دیوار برلن (جرمن زبان میں
Berliner Mauer)ایک رکاؤٹی دیوار تھی جو عوامی جموریہ جرمنی (مشرقی جرمنی)
نے مغربی برلن کے گرد تعمیر کی تھی تاکہ اسے مشرقی جرمنی بشمول مشرقی برلن
سے جدا کیا جاسکے ، مشرقی و مغربی جرمنی کے درمیان حد بندی بھی مقرر کرتی
تھی۔اس دیوار کو مغربی یورپ اور مشرقی اتحاد کے درمیان ’ آہنی پردہ‘ کی
علامت بھی قرار دی جارتی رہی تھی۔دیوار کی تعمیر سے قبل پنتس لاکھ مشرقی
باشندے مشرقی اتحاد کی ہجرت پر پابندیوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے مغربی
جرمنی ہجرت کرگئے جن کی بڑی اکثریت نے مشرقی سے مغربی برلن کی راہ اختیار
کی ۔1961ء سے1989ء تک اپنے وجو دکے دوران دیوار نے اس طرح کی ہجرتوں کو
روکے رکھا اور ربع صدی سے زائد عرصے تک مشرقی جرمنی کو مغربی جرمنی سے جدا
کئے رکھا۔ دیوار کو عبور کرنے کیلئے کئی رکاؤٹیں بھی لاگئیں جس کے نتیجے
میں دیوار عبور کرنے کی کوشش میں سینکڑوں افراد اپنی جاں سے ہاتھ دھو
بیٹھے۔مشرقی اتحاد میں انقلابی لہر کے دوران چند ہفتوں کی بد امنی کے بعد
مشرقی جرمنی کی حکومت نے 9نو مبر 1989ء کو اعلان کیا کہ مشرقی جرمنی کے
تمام شہری مغربی جرمنی اور مغربی برلن جا سکتے ہیں، اس اعلان کے ساتھ ہی
مشرقی جرمنی کی بڑی تعداد دیوار پھلانگ کر مغربی جرمنی جا پہنچی جہاں مغربی
جرمنی کے باشندوں نے ان کا بھرپور خیر مقدم کیا ، اگلے چند ہفتوں نے پرجوش
عوا م نے دیوار پر دھاوا بول دیا اور اس کے مختلف حصوں کو توڑ ڈالا بعد
ازاں صنعتی آلات کے ذریعے دیوار کو مکمل طور پر ختم کردیا گیا دیوار برلن
کے خاتمے نے جرمن اتحاد مکرر کی راہ ہموار کی جو بالآخر 3اکتوبر 1990ء کو
باضابطہ طورپر مکمل ہوا ۔ نو نومبر کو دیوار برلن کے گرائے جانے کی 25ویں
سالگرہ کی متاثر کن تقریب منائی گئی۔متحدہ جرمنی کی عوام میں جذبہ وطینت و
نسل پرستی کی وجہ سے یہ ایک تاریخی واقعہ رونما ہوا ۔
دیوار چین حضرت عیسی علیہ السلام کی پیدائش سے تقریبا دوسو سال پہلے چین کے
بادشاہ شی ہیوانگ ٹی نے اپنے ملک کو دشمنوں کے حملوں سے محفوظ کرنے کیلئے
شمالی سرحد پر ایک دیوار بنانے کی خواہش کی۔اس دیوار کی ابتدا چین اور
منچوکوکی سرحد کے پاس سے کی گئی ، چین کے دشمن اس زمانے میں ہن اور تاتار
تھے جو وسط ایشا میں کافی طاقتور سمجھے جاتے تھے یہ دیوار خلیج لیاؤتنگ سے
منگولیا اور تبت کے سرحدی علاقے تک پھیلی ہوئی ہے اس کی لمبائی پندرہ سو
میل ہے اور یہ بیس سے تیس فٹ تک اونچی ہے ، چوڑائی نیچے سے پچیس فٹ اور
اوپر سے بارہ فٹ کے قریب ہے، ہر دو سو گز کے فاصلے پر پہریداروں کیلئے
مضبوط پناہ گاہیں بنی ہوئی ہیں۔اب یہ دیوار دنیا کا عجوبہ اور سیاحت کا
مقام بنی ہوئی ہے۔
ہڑپہ تہذیب کی دریافت کے دوران ٹیلہ ای میں کھدائی کے دوران دوہری دیوار سے
تعمیر شدہ بھٹیاں ملی ہیں یہ بھٹیاں سیاہ رنگ کی چوڑیاں اور مٹی کے چھوٹے
ظروف پکانے کیلئے استعمال کی جاتی ہے۔انہی بھٹیوں کے قریب رہائشی مکانات ،
غلہ جمع کرنے کیلئے قد آور مٹی کے بنے ہوئے مٹکے ، موتی بنانے کے کارخانے ،
تانبہ کانسی اور سیپی کی چوڑیاں ، زرد عقیق ، سنگ سلیمانی سے بنے بارک ٹو
کے ، خوشنما مہریں ، کچی اینٹوں سے بنی فصیل نما دیوار جو 27فٹ اور بعض جگہ
39فٹ چوڑی ہے اور پختہ اینٹوں سے بنا ہوا دروازہ بھی دریافت ہوا اس قلعہ
نما دیوار کے اندر گشت کرنے کیلئے سڑک ، نکاسی آب کے پل ، سیکورٹی چیک پوسٹ
اور پہرے داروں کیلئے واچ ٹاور بھی ملے ماہرین کے مطابق یہ دیوار ہڑپہ شہر
کو دشمن فوجوں کے حملے اور سیلاب سے محفوظ رکھنے کیلئے بنائی گئی تھی ، یوں
اس دیوار کو دیوار چین کی طرح قدیم ترین فصیلوں میں شمار کیا جاتا ہے۔
نومبر2013ء کو ایک خبر منظر عام پر آئی کہ بھارت سرکارن لائن آف کنٹرول پر
دیوار برلن کی طرز پر اس سے بڑی سیکورٹی دیوار کی تعمیر کے منصوبے پر کام
شروع کرنا چاہتی ہے جس سے بھارت کے اس عزائم کی نمود ہوئی کہ بھارت مقبوضہ
کشمیر پر مستقل قبضے کی سازش کو عملی جامہ پہنانا چاہتا ہے۔بھارتی میڈیا
میں آنے والی خبروں کے مطابق مقبوضہ کشمیر کی سرحد پر تعمیر کی جانے والی
دیوار وادی کو پاکستان سے الگ کردیگی ۔ مغربی کنارے اور برلن دیوار سے بڑی
اس دیوار کی چوڑائی 135فٹ ہوگی جو جموں ، کٹھوا اور سامبا کے118دیہات کے
درمیان سے گذریگی ،اس دیوار کیلئے فنڈ بھارتی وازرت خارجہ سے جاری ہوگا ،
نقل و حرکت کو ناکام بنانے کیلئے سیکورٹی وال کے گرد خندق بھی کھودنا
منصوبے کا حصہ تھا بھارتی میڈیا کے مطابق اس دیوار کی تعمیر کی منظوری لے
لی گئی ہے ۔بھارت نے کنٹرول لائن پر179کلومیٹر طویل دیوار تعمیر کرنے کی
منظوری دی اس منصوبے کا اعلان بھارتی وزیر داخلہ سُشیل کمار شندے نے لوک
سبھا کے اجلاس سے قبل کیا تھا جس میں انھوں نے بتایا کہ تین فٹ چوڑی ، دس
میٹر اونچی اور 179لمبی دیوار پر کام جلد شروع کردیا جائے گا ۔قابل ذکر بات
یہی ہے کہ نفرت کی دیوارقائم کرنے کا مقصد لاکھوں کشمیریوں کی قربانیوں کو
نظر انداز کرتے ہوئے اپنے غاضبانہ قبضے کو اپنی سات لاکھ فوج کے جبر سے
مستقل بنانے کی سازش کا سات دہائیوں کا عملی سازش کا حصہ ہے۔اس دیوار کے
منصوبے کو ’دیوار برہمن‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔اسی طرح ایران کی جانب
سے تفتان بارڈر پر ربات سے گوادرتک 700میل طویل ، تین فٹ چوڑی اور دس فٹ
اونچی دیوار کی تعمیر کا کام 2007ء سے شروع کیا گیا اور عالمی بارڈر اصولوں
کو نظر انداز کیا گیا۔جبکہ پاکستان کیجانب سے فرنٹئیر کو ربلوچستان کی زیر
نگرانی پاک افغان بارڈر کیساتھ480کلومیٹر پر مشتمل طویل خندق کھودی جارہی
ہے خندق کی گہرائی آٹھ فٹ جبکہ چوڑائی دس فٹ ہے ، واضح رہے کہ پاک ، افغان
سرحد کی مجموعی طوالت دو ہزار کلو میٹر کے لگ بھگ ہے دونوں ممالک کے درمیان
111کلومیٹر خندق پہلے سے ہی موجود ہے۔یہاں پاکستان نے دیگر ممالک کی طرح
نفرت کی دیوار قائم کرنے بجائے پڑوس ملک کی مشاورت سے بین الاقوامی بارڈر
قوانین پر عمل درآمد اسلئے کیا تاکہ در اندازوں کی آمد کو روکا جاسکے۔لیکن
تاریخ میں جب دیوار چین ہو یا دیوار ہڑپہ یا دیوار برلن جیسی دیواریں نفرت
اور جنگی جنون کے تحت قائم کیں گئیں ، جس طرح بھارت انتہا پسند عزائم رکھتا
ہے س کا برہمن دیوار قائم کا منصوبہ اس کے اکھنڈ بھارت کے منصوبے کی طرح ہے
جس کیلئے صرف یہی کہا جا سکتا ہے کہ " ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ۔۔۔۔۔ !!
اقوام کے درمیان نفرت کی دیوار عصبیت ، نسل پرستی ، فرقہ واریت اور نسل
پرستی کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے ۔ ضرورت تو اس بات کی تھی کہ اقوام کے درمیان
نفرتوں کو ختم کرکے محبتوں اور بھائی چارے کو فروغ دیا جاتا لیکن جس طرح
اسرائیل اور اسرائیل نواز ممالک کی روش ہے اس سے دنیا مذہبی تقسیم کا شکار
ہوگئی ہے۔اجمالی جائزہ بھی لیں تو صاف نظر آجاتا ہے کہ دنیا میں تمام جنگیں
مسلم ممالک میں لڑی جا رہی ہیں ، زمین پر قبضے کیلئے یا اپنے صہیونی منصوبے
کو کامیاب بنانے کیلئے یا پھر صلیبی جنگوں کا انتقام لینے کیلئے امت مسلمہ
پر جنگ مسلط کردی گئی ہے اور بد قسمتی سے امت مسلمہ میں فرقہ واریت ، مسالک
اور عقائد کی ایسی دیوار کھڑی کردی گئی جیسے گرانے کیلئے ہمیں قرآن کریم کی
رسی کو مضبوطی سے تھامنا ہوگا ۔ اگر ہم اپنے باہمی اختلافات کو قرآن کریم
کی روشنی میں مضبوطی سے تھام لیں تو کوئی وجہ نہیں مسلم دشمن قوتیں ریت کی
دیوار ثابت ہوہونگی اور ایک ہی جھٹکے میں ڈھے جائیں ۔ لیکن اس کیلئے ہمیں
فروعی مفادات سے بالاتر ہو سوچنا ہوگا ، مسالک ، فرقہ واریت ، نسل پرستی ،
صوبائیت ، لسانیت اور عصبیت کی سیاست اور منفی سوچوں کو خیر باد کہنا ہوگا
۔قرآن کریم اور سنت رسول ﷺ سے دوری کی بنا ء پر ہی ہم دنیا بھر میں ٹڈی دل
مکار مسلم دشمنوں کی سازشوں کا شکار ہیں ، اس جنگوں کا مقابلہ ہمیں باہمی
اتفاق ، راوداری ، برداشت اور اسلام کی دی جانے والی تعلیمات کو اپنانے سے
کرنا ہوگا ۔دنیا میں مسلمانوں کی تعداد مسلم دشمن عناصر کے تمام تر
پروپیگنڈوں کے باوجود بڑھتی جا رہی ہے۔اس لئے ہمیں نبی اکرم ﷺ کی سیرت کو
قرآن کریم کی روشنی میں اپنا کر اسلام دشمن کی قائم نفرتوں کی دیوار گرانا
ہوگی۔دیواروں کا نہدام نا ممکن نہیں ہے بس اخلاص کے ساتھ ہے۔امن و سلامتی
کا ایجنڈا اپنانے کی ضرورت ہے۔ |