ابھی تو دھرنا شروع ہوا ہے۔۔۔

سمجھ سے بالا تر ہے کہ یہ آدمی کرنا کیا کیا چاہتا ہے۔ چار ماہ گذر جانے کے بعد بھی کہتا ہے کہ "ابھی تو دھرنا شروع ہوا ہے"۔حکومت کا خیال تھا کہ یہ ڈانس پارٹی زیادہ سے زیادہ دو چار ہفتے چلے گی۔ اور اس کے حاضرین اور پرفارمر تھک ہار کر خود ہی گھروں کو لوٹ جائیں گے۔ لیکن ایسا نہیں ہوا۔ اور حکومت کی یہ خواہش پوری نہ ہو سکی ۔ خواہش تو پاکستان دھرنا پارٹی کی بھی پوری نہیں ہوئی ۔ وہ جو چاہ رہے تھے اُنہیں نہیں مل سکا۔ لیکن اُن کا پورے چار ماہ تک دھرنا دیئے رکھنا قابل تعریف ہے۔ ثابت ہوتا ہے کہ جو پارٹی اپنے مطالبات منوانے کے لیے اتنی محنت کر سکتی ہے اور تکلیف برداشت کر سکتی ہے وہ اقتدار میں آ کر بھی کچھ نہ کچھ ضرور کر ے گی ۔ویسے اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا ہے ان دھرنوں کی سیاست نے ملک کے بچے ، جوان اور بوڑھے سب کو سیاست سکھا دی ہے۔ اُنہیں اپنا حق مانگنے کا طریقہ بتا دیا ہے۔چند ہفتے پہلے کی بات ہے کہ ایک عاشق اپنی معشوق سے کہہ رہا تھا کہ وہ اپنے باپ کو سمجھا ئے کہ اُس کے راستے میں آنے کی کوشش نہ کرے ورنہ وہ تمہارے گھر کے سامنے دھرنا دے کر بیٹھ جائے گا۔اور یہ دھرنا اُس وقت تک جاری رہے گا جب تک اُس کا باپ اپنی ہٹ دھرمی سے پیچھے نہ ہٹ جائے۔اُس عاشق کو بتایا گیا کہ اُس کی محبوبہ کا باپ بہت ڈھیٹ ہے اُس کی صحت پر کسی دھرنے ورنے کا کچھ اثر نہیں ہو گا۔عاشق نے سینہ چوڑا کر کے یہ دعویٰ کیا کہ وہ اپنی محبوبہ کے باپ سے بھی زیادہ ڈھیٹ ہے۔ وہ مر تو سکتا ہے لیکن اپنا فیصلہ نہیں بدل سکتا۔لہذٰ اُس نے ایسا ہی کیا اور اپنی محبوبہ کے گھر کے سامنے دھرنا دے دیا۔ اُس کا یہ دھرنا ابھی تک جاری ہے۔ نہ تو لڑکی کا باپ اپنے رویے میں نرمی دکھا رہا ہے اور نہ ہی وہ عاشق اپنے فیصلے سے پیچھے ہٹ رہا ہے۔ وہ روزانہ کچھ لوگ جمع کرتا ہے اور ایک ڈانس پارٹی شروع کر دیتا ہے۔ وہ ہر روز ایک ہی گانے پر ڈانس کرتا ہو انظر آتا ہے۔۔۔ ابھی تو پارٹی شروع ہوئی ہے۔۔۔

دھرنوں کی وجہ سے نہ صرف حکومت بوکھلائی ہے بلکہ عوام بھی تنگ آ چکی ہے۔پہلے تو صرف دھرنے ہی تھے لیکن اب دھرنوں کے ساتھ ساتھ جلسوں کا سلسلہ بھی شروع ہو چکا ہے۔تمام ترقیاتی کام رک چکے ہیں۔اور جو مہنگائی میں اضافہ ہوا ہے وہ الگ۔ کل میں نے سلاد کے لیے سبزی والے سے کھیرے کا بھاؤ معلوم کیا تو میرے ہاتھوں کے طوطے اُٹ گئے۔میں نے کھیروں کے مہنگے ہونے کی وجہ پوچھی تو سبزی والا بڑی معصوم سی شکل بنا کر بولا جناب جب سے یہ دھرنے شروع ہوئے ہیں کھیروں کا رخ بھی اُدھر ہو گیا ہے۔میں نے پوچھا کہ دھرنے میں کھیروں کا کیا کام؟ وہ بڑے راز دانہ انداز سے بولا کہ دھرنے میں موجود ممی ڈیڈی لوگ سلاد کو بہت پسند کرتے ہیں۔میں نے سوچا کہ دھرنا تو اسلام آباد میں ہے اور اس کا اثر لاہور تک پہنچ چکا ہے۔ یعنی اسے کہتے ہیں کامیابی۔ میرا ایک دوست کراچی میں رہتا ہے۔ وہ کاروباری شخص ہے۔ میری اکثر فون پر اُس سے بات چیت ہوتی رہتی ہے۔ میں نے اُس سے پوچھا کہ کاروبار کیسا چل رہا ہے۔ تو مایوس ہو کر بولا کہ دھرنے کی وجہ سے کاروبارتو بالکل تباہ ہو گیا ہے۔ میں ایک دفعہ پھر اس سوچ میں پڑ گیا کہ دھرنوں کا اثر کراچی تک بھی پہنچ چکا ہے۔ میں نے اپنے دوست سے پوچھا کہ آخر یہ سلسلہ کب تک جارے رہے گا۔ اُس نے ایک گہری سانس لی اور بولا ۔۔۔ابھی تو دھرناشروع ہوا ہے۔۔۔

حکومت کو بھی اس دھرنے کے بے شمار نقصانات اُٹھانا پڑے ہیں۔ جو معاملات خفیہ تھے وہ کھل کر عوام کے سامنے آ چکے ہیں۔ جس کی وجہ سے حکومت کی مقبولیت میں کمی آئی ہے۔حکومت کا اعتراض اپنی جگہ بالکل بجا ہے کہ ان دھرنوں کی وجہ سے ملکی معیشت کو نقصان پہنچ رہا ہے۔ اگر یہ دھرنے نہ ہوتے تو اب تک پورے لاہور میں پل بن چکے ہوتے۔ میٹرو کے کئی نئے روٹ وجود میں آ چکے ہو تے۔اب تک نہ جانے کتے ہی طلبہ لیپ ٹاپ سے مستفید ہو چکے ہوتے۔ لیکن اس دھرنے کی وجہ سے بہت سارے منصوبے دھرے کے دھرے رہ گئے ہیں۔لیکن عوام کیا چاہتی ہے؟ عوام کو ان دھرنوں ورنوں سے کوئی غرض نہیں اور نہ ہی کوئی پریشانی ۔ عوام تو چاہتی ہے اُسے اُس کا حق دیا جائے۔ جان لیوا مہنگائی اور قاتل بے روزگاری سے چھٹکارا دلایا جائے۔ لوڈ شیڈنک کاعذاب ٹالا جائے۔ بھوک میں مرتے ہوئے بچوں کو زندہ رہنے کا حق دیا جائے۔ انصاف دینے کے معاملے کے ساتھ انصاف کیا جائے۔ یہ سب حکومت کے کرنے کے کام کے کام ہیں جو وہ نہیں کر رہی۔ حکومت یہ کام کرے بھی کیسے ؟ کیونکہ اُس کی ساری توجہ اور توانائی اس دھرنے سے نمٹنے میں صرف ہو رہی ہے۔یہ سلسلہ جانے کب تک چلتا رہے۔ کیونکہ ۔۔۔ابھی تو دھرنا شروع ہوا ہے۔۔۔

دھرنے کہ وجہ سے حکومت کے ساتھ ساتھ کچھ لوگوں کی نجی زندگی بھی متاثر ہوئی ہے۔ میرا ایک دوست امجد تو اس دھرنے سے بے حد متاثر ہوا ہے۔ آج کل وہ بہت پریشان رہتا ہے۔ بات بات پر قہقہے لگانے والا ، دلچسپ لطیفے سنانے والا اور ہر محفل میں رنگ جمانے والا امجد اب بہت بدل چکا ہے۔نہ کسی سے بات کرتا ہے اور نہ ہی کسی سے ملتا جلتا ہے۔ پورے آفس میں ایک ہی تو آدمی تھا جو ماحول کو خوشگوار بنائے رکھتا تھا۔ اب ایسے لگتا ہے جیسے پورے آفس کو سانپ سونگھ چکا ہو۔ ایک دن میں نے اُس کی افسردگی کی وجہ پوچھ ہی لی۔امجد کی باتوں نے مجھے حیران بلکہ پریشان کر دیا کہ اُس کی اس حالت کا ذمہ دار پی ٹی آئی کا دھرنا ہے۔ میں نے اُسے مزید کریدہ تاکہ حقیقت کھل کر سامنے آسکے۔ اُس نے مجھے بتایا کہ دھرنے کہ وجہ سے اُس کے گھریلو حالات بڑی بُری حد تک بگڑ چکے ہیں ۔اُس نے مجھے مزید بتایا کہ اُس کی بیوی روٹھ کر میکے جا چکی ہے۔ مجھے حیرانی میں ڈوبتے دیکھ کر وہ مزید گویا ہوا کہ اگر یہ دھرنا ایک مہینہ اور چل گیا تو اُس کا گھر نہیں چل سکے گا۔ مجھے اُس کی یہ منطق بالکل بھی سمجھ نہ آسکی اور تنگ آ کر یہ پوچھا کہ آخر اس دھرنے کا تمہاری گھریلو زندگی سے کیا تعلق ہے۔۔۔؟ وہ منہ لٹکا کر بولا کہ تمہاری بھابی کا تعلق نون لیگ سے ہے ۔ اب تم ہی بتاؤ کہ ان حالات میں بارود اور چنگاری ایک ساتھ کیسے رہ سکتے ہیں۔ پتہ نہیں یہ تماشہ کب تک جاری رہے گا۔۔۔؟ میں اُس کی طرف دیکھ کر مسکرایہ اور شرارتی انداز میں بولا ۔۔۔ ابھی تو دھرنا شروع ہوا ہے۔۔۔
Ahmad Raza
About the Author: Ahmad Raza Read More Articles by Ahmad Raza: 96 Articles with 100164 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.