افغانستان عراق میں شراکت اقتدار اورپاکستان میں اس کی برکتیں

افغانستان کے سیاستدان تو پاکستان کے سیاستدانوں سے بھی ایڈوانس نکلے کہ پاکستان میں الیکشن میں دھاندلی کے الزامات اور نتائج پر تحفظات کا اظہار نتائج آنے کے ساتھ ہی نہیں کیا جاتا بلکہ حکومت تشکیل پاجانے کے بعد ہی کیا جاتا ہے۔ افغانستان کے سیاستدانوں نے تو حکومت کی تشکیل سے پہلے ہی نتائج تسلیم کرنے سے ہارنے والے صدارتی امیدوار نے انکار کردیا۔ اقتدار منتقل کرنے کا معاملہ موخر ہوتا چلا گیا۔فریقین ہر صورت حکومت بنانا چاہتے تھے۔ ان میں سے کوئی بھی پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں تھا۔ایسا وہ افغانستان کی عوام کی خدمت کرنے کے لیے کرررہے تھے یا امریکہ کی تابعداری میں شامل ہونے کے لیے یہ وہ فریقین خود ہی بتا سکتے ہیں۔عالمی راہنما یہ تنازعہ حل کرانے کی کوشش کرتے رہے آٹھ ستمبر کے ایک قومی اخبار میں ہے کہ غیر ملکی خبررسان ادارے کے مطابق دیگر عالمی لیڈروں کی طرح جرمن وزیر خارجہ بھی افغانستان کے اچانک دورے پر پہلے مزار شریف پہنچے جہاں انہوں نے جرمن فوجی اڈے پر اپنے فوجیوں سے ملاقات کی۔بعدا زاں وہ دارالحکومت کابل پہنچے جہاں انہوں نے ملک کا آئندہ صدر بننے کے خواہاں دونوں امیدواروں عبد اﷲ عبداﷲ اوراشرف غنی سے علیحدہ علیحدہ ملاقات کی۔وفاقی جرمن وزیر خارجہ فرانک والٹر شٹائن وائر نے افغانستان کے صدارتی انتخابات کے نتائج پر تین ماہ سے جاری تنازعے کے فوری حل پر زور دیتے ہوئے دونوں صدارتی امیدواروں پر زور دیا کہ وہ ملک میں پہلے جمہوری انتقال اقتدار کو ممکن بنائیں ورنہ بین الاقوامی برادری کی طرف سے دی جانے والی امداد داؤ پر لگ جائے گی۔عالمی میڈیا کے مطابق جرمن وزیر نے اپنے بیان میں کابل حکام کو خبردار کیا کہ بین الاقوامی برادری افغانستان سے غیر ملکی افواج کے انخلا سمیت دیگر اہم معاملات سے متعلق مذاکرات کے لیے مستحکم افغان حکومت کی جلد تشکیل چاہتی ہے۔۲۲ ستمبر کے ایک قومی اخبار میں ہے کہ غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق ایک منعقدہ تقریب میں افغان صدارتی امیدواروں عبداﷲ عبداﷲ اور اشرف غنی کے درمیان قومی حکومت کے قیام کے معاہدے پر دستخط کیے گئے۔اس تقریب میں اس وقت کے صدر حامد کرزئی اور اقوام متحدہ کے نمائندے بھی شامل تھے۔افغان صدارتی ترجمان ایمل فیضی نے بتایا کہ صدارتی امیدواروں عبداﷲ عبداﷲ اور اشرف غنی کے نمائندوں کے درمیان رات کو دیر گئے ملاقات ہوئی جس میں شراکت اقتدارکی جزئیات پر بحث ہوئی۔اس پر فریقین کے دستخط کے بعد ووٹوں کی جانچ پڑتال کے بعد اخذ ہونے والے نتائج کا رسمی اعلان باقی ہے۔اس موقع پر اشرف غنی کے ترجمان فیض اﷲ نے میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ فریقین سو فیصد ہر چیز پر متفق ہوگئے ہیں۔سب کچھ طے کر لیا گیا ہے اور کسی بھی چیز پر اختلاف نہیں ہے۔ماہرین نے کہا کہ عبد اﷲ عبداﷲ نے اپنے حریف اشرف غنی کو ملک کا نیا صدر تسلیم کرلیا ہے۔ دونوں امیدواروں نے متحدہ قومی حکومت بنانے پر اتفاق کرلیا ہے۔جس میں اشرف غنی صدر ہوں گے اور عبداﷲ عبداﷲ چیف ایگزیکٹو نامزد کریں گے۔چیف ایگزیکٹو کا عہدہ وزیر اعظم کے برابر ہوگا۔افغانستان کے الیکشن کمیشن کے ترجمان نورمحمد نے کہا کہ دونوں صدارتی امیدواروں کے معاہدے کی وجہ سے الیکشن کمیشن نے صدارتی انتخابات کے نتائج کے اعلان میں تاخیر کی ہے۔افغانستان کے الیکشن کمیشن کے ترجمان نے بتایا کہ دونوں صدارتی امیدواروں کے درمیان قومی حکومت کے قیام کے اتفاق کے بعد افغانستان کا پانچ ماہ سے زیادہ طویل انتخابی عمل اپنے اختتام کو پہنچ گیا ہے جس سے عوام میں خوشی کی لہر دوڑ گئی ہے۔اس تنازع کے حل کے لیے امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے افغانستان کا رخ کیا اور حریفوں کے درمیان اختلاف کا موزوں حل تلاش کرنے کی کوشش کی۔جان کیری نے معاہدے کا خیر مقدم کیا اورکہا کہ دونوں راہنماؤں نے افغان عوام کو اہمیت دی اوراپنے ملک کے لیے پرامن انتقال اقتدارکو یقینی بنایا۔ان کا کہنا تھا کہ شراکت اقتدار کے فارمولا کے تحت الیکشن جیتنے والا دوسرے نمبر پر آنے والے کے نامزدکردہ چیف ایگزیکٹو کے ساتھ شراکت اقتدارکریں گے اس کے علاوہ دیگر اہم تعیناتیوں جن میں فوج اور دیگر اہم عہدے شامل ہیں پر شراکت کی جائے گی۔ادھر پاکستان نے افغانستان میں شراکت اقتدارکے لیے دونوں حریف امیدواروں کے درمیان اتفاق کا خیر مقدم کیا ہے۔دفتر خارجہ کی طرف سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ پاکستان افغانستان میں پرامن جمہوری انتقال اقتدارکی حمایت کے عزم پر قائم ہے۔اور معاہدے پر دستخط کو مثبت پیش رفت سمجھتاہے۔۲۳ ستمبر کے ایک اور قومی اخبارمیں ہے کہ پاکستان پیپلزپارٹی کے شریک چیئر مین سابق صدرپاکستان آصف علی زرداری نے افغانستان میں شراکت اقتدارکے معاہدے کو خوش آئند قراردیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ افغانستان میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔جمہوریت کے راستے میں اونچ نیچ آتی رہتی ہے۔برداشت ، صبر ، مفاہمت اوراورایک دوسرے کو معاف کردینے سے یہ رکاوٹیں دور ہوجاتی ہیں۔دوسری طرف وزیراعظم نوازشریف نے بھی افغان راہنماؤں کومبارکباددی ہے۔۲۴ ستمبر کے ایک قومی اخبارمیں ہے کہ افغان میڈیا کے مطابق عبداﷲ عبداﷲ اوراشرف غنی کے درمیان قومی اتحادی حکومت کے قیام کے معاہدے میں کہا گیا ہے کہ افٖانستان کی قومی اتحادی حکومت میں وزراء کی ایک کابینہ ہوگی جس میں ایک چیف ایگزیکٹو اور دواس کے نائب ہوں گے۔جس کی صدارت صدرکریں گے۔اور یہ ہی اہم فیصلے کرنے کی مجازہوگی۔روزمرہ کاکاروبارکونسل آف منسٹر کے حوالے کیا جائے گا۔کونسل آف منسٹر کے سربراہ چیف ایگزیکٹو ہوں گے۔چیف ایگزیکٹو صد رکو جواب دہ ہوگا اور صدر ہی ملک کا سب سے زیادہ بااختیار عہدہ رہے گا۔اس معاہدے میں دونوں امیدواروں پر زور دیا گیا ہے کہ وہ شراکت کی بنیاد پر حکومت کریں گے۔اور افغان عوام کے مفاد کو پیش نظر رکھیں گے۔ایک طرف تو افغانستان میں شراکت اقتدارکے معاہدے کو خوش آئند قراردیا گیا ہے۔ دوسری طرف اسے تنقیدکا نشانہ بھی بنایا گیا ہے۔ جرمن میڈیا نے افغانستان میں قومی حکومت کے قیام پر اتفاق کے عمل کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ افغان صدارتی الیکشن کے نتائج کے اعلان سے قبل ہی دونوں مرکزی امیدواروں کے درمیان سمجھوتہ ملک میں جمہوریت کے لیے خطرہ ہے۔افغان انتخابات کے نتیجے سے ملکی عوام نالاں ہیں۔جرمن میڈیا کے مطابق بہت سے لوگ ملکی قیادت کے حوالے سے اپنے تاثرت کا اظہار سوشل میڈیا پر کررہے ہیں۔زیادہ تر پیغامات اور تحریریں منفی ہیں۔جو لوگوں کی الجھن کی نشاندہی کرتی ہیں۔اور اس سے مستقبل بھی کافی تاریک دکھائی دیتا ہے۔اس وقت افغان عوام میں یہ احساس پایا جاتا ہے کہ یہ سب کچھ پہلے سے طے تھا۔اور ملکی حالات و سیاست پر ان کا کوئی اختیارنہیں ہے۔رپورٹ کے مطابق اپریل دوہزارچودہ میں منعقدہ صدارتی الیکشن کے پہلے مرحلے میں عبداﷲ عبداﷲ سرفہرست رہے۔بعدازاں جون میں ہونے والے دوسرے مرحلے میں اشرف غنی سرخرو ہوئے۔ان نتائج نے کئی شکوک وشبہات کو جنم دیا۔اور دونوں اطراف سے دھاندلی کے الزامات لگائے گئے۔اگرچہ تنازعے کے خاتمے کے لیے دونوں امیدواروں پر مشتمل حکومت ایک راستہ ضرورہے تاہم یہ راستہ افغانستان میں جمہیوریت کے لیے جان لیوا بھی ثابت ہوسکتا ہے۔رپورٹ کے مطابق افغان ووٹروں کو ایسا لگا ہوگا کہ جیسے ان کے ووٹوں کی کوئی اہمیت نہیں۔اور آخر میں اقتدارکا فیصلہ کسی اور کے ہاتھ میں ہے۔۳۰ ستمبر کے ایک اور قومی اخبار میں ہے کہ اشرف غنی نے صدراور عبداﷲ عبداﷲ نے چیف ایگزیکٹوکا حلف اٹھا لیا۔ حلف برداری کی تقریب میں صدر پاکستان ممنون حسین سمیت غیر ملکی صدور سفیروں سمیت دوسو شخصیات نے شرکت کی۔شراکت اقتدارکا یہ معاہدہ صرف افغانستان میں ہی نہیں ہوا۔عراق میں بھی یہی معاہدہ طے پاچکا ہے۔دس ستمبر کے ایک قومی اخبار میں خبر ہے کہ میڈیا رپورٹ کے مطابق عراق کی پارلیمان نے نئی اتحادی حکومت کی توثیق کردی ہے۔جس میں کرد اورسنی نائب وزراء بھی شامل ہیں۔عراق کو شدت پسند تنظیم دولت اسلامیہ سے خطرہ ہے۔جس نے ملک کے ایک وسیع علاقے پر کنٹرول قائم کیا ہوا ہے۔ہفتوں تک جاری رہنے والے سیاسی تعطل کے شراکت اقتدارکے صالح اطلوق ہوشیارزباری کی نائب وزراء کی حیثیت سے تقرری کی منظوری دی گئی تھی۔وزیراعظم نوری المالکی کے استعفے کے بعد معتدل شیعہ راہنما حیدرالعبادی کو حکومت بنانے کی دعوت دی گئی تھی۔ ادھر امریکہ نے کہا ہے کہ نئی حکومت کا قیام عراق کے لیے اہم سنگ میل ہے۔امریکی سیکرٹری خارجہ جان کیری نے نئی اتحادی حکومت میں سب کے شریک ہونے کوسراہا ہے۔عالمی خبررساں اداروں کے مطابق واشنگٹن نے اس پیش رفت کو انتہائی اہم قراردیا ہے۔آٹھ ستمبرکو عراقی پارلیمنٹ کے تین سو اٹھائیس میں سے ایک سو ستتر ارکان نے نئی متحدہ حکومت کی منظوری کے لیے ووٹ ڈالا۔ملکی سیاسی بحران سے نمٹنے کے لیے شراکت اقتدارکی ڈیل کی یہ نئی تجویزشیعہ اسلام پسند الدعوہ پارٹی کے سربراہ نے پیش کی تھی۔ڈیل کے تحت نائب وزرائے اعظم میں سنی اور کرد راہنما شامل ہیں۔عراق میں اس نئی حکومت کے قیام کوامریکی صدر باراک اوباما نے اہم قراردیا ہے۔وائٹ ہاؤ س کی طرف سے جاری کیے گئے ایک بیان میں بتایا گیا ہے کہ امریکی صدر باراک اوباما نے نئے عراقی وزیراعظم حید رالعبادی سے بذریعہ ٹیلیفون بات کی ہے۔

شراکت اقتدار کے تحت حکومتیں صرف افغانستان اور عراق میں ہی قائم نہیں ہوئیں بلکہ پاکستان میں بھی اسی پر عمل کیا جارہا ہے۔شہیدمحترمہ بینظیر بھٹو اور نواز شریف کے درمیان لندن میں شراکت اقتدارکامعاہدہ ہوا۔ جس کو میثاق جمہوریت کے نام سے جانا جاتا ہے۔اس معاہدے میں طے ہوا کہ دونوں ایک دوسرے کی حکومتوں کے خلاف کوئی سازش نہیں کریں گے۔ ایک دوسرے کی حکومتوں کو نہ خود گرائیں گے اور نہ ہی ایسی کسی سازش میں شریک ہوں گے۔ بینظیر بھٹو تو اس دنیا میں نہ رہیں تاہم ان کے شوہر آصف علی زرداری نے اس پرعمل کیا۔انہوں نے اس عمل کو مفاہمت کی پالیسی کا نام رکھ لیا ۔اور وہ اس کے کاربندبھی رہے۔جنرل پرویز مشرف نے بھی حکومت شراکت اقتدارکے تحت کی۔دوہزاردوکے انتخابات کے بعد شراکت اقتداراس طرح ہوئی کہ وفاق اور صوبہ پنجاب مسلم لیگ ق کے پاس رہے۔ سندھ میں ایم کیو ایم کی حکومت رہی۔کے پی کے میں متحدہ مجلس عمل حکمران رہی ۔ دوہزاراٹھ کے انتخابات میں آصف علی زرداری اور نوازشریف کی سیاسی پارٹیوں نے الیکشن مہم ایک دوسرے کے خلاف نہیں دوستانہ ماحول میں چلائی۔ بعد ازاں دونوں نے مل کر حکومت بنائی۔بعد ازاں وفاقی حکومت سے نوازشریف کی پارٹی الگ ہوگئی۔تاہم صوبائی حکومت اس کے پاس رہی۔ آصف زرداری کے اس دور حکومت میں شراکت اقتدار اس طرح رہی کہ وفاق پیلپز پارٹی کے پاس رہا۔ پنجاب میں ملسم لیگ ن حکومت میں رہی۔ سندھ میں پیپلزپارٹی کی حکومت قائم رہی۔ کے پی کے میں عوامی نیشنل پارٹی اوربلوچستان میں ایم ایم اے اور ق لیگ کی حکومت کام کرتی رہی۔ دوہزار تیرہ کے الیکشن کی انتخابی مہم دونوں سیاسی پارٹیوں نے ایک دوسرے کے خلاف چلائی۔تاہم جب حکومت قائم ہوئی تو وہی شراکت اقتدار قائم رکھی گئی۔اب وفاق اورپنجاب میں نواز شریف کی سیاسی پارٹی کی حکومت ہے۔سندھ میں بدستور پیپلزپارٹی حکومت کررہی ہے۔ کے پی کے میں تحریک انصاف کی حکومت ہے اور بلوچستان میں قوم پرست مسلم لیگ ن کے ساتھ مل کر حکومت کررہے ہیں۔پاکستان میں دو طرح کی شراکت اقتدارچل رہی ہے۔ایک وہ جس کا احوال آپ اس تـحریر میں پڑھ چکے ہیں ۔ جبکہ دوسری شراکت اقتدار یہ ہے کہ وزیراعظم اور اپوزیشن لیڈر مل کر حکومت کرتے ہیں۔شراکت اقتدارکا یہ فارمولا پرویز مشرف کا ایجاد کردہ ہے۔ کہ اس کے دور حکومت میں مولانا فضل الرحمان اپوزیشن لیڈر ہوا کرتے تھے۔ مولانا فضل الرحمان سابقہ اپوزیشن لیڈروں سے مخلتف ثابت ہوئے۔ ان کے ہی دور اپوزیشن میں اپوزیشن ترقی کرکے فزینڈلی اپوزیشن کے منصب پر فائز ہوئی۔ اور یہ منصب ابھی تک جاری ہے۔ مولانا فضل الرحمان نے حکومت کے خلاف نہ تو کوئی جلوس نکالا نہ دھرنا دیا اورنہ ہوئی کوئی اور حکومت مخالف سرگرمی کی۔اس کی وجہ ناقدین یہ بتاتے ہیں کہ پہلے اپوزیشن لیڈر کی تنخواہ اورمراعات وزیراعظم سے کم ہوا کرتی تھیں۔ اب وزیراعظم کے برابر کردی گئی ہیں۔ جس کی وجہ سے اپوزیشن لیڈر اب حکومت مخالف نہیں حکومت دوست بن گئے ہیں۔ اب قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ بھی حکومت گرانے والوں کی نہیں حکومت بچانے والوں کی حمایت کرتے ہوئے دکھائی دیے زرداری دور حکومت میں حکومت ختم کرانے کے کئی مواقع آئے مگر نوازشریف نے حکومت بچانے کا کردارادا کیا ۔ اب نوازشریف کی حکومت میں بھی آصف علی زرداری بھی حکومت کے ساتھ دکھائی دیتے ہیں ۔یہ شراکت اقتدارکی ہی برکت تھی کہ اتنے طویل دھرنے حکومت کا کچھ نہ کرسکے۔شراکت اقتدارکی ایک شق یہ بھی ہے کہ مخلتلف وزارتوں کی کارکردگی پر نظر رکھنے کے لیے قائم کی قائمہ کمیٹیوں کی چیئرمین شپ اپوزیشن کو دی گئی ۔سابقہ دورحکومت میں جب وفاق میں پیپلزپارٹی کی حکومت تھی۔پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کی قائمہ کمیٹی کے چیئرمین اپوزیشن لیڈر چوہدری نثار علی تھے جو مسلم لیگ ن سے تعلق رکھتے ہیں اور اس وقت وزیر داخلہ ہیں۔افغانستان میں شراکت اقتدارکے اس معاہدے کو جرمن میڈیا نے جمہوریت کے لیے زہر قاتل کہا ہے۔پاکستان میں جاری اس شراکت اقتدارپر کسی نے تبصرہ نہیں کیا۔ ہمارے شہر کے ایک ہیئر ڈریسر کی دکان پر کھڑے ہوئے ایک شخص کا کہنا تھا کہ پہلے ایک فریق حکومت کرتا تھا اور دوسرا فریق شورمچاتا تھا ۔ پرویزمشرف نے اس کو تبدیل کردیا ہے۔ اس نے اقتدار تقسیم کردیا کہ وفاق میں یہ حکومت کرے گا۔ اس صوبہ میں اس کی حکومت ہوگی اور اس صوبہ میں یہ حکومت چلائے گا۔افغانستان اورعراق میں تو شراکت اقتدار کیا رنگ لاتی ہے۔ اس کے لیے ہمیں انتظار کرنا پڑے گا۔تاہم پاکستان میں بارہ سال سے جاری شراکت اقتدار کا ایک فائدہ یہ بھی ہوا کہ اس سے پہلے حکومتیں اپنی آئینی مدت پوری نہ کرسکتیں تھیں۔ اس کے بعد کی دو حکومتوں نے اپنی آئینی مدت پوری کی ہے۔ اب تیسری حکومت چل رہی ہے۔ توقع ہے کہ یہ بھی اپنی آئینی مدت پوری کرے گی۔افغانستان میں شراکت اقتدارکو جمہوریت کے لیے نقصان دہ کہا گیا ہے ۔تاہم پاکستان میں شراکت اقتدار جمہوریت کے لیے فائدہ مند ثابت ہوئی ہے۔پاکستان میں شراکت اقتدار چل بھی رہی ہے اور اس کا مطالبہ بھی قومی حکومت کے قیام کے مطالبہ کی صورت میں کیا جاتا ہے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ قومی حکومت کے قیام کا مطالبہ ایسی شخصیات کرتی ہیں۔جن کو پتہ ہوتا ہے کہ وہ اس طرح کے انتخابات میں تو وہ حکومت میں نہیں آسکتے قومی حکومت میں ان کو شراکت مل جائے گی۔یوں وہ حکومت میں آنے سے محروم نہیں رہیں گے۔یا قومی حکومت کا مطالبہ ایسے سیاستدان کرتے ہیں جو اس وقت حکومت میں نہیں ہوتے اور وہ حکومت کے بغیر رہ بھی نہیں سکتے۔ وہ کوشش کرتے ہیں کہ انتخابات میں تو حکومت نہ مل سکی ۔ قومی حکومت (شراکت اقتدار) میں ضرور حصہ مل جائے گا۔آپ سوچ رہے ہوں گے۔کہ یہ کونسا موقع ہے یہ آرٹیکل لکھنے کا۔پہلی بات تو یہ ہے کہ پاکستان میں پہلے کون سا کام موقع دیکھ کر کیا جاتا ہے۔حکومت کے ایک سال بعد اس کے خلاف دھرنے دیے جاسکتے ہیں تو اس وقت یہ آرٹیکل بھی لکھا جاسکتا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ ہم نے باربار لکھنے کی کوشش کی کوئی نہ کوئی ایسا موضوع آجاتا تھا کہ اس موضوع کو ملتوی کرنا پڑتا تھا۔ افغانستان میں شراکت اقتدارکے فارمولے کے تحت حکومت قائم ہوئی ہے۔ یہ کونسی بڑی بات ہے ۔ پاکستان میں تویہی شراکت اقتدارچل رہی ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ وہاں اعلانیہ ہے اوریہاں غیر اعلانیہ جس کی تفصیل آپ اس تحریر میں پڑھ آئے ہیں۔توقع ہے کہ پاکستانی سیاستدان شراکت اقتدار کی برکت سے فائدہ اٹھاتے رہیں گے۔اب سیاستدانوں کو چاہیے کہ وہ اس شراکت اقتدار کا فائدہ عوام کو بھی پہنچائیں ان کے مسائل پر توجہ دیں-
Muhammad Siddique Prihar
About the Author: Muhammad Siddique Prihar Read More Articles by Muhammad Siddique Prihar: 407 Articles with 351190 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.