طلائی دینار اور دائش
(محمد آصف شیراز, Austin, Texas)
اشتہار بازی کی صنعت میں ایک
کہاوت عام ہے کہ منفی تشہیر کسی شے کا نام نہیں۔اس کی نمایاں مثال
سرکاردوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ میں ملتی ہے کہ جہاں ابو جہل
اہل عرب کو آپ سے دور رہنے کی تلقین کرتا، تو یہی عمل لوگوں میں ایسا تجسس
بیدار کردیتا کہ وہ آپ کو جاننے کی خاطر چلے آتے۔ اور پھر پتھر پارس سے مل
کر سونا بنتا چلا جاتا۔ تاریخ میں اکثر اللہ کے نور کو پھونکوں سے بجھانے
والے اپنے ہی داؤں کو الٹ پا کر کعبے کو پاسباں مہیا کرتے رہے ہیں۔
امریکہ کی پیشتر معتبر خبر رساں ایجنسیوں نے بھی پچھلے دنوں دائش اور طلائی
دینار کی خبر پھیلا کر اپنی طرف سے تو اسلامی معاشیاتی نظام کو بدنام کرنے
کی کوشش کی۔ مگر انجانے میں وہ پوری دنیا کو طلائی دینار سے روشناس کروانے
کی ایسی خدمت سرانجام دے گئے جس کی ہم دینار تحریک کے کارکنان برسوں سے
خواب ہی دیکھتے رہ گئے۔کیونکہ مغربی سوچ سے بے جا متاثر ہمارے معاشرے میں
جو خبر بھی ان کی خبر رساں ایجنسیوں سے متعارف ہو، اسے عوام اہمیت کی نظر
سے دیکھتے ہیں۔
دراصل جو خبر ۱۴ نومبر ۲۰۱۴ کو گارڈیئن، ڈیلے میل، سی این این، فوربز،
اسرائیلی اخبار ہاریٹز اور بہت سے اقتصادی جریدوں اور بلاگز پر شائع ہوئی،
وہ یہ تھی کہ شام میں نام نہاد دولت اسلامی یعنی دائش کے سربراہ ابو بکر
البغدادی نے اپنی ریاست کے سکہ رائج الوقت کو کاغذی کرنسی سے ہٹا کر اسلامی
طلائی دینار اور نقرئی درھم پر لوٹانے کا ارادہ ظاہر کیا ہے۔ ہم مستقبل
قریب میں شائع ہونے والی اپنی کتاب 'سود اور اسلام طلائی دینار' میں تفصیل
سے بیان کر چکے ہیں کہ کوئی بھی ملک اگر کرنسی کو سونے اور چاندی پر لوٹا
دے تو یہ عالمی اقتصادی نظام کے لیے کتنا خطرناک ہے۔لہذا وہ پوری کوشش کرتے
ہیں کہ سونے کی قیمت کو بھی کم رکھیں، اور زیادہ سے زیادہ سونے کے ذخائر
بھی اپنے قبضے میں رکھیں۔ یہی وجہ ہے کہ جہاں پوری دنیا امریکی ڈالر کو زر
محفوظ سمجھتی ہے، وہاں امریکہ خود فورٹ ناکس میں سونے کے انبار لگائے اس کے
ثمن خلقی ہونے کی حیثیت کا خود اپنے اس عمل سے اعتراف کرتا ہے۔پس دائش کی
طرف سے سونے اور چاندی کے سکے رائج کرنے کی خبر کو بھی عالمی اقتصادی
برادری نے بہت خوف وہزن سے دیکھا۔
اسی طرح آج سے بہت برس پہلے، جب ۹ ستمبر کے بعد پوری دنیا کو القاعدہ کے
عفریت سے ڈرایا جا رہا تھا، تو اس وقت بھی کہیں سے یہ خبر پھیلا دی گئی کہ
اسامہ بن لادن امت مسلمہ کو سونے کے دینار اور چاندی کے درھم اپنانے کے
تلقین کر رہے ہیں۔یہ شائد اس لیے ضروری تھا کیونکہ ملیشیاء کے صدر جناب
مہاتر محمد نے کھلے عام طلائی دینار کے نظام کی حمایت کر کے اسے ملیشیاء
میں پروان چڑھنے کی اجازت دے دی تھی۔ پس عالمی قوتوں کے لیے ضروری تھا کہ
وہ اس نظام کو بدنام کر کے پھیلنے سے روکیں۔ ایک طرف مہاتر محمد کو یہ سخت
پیغام بھیجا گیا کہ وہ طلائی دینار اور ملیشیاء کے درمیان انتخاب کر لیں،
اور دوسری طرف دینار تحریک کو شدت پسندی اور تخریب کاری کے ساتھ منسلک کرنے
کی کوشش کی گئی۔ چنانچہ ٹی وی چینل سی این بی سی پر ایک اقتصادی تجزیہ نگار
کریگ سمتھ نے اسلامی طلائی دینار کو ڈالر کے خلاف ایک سازش قرار دے کر اسے
اسامہ بن لادن کا دیا گیا تصور ظاہر کیا، حالانکہ اس کی شروعات کا اصل سحرہ
شاذلی سلسلہ تصوف سے منسلک علماء کرام کو جاتا ہے۔
ملیشیاء کی دینار تحریک کو جناب زید حامد نے جب پہلی بار پاکستانی میڈیا
میں روشناس کروایا تو مصنف نے بھی اس تجزیہ نگار کو دینار تحریک کی تفصیل
آگاہ کیا۔ہم نے اس بات کو واضح کیا کہ نو آبادیاتی نظام کے بعد پہلی بار جب
مسلمانوں کو اپنی اقتصادی زندگیوں کو دین سے ہم آہنگ کرنے کا موقع ملا، تو
اسلامی بینکاری اور طلائی دینار، دونوں تحریکیں ۱۹۶۰ء کی دہائی میں اکٹھی
شروع ہوہیں۔انگریزوں کے نظام زر و بینکاری سے زیادہ واقفیت نہ رکھنے کی بنا
پر اکثر علماء اس کے بہت سے ناجائز پہلووں کو بھی صحیح سمجھ کر اسلامی
بینکاری کی طرف نکل گئے، اور یوں طلائی دینار یورپ اور امریکہ کے نو مسلموں
کے علاوہ زیادہ مقبول نہ ہو سکا۔ بحرحال ، اس نظام کی بنیاد سیاسی نہیں
بلکہ مذہبی اور اقتصادی اصولوں پر قائم ہے، اور اس کا اجراء امریکہ یا ڈالر
سے دشمنی کی وجہ سے نہیں، بلکہ سود و ربا کی ممانعت کے تحت کرنسی نظام کو
شریعت سے ہم آہنگ کرنے کے لیے ہے۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ جاء الحق وزھق البطل
کے مصداق جب طلائی دینار جیسا مساوی نظام زر قائم ہو گا تو ڈالر کو خود
بخود بہت کٹھن مسابقت میں ڈال دے گا۔علاوہ ازیں خود امریکہ میں بہت سے لوگ
اقتصادی نقطہ نظر سے ڈالر کو بھی سونے اور چاندی کر میعار پر بحال کرنا
چاہتے ہیں، جن میں آسٹریئن مکتب فکر کے ماہرین معاشیات اور جناب ران پال
جیسے معروف سیاستدان شامل ہیں۔
سی این بی سی کا وہ تجزیہ نگار یہ سب دلائل سن کر قدرے شرمندہ ہوا اور اعلی
ظرفی کا اظہار کرتے ہوئے اس نے نہ صرف اپنی اس رپورٹ پر معافی مانگی، بلکہ
اسلام کے اس اقتصادی اصول کے علاوہ اسلامی معاشرے میں خواتین کے ادب اور
حیاء و احترام کی بھی داد دی۔اس کی یہ ای میل ہماری ویب سائٹ دینار وکالہ
ڈاٹ کام پر موجود ہے۔
مگر افسوس کہ امریکی حکومت ، ایجنسیوں اور بینکاری صنعت سے منسلک دیگر
افراد اس اخلاقی جرآت کے حامل نہیں۔ عالمی منڈی میں ڈالر کو زر محفوظ قائم
کروانے سے جو افادیت امریکہ کو ہو رہی ہے، یہ لوگ اسے کسی قیمت پر بھی
گھٹنے نہیں دیتے۔ پس، مہاتر محمد تو دور کی بات، اگر ان کے اپنیے شہری بھی
غریب امریکی عوام کو مہنگائی کے ظلم سے بچانے کے لیے سونے اور چاندی کو
اپنانے کی ترغیب دیں تو یہ انہیں بھی نہیں بخشتے۔ایسے ہی ایک شخص جناب
برنرڈ وان ناٹہاس ہیں، جنہیں بغیر کسی جرم کے صرف چاندی کے سکے لبرٹی ڈالر
تخلیق کرنے پر سلاخوں کے پیچھے بھیج دیا گیا ہے۔
اس پس منظر میں ہمیں قوی گمان ہے کہ دائش کی طرف سے دینار اور درھم جاری
کرنے کی خبر کے پیچھے بھی امریکہ ہی کی ایجنسیاں شامل ہیں، تاکہ دینار
تحریک کو شدت پسندوں کے ساتھ گنوا کر اس کے کرکنان میں خوف و ہراس پھیلا
دیا جائے۔البتہ، اس واقعہ کا ایک خوبصورت پہلو یہ ہے کہ اسے تین زاویوں میں
سے جس طور بھی لیا جائے، اس سے دینار تحریک کو تقویت ہی ملتی ہے۔
اول تو یہ صورت ہے کہ دائش کے سربراہ اسرائیل میں زیر تعلیم رہنے والے
موساد کے ایک خفیہ کارکن ہیں، جو ایک سوچی سمجھی سکیم کے تحت کام کر رہے
ہیں۔ ان کا کام جذباتی مگر کم علم نوجوانوں کو ایک جنگجو تحریک میں شامل
کروا کر دنیا کو اسلام کی ایک ایسی تصویر پیش کرنی ہے، جس کے بعد امریکہ
اور اسرائیل کے لیے شام پر پیش قدمی کرنا آسان ہو جائے، اور وہ گریٹر
اسرائیل میں تخت داودی کی تنصیب کا خواب پورا کر سکیں۔ طلائی دینار اقتصادی
دنیا کی ایک ایسی تیغ بے نیام ہے کہ جس کی کاٹ سے مسلمانوں کی نسبت یہودی
سود خور زیادہ واقف ہیں۔ پس، جہاں البغدادی ان کے دیگر سیاسی مقاصد میں
معاونت کر رہے ہیں، وہاں لگے ہاتھوں طلائی دینار کو بھی بدنام کرنے کا کام
لے لیا گیا۔اس نظریے کی سب سے بڑی دلیل یہ ہوگی کہ عملی طور پر دینار کو
کبھی دائش کے زیر اثر علاقے میں رائج نہیں کیا جائے گا، کیونکہ یہ ڈھونگ
صرف دینار کو بدنام کرنے کے لیے رچایا جا رہا ہے۔ ہمیں ذاتی طور پر کافی حد
تک یقین ہے کہ دائش اس نظریے کو عملی طور پر واقعی پورا نہیں کرے گی۔ اور
اگر ایسا ہو جائے تو اپنے خیال کو غلط ثابت ہونے پر ہمیں سے سے زیادہ خوشی
ہو گی۔
اس نظریے کے تحت امت مسلمہ کو چاہیے کہ وہ دشمن کے تیروں کے حدف کو دیکھ کر
جان لیں کہ طلائی دینار اور اس کے ذریعے بلا سودی نظام زر واقعی ان کے لیے
کتنا فائدہ مند ہے کہ دشمن اسے ختم کر دینا چاہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ایک
طرف تو سودی نظام کے دالخلافہ لنڈن میں اسلامی بینکاری کو اجراء کی اجازت
دی جا رہی ہےاور روتھچائلڈ بینک تک نے' اسلامک ونڈو ' کھول رکھی ہے، مگر
خود مسلمان ملکوں میں طلائی دینار کو روکا جا رہا ہے۔یاد رکھیے کہ جو اسلام
کفر کو منظور نظر ہو، اس میں ملاوٹ کا کئی زیادہ امکان ہوتا ہے۔پس، اس خبر
سے ہمیں یہ سبق لینا چاہیے کہ ہم اسلامی بینکاری کے فسوں سے نکل کرطلائی
دینار کے ذریعے حقیقی اسلامی اقتصادی نظام کی طرف پیش قدمی کریں۔
دوسری صورت یہ ہو سکتی ہے کہ دائش کی قیادت بھی افغان طالبان کی طرح اسلام
کی طرف مخلص ہے، مگرآل سعود کی طرح اپنی مخصوص فرقہ ورانہ سوچ کے ہاتھوں
مجبور ہو کر مسلمانوں ہی سے برسرپیکار ہے، جیسے سعودی فرمانروا سلطنت
عثمانیہ سے برسرپیکار ہو گئے ۔اس صورت میں یہ گمان کیا جا سکتا ہے کہ امت
مسلمہ کے سامنے اپنی گرتی ہوئی ساکھ کو بچانے کے لیے انہوں نے طلائی دینار
رائج کرنے کا اعلان کیا، تاکہ عوام میں مقبولیت حاصل کر سکیں۔ اس صورت میں
بھی عوام الناس کی ذمہ داری ہے کو وہ اپنے آپ کو طلائی دینار کے نظریے سے
روشناس کریں، کہ جسے دائش نے اپنی مثبت تشہیر کے لیے اتنا اہم سمجھا۔
اور آخری صورت ان معصوم افراد کی ہو سکتی ہے جو شائد اپنے جذبہ ایمانی سے
مجبور ہو کر دائش کو واقعی حقیقی خلافت کی بحالی کی ایک امید سمجھتے ہیں۔
حالانکہ ہمیں اس سے قطعا اتفاق نہیں، مگر یہاں بھی دینار تحریک کے لیے ایک
مثبت پہلو یہ ضرور ہے کہ ایسے لوگ اپنے 'خلیفہ' کے کہنے پر کم از کم طلائی
دینار نظریے کا ازسر نو جائزہ لیں گے اور ایک نئی لگن کے ساتھ اس کا مطالعہ
کریں گی۔
پس یہ ثابت ہوا کہ اس بظاہر منفی خبر سے ایک بار پھر کعبے کو صنم خانے سے
پاسباں مل گئے، اور اسلام دشمنوں کا داو ناکارہ ہو گیا۔ہمیں امید ہے کہ
پاکستانی عوام حقیقی اسلامی اقتصادی نظام کے اس بنیادی عنصر کا بغور مطالعہ
کرے گی، اور انشاء اللہ اسی نتیجے پر پہنچے گی کہ سود و ربا کا خاتمہ مروجہ
اسلامی بینکاری کے ذریعے نہیں بلکہ نظام زر کو طلائی دینار اور نقرئی درھم
پر بحال کرنے ہی سے ہو سکتا ہے۔
نوٹ: مصنف براعظم امریکہ میں سب سے پہلے دینار و درھم جاری کرنے والے
ادارے، دینار وکالہ کے بانی، اور 'اسلامی طلائی دینار' کتاب کے مصنف ہیں۔
رابطہ ای میل
[email protected] |
|