1947ء سے مسلسل بلکہ لامتناہی
آزمائشوں اور مصائب سے گزرنے والے کشمیری عوام کو ایک اور بے حد سخت آزمائش
ریاستی اسمبلی کے انتخابات کی شکل میں درپیش ہے اگر اس آزمائش میں کشمیری
عوام (اﷲ نہ کرے) ناکام رہے تو کشمیری عوام کا قومی، علاقائی اور ثقافتی
تشخص ہی شدید خطرات سے دوچار ہوجائے گا اور اس آزمائش کا تعلق اسمبلی کے
انتخابات میں صحیح فیصلہ کرنے سے ہے اور یہ صحیح فیصلہ یہی ہوسکتا ہے جموں
اور کشمیر میں بی جے پی کو کامیابی سے روکا جائے اسے اقتدار پر تنہا قبضہ
کرنا تو دور رہا اسے کسی بھی جماعت کے اشتراک سے بھی اقتدار میں حصہ داری
بھی نہیں کرنے دینا ہے۔ ویسے جموں و کشمیر کے فرقہ پرست عناصر اور ہندتوا
کے علمبردار گروہ سیاسی سازشوں کا جال بن کر تقسیم کرو اور ووٹ حاصل کر وکی
حکمت عملی کے ماہر امت شاہ کی قیادت میں حصولِ اقتدار کی کوششوں (جس کو
’’مشن44‘‘ کا نام دیا گیا ہے) میں شب و روز مشغول ہیں۔ بکنے والوں کی قیمت
لگائی جارہی ہے۔
بی جے پی کی مکمل نہ سہی جزوی کامیابی کے لئے ماحول بظاہر ساز گار ہے لیکن
اگر مفتی سعیداور محبوبہ مفتی کی پی ڈی پی اور نیشنل کانفرنس (خاص طور پر
پی ڈی پی) اگر کشمیری عوام کے مفادات کی خاطر فراست اور تدبر سے کام لیتے
ہوئے قربانی اور ایثار کا مظاہرہ کریں اور بلکہ اپنے ساتھ کانگریس کو بھی
شامل رکھیں تو وادی میں بی جے پی کو ایک حلقہ میں بھی کامیابی نہیں ہوسکتی
بلکہ جموں میں تک جتنے حلقوں میں اس نے کامیابی کی امید لگا رکھی ہے وہ بھی
اسے نصیب نہیں ہوگی۔ بی جے پی نے ایک تہائی سے بھی کم ووٹ لے کر بھی
کامیابی حاصل کرنے کا ہنر سیکھ لیا ہے۔ حالیہ پارلیمانی انتخابات میں صڑف
(32فیصد) ووٹ لے کر بھی قطعی اکثریت حاصل کی ہے۔ کچھ یہی حال مہاراشٹرا اور
ہریانہ میں ہوا ہے۔ بی جے پی کا ہنر مخالف بی جے پی ووٹس کی تقسیم میں مضمر
ہے۔ خاص طور پر مسلم ووٹس کی تقسیم بی جے پی کا کامیاب حربہ ہے اور مسلمان
اپنے ووٹ فراخ دلی سے تقسیم ہونے دیتے ہیں اور اگر یہی حال رہا تو (اس کا
مبالغہ نہ سمجھیں)
’’تمہاری داستاں تک نہ ہوگی داستانوں میں‘‘
جموں و کشمیر کی ریاست ابھی انتہائی تباہ کن سیلاب کی تباہی سے ابھی سنبھلی
نہیں ہے۔ عوام کی بازآبادکاری کا پورا ہی کام تقریباً باقی ہے۔ جموں و
کشمیر میں زندگی ابھی معمول پر نہیں آئی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ
موجودہ حالات میں انتخابات کے انعقاد کا کوئی جواز ہی نہیں ہے۔ افراتفری کے
حالات اور سیلاب کی وجہ سے عوام کو جو مشکلات پیش آئی تھیں یا آرہی ہیں اس
کی وجہ سے حکومت کے خلاف حکومت کی عمومی نااہلی اور ناقص کارکردگی کی وجہ
سے مخالف حکومت رجحان میں زبردست اضافہ ہوگیا ہے (سنگھ پریوار کے زیر
کنٹرول میڈیا نے سیلاب کے دوران ہی اور اس کے بعد سے آج تک عوام کے جذبات
بھڑکانے اور مخالف حکومت رجحان میں اضافہ کے لئے مہم چلارکھی ہے۔اس لئے
انتخابات کے لئے ناساز گار ماحول میں انتخابات کروانا بی جے پی کو اپنے لئے
مفید نظر آتا ہے ۔ اس لئے الیکشن کمیشن نے انتخابات کے انعقاد کے اعلان میں
کشمیری عوام اور حکومت کشمیر کے مفادات کو بی جے پی کے مفادات پر قربان
کردیا۔ پریشان حال عوام کی محبوریوں کا سودا آسانی سے کیا جاسکتا ہے اور بی
جے پی کے نزدیک اپنے مفادات کی خاطر ہر قسم کا استحصال جائز ہے۔
جموں اور کشمیر کے 87حلقوں میں تقریباً 65 ایسے حلقے ہیں جہاں مسلم رائے
دہندوں کی اکثریت ہے ان حلقو ں میں سے 90 فیصد حلقوں میں بی جے پی کا جادو
انشاء اﷲ تعالیٰ ہرگز نہیں چل سکے گا۔ ان حلقوں میں خاص طور پر وادی میں بی
جے پی چاہے اپنی حکمت عملی کے برخلاف مسلمان امیدوار ہی کیوں نہ کھڑے کردے
ہاں جموں اور لداخ کے 25-20 حلقوں میں فرقہ پرستی کے زہر سے بی جے پی
کامیابی کی امید رکھ سکتی ہے۔ جس طرح ہریانہ اور پنچاب کے انتخابات سے قبل
اور دوران انتخابات بی جے پی نے پاکستان میں اپنے دوستوں کی مدد سے ہند۔پاک
سرحدوں پر جنگ بندی کی خلاف وزریوں اور چھوٹی موتی جھڑپوں سے بھی ماحول کو
گرم کرکے اس کا بھر پور فائدہ اٹھانے کا کام دوبارہ بھی کرسکتی ہے۔ غالباً
واہگہ سرحد پر حالیہ دھماکہ شائد اسی کا پیش خیمہ ہے۔ کشمیری پنڈتوں کے ووٹ
بھی بی جے پی کے لئے مفید ثابت ہوسکتے ہیں۔ غرض کہ جہاں بھی جب بھی
انتخابات ہوں بی جے پی وہاں کامیابی کے لئے جان توڑ کوشش کرے گی۔ اندرونی
طور پر ہی نہیں بلکہ ادیتاناتھ، ساکشی مہاراج اور گری راج سنگھ (جو اب
وزیربن چکے ہیں) جیسے مسلم دشمن شعلہ بیان مقرروں سے فرقہ پرستی اور مسلم
دشمنی کے سہارے ہندوووٹ بینک مستحکم اور مضبوط کیا جاتا ہے تو دوسری طرف
بقول اسد الدین اویسی رکن پارلیمان ایم آئی ایم، بی جے پی کو مسلم ووٹ کی
وقت توڑ کر اس کو بکھیر کے اقتدار پر قبضہ جمانا آتا ہے (ورنہ یو پی میں
ایسا نہ ہوتا کہ وہاں ایک بھی مسلم امیدوار لوک سبھا کے (انتخاب میں کامیاب
نہ ہوسکے) اور یہی خدشات جموں و کشمیر میں موجود ہیں۔
اگر بی جے پی کو اقتدار میں معمولی سی بھی حصہ داری ملے تو وہ (اس اونٹ کی
طرح جس نے پہلے اپنے سر کو سخت سردی سے بچانے کے لئے خیمہ کے اندر کرنے کی
اجازت لی تھی اور بعد میں سارے خیمہ پر قبضہ کرکے مالک خیمہ کو خیمہ سے
باہر کردیا) دیکھتے دیکھتے اقتدار پر مکمل طور پر قابض ہوسکتی ہے۔
مہاراشٹرا میں بی جے پی نے شیوسینا کے ساتھ یہی کیا ہے۔ اس لئے بی جے پی سے
کسی قسم کا تعاون نہ صرف ملی و کشمیری مفادات کے خلاف ہے بلکہ ایک ناقابل
معافی سیاسی غلطی ہے بلکہ ایسی غلطی ہے جس کا ازالہ ہی ناممکن ہے اور یہ
جرم میر جعفر و میر صادق کے جرائم سے بھی سنگین ہوگا۔
وادی کی دو کلیدی سیاسی پارٹیوں کے بارے میں متضاد خبریں ہیں ۔ پی ڈی پی
اور نیشنل کانفرنس دونوں ہی ایک دوسرے پر الزامات عائد کررہی ہیں کہ ان کی
بی جے پی سے خفیہ مفاہمت ہے۔ اس سلسلہ میں نیشنل کانفرنس کا نہ صرف ریکارڈ
خراب ہے بلکہ اب بھی خاصہ مشکوک ہے۔ این سی والے ماضی میں واجپائی کی این
ڈی اے سرکار شریک رہے تھے۔ اقتدار کی ہوس میں شیخ عبداﷲ مرحوم کی طرح فاروق
عبداﷲ اور عمر عبداﷲ کسی بھی حدتک جاسکتے ہیں۔ دوسری طرف پی ڈی پی کا موقف
نیشنل کانفرنس اور کانگریس کی بہ نسبت خاصہ مضبوط نظر آتا ہے۔ کانگریس اور
نیشنل کانفرنس ایک دوسرے پر الزامات عائد کرکے نہ صرف خود کو بلکہ سیکولر
طاقتوں کو بھی کمزور کررہے ہیں۔ جس کا فائدہ بی جے پی کو ہی ہوسکتا ہے۔
سجاد لون کے بارے میں بھی اطلاعات ہیں کہ وہ بھی بی جے پی سے مل سکتے ہیں۔
مسلم ووٹس کے طلب گاروں میں نیشنل کانفرنس پی ڈی پی اور کانگریس کے علاوہ
چھوٹی موٹی جماعتیں اور آزاد امیدوار بھی ہوتے ہیں۔ یہ بکاؤ غیر سنجیدہ
جماعتیں اور امیدوار خود سے کھڑے ہوتے نہیں بلکہ کھڑے کردئیے جاتے ہیں اور
یہ کام بی جے پی امت شاہ کی نگرانی اور سازشوں کی مدد سے بڑی خوبی سے کرتی
ہے اور وادی میں یہی خطرہ بہت سنگین اور اہم ہے اسی سے کام لیتے ہوئے امت
شاہ نے یو پی میں ایک مسلمان امیدوار کو کامیاب نہیں ہونے دیا تھا ۔ عہد
حاضر کے میر جعفر اور میر صادق جیسے امیدواروں (مثلاً نقوی کو رام پور سے
اور شاہنواز کو دربھنگہ) سے بی جے پی نے کامیاب کروایا تھا۔
اب یہ تو سیاسی جماعتوں، دانشوروں، علماء اور میڈیا کا کام ہے کہ وہ
مسلمانوں میں شعور پیدا کریں اور ووٹس کی تقسیم کے سنگین نتائج سے آگاہ
کریں خاص طور پر بی جے پی کی وجہ سے لائق خطرات اور چھوٹی جماعتوں اور نام
نہاد آزاد بلکہ غلام زر امیدواروں کی قوم فروشی سے ہر ایک کو آگاہ کریں۔
یہ طئے ہے کہ کانگریس، نیشنل کانفرنس، اور پی ڈی پی کا اتحاد ناممکن ہے یہ
جماعتیں زعفرانی خطرے کا مل کر متحد ہوکر سمجھوتے کرکے علانیہ یا خفیہ
معاہدوں و سمجھوتوں سے کام لے کر مقابلہ نہیں کریں گی ان پارٹیوں کی ایک
دوسرے سے مقابلہ آرائی انتہائی بدقسمتی ہے لیکن جہاں سیاسی اور اصلی اور
جعلی بڑے لوگ ناکام رہیں وہاں رائے دہندگان اور عوام پر زیادہ بڑی اہم ذمہ
داری عائد ہوتی ہے۔ ان کا رول زیادہ اہم ہوجاتا ہے اور یہی صورت حال جموں
اور کشمیر میں ہے۔ جموں و کشمیر کے رائے دہندوں اور عوام کو حالیہ
پارلیمانی انتخابات کے وقت یو پی اور بہار کے المیہ کو مدنظر رکھنا ہوگا۔
ان ریاستوں سے بی جے پی کی کامیابی کی امید زیادہ قوی نہ تھی لیکن نتائج نے
تمام توقعات کو ہی غلط ثابت کردیا ۔ ہوا یہ کہ رائے دہندگان نے صرف یہ طئے
کرلیا تھا کہ بی جے پی کو ہرانا ہے لیکن بی جے پی کے متبادل کے بارے میں
سیاسی رہنماؤں اور علماء کی گمراہ کن قیادت اور ہدایات نے بی جے پی کے
متبادل پر ووٹرس کو متحد ہوکر ایک فیصلہ نہیں کرنے دیا۔ دوسری طرف امت شاہ
اور سنگھ پریوار کی سازشوں نے کشتی ہی ڈبو دی تھی۔ اب جموں و کشمیر کے رائے
دہندگان کو یو پی و بہار سے سبق لیتے ہوئے مناسب فیصلے کرنے ہوں گے۔ اپنا
ووٹ اس غیر بی جے پی امیدوارکو دیں جس کے کامیاب ہونے کے امکانات زیادہ ہوں
جس کا موقف مستحکم نظرآٹا ہوا سے ووٹ دے کر اس کو بی جے پی کو ہرانے میں
مدد دیں یہی وقت کا تقاضہ ہے یہ نہ ہوکہ ذات، برادری، عقیدے، مسلک، یا
علاقائی اور سیاسی وابستگی کے چکر میں آپ ڈوبتی کشتی میں سوار ہوجائیں۔
یہ بات ذہن میں رکھیں کہ اگر آپ کو اپنی شناخت، اپنا تشخص اور اپنی کشمریت،
کشمیری تہذیب و ثقافت عزیز ہے تو دانشمندی سے کام لیں۔ خیال رہے کہ بی جے
پی کی پوری کوشش ہوگی کہ جموں و کشمیر کا وزیر اعلیٰ مسلمان نہ ہو بلکہ غیر
مسلم ہو۔ اگر مسلمان ہو بھی تو نقوی اور شاہنواز کی طرح کامیر جعفر و میر
صادق ہو جو ایشور کے نام پر حلف لے گا اور مسجدوں کو شہید کرنے میں
عارمحسوس نہیں کرے گا۔ کشمیر میں ہی کشمیریوں اور مسلمانوں کی اکثریت کو
اقلیت میں بدل دینے اور دفعہ 370 کو منسوخ نہ سہی اس کی افادیت کو ترمیمات
سے ختم کردے گا اور کشمیر کو آپ کا اپنا کشمیر نہیں رکھے گا۔ کشمیریوں کو
کشمیر میں ہی اجنبی اور اقلیت بنانا سنگھ پریوار کا ایجنڈہ ہے۔ اس منصوبہ
کو ناکام بنانا ہی کشمیریوں کا اولین فرض ہے۔ |