دھرنا،اجتماع،لاکھوں کے خرچے
(Sardar Asghar Ali Abbasi, )
دھرنا،اجتماع،لاکھوں کے خرچے
،آئی ڈی پیز/سیلاب متاثرین/تھر قحط سالی آپکی سیاستگری پر شکوہ گر
آج کل دو جگہوں پر جلسے جلوس ایسے ہو رہے ہیں جیسے کوئی ثواب کا کام ہے ایک
اسلام آباد کا ڈی چوک جس پر عمران خان صاحب ہر روز پرانے حلوے کو نئے تڑکے
کے ساتھ پیش کرنے کی جستجو میں لگے نظر آتے ہیں جبکہ دوسرا پڑاؤ لاہور کے
مینار پاکستان پر نظر آتا ہے ۔14اگست1947کے بعد جتنی رونقیں مینار پاکستان
کو اب بخشی گئی ہیں اتنی شاید ہی کبھی اس سے قبل بخشی گئی ہوں یہاں تک کہ
14اگست والے دن بھی اس عظیم یادگار پر کوئی خاص تقریب ہوتی نظر آتی تھی مگر
مینار پاکستان جواس ملک کے غریبوں کی تفریح گاہ تک محدود ہو کر اپنی تاریخی
حیثیت کھو چکا تھا چلیں شکر ہے کہ اب اس عظیم یادگار پر اس ملک کے طول و
عرض سے لوگ آکر اپنا پڑاؤ کرتے ہیں اور یوں اس کے پیچھے چھپی ہوئی تاریخ سے
کچھ نہ کچھ آشنا ہو ہی جاتے ہیں مینار پاکستان جیسی تاریخ ساز جگہ پر کئی
غریب افراد کا پہنچنا نا ممکن تھا جو لاہور کے مضافات یا کسی دوسرے صوبے کے
رہائشی ہیں کیونکہ حالات کی ستم ظریفی نے اس ملک کے شہریوں کو اس طرح پیس
کر رکھ دیا ہے کہ انہیں تاریخ کے دریچوں میں دیکھنا تو دور کی بات ان
دریچوں کا وہم بھی ذہن میں لانے سے ڈر لگتا ہے کیونکہ جس شخص کے روز و شب
بجلی، پانی، گیس، ٹیلی فون، بچوں کی ٹیوشن فیس،بچوں کی سکول فیس،روزانہ کی
سبزی کا بل ،بیگم کے موبائل کا ایزی لوڈ ،بیٹے کے موبائل کا ایزی لوڈ اپنے
موبائل کا ایزی لوڈ ،گھر کے دیگر اخراجات جیسے اژدہاؤں سے نمٹتے ہوئے گزرتے
ہوں وہ کس طرح یادماضی کی طرف جانے کی غلطی کر سکتا ہے وہ تو اپنی بیگم کو
اپنی شادی کے ابتدائی ایام کی خوشیاں بھی یاد نہیں دلا سکتا کہ کہیں اس
دوران اسکی بیوی اس سے کوئی نئی فرمائش ہی نہ کر بیٹھے کہ جسے پورا کرنے
کیلئے اسے پھر ایک نئی آفت سے لڑنا پڑے یقیناً اس ملک کے گھر کا کفیل جس
اذیت ناک زندگی سے گزر رہا ہے یہ وہی جانتا ہے لگژری گاڑیوں ،لگژری
کنٹینرز،کارپوریٹ کلاس کے ممبرز کس طرح سے ایک غریب کے دکھوں کا مداوا بننے
کے داعی ہو سکتے ہیں جو لوگ غریبوں کے دکھوں کے پاسدار بننے کے دعویدار تھے
آج انکی انجیو گرافی پاکستان کے ہسپتال سے ممکن نہیں اور امریکہ سے انجیو
گرافی ہورہی ہے تو پھر کس طرح سے وہ اس ملک کے غریب کے دکھوں کا مداوا بنیں
گے ۔
قارئین……!! مینار پاکستان تک غریب آدمی کو پہنچانے میں اس وقت ملک کی سیاسی
،مذہبی ،سماجی تنظیموں کا بہت بڑا کردار ہے کہ انہوں نے اپنی سیاسی لڑائی
میں غریب آدمی کا بھلا کیااور سندھ، بلوچستان، پشاور سے لا کر ان غریب
پاکستانی شہریوں کو مینار پاکستان کی سیر کرائی جنہوں نے خواب میں بھی اس
جگہ تک آنے کا نہ سوچا تھا اور شاید انکی خوشی کی انتہا بھی نہ رہی ہوگی جب
وہ بغیر کسی ٹکٹ اور بغیر کسے خرچے کے مفت میں مینار پاکستان کی سیر کر کے
واپس اپنے گھر کو پہنچے ہونگے یقیناً پاکستان کی سیاسی ،سماجی ،مذہبی
جماعتوں کو یہ کریڈٹ جاتا ہے کہ انہوں نے یہ کر دکھایا وگرنہ اس ملک کے تخت
پر بیٹھے حکمران تو آج تک اپنی عوام کی روٹی دال پوری نہیں کر سکے مینار
پاکستان جیسی عظیم جگہ تک عوام کی رسائی کیسے ممکن بنا سکتے ہیں ۔
قارئین……!!مینار پاکستان ہمارے اتحاد کی علامت ہے یہی وہ جگہ ہے جہاں ہمارے
آباؤ اجداد نے عہد و پیماں کئے تھے اور آج انکے اس عہد و پیما کی بدولت ہم
ایک آزاد ملک میں رہتے ہیں وگرنہ ہم بھی آج بے شمار مسائل کا شکار ہوتے مگر
انہوں نے اس دھرتی کو لہورنگ کر کے ہمیں یہ آزادی دی اور اس آزادی کا مطلب
یہ نہیں بتایا تھاکہ ہم اس عظیم تاریخی جگہ پر اکٹھے ہونے کی بجائے بکھرنے
کی جدوجہد شروع کریں آج مینار پاکستان کے گرد ہر روز ایک سیاسی جماعت جلسے
کا اعلان کر کے پھر وہاں عوام کا جم غفیر جمع کر کے اپنی طاقت کا مظاہرہ
کرتی نظر آتی ہے سمجھ میں یہ نہیں آتا کہ کیا یہ بر صغیر پاک و ہند کا دور
ہے کہ ہم ہندوؤں کو یہ باور کروا رہے ہیں کہ ہم متحد ہیں اور تم ہمیں ہمارا
حق دو یا فرنگی کو للکار رہے ہیں کہ تم ہمارا حق ہمیں واپس دو ہمارے آباؤ
اجداد نے اس دھرتی کو جب لہو رنگ کیا تو اس دھرتی نے اس لہو کو قرض سمجھا
اور اسکے بعد ہمارے اوپر کبھی بھی غلامی کے منحوس بادلوں کو منڈلانے نہیں
دیا اگر ہم سوچ اور فکر میں غلام ہیں تو یہ ہماری اپنی فطرت ہے اس میں
ہمارے آباؤ اجداد کا یہ اس دھرتی کا کوئی قصور نہیں ۔
قارئین……!! سیاسی جماعتوں سے ایک چھوٹا سا سوال ہے کہ مینار پاکستان پر آپ
جو اجتماع کرتے ہو اس پر کتنا خرچ آتا ہے اور یہ اس خرچ سے سوائے سیاسی
فائدے کے اور کوئی فائدہ نہیں بلکہ ایسے اجتماعات میں شرکت کرنیوالے مجمع
کو بھی اس کا کوئی فائدہ نہیں محض ایک انٹر ٹیمنٹ کے سوا کیونکہ نہ تو وہ
اس اتنے بڑے جم غفیر میں تسلی سے مقررین کی بات کو اپنے سماعت کی حس تک
باآسانی پہنچا پاتے ہیں اور نہ ہی یہ ایسا ماحول ہوتا ہے کہ جس ماحول کے
تئیں اس اجتماع میں شریک افراد خودکو آرام دہ محسوس کریں ۔یقینا افراتفری
جیسا ماحول ہوتا ہے اور اگر کوئی اجتماع میں شریک ہے تو دل میں واپسی کا
تخیل ہے اور اگر کوئی دیہاڑی لے کر آیا ہے تو دیہاڑی وصول کے وقت کا انتظار
ہے اور اگر کوئی نظریہ ضرورت کے تحت آیا ہے تو زبان سے واہ واہ تو ہے مگر
دل و نگاہ دو رنگی ہے تو پھر سوچ یک رنگی کیسے ہوگی ۔
قارئین……!! ہم ایک چھوٹا سا طائرانہ جائزہ لیتے ہیں کہ اس ملک میں اس وقت
موجودہ حالات میں عوام کو کیا کیا مسائل ہیں تو ہمیں سب سے پہلے اپنے
لاکھوں آئی ڈی پیز بھائی فوراً نظر آتے ہیں جو شدید سردی کے شروع ہونے کے
باوجود ابھی بے یارو مددگار ہیں کیونکہ اکیلے حکومت ان سب سے نمٹ نہیں سکتی
اور خود حکومت اپنے منہ سے یہ کہتی نظر آتی ہے کہ سول سوسائٹی ،سماجی
تنظیمیں ،حقوق انسانی کی تنظیمیں سب متحد ہوں تاکہ ان آئی ڈی پیز کی بہتر
مہمان نوازی کی جا سکے مگر کوئی اس بات پر کان دھرنے کو تیار ہی نہیں
۔دوسری جانب تھر میں قحط سالی کا شکار ہوکر موت کے منہ میں جانیوالے معصوم
ننھے پھول جن کا کوئی قصور نہیں وہ نہ کسی سیاسی جماعت سے ہیں اور نہ ہی
کسی ملک دشمن سر گرمی میں ملوث ہیں وہ الگ بات ہے کہ ہمارے ملک میں جس طرح
کی گورننس ہے اسکے کیا کہنے کہ 7ماہ کے بچے پر بھی مقدمہ درج ہو جاتا ہے
اور عدالت پہنچ کر معلوم ہوتا ہے کہ بیچارہ تو ابھی جرم کرنے کے قابل ہی
نہیں اور نہ ہی ابھی اسے وسعت نظری کی جلاء بخشی گئی ہے اور یوں اسکی ضمانت
اور ایف آئی آر درج کرنیوالے کی سبکی ہوتی ہے مگر کیا فائدہ پھر کچھ عرصے
بعد نیا واقعہ رونما ہو جاتا ہے ۔بات تھر کی قحط سالی تک ہی ختم نہیں ہوتی
تھوڑا سا اپنی سوچ کے زاویے کوئی گھمائیں اور اسے کسی اور ڈگری پر لے جائیں
تو آپ کو گزشتہ سیلابی ریلوں کے باعث بے گھر ہونیوالے ہزاروں افراد بھی
فوراً نظر آجائیں گے جو اچھے اچھے گھروں کے مالک تھے اور انکے گھروں میں
خوشحالی تھی اور انہیں بھی ہماری طرح فکر نہیں تھی کہ وہ کسی مصیبت کا شکار
ہونیوالے ہیں اور یوں پانی کے بے رحم ریلوں نے ان سے انکی خوشیاں چھین لیں
اور آج وہ مسائل میں گھرے ہوئے ہیں اور انکی کشتی بھنور میں پھنسی ہوئی ہے
آج وہ بے گھر ہیں کل وہ امداد دیتے تھے آج امداد لیتے نظر آتے ہیں کل انکا
ہاتھ اوپر تھا آج نیچے ہے کل انکا ضمیر مطمئن تھا آج انکا ضمیر ملامت کرتا
نظر آتا ہے ۔اگر اس سے تھوڑا سا آگے چلیں تو ہمیں اس ملک میں پولیو جیسے
خطرناک مرض کا سامنا ہے جس کے باعث بین الاقوامی اداروں نے ہمیں اب ڈیڈ
لائن تک دے دی ہے اورآج بھی ہمارے اخبارات کی شہ سرخیاں روز یہ عیاں کرتی
ہیں کہ کہیں نہ کہیں پولیو کا کوئی نہ کوئی کیس ابھر کر سامنے آرہا ہے اور
بات اس سے بھی آگے جاتی نظر آرہی ہے کہ ایمبولا وائرس کے مریض بھی اب بستر
مرگ پر پڑے ہیں اخبارات کی شہ سرخیوں میں اس مرض نے بھی جگہ بنائی ہے ۔
قارئین…………!! یہ تو وہ مسائل ہے جو فی الوقت ہے سیاسی جماعتیں اقتدار کے
حصول کیلئے اتنے بڑے بڑے جلسے کر رہی ہیں اور لاکھوں کا سرمایہ ضائع کر رہی
ہیں لیکن اگر ان جماعتوں کے قائدین اس چھوٹی سی عرض پر غور فرما لیں تو
یقیناً عوام کے اندر سیاستدانوں پر سے اٹھنے والا اعتماد بحالی کی جانب جا
سکتا ہے کہ اگر اسلام آباد دھرنے پرضائع کئے گئے حکومتی اور سیاسی جماعتوں
کے کروڑوں روپے اور مینار پاکستان پر بڑے بڑے اجتماعات مہنگے ترین ساؤنڈ
سسٹمز کے پر اڑایا گیا پیسہ اگر سارا اکٹھا کر کے آئی ڈی پیز پر لگا دیا
جاتا سیلاب زدگان پر لگا دیا جاتا پولیو پر لگادیا جاتا ایمبولا کیخلاف
کیمپئن چلا دی جاتی تو شاید آج اس قوم کی قسمت بدلنے کا کوئی لمحہ نظر
آتامگر اب قوم آج بھی دو راہے پر کھڑی ہے ایک جانب عمران خان صاحب کے دھواں
دھار بیانات اور دوسری جانب حکومت کی جانب سے شکوہ جواب شکوہ اور پھر اس
طرح کے ماحول میں عوام کسی کا بھی ساتھ دینے کو تیار نہیں یاد رکھیں اگر
عمران خان نے اپنی زد کو انا میں بدلنے سے گریز نہ کیا اور حکومت نے بھی
کوئی درمیانی راستہ نہ نکالا تو اگلے انتخابات میں تیسری انگلی نہیں ہاتھ
اٹھے گا اور یوں یہ سب ریت کی دیوار بن کر پھر اکٹھے ہو کر ان سڑکوں پر
جمہوریت کا رونا روتے نظر آئیں گے ۔
وقت ہے کہ اب بھی سوچ لیا جائے اور ان فضول کی سر گرمیوں کو چھوڑ کر وطن
عزیز کی اس مایوس عوام کے دکھوں کو خوشیوں میں بدلا جائے اور انہیں روشنی
کی نئی کرن دکھائی جائے اگر اپنی سوچ کے زویے کو گھما کر نصیب لکھنے والا
انسان خود ہوتا تو آج دنیا میں کوئی انسان نہ ہوتا بلکہ انسانوں کی
کھوپڑیاں گل سڑ رہی ہوتیں اور دیگر چرند پرند ان کی حالات زار کو دیکھ کر
توبہ توبہ کر رہے ہوتے اور انکے مکافات عمل سے ڈر رہے ہوتے مگر اﷲ تعالیٰ
نے اس کائنات کو اپنے اصولوں کے مطابق بنایا ہے اور انسان کے دماغ میں جو
سافٹ ویئر ڈالا ہے اس سافٹ ویئر کی حدود و قیود بھی رکھ دی ہیں وہ سافٹ
ویئر وہی کر سکتا ہے جسکی اسکے پروگرام نے یا اسکے ڈویلپر نے اسے اجازت دی
ہے وہی اﷲ قادر مطلق ہے موجودہ سیاسی جماعتوں کے باہم دست و گریباں ہونے کا
انداز یہ بتاتا ہے کہ اگر انسان کو نصیب خود لکھنے کا حق ملا ہوتا تو آج
ہماری داستان تک نہ رہتی داستانوں میں والا نتیجہ ہونا تھا ۔
قارئین……!! کرسی اقتدار پر بیٹھ کر عوام کی خدمت کا دعویٰ خیالی دعویٰ ہے
جو عوام کی خدمت کرنا چاہتے ہوں جو عوام کا معیار زندگی بلند کرنا چاہتے
ہوں وہ ویسے بھی اپنے منشور کو عملی جامہ پہنا ہی لیتے ہیں کیا عبدالستار
ایدھی نے کرسی اقتدار پر بیٹھ کر اس ملک کے عوام کی خدمت کی ،کیا ڈاکٹر
عبدالقدیر نے کرسی اقتدار پر بیٹھ کر اس ملک کو ایٹمی ٹیکنالوجی دی
،کیاعلامہ اقبال اور قائد اعظم محمد علی جناں وزیراعظم بننے کے بعد پاکستان
کیلئے جدوجہد کرتے رہے یقیناً سبھی صورتوں میں آپ کا سر نفی میں جنبش کھائے
گا تو پھر کرسی اقتدار کے بغیر بھی عوام کی خدمت ممکن ہے جو کرسی پر بیٹھ
کر بھی عوام کی خدمت نہ کر سکا تو اسے خود ہی اس کی سزا مل جائے گی آپ اسے
کی نا اہلی کے حصہ دار خود کیوں بننا چاہتے ہیں۔عوام سمجھدار ہیں اگر حکومت
گرتی ہے تو دوبارہ انتخابات ہونگے اور اگر انتخابات ہونگے تو پیسے عوام کے
ہی جائیں گے نقصان ملک کا ہی ہوگا اور ملک عوام سے ہے عوام ملک سے نہیں اس
لئے سمجھداری کا تقاضا ہے کہ پنجابی محورے پر عمل کر کے اگر آپ دنیاوی
سیاستگری کے کاریگر بننا چاہتے ہیں تو عمل کریں کہ ’’چانواں بن جا‘‘ اور
یوں لوگ تجھے ’’چانواں‘‘ سمجھ کر غیر متوجہ بنا دیں اور تو لوگوں کی توجہ
سے دور رہ کر اپنے سیاستگری کے جادو کو جگا کر ایک نئی جادونگری آباد کر کے
جو تجھے ’’چانواں‘‘ سمجھتے تھے ان پر اسکا جادو چلائے اور یوں وہ تیری جانب
کھچے چلے آئیں خیر اسی میں ہے وگرنہ تو شر ہی شر ہے ۔ |
|