دل یہ کعبہ ہے یا گھر موت
کا ہے
کچھ بھی نہیں اُسے ڈر موت کا ہے
جسے سفرِ زیست جان کر طے کیا ہم نے
طے کر کے پھر کھلا یہ سفر موت کاہے
دورِ حاضر کی طرزِ زندگی نے جہاں انسان کے لئے بے شمار آسائشیں اور آسانیاں
پیدا کی ہیں وہیں پر لا تعداد امراض کو بھی انسانیت پر مسلط کیا ہے جوں جوں
انسان فطرت سے رو گردانی کرتا جا رہا ہے اسکی مصنوعی زندگی میں نت نئے
جسمانی وذہنی عوارض اپنی خطرناک اور خوفناک علامت کے ساتھ حملہ آور ہو رہے
ہیں بہت مشہور کہاوت ہے کہ صحت دولت ہے اور یہ سچ بھی ہے کسی شخص کی اگر
صحت چلی جاتی ہے تو اُسکا سب کچھ کھو جاتا ہے انسان کی مادی ترقی کے ساتھ
ساتھ جہاں نئی نئی ایجادات اور سائنس و ٹیکنا لوجی کی نئی راہیں وا ہوئی
ہیں وہاں گھمبیر مسائل اور امراض نے بھی جنم لیا ہے جن میں ہوا ،پانی و غذا
میں آلودگی اور طرز رہائش میں تبدیلی سر فہرست ہیں اور یہ کئی امراض کا پیش
خیمہ ثابت ہورہے ہیں آج کا موضوع پڑھ کر آپ یہ سوچ رہے ہوں گے کہ یہ کیا
لکھا ہے ہم مر کیوں رہے ہیں ؟کچھ عجیب سی بات لگتی ہے مگر یہ سچ ہے کہ ہمیں
ابھی تک یہ بات پتہ ہی نہیں ہے کہ ہمارے درمیان لوگوں کے مرنے کی زیادہ وجہ
آخر ہے کیا․․․ ؟ملک میں لوگ کس بیماری سے مر رہے ہیں․․․؟آج کل تو فائرنگ
اور بم دھماکوں نے انسانی جان کو بے مول کردیا ہے مگر اس کے علاوہ بھی ان
کے مرنے کا سبب کیا ہے․․․ ؟بعض امراض ایسے ایسے مشکل و پیچیدہ ہیں کہ
باوجود یہ کہ انسان سائنس کی مدد سے طبی مسائل کو بہت حد تک سُلجھا چکا ہے
مگربہت سے امراض کے بارے میں ابھی تک تحقیق جاری ہے ،لیکن اب دنیا میں
تحقیق نے ایک نیا رُخ اختیار کیا ہے کہ یہ وجہ معلوم کی جائیں کہ سب سے
زیادہ اموات کس وجہ سے ہو رہی ہیں ؟ تاکہ باقی انسان اُس تحقیق سے فائدہ
اُٹھائیں۔دنیا بھر میں ساڑھے5کروڑ لوگ موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں ، ترقی
پذیر ملک میں بھی اکثر موت کی وجہ معلوم نہیں ہوپاتیں ، سائنسدان یہ جاننا
چاہتے ہیں کہ آخر انسان کی اموات کے زیادہ اسباب کیا ہیں ؟ اس کے علاوہ ان
سب کے ذمہ دار یہ حکمران بھی ہیں جو صرف اپنی غرض سے عوام کو الو بنا کر ان
کو صرف لوٹتے رہتے ہیں ،ہمارے حکمران بے شک ان سب میں کان نہ دھریں اور ان
رپورٹس کو بھی دھرنوں کے کھاتے میں ڈال کر خود بری الزمہ ہوجائیں مگر ان
روحوں کو کیا جواب دیں گے جو ان سے قیامت کے دن گریبان پکڑ کر اپناجرم
پوچھیں گی ، حکمرانوں کی ذمہ داری ہے کہ عوام کو صاف پانی ،اچھی غذا، مناسب
ماحول اور صحت کی تمام سہولتیں فراہم کریں ۔ مگر ان حکمرانوں کو کسی بات سے
کوئی فرق نہیں پڑتا ،اسپتالوں میں نامناسب سہولتیں ان کی حالتِ زار بیاں
کرتی نظر آتی ہیں ، گنتی کہ افراد میں ہی خلقِ خدا ہے باقی سب بے حس ہوگئے
ہیں ،یہاں تو یہ حال ہے کہ کوئی بچہ بھی اگرآخری سانسیں لے رہا ہوتاہے، تب
بھی یہ بے حسی کی چادر میں لپٹ جاتے ہیں ماں باپ کی دہائیاں ، التجا ئیں
،فریاد سب بے کار ہوجاتی ہیں اور وہ کلی کھلنے سے پہلے ہی مرجھا جاتی
ہے،کتنے بچے اسپتال کی مناسب سہولتیں نہ ملنے کے سبب موت کے منہ میں چلے
گئے ،خبر نشر ہوتی ہے کہ وینٹیلیٹر خراب، بجلی کی فراہمی معطل جس کی وجہ سے
بچے زندگی سے ہی ناطہ توڑ لیتے ہیں کتنے ماؤں نے اپنے جگر کے ٹکڑوں کو اپنے
ہاتھوں سے دفن کیا ہوگا ، کتنے باپ نے اپنے بازو ڈھلتے دیکھے ہوں گے مگر
یہاں اب کوئی انسان ایسا نہیں جو دردِ دل رکھ سکے جب کسی انسان کو منا سب
سہولتیں نہیں ملیں گی تو وہ بیماریوں میں ہی مبتلا ہوگا ، کم سے کم عوام کو
سہولتیں تو دو صرف ووٹ لینے کے وقت عوام کی یاد ستاتی تڑپاتی ہے یہ حکمران
ہمیں میٹرو بس، لیپ ٹاپ پکڑا کر سمجھتے ہیں کہ عوام اندھی ہے کالی پیلی
ٹیکسی کی کہانی سب کے سامنے ہے عوام کو صحت ، تعلیم اور مناسب سہولتیں ہی
دے دو تاکہ وہ صحت مند سانس تو لیں سکیں ، پڑھ لکھ کرخود ہی کما لیں گے ،
انھیں ان کی وہ معمولی ضرورتیں تو پوری کرو جو ان کا حق ہے انہیں کالی پیلی
ٹیکسی نہیں سرکاری اسپتال چاہیں ، صحت مراکز میں مفت دوائیں چاہیں ، سرکاری
اسپتال میں سہولتیں چاہیں ، سرکاری تعلیم اداروں میں کچھ دو نہ دو کم سے کم
تعلیم ہی دے دو جو ان غریبوں کا حق ہے ، اخبارات اور میڈیا میں بڑے بڑے
اشتہارات آجاتے ہیں کہ حکومت عوام کی فلاح و بہبود کے لیے یہ کررہی ہے، وہ
کر رہی ہے نظر کچھ نہیں آتا اس کی قیمت کم کر دی ، عوام مطمئن نظر نہیں آتی
۔ سندھ میں صحت کی صورتحال سب سے زیادہ خراب ہے ۔
جب کوئی شخص مہنگائی سے پریشان ، ذہنی کشمکش اور محرومی کا شکار ہوجاتا ہے
تو اُسکی قوت مزاحمت کمزور پڑجاتی ہے،اور وہ مختلف بیماریوں کا شکار ہوجاتا
ہے تھرکے وہ معصوم بچے وہ ننھے تارے غذائی قلت کا شکار پانی سے محروم، ،
گزشتہ سال قحط کے بعد ہلاکتوں نے کم از کم یہ ضرور ثابت کر دیا کہ سندھ
حکومت کی نظر میں انسانی جانوں کی کوئی حیثیت اور وقعت نہیں ، یہاں جس
لاپروائی اور غفلت کا مظاہرہ دیکھنے کو ملتا ہے تھر کے عوام کے رہن سہن کا
جائزہ لیا جائے تو ایسے حقائق سامنے آئیں جو مجرمانہ حکومتی غفلت کی طرف
اشارہ کرتے ہیں اس سے واضح ہوچکا ہے کہ تھر سمیت سندھ کے دوردراز علاقوں
میں صرف سیاست ہورہی ہے اور قحط کا معاملہ بھی سیاست کی نظر ہوچکا ہے ایسا
معلوم ہوتا ہے کہ جیسے تھر کو علم کی روشنی سے محروم رکھنا حکومت کی حکمتِ
عملی کا حصہ ہے یہاں محرومیاں اُن خبروں سے کہیں بڑھ کر ہیں جو میڈیا پر
دکھائی دیتی ہیں۔
مہنگائی ․ ․ ․ ․ ! جی مہنگائی یہ ایک نئی بیماری دریافت ہوئی ہے جولوگوں کو
باقی بیماریوں سے ، ان کا تعارف کرواتی ہے یہ حکمرانوں کا تحفہ ہے ، جو صرف
پاکستان کے عوام کے لیے ہے اس بیماری سے ہر خاص و عام مستفید ہوتا ہے اس
بیماری کے صرف سائیڈ افیکٹ ہوتے ہیں مہنگائی کی شرح مرتب کرنے والوں کا
کہنا ہے کہ گزشتہ چار پانچ برسوں کے دوران مہنگائی کی شرح میں چالیس سے
پچاس فیصد اضافہ ہوا ہے ، اب تو لوگ سکون سے مر بھی نہیں سکتے ،ماہر
کارڈیالوجسٹ کی رائے کے مطابق صحت کو نقصان پہنچانے اور ذہنی پریشانی کا
باعث بننے والے عوامل میں ناقص غذا ، ماحولیاتی عناصر وغیرہ کا عمل دخل ہے
اور اس میں منفی رویوں کا بھی ساتھ عمل دخل ہے جس میں غصہ بھی شامل ہے جس
کے سبب ذہن مفلوج ، اعصاب تنگ، بلڈ پریشر ہائی اور ہارٹ اٹیک وغیرہ جیسے
خطرات لاحق ہوسکتے ہیں
پاکستان میں کینسر ، امراض قلب، گردے کی بیماری ، ذیابطیس ، ہائی بلڈ پریشر
تو ہیں ہی لیکن اب معمولی بیماریوں سے بھی ہلاکتیں تیزی سے بڑھ رہی ہیں
پاکستان میں ایک ہیلتھ سروے کے مطابق بتایا گیا ہے کہ پاکستان میں5 سال سے
کم عمر بچوں کی اموات کی تعداد89 فی ہزار ہے جبکہ شیرخوار بچوں کی شرح
اموات47 فی ہزار ہے ․ ان میں زیادہ تر بچوں کی اموات پیدائش کے ایک ماہ کے
دوران ہوجاتی ہے
دباوٗ ․․․․․․! آج کل کے اس مہنگائی اور ٹینشن کے دور میں انسان بہت سی
بیماریوں کاشکار ڈپریشن اورذہنی دباؤ کی وجہ سے بھی ہوتا جا رہاہے ،دباؤ اب
ہماری زندگی کا ایک اہم حصہ بنتا جارہا ہے ہم دن بھر میں کئی کئی بار اس کا
شکار ہوتے ہیں اگرچہ دباؤ انسانی معاشرے میں ہمیشہ سے موجود ہے لیکن
انسانوں کے مشینوں کا غلام بننے کے اس دور میں اور اس مہنگائی کے جھٹکوں
میں دباؤ اس قدر عام ہوگیا ہے کہ اُسے باقاعدہ ایک مرض کا درجہ دیا جانے
لگا ہے اگر یہ ضرورت سے زیادہ بڑھ جائے تو بعض اوقات یہ بیماری خطرناک صورت
اختیار کر لیتی ہے یہاں تک کہ خودکشی کی نوبت آجاتی ہے یہاں تو ایک اسکول
اور کالج کا بچہ بھی دباؤ کا شکار بنتا جا رہا ہے ۔
امراض قلب․ـ․․․ـ․! دل کے امراض میں ہر سال تیزی سے ا ضافہ ہورہا ہے ہر سال
دو لاکھ پاکستانی دل کی بیماریوں سے ہلاک ہوجاتے ہیں اس مرض سے2030ء تک
دنیا بھر میں23 ملین افرد کی ہلاکت کا خدشہ ہے ، پاکستان ان20ممالک میں
شامل ہے جہاں یہ خطرات ہیں ، بد قسمتی سے دل کی بیماریاں اب عام ہوتی جارہی
ہیں ، وہ معلومات اور خطرات سے اب آگاہی عام ہونی چاہیے جن سے ہم مبتلا ہیں
یا ہوسکتے ہیں ۔
منشیات․ ․ ․ ․ ․ ․! پاکستان میں لوگوں کی بڑی تعداد منشیات کی عادی ہے تا
ہم یہ شرح باچستان میں سب سے زیادہ ہے جو کہ قابلِ تشویش ہے ، رپورٹ میں یہ
بتایا گیا ہے کہ گزشتہ برس میں ۶․۷ ملین لوگ جن کی عمر ۱۵ سے ۶۴ سال کے
درمیان ہے نشے کے عادی ریکارڈ کئے گئے ہیں پاکستان میں مختصر عرصے میں ۲۵․۴
ملین لوگ منشیات کے عادی ہیں سگریٹ نو شی کرنے والوں کی عمر اوسط ً عمر10
سال کم ہوجاتی ہے یہ ایک نشے کی طرح انسان کو اندر سے ختم کر دیتا ہے اس کے
باوجود منشیات کی سرعام فروخت مزید تشویش کا سبب ہے اس سے سب سے زیادہ
نوجوان نسل تباہ ہورہی ہے۔
ہائی بلڈ پریشر․ ․ ․ ․ ․ ․ ! ایک ایسی علامت ہے جسے عرصہ دراز سے ایک
بیماری سمجھا جاتا ہے تحقیق کے مطابق ہائی بلڈ پریشر بیماری نہیں بلکہ
دوسری کئی بیماریوں کی ایک واضح علامت ہے ہائی بلڈ پریشرکو سائلینٹ کلر بھی
کہا جاتا ہے یہ مرض بہت سے عضو کو نشانہ بناکر انھیں ناکارہ کر دیتا ہے اور
آہستہ آہستہ موت کے منہ میں لے جاتا ہے ۔
ایبولا وائرس․ ․ ․ ․ ․ ․ !ساری دنیا میں ایبولا وائرس سے ہلاکتوں کا شور ہے
اس کے نتیجے میں 10,000ہزار سے زیادہ ہلاکتیں ہوچکی ہیں عالمی ادارہ صحت نے
پاکستان کو بھی وارننگ جاری کر دی ہے ۔
کینسر ․ ․ ․ ․ ․ ․!(سرطان) نام ان جان لیوا بیماریوں کے ایک گروپ کو دیا
جاتا ہے جس میں ہر سال لاکھوں افراد مبتلا ہوجاتے ہیں ۔ سرطان کی تقریباً
200 سے زائد اقسام ہیں اور یہ جسم کے کسی بھی عضو یا حصے میں شروع ہوسکتا
ہے ․ یہ مرض پیدائش سے لیکر بڑھاپے تک عمر کے کسی بھی مرحلے میں لاحق
ہوسکتا ہے ۔ ۳۰ سال کی عمر کے زیادہ لوگوں میں اس کی شرح زیادہ ہوتی ہے اس
طرح مختلف ملکوں اور قوموں میں کینسر کی اقسام اور تعداد مختلف ہوتی ہیں یہ
مرض آج بھی نبی نوع انسان کے لئے مسائل بنا ہوا ہے یہ مرض اب ماضی کی طرح
لا علاج مرض تونہیں رہا مگر اس کا علاج بہت تکلیف دہ اور طویل ثابت ہوتا ہے
۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ کینسریاسرطان کی مختلف اقسام میں تیزی سے اضافہ ہو
رہا ہے ان اقسام میں سر فہرست اسکن کینسر اور بریسٹ کینسر ہے جس میں تیزی
کے ساتھ اضافہ ہورہا ہے بریسٹ کینسربھی ایک تکلیف دہ بیماری ہے ۔
ڈینگی بخار․․․․․! طبی اصلاح میں ڈی ایچ ، ایف کہا جاتا ہے ڈینگی بخار کا
سبب بننے والے وائرس کا نام ؟ ہے جو ایک خاص مچھر سے کاٹنے سے انسانی جسم
میں داخل ہوتا ہے ، ڈینگی کا سبب بننے والا مادہ مچھر لاطینی امریکہ سے مصر
منتقل ہوا تھا ،1950 یہ بیماری پہلی بار ایشیاء میں ڈینگی وائرس کی تشخیص
کی گئی تھی جس کے بعد یہ بیماری ایک وباء کی صورت ایسے پھیلی کہ اس سے
ہزاروں کی تعداد میں لوگ بالخصوص بچے جان بحق ہوئے ۔،1975۱ سے1980کے دوران
یہ بیماری عام ہوگئی اور اس کو ڈینگو بخار کا نام دیا گیا عالمی ادارہ صحت
کی روپورٹ کے مطابق دنیا میں ہر سال2کروڑ افراد ڈینگی وائرس سے متاثر ہورہے
ہیں پاکستان میں بھی ہرسال ڈینگی بخار سے ہزاروں افراد متاثر ہوئے ہیں
۔مچھروں سے انسانوں میں داخل ہونے والا ڈینگی وائرس لاکھوں انسانوں کو موت
کے منہ میں دھکیل چکا ہے ، وائرس پھیلانے والے مچھر کی 38اقسام ہیں جن میں
ایک پاکستان میں موجود ہے اس کے لیے کوئی ویکسین دستیاب نہیں ہے ، اس کا
مریض اپنے جسم میں درد ، متلی، ناک اور منہ سے خون آنا اور بخار محسوس کرتا
ہے ، ڈینگی ملک کے عوام کے لیے مستقل خطرہ بنتا جا رہا ہے تاہم احتیاط ہی
بہتر علاج ہے ماہرین کو اس کے مستقل انسداد کی تدابیر پر بھی غور کرنا
چاہیے۔
ملیریہ․ــ․․․․ـ! پاکستان میں ہر سیکنڈ میں ایک بچہ ملیریا کی بیماری کا
شکار ہو کر موت کے منہ میں چلاجاتا ہے ،ملیریا جیسی معمولی بیماری بھی یہاں
جان لیوا ہے ، 2012 کے اعداد و شمار پر مشتمل ایک رپورٹ کے مطابق 11سالوں
میں ملیریا کی بیماری کے 6لاکھ2012 میں1 لاکھ 75ہزار مریض رپورٹ ہوئے
ہیں۔لوگ ٹائفائیڈ کو بھی ملیریا سمجھ کر گھریلو علاج میں لگ جاتے ہیں جس کی
وجہ سے ملیریا میں شدت آجاتی ہے ۔
خسرہ․ ․ ․ ․ ․ !پہلے زمانوں میں یہ بیماری ایک معمولی بیماری کہلاتی تھی ،
مگر اب خسرہ ایک خطرناک بیماری ہوگئی ہے پاکستان میں ہر سال 92ہزار بچے
خسرہ سے ہلاک ہوجاتے ہیں اس بیماری سے ۱ ہفتہ میں 100 سے زیادہ بچے ہلاک
ہوگئے غذائی قلت کا مسئلہ جہاں ردپیش ہوگا وہاں خسرہ کی بیماری پھیل جاتی
ہے صوبہ سندھ میں خسرہ کی بیماری سے ایک ہفتہ میں سو سے زیادہ بچے ہلاک ہو
گئے ہیں خسرہ کی بیماری اب معمولی نویت کی نہیں رہی اور اب تو اس بیماری کی
معمولی ویکسین کی بھی قلت ہوجاتی ہے۔
ذیابطیس․․․․․! ذیابطیس ایک ایسا عالمی مسئلہ بن چکا ہے جو انسانی ، سماجی
اور معاشی زندگی کو متاثر کر کے انہیں تباہ کررہا ہے یہ خاموش قاتل لاکھوں
انسانوں کے لیے پیغامِ اجل بن کے آتی ہے آج دنیا بھر میں ۴۰۰ ملین لوگ
ذیابطیس کے ساتھ جی رہے ہیں ، ہر سال ۷ ملین یعنی ۷۰ لاکھ افراد اس کا شکار
ہوجاتے ہیں اس بیماری نے بہت سارے قابل لوگوں کا صفایا کر دیا ہے ہر دس
سیکنڈ بعد ذیابطیس کے ہاتھوں ایک شخص ہاتھ دھو بیٹھتا ہے یہ انسان کواندر
سے ختم کردیتی ہے ،۔
تھلیسمیا․․ ․ ․ ․ ․! یہ خون کی ایک مہلک بیماری ہے جو پاکستان میں تیزی سے
پھیل رہا ہے ایک اندازے کے مطابق تقریباً 10ے15 افراد اس مرض میں مبتلا ہیں
، یہ ایک موروثی اور مہلک مرض ہے تھلیسمیا کی ۲ اقسام ہیں 1۔
تھلیسمیامیجر2۔ تھلیسمیا مائنر ،پاکستان میں ہر سال تقریباً4500بچے
تھلیسمیامیجر کے مرض میں مبتلا ہوجاتے ہیں اس وقت ہمارے ملک میں70000سے
زائد بچے تھلیسمیامیجر میں مبتلا ہیں تھلیسمیامیجر مین مبتلا انسان کو
ہر2سے3 ہفتے ہیں خون کی منتقلی کی ضرورت پڑہتی ہے منتقلی خون کا یہ عمل4سے6
گھنٹے کے درمیان مکمل ہوتا ہے یہ طریقہ ساری زندگی رہتا ہے ، تھلیسمیا
مائنر میں خون کی تبدیلی کا عمل نہیں ہوتا لیکن جب دو تھلیسمیا مائنر کے
مریض آپس میں شادی کرتے ہیں تو ان کی اولاد تھلیسمیامیجرہوتی ہے اس لئے
شادی سے پہلے مرد و عورت کو تھلیسمیاکے ٹیسٹ کروا لینے چاہیں ۔
ہیپاٹائٹس ․․․․․․!یہ بیماری جگر کے متاثر ہونے سے ہوتی ہے ہم ہیپا ٹائٹس بی
اور سی کی بات کریں تو یہ ایک ایسی بیماری ہے جو انسان کو دیمک کی طرح چپ
چاپ متاثر کرتی ہے یہ بیماری متاثرہ شخص کو اندر ہی اندر کھوکھلا کر دیتی
ہے یہ بیماری5 سے10سال میں نمودار ہونا شروع ہوتی ہے ابتداء میں ہلکا سا
پیلیا ہوتا ہے پیٹ کے اوپری حصہ میں تکلیف ہوتی ہے جب یہ بیماری اپنے عروج
پر ہوتی ہے تو پیٹ میں پانی بھرنے لگتا ہے یہ وہ مرحلا ہے جس میں مریض کو
بچانا مشکل ہوجاتا ہے ڈاکٹر صرف مرض کی بڑھتی ہوئی رفتار کو کم کرنے کی
کوشش کرتا ہے مگر علاج ممکن نہیں ہوتا اس کی وجہ ناقص غذا ، ناقص ادویہ
شامل ہیں اس بیماری کا خوفناک دورانیہ جب ہوتا ہے جب کوئی مریض اس مرض کے
وائرس کو اپنے ساتھ لئے گھوم رہا ہوتا ہے ، ہیپاٹائٹس بی اور سی میں بہت
احتیاط کرنی ہوتی ہے یپاٹائٹس بی کا ٹیکہ موجود ہے مگر یہ مہنگا ہونے کی
وجہ سے عوام پہنچ سے دور ہے اور حکومت اس حوالے سے سنجیدہ قدم نہیں اُٹھا
رہی ،ہیپا ٹائٹس سی کا کوئی انجکشن نہیں بنا ، ہیپاٹائٹس بی کو بچوں کا
قاتل کہا جا سکتا ہے یہ کسی بچے کا لگے تو اُسے نہیں چھوڑتا ہیپاٹائٹس بی ،
ہیپاٹائٹس سی سے زیادہ خطرناک ہے-
جس ملک میں زہریلی شراب،پان گٹکے اور سگریٹ پر پابندی نہیں لگائی جا سکتی
ان سے لوگوں کی ہلاکتیں مستقل ہورہی ہیں ، وہاں بیماریوں سے روک تھام کے
لئے کسے پروا ہوگی یہ ایک المیہ ہے کہ ہم کسی انسان کو ایک صحت مند ماحول
تک فراہم نہیں کر سکتے ،صحت کے مسائل روز بروز بگڑتے جا رہے ہیں،غذا کی
تبدیلی اور صحتمند جسمانی سرگرمیوں کو بڑھانے اور طرزِ زندگی بدل دینے سے
ہم ان جان لیوا بیماریوں سے بچ سکتے ہیں اور حکومتی ادارے اگر صحیح ہوجائیں
اور اسپتالوں کی حالت زار بہتر کریں تو ہم ان بیماریوں پر قابو پا سکتے ہیں
انتظامیہ کو مثبت اقدامات اُٹھانے چاہیں ان پر عمل سے ہم قیمتی نقصانات اور
قبل از وقت موت کی شرح کوکم کر سکتے ہیں ۔ |