میر ی بھیگی ہو ئی پلکو ں کی
چھما چھم پہ نہ جا
تیر ے ٹو ٹے ہو ئے پیما ن پہ ہنسی آ ئی ہے
ا د یبہ نے د ھیمے سے شعر پڑ ھا اک آہ بھر ی اور سنا نا شرو ع کیا اس کی
نظر یں خلا میں گھور ر ہی تھیں اسکے گلا بی ہو نٹو ں پر ا یک طنز یہ سی
مسکرا بٹ تھی و ہ نہیں جا نتی تھی کہ ز ند گی اسے اس مو ڑ پر لا کھڑا کر دے
گی اس نے جسے ز ند گی بھر چا ہا تھا وہ ا یک سو دا گر نکلا ا سے یہ د کھ
نہیں تھا کہ وہ محبت ہار گئی تھی ا سے تو اس با ت کا ملال تھا کہ اس نے اسے
چھو ڑا بھی تو کس قدر تا خیر سے چھو ڑا یا سر اس کی پھو پھو کا بیٹا تھا ا
دیبہ اور یا سر کا بچپن کا سا تھ تھا وہ دو نو ں ایک دو سرے کے سا تھ محبت
کے عہد و پیما ن کر چکے تھے ا دیبہ نہ صر ف یا سر کے حسن و جما ل سے متا ثر
تھی بلکہ وہ اس کی آ واز کی بھی د یوا نی تھی وہ اسکو ل کے ز ما نے سے ہی
سنگنگ کمپیٹیشن میں حصہ لیتا تھا اور ہمیشہ فر سٹ پو ز یشن حا صل کر تا ا
دیبہ ا کثر یا سر سے کچھ سننے کی خوا ہش کر تی اور وہ اسے اسکی پسند یدہ
غزل سنا تا اور وہ ہمیشہ کی طر ح ا سکی غزل میں ڈوب جا تی
کبھی کبھی میر ے د ل میں خیا ل آ تا ہے
کہ جیسے تجھ کو بنا یا گیا ہے میر ے لیئے
تو اب سے پہلے ستا رو ں میں بس ر ہی تھی
تجھے ز میں پر بلا یا گیا ہے میر ے لیئے
کبھی کبھی میر ے دل میں خیا ل آتا ہے
ا دیبہ ا سکی سر یلی اور نر م و گدا ز آواز میں محو ہو جا تی اور اس کو کھو
د ینے کے ڈر سے کا نپ جا تی میں تمہا رے بغیر نہیں رہ سکتی یا سر میں تم سے
بہت محبت کر تی ہو ں وہ ا کثر یا سر کو ا پنی محبت کی یاد د لا تی اور یا
سر بھی اسے ا پنی محبت کا یقین د لا تا ر ہتا ا دیبہ کا یہ حال تھا کہ اس
نے یا سر کی پسند کو اپنی پسند بنا لیا تھا اسے چا کلیٹ فلیور میں آ ئس کر
یم پسند تھی مگر وہ یا سر کی خا طر ا سٹر بیر ی فلیور کھا تی تھی یا سر کو
لمبے با ل پسند نہیں تھے اس لیئے وہ ا پنے خو بصو رت گھنے اور لمبے با لو ں
کو ترا شتی ر ہتی یا سر کو شو خ اور چنچل لڑ کیا ں پسند تھی اور وہ بھی چڑ
یا کی طرح چہچہا تی ر ہتی یا سر دن کو را ت کہتا تو وہ بھی را ت کہتی سفید
کو سیا ہ کہتا تو وہ بھی سیا ہ کہتی اس کی با تو ں میں تھکن تھی شا م کے
جیسی اور لہجے میں سحر کی تا ز گی تھی اس میں کو ئی بھی خا می نہ تھی جس کی
و جہ سے یا سر اسے پسند نہ کر تا وہ ہر طر ح سے پر فیکٹ اور ا پنے تین بھا
ئیو ں کی ا کلو تی بہن تھی یو نیو ر سٹی میں ا سٹو ڈنٹ و یک قر یب آ ر ہا
تھا اور ا سٹو ڈ نٹ مختلف کھیلو ں میں حصہ لے ر ہے تھے ا دیبہ نے ا پنے کزن
یا سر کو بھی حصہ لینے کے لیئے متحرک کیا وہ بہت نرو س ہو ر ہا تھا کہ ا
دیبہ نے اسے حو صلہ دے کر اسکی سا ری ہچکچا ہٹ دور کر دی تھی یا سر
پلیز۔۔۔! میر ے لیئے۔۔۔! یو نیو ر سٹی لا ئف میں آ خر ی مر تبہ سا حر لد
ھیا نو ی کی و ہی غزل سنا دو اس نے چہکتے ہو ئے کہا اور یا سر فو را مان
گیا تمہا رے لیئے تو میں کچھ بھی کر سکتا ہو ں آ سمان سے چا ند ستا رے بھی
تو ڑ کر لا سکتا ہو ں غزل تو بہت معمو لی چیز ہے اور ا دیبہ کی خو شی کا
ٹھکا نہ نہ ر ہا د یکھا تم لو گو ں نے یا سر صرف مجھ سے محبت کر تا ہے اور
آ خر کمپیٹیشن کا دن آ گیا یا سر ا سٹیج پر جا ر ہا تھا اور ا دیبہ کا دل د
ھڑک ر ہا تھا وہ بار بار ہا تھ ہلا کر اس کی داد ر سی کر رہی تھی کہ یا سر
کی متر نم آواز ا سکے کا نو ں میں رس گھو لنے لگی
کبھی کبھی میر ے د ل میں خیال آ تا ہے
کہ بد لتی نگا ہیں میر ی ا ما نت ہیں
یہ گیسو و ں کی گھنی چا و ں ہے میر ی خاطر
یہ ہو نٹ اور یہ با نہیں مر ی ا ما نت ہیں
کبھی کبھی میر ے دل میں خیال آ تا ہے
یا سر ا سٹیج سے نیچے آ ر ہا تھا اور ا دیبہ خو شی سے ا چھل ر ہی تھی کہ یا
سر اس کے پہلو میں آ کر کھڑا ہو گیا تمہیں کیسی لگی میر ی آ وا ز وہ اس سے
پو چھنے لگا تم تو عا طف ا سلم سے بھی ا چھا گا تے ہو یا سر تمھا را کو ئی
جوا ب نہیں ہے وہ ا سکی تعر یفو ں کے پل با ند ھ د یتی یا سر کی آواز وا
قعی ا چھی تھی اور اس با ر بھی وہ سنگنگ کمپیٹیشن میں سب کو ما ت دے چکا
تھا ا ور ا سکی کا میا بی کا کچھ کر یڈ ٹ ا دیبہ کو بھی جا تا تھا اسکا دل
یا سر کی محبت سے لبر یز تھا وہ ا ٹھتے بیٹھتے یا سر کے نا م کی تسبیح کر
تی ر ہتی ا سے د یکھ دیکھ کر جیتی وہ یا سر کی جا دوئی آواز میں گم ہو کر
تھو ڑی د یر کے لیئے ا پنی تما م مصرو فیا ت بھول جا تی وہ یا سر سے ا ند
ھی محبت کر تی تھی اور اس کے لیئے کچھ بھی کر گز ر نے کے لیئے تیا ر تھی یا
سر بھی ا سے بار بار ا پنی محبت کا یقین د لا تا اور اسے خو ب ا ستعما ل کر
تا ا دیبہ نہ جا نتی تھی کہ وہ اس کے سا تھ کیا گیم کھیل ر ہا ہے اس گیم
میں اس کی ا دیبہ کے علا وہ اور بھی محبو با ئیں تھیں مگر وہ کبھی بھی ر
نگے ہا تھو ں نہ پکڑا گیا تھا اس لیئے ا دیبہ کے پا س کو ئی ثبو ت نہ تھا
کہ یا سر ا سے ا ستعمال کر ر ہا ہے کہ ا چا نک اس کی ملا قات یا سر کی ما
مو ں زا د ملا ئکہ سے ہو ئی اس کے وا لد ین ا سے پیا ر سے ملی کہتے تھے ملی
کی فیملی لند ن میں ر ہتی تھی اور ملنے کے لیئے ا پنی پھو پھو کے گھر آئی
ہو ئی تھی ملی کا فی بو لڈ اور چا لاک ہشیا ر لڑکی تھی اسے کا فی تجر بہ
بھی تھا اور لڑکو ں کو سمجھنے میں خوب د ستر س بھی حا صل تھی جبکہ ا دیبہ
قدرے معصوم سی لڑ کی تھی ا یک دن ملی نے ا دیبہ سے پو چھا تمہا ری یا سر کے
با رے میں کیا را ئے ہے اس نے معصو ما نہ جوا ب د یا کہ یا سر بہت ا چھے
ہیں اس کا جواب مثبت تو تھا مگر وہ مرد کی فطر ت سے کب آشنا تھی جبکہ ملی
مر دو ں کی فطر ت سے خوب وا قف تھی اس نے ا دیبہ کو بتا یا کہ مرد کبھی و
فا نہیں کر تا تم آز ما کر دیکھ لو کسی بھی مرد کو ا دیبہ نے ملی کی با ت
کا یقین ہی نہ کیا وہ سمجھ گئی تھی کہ ملی کا اشا رہ کس طر ف ہے اس نے بڑے
غرور سے کہا یا سر ا یسا نہیں ہے وہ صر ف اور صر ف مجھ سے محبت کر تا ہے وہ
محبت کی سر حد کو بھی عبور کر گئی تھی اور عشق کی سر ز مین پر قدم ر کھ چکی
تھی کہ ملی نے ا سے حقیقت کا آئینہ د کھا نے کا فیصلہ کر لیا ا یک دن ا
دیبہ نے ا پنے کز ن یا سر کو ا پنے گھر بلا یا ملی و ہا ں پہلے سے مو جود
تھی یا سر نے جب کمر ے میں دا خل ہو تے ہی ملی کو د یکھا تو وہ ا دیبہ کو
سلام کر نا بھول گیا جبکہ ملی کی جا نب ہا تھ ہلا تے ہو ئے ہا ئے۔۔! بو لا
ملی نے بھی ا سے ہا ئے میں ہی جوا ب د یا یا سر کی پہلی ا دا ہی ا دیبہ کو
بہت کچھ سمجھا چکی تھی مگر وہ پو رے منصو بے کے مطا بق خا مو ش ر ہی اور
ملی نے با تیں شرو ع کر د یں لہذا با تو ں با تو ں میں با ت پسند نا پسند
تک پہنچ گئی تمہیں کیسی لڑ کیا ں پسند ہیں ا دیبہ کچن میں ان کے لیئے چا ئے
بنا ر ہی تھی کہ وہ فو را متو جہ ہو کر ا نکی با تیں سننے لگی مجھے۔۔۔۔؟ یا
سر نے قدر ے تجسس سے پو چھا ۔۔۔۔۔جی ہا ں ۔۔۔۔ آپ کو ۔۔۔۔ملی نے اپنا سوا ل
د ھرا یا یا سر نے وہ تما م صفا ت گنوا د یں جو کہ ملی میں مو جو د تھیں
ملی اس کے جا ل میں پھنسنے وا لی تو نہ تھی خیر وہ ا دیبہ کو حقیقت کا آ
ئینہ د کھا نے کے لیئے خا مو ش ر ہی یا سر سمجھا ملی کو وہ ہپنا ٹا ئز کر
نے میں کا میاب ہو ر ہا ہے اس نے ملی کو ا دیبہ کی پسند یدہ غزل بھی سنا ئی
غزل کی آوا ز کچن میں صاف سنا ئی دے ر ہی تھی
کبھی کبھی میر ے دل میں خیال آ تا ہے
کہ جیسے بجتی ہیں شہنا ئیا ں سی را ہو ں میں
سہا گ رات ہے گھو نگٹ ا ٹھا رہا ہو ں میں
سمٹ ر ہی ہے تو شر ما کے اپنی با ہو ں میں
کبھی کبھی میر ے دل میں خیا ل آ تا ہے
یا سر کی دل کو مو ہ لینے وا لی آواز کا ملی پر کو ئی خا ص ا ثر تو نہ ہو ا
مگر ملی نے ا یسے ا یکسپر یشن د یئے جیسے وہ ا سکی غزل میں محو ہو چکی ہو
جب غز ل ا پنے اختتا م کو پہنچی تو ملی نے تا لیا ں بجا کر ا سے داد دی ا
سطر ح پہلی ملا قات ختم ہو گئی ا بھی دو سری ہی ملا قات تھی کہ ملی نے ا
دیبہ سے پھو ل منگوا ئے اور یا سر سے پھو لو ں کے سا تھ ا پنی جھو ٹی محبت
کا اظہا ر کیا کہ یا سر کے تو جیسے تیور ہی بد ل گئے ا د یبہ پچھلے کمر ے
میں سا را ڈرا مہ د یکھ ر ہی تھی جبکہ یا سر اس با ت سے بے خبر تھا کہ ا
دیبہ ا سے دیکھ یا سن ر ہی ہے جب ملی نے اس سے ا ظہا ر محبت کیا تو یا سر
فو را اس سے شا دی کر نے کے لیئے بھی تیا ر ہو گیا اور اسے ا پنی محبت کا
یقین د لا نے لگا اور کہنے لگا کہ میں صر ف اور صرف تم سے ہی محبت کر تا ہو
ں کہ ا چا نک ا د یبہ پچلے کمر ے سے نمو دار ہو گئی اس کی آ نکھیں بھیک ر
ہی تھیں ا دیبہ میر ی با ت سنو ا دیبہ۔۔۔۔۔۔ یا سر نے کچھ کہنا چا ہا مگر
ملی اسکا ا صل رو پ ا دیبہ کو دکھا چکی تھی ا دیبہ نے یا سر کی ایک نہ سنی
اس نے ملی کا بے حد شکر یہ ادا کیا اور دو با رہ کبھی بھی یا سر کی شکل تک
نہ د یکھی اس نے سو چا کہ محبت کیا ہے محض ا یک د ھو کہ- |