاہر ہ
انہوں نے اب لاہور میں کیا جس کو دیکھتے ہو ئے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ
جماعت اسلامی کاووٹ بنک میں کمی نہیں ہوئی ہے ۔ جماعت اسلامی کا یہ سہ روزہ
اجتماع نئے امیر سراج الحق صاحب کے لیے بھی اہمیت کا حامل ہے کہ انہوں نے
اپنے آپ کو قومی سیاست میں ایک معتبراور بڑے سیاستدان کے طور پر متعارف کر
دیا کہ نئے امیر قومی سیاست میں نہ صرف بھر پور حصہ لے ر ہے ہیں بلکہ اپنی
رائے کا بھی کھل کر اظہار کر تے ہیں۔جماعت اسلامی کے اس اجتماع میں دنیا کے
30 ممالک کے مندوبین بھی شر یک ہوئی ہے ۔ امیر جماعت نے اپنے ابتدائی خطاب
میں اپناایجنڈا بھی پیش کیا انہوں نے جہاں پر کسانوں ، بے روزگاروں
کوروزگار دینے ‘صحت اور مفت تعلیم کی بات کی وہاں پرانہوں نے ملک میں سودی
نظام کے خلاف بھی قومی سطح پر اپنی آواز کو بلند کیا ‘جو نہ صرف خوش آئند
بات ہے بلکہ اس نعرے کو اب عملی چامہ پہنانے کی بھی ضرورت ہے ۔
جماعت اسلامی کو قومی سیاست میں آگے آنے کے لیے عوامی رابط مہم میں اضافہ
کر ناچا ہیے ۔ حقیقت یہ ہے کہ جماعت اسلامی کو اس بار جنرل الیکشن میں صرف
خیبر پختونخوا میں زیادہ ووٹ ملے ہیں ۔جماعت اسلامی کو اب پنجاب اور
بلوچستان میں بھی عوامی رابط مہم کی اشد ضرورت ہے جبکہ کراچی میں ایک وقت
تھا کہ جماعت اسلامی بڑی سیاسی قوت تھی لیکن اب جماعت کے ووٹ بنک میں کافی
کمی واقع ہوئی ہے ۔ اپنی ووٹ بنک کو دوبارہ حاصل کر نے کے لیے جماعت
کوکراچی میں دوبارہ عوام مہم کا آغاز کرنا چاہیے۔ جماعت اسلامی دوسری سیاسی
جماعتوں سے ایک منفرد جماعت ہے ۔ جماعت اسلامی صرف ایک سیاسی پارٹی نہیں
بلکہ یہ سیاسی جماعت سے بڑ ھ کر ایک ادارے کی حیثیت رکھتی ہے جہاں پر میرٹ
کا نظام موجود ہے اور الخد مت فاونڈیشن کے نام سے ایک بہت بڑا فلاحی ادارہ
مو جود ہے جو بلاتفر یق عوام الناس کی خدمت کر تی ہے ۔ بنوں اور خیبر
پختونخوا کے دوسر ے اضلاع میں مقیم 20لاکھ آئی ڈی پیز کی خدمت اور امداد
میں بھی یہ ادارہ سب سے آگے ہیں۔ جماعت اسلامی کی انہی اوصاف کی وجہ سے یہ
ملک کی مقبول جماعت بن سکتی ہے اگر قائد ین عوامی مہم پر توجہ دے اور اپنا
پیغام ملک کے کونے کونے تک پہنچا دیں۔ جب عام ادمی کو معلوم ہو جائے گا کہ
جماعت اسلامی ایک سیاسی پارٹی نہیں ایک ادارہ ہے جہاں پر سراج الحق جیسے
غریب انسان بھی اپنی خدمت اور قا بلیت کی وجہ سے آگے آسکتا ہے تو عوام اس
جماعت میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینگے دوسری طرف اگر دیکھا جائے تو سیاسی جما
عتوں میں جماعت اسلامی کی تنظیم انتہائی مضبوط ہے۔ ہر سطح پر ہمیں جماعت
اسلامی کے مختلف وینگ نظرآتے ہیں ۔ اسی اجتماع میں ہمیں خواتین کانفرنس بھی
نظر آیا جو دوسری جماعتوں کے لیے مشعل راہ ہے ۔خواتین وینگ بھی جماعت
اسلامی کی ا نتہائی منظم اور مضبوط وینگ ہے۔ اسی طرح جمعیت طلبہ کا بھی
اپنا ایک تاریخ ہے ۔ موجودہ امیر جماعت اسلامی نے جمعیت طلبہ ہی سے اپنی
سیاسی جدوجہد کا آغاز کیا تھا ۔ جمعیت طلبہ ملک کے تقر یباًتمام جامعات میں
موجود ہے جو طلبہ کی سیاسی اور مذہبی ٹر ننگ کر تی ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ
ملک کے سیاست میں بڑ ے بڑے نام اسلامی جمعیت طلبہ ہی سے آئے ہیں ۔ آج بھی
مسلم لیگ ن اور پاکستان تحر یک انصاف میں بڑے نام اسلامی جمعیت طلبہ سے
وابستہ سیاستدانوں کی ہیں۔ |