3 دسمبر کو پاکستان سمیت دنیا
بھرمیں معذوروں کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ اس دن کو منانے کا اصل مقصد
معذور افراد سے اظہار یکجہتی کرنا ہے اورانکو یہ بتانا کہ وہ بھی اسی
معاشرے کے اہم رکن ہیں۔ معاشرے میں انکے تعمیری کردار کیلئے راہ ہموار کرنا
ہے تاکہ معذور افراد بھی ملک و قوم کی ترقی میں عام افراد کی طرح حصہ لیں۔
اس دن کو منانے کا مقصد یہ بھی ہے کہ دنیا بھر میں معذور افراد کو زندگی کے
ہر دھارے میں شامل کرنا اورتمام معذور افراد کو پورے اور برابر انسانی حقوق
دینا ہے۔ معذوری بھی ایک احساس کا نام ہے تاہم اپنے عمل سے معذورافراد بھی
دنیا کا ہرکام عام افراد کی طرح انجام دے سکتے ہیں۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن
(WHO)کے مطابق اس وقت پاکستان میں کل آبادی کا سات فیصد معذور افراد پر
مشتمل ہے جب کہ پوری دنیا میں اس کا تناسب دس فیصد ہے۔اقوام متحدہ کے اعداد
و شمار کے مطابق اس وقت دنیا میں چھ سو پچاس ملین سے زائد افراد اپاہج ہیں
یعنی دنیا کی آبادی کا دس فیصدحصہ معذوروں کا ہے۔المیہ کی بات یہ ہے کہ ان
ترقی پذیر ممالک میں اپاہج لوگوں کی تعداد زیادہ پائی جاتی ہے جبکہ ترقی
یافتہ ممالک میں کم ہے ۔ترقی یافتہ ممالک میں ان لوگوں کو دنیا بھر کی
سہولیات فراہم کی جاتی ہیں اور انکے علاج معالجے کا بوجھ حکومتوں پر ہوتا
ہے جبکہ ترقی پذیر ممالک میں ان کو بوجھ سمجھا جاتاہے۔
اس وقت دنیا میں تقریبا20 ملین نامولود بچے ماں کی کمزوری اور دوسری وجوہات
کی بنا پر معذور پیدا ہوتے ہیں تاہم انسان کے اپنے ہی ہاتھوں انسانیت دشمن
پالیسیوں اور کارروائیوں سے بھی بے شمار لوگوں کو معذور بنایا جا رہا ہے۔آج
پاکستان بھر میں بچوں کو معذوری سے بچانے کے لیے پولیومہم بہت زوروں پر
ہے۔پاکستان ان تین ممالک میں شامل ہے جہاں پولیو کا متعدی مرض پایا جاتا ہے۔
اقوام متحدہ (UN) کی جانب سے پاکستان پرزور دیاجا رہا ہے کہ بچوں کو مفلوج
کر ڈالنے والی اس بیماری کا خاتمہ کیا جائے۔عالمی ادارہ صحت نے حکومت
پاکستان کو 2015 دسمبر تک پولیو وائرس کے خاتمے کا ہدف دیدیا اور کہا ہے کہ
کراچی میں پولیو وائرس نے تباہی پھیلارکھی ہے لہذا کراچی میں خصوصی مہم
جاری رکھی جائے اور مطلوبہ ہدف کو ہرحال میں مکمل کیا جائے۔اس صورتحال
پرحکومت پاکستان نے چاروں صوبائی حکومتوں کوخصوصی ٹاسک دیتے ہوئے ہدایت دی
ہے کہ اپنے اپنے صوبوں میں پولیووائرس کے خاتمے کے لیے تمام وسائل بروئے
کارلائے جائیں۔حکومت سندھ نے کراچی میں پولیووائرس کی تباہی کودیکھتے
ہوئے16دسمبر سے21دسمبر چلائی جانے والی خصوصی پولیومہم کے دوران پولیو
انجکشن لگانے کا فیصلہ کیا ہے۔
معذور افراد جو نہایت حساس ہوتے ہیں۔ موجودہ حالات میں انکی حساسیت اور بھی
بڑھ جاتی ہیں۔ انہیں توجہ کی اشدضرورت ہوتی ہے۔ انہیں پیار کی ضرورت ہوتی
ہے۔ معاشرے میں لاتعداد افراد موجود ہیں جنہیں مناسب رہنمائی اور پذیرائی
مل جائے تو وہ نہ صرف اپنا بلکہ اپنے کنبے کی کفالت کرنے کے قابل ہو سکتے
ہیں ۔ ایسے معذور افراد معاشرے کے کارگر شہری بھی بن کر ملک و قوم کا نام
دنیا بھر میں روشن کر سکتے ہیں۔ خصوصی افراد نے دنیا کے ہر شعبے میں اپنا
لوہا منوایا اور اپنی صلاحیتوں سے یہ ثابت کر دیا اگر ان کے ساتھ تعاون کیا
جائے تو یہ عام لوگوں کی طرح اپنی زندگی گزار سکتے ہیں۔
آج کے دن حکومت اور این جی اوز معذور افراد کے حوالے سے تقریبات منعقد کرتی
ہیں۔ جن میں بڑی بڑی تقریریں اور دعوے کیا جاتے ہیں ۔ اچھاکھانا پینا ہوتا
ہے اور پھر کھیل ختم پیسہ ہضم ۔ معذور افراد جہاں تھے وہ وہیں رہیں گے ان
کی صحت پر کوئی فرق نہیں پڑیگا۔ انہیں اگر معاشرے کا کارگر شہری بنانا ہے
انہیں اگر انکے ہونے کا احساس دلانا ہے اور انہیں اگر قومی دھارے میں شامل
کرنا ہے تو اس کیلئے میدان عمل میں آنا ہو گا۔ بڑے بڑے ادارے بنانے اور
تقریبات منعقد کرنے سے آپ کی نیک نامی توضرور ہوجا ئے گی مگر ان معذوروں کو
کچھ حاصل نہیں ہوگا۔اگر ان سے محبت دکھانی ہے توانکے قریب جائیں ،ان کے
ساتھ زندگی کے حسین لمحات گذاریں تاکہ انکا احساس محرورمی کم ہوسکے۔ انہیں
انکی اہمیت کا احساس دلائیں، ان کی باتیں سنیں ،انہیں پیار کریں اور انکے
کیے ہوئے کاموں پر ان کا حوصلہ بڑھائیں۔ ایسے اور بھی بہت سے کام ہیں جو
معاشرے کا ایک عام فرد بہتر انداز میں کر سکتا ہے۔ تاہم آج کے دن اگر ان
چند کاموں میں سے کوئی ایک کام کر لیں تو بھی کم از کم آج کے دن کا تقاضا
پورا ہو ہی جائیگا۔ آج کا دن منانے کا مقصد بھی یہی ہے کہ ہم رنگ، نسل اور
ذات سے بالاتر ہو کر یہ عہد کریں کہ خصوصی افراد کی بحالی میں اپنا بھر پور
کردار ادا کریں گے۔ |