وطنیت، قومیت اور ہماری ملت

نرنجن جیوتی کی بدکلامی؛ کشمیر اور چھتیس گڑھ میں دہشت گردی

فرقہ ورانہ ہم آہنگی کے موضوع پر جمعیۃ علماء ہند دہلی کے ایک جلسہ میں کلیدی مقرر نے شیخ الاسلام مولوی حسین احمد ؒکے سنہ ۱۹۳۶ء کے اس قول کا اعادہ کیا کہ ’قومیں وطن سے بنتی ہیں، مذہب سے نہیں ـ۔‘ (انقلاب : ۶ دسمبر)شیخ الاسلام نے یہ بات مخصوص سیاسی ماحول میں فرمائی تھی ،جبکہ مسلم لیگ مذہب کی بنیاد پر ملک کی تقسیم کی تحریک چلارہی تھی اور جمعیۃ علماء ہند بجا طور پر مذہب کی بنیاد پر تقسیم کے خلاف تھی۔ موجودہ سیاسی ماحول میں اس نعرہ کا مطلب اسلامیان ہند کی علیحدہ پہچان سے دستبرداری اورآرایس ایس کے اس نظریہ کی بالواسطہ طرفداری ہے کہ ہندستان میں صرف ایک قوم بستی ہے، جس کو ’ہندو‘ کہا جاتا ہے۔

بیشک برادران وطن سے ہمارا ’ہم وطنی‘ کا رشتہ ہے ۔ ہمارے بہت سے معاملات اور مفادات مشترکہ ہیں۔ ملک کی تعمیر وترقی کے لئے لازم ہے کہ سب مل جل کررہیں۔ فرقہ ورانہ تنازعات وتصادمات سے بچیں۔ ایک دوسرے کی عزت وآبرو، سکھ چین کے دشمن نہیں، محافظ بنیں۔ سب کا احترام کریں، کسی پر طنز نہ کریں۔ لیکن فرقہ ورانہ ہم آہنگی کا مطلب یہ نہیں کہ اپنے درمیان الگ الگ شناختوں، ملتوں، قوموں، تہذیبوں اور ثقافتوں کی نفی کردیں اور سب پرایک رنگی مسلط کرنے کی وکالت کریں۔

دراصل بنیادی طور پر یہ سوال ہی غلط ہے کہ قوم کی بنیاد وطن ہے یا مذہب ؟ قومیت کی تشکیل میں ایک دو نہیں بہت سیعناصرکارفرماہوتے ہیں۔سب سے مضبوط رشتہ نسل، برادری اور خاندان سے قائم ہوتا ہے۔ پھرمقام بودوباش، زبان، عقائد، معاشرت، ثقافت ، تہذیب و تمدن وغیرہ کادرجہ ہوتاہے جن میں یکسانیت سے قربت پیدا ہوتی ہے۔’ ہم وطنی ‘اور’ ہم مذہبی‘ قومیت کی تشکیل کے دواہم عناصر ہیں۔ مگریہ ایک دوسرے کی ضد یا متبادل نہیں۔یہ بھی ممکن ہے کہ ایک ہی قوم کئی خطوں میں بٹی ہو اور یہ بھی کہ ایک ہی ملک اور خطے میں کئی قومیں آباد ہوں، جیسا کہ ہندستان میں ہے۔ ان قوموں کے بہت سے افراد دوردراز ممالک میں جاکربس گئے ہیں۔ وہاں کی شہریت اختیارکرلی ہے، جس کو نیشنلٹی کہا جاتا ہے۔ لیکن ان کا رشتہ یہاں اپنی قوم سے کٹ نہیں گیا ۔مودی کے دورۂ امریکا کے دوران وہاں آباد ہندوؤں کا جو جمگھٹالگا تھا وہ کیا تھا؟ امریکا میں رہتے بستے ہیں، مگر ہیں ہندستانی ہندوقوم کا حصہ۔ ہماراملک ۱۴؍اگست ۱۹۴۷ء تک ایک تھا۔ مگر اب ہم تین ملکوں میں تقسیم ہوگئے ہیں۔کیا ہم اس سے قبل ہم وطنی کی بنیاد پر ایک قوم تھے اور راتوں رات تین ہوگئے۔ نہیں ۔ پہلے بھی ہم پنجابی، سندھی، بلوچی، بنگالی ،مراٹھی ، گجراتی وغیرہ الگ الگ قوموں میں بٹے تھے، آج بھی ہیں۔ سیاسی سرحدی تقسیم سے قومیں نہ بنتی ہیں نہ مٹتی ہیں۔ البتہ مشترکہ مفاد اور مفادات میں ٹکراؤ کا اثرباہمی رشتوں پرپڑتا ہے۔ برصغیر میں ہم ہندستانی، پاکستانی ، بنگلہ دیشی ہیں مگرغیرممالک میں جاکر دیکھئے ، تینوں ملکوں کے باشندے شیروشکر ہو جاتے ہیں اور ہندی کہلاتے ہیں۔
سیاسی نظریہ سے کشمیر ہندستان کا حصہ ہے۔ منی پور،میزورم اوراروناچل بھی ہندستان کا ہی حصہ ہیں۔ سکھ بھی ہندستانی ہیں۔ مگر کیا یہ سب الگ الگ قومیں نہیں ہیں؟ کہیں مراٹھی ہیں، کہیں پنجابی، کہیں بنگالی، کہیں تمل، کہیں گجراتی۔ ہرایک کی اپنی ’اسمیتا‘ ہے، تاریخ ہے، ثقافت ہے۔ گو سب کا وطن ایک ہے، مگرقومیں الگ الگ ۔ دہلی میں مسلمانوں کی بہت بڑی آبادی ہے ، مگر اپنی بعض خصوصیات کی وجہ سے مسلم ’قوم پنجابیان‘ کا اپنا الگ تشخص ہے۔ اس لئے یہ تصور باطل ہے کہ ہم وطنیت یا ہم مذہبیت قومیت کی بنیاد ہے۔یاپورے ملک میں بس ایک قوم آباد ہے۔ ہاں ہم سب ’ہم وطن‘ ہیں، ہم ہندستانی باشندہ ہیں۔ مگر ہندو ہیں،مسلمان ہیں، کشمیری، گجراتی، مراٹھی ،بنگالی اور اسامی ہیں اور نہ جانے کیا کیا ہیں۔

یہ ایک فطری بات ہے کہ اگرایک ہی نسل وخاندان، عقیدہ اور سیاسی نظریہ کے لوگ ایک ہی خطہ میں آباد ہیں، تو ان میں یک جہتی کا جذبہ زیادہ قوی ہوگا۔ اگرچہ چندعناصر میں یکسانیت اور چند میں اختلاف ہے، تو یہ جذبہ اسی اعتبار سے قوی یا کمزور ہوتا جاتاہے۔ موجودہ دور میں ایک اہم عنصر ریاست کابھی ہے ،جس کو انگریزی میں اسٹیٹ کہیں گے اور ریاست سے مراد چار حدود میں گھرا ہوا وہ خطہ ہے جس میں اقتدارایک ہی حکومت کے تحت ہو۔ اسی کو عرف عام میں اور قانون کی زبان میں نیشنلٹی یا قومیت کہا جاتا ہے ، جس کا اندراج پاسپورٹ میں ہوتا ہے۔

مملکتوں کی بنیاد پر قومیت کا یہ جدیدقانونی نظریہ ہے ۔ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ مختلف اسباب سے مملکتوں کے حدودبدلتی رہتی ہیں۔ کل تک جو ایک تھے، وہ تقسیم ہوگئے، حریف بن گئے۔ بنگلہ دیش جو کل تک مشرقی پاکستان تھا،آج متحدہ پاکستان کے حامیوں کے خون پیاسا ہے ۔ سوویت یونین اور اس سے قبل سلطنت عثمانیہ کے حصے بخرے ہوگئے اورآپس میں جنگ وجدال کی نوبت آگئی۔اس کے برخلاف مشرقی اورمغربی جرمنی ایک ہوگئے۔ یورپی ممالک اس طرح مل گئے کہ کہاں ایک کی سرحد ختم ہوگئی، دوسرے کی شروع ہوگئی، پتہ ہی نہیں چلتا۔

علم سیاسیات کے تحت یہ تعبیر و تشریح اپنی جگہ، مگر بحیثیت مسلمان ہمارے لئے قومیت کا ایک دوسراہی مفہوم ہے۔ یہ مفہوم خالق کائنات کا تعلیم کردہ ہے اس لئے آفاقی ہے، آسمانی ہے۔ اس مفہوم میں ہم ’ملت‘ کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں۔ اس کی اساس ایمان پرہے۔ اہل ایمان چاہے دنیا میں کہیں بھی ر ہیں، ملت ابراہیمی کا حصہ ہیں۔قرآن پاک میں ’ملت‘ کی اصطلاح ’۲۷‘ مقامات پر وارد ہوئی ہے۔ کہیں بھی یہ نہیں فرمایا گیا کہ ملت وطن سے بنتی ہے۔ فرعون اور حضرت موسیٰ ؑ کے قصہ میں قوم آل فرعون اورقوم بنی اسرائیل کا ذکر ہے،حالانکہ دونوں کا وطن مصر تھا۔ سورہ حج کی آیت ۷۸ ،پر غور کیجئے جو اکثر ایام حج میں علماء اور خطیب دوہراتے ہیں۔ مفہوم اس کا یہ ہے: ’تمہارے باپ ابراہیم کی ملت کو تمہارے لئے پسند کیا، اسی نے اس سے پہلے تمہارانام مسلم رکھا، اور اس (قرآن) میں بھی تمہارانام مسلم ہے۔ ‘(سورۃ حج: ۷۸)
مذکورہ بالا مقررصاحب کا نسبی تعلق ایک عالم فاضل ہستی سے ہے۔ ان کے برادرِ بزرگ بھی عالم دین ہیں اور خود ان کے نام کے ساتھ بھی ’مولانا‘ کا لائحقہ لگاہواہے۔ انہوں نے یہ بات کہی بھی علماء کے پلیٹ فارم سے ا ورعلماء کی موجودگی میں۔ مگر سب نے اس پر خاموشی اختیار کرلی۔ ایسی صورت میں اندیشہ غلط فہمی کا شدیدمحسوس ہوا،چنانچہ یہ چند معروضات پیش کردیں۔ اﷲ ہماری لغزشوں سے در گزر فرمائے اورگمراہیوں سے حفاظت فرمائے۔آمین۔اپنے عقیدہ کی رو سے ہم ملّت اسلامیہ ہیں، جو ملکی سرحد وں کونہیں جانتی۔ البتہ وطن کے تعلق سے ہم ہندستانی ہیں۔ ہندستان کی ایک ملت ، ایک قوم ہیں۔ ہماری ایک الگ شناخت ہے۔ ہمیں بقول مولانا ابوالکلام آزاد، مسلمان اور ہندستانی ہونے پر فخر ہے۔ہم اپنے عقائد اوراقدار کی حفاظت کے عنداﷲ پابند ہیں اور اپنے وطن کے لئے اپنے اسلاف کی قربانیوں کی روایات کے پاسدار ہیں۔ ان دونوں حیثیتوں میں کوئی تضاد نہیں۔اورہزار مختلف ہونے کے باوجود عالمی سطح پر ایک ملت اسلامیہ کا حصہ ہیں۔ جس کا اعتراف تحریک خلافت کے دوران گاندھی ، نہرو اور پٹیل نے بھی کیا تھا۔

نرنجن جیوتی کی بدکلامی
ایک زمانہ تھا جب سادھو، سنت ، صوفی ،فقیراور مذہبی رہنما اپنی شیریں کلامی اور سب کے لئے بھلائی کے جذبہ سے پہنچانے جاتے تھے ۔اب وہ سادھو سنت نہیں رہ گئے۔ لالچی، عیاش، اور سیاسی پاکھنڈی رہ گئے ہیں ۔ بدزبانی ان کی پہچان بن گئی ہے۔کٹیا میں ان کا گزارہ نہیں ہوتا۔ بڑے بڑے آشرموں میں رہتے ہیں اورعیش کرتے ہیں۔بدزبان گیروادھاری ،عقیدت مندوں سے دولت بٹورنے والے مہنتوں، سادھو، سنتوں اور باباؤں کو آرایس ایس اور بھاجپا کی سرپرستی حاصل ہوگئی ہے جو ہندستان کی قدیم سنسکرتی کی حفاظت کا دم بھرتی ہیں۔ ایسی ہی ایک ’سادھوی‘ کا نام نرنجن جیوتی ہے جوکانپو، لکھنؤ، ہردوار، فتحپور، مرزاپوروغیرہ میں ایک درجن سے زیادہ اشرموں کی مالک ہے۔ ہمیر پورکا پرم دھام آشرم ان کا مرکز ہے۔حال ہی میں انہوں دہلی کے ایک انتخابی جلسہ میں کہہ دیا کہ ملک میں یا تو ’رام زادے‘ ہیں یا ’حرام زادے‘۔ گویا ملک کی ۸۲ فیصد آبادی جس نے لوک سبھا چناؤ میں مودی کو ووٹ نہیں دیا، ان کی نظر میں ’حرام زادے‘ ہیں۔یہ ان کی بدزبانی کا پہلا واقعہ نہیں۔ رام مندر تحریک کے دوران بھی وہ نازیبا باتیں کہتی رہتی تھی اور اپنی انتخابی مہم کے دوران بھی یہی بات کہی تھی، جس کا انعام وزیربناکر دیا گیا۔ اس پر بھی مودی صاحب کہتے ہیں کہ اس نے معافی مانگ لی۔ بات کو رفع دفع کردیا جائے۔ برنداکرات نے انڈین ایکسپریس (۵؍دسمبر) میں اپنے ایک وقیع مضمون ُپرائم منسٹر چوائسـ ‘ میں بڑااچھا تجزیہ کرکے یہ بتایا ہے کہ معاملہ اتفاق سے کوئی غلط بات زبان سے نکل جانے کا نہیں کہ معافی سے تلافی ہوجائے، بلکہ ووٹوں کی خاطر نفرت کی سیاست کا ہے۔ اترپردیش میں ضمنی چناؤ کی باگڈور آدتیہ ناتھ کے حوالے کی گئی جب کہ معلوم تھا کہ وہ کس طرح کی زبان بولتے ہیں۔ پھر لوک سبھا میں فرقہ ورانہ تصادمات پر بحث کے لئے پارٹی نے ان کواپنا واحد مقرر چنا۔ امت شاہ پر بدکلامی کی وجہ سے الیکشن کمیشن نے یوپی میں پابندی لگائی ۔مگرمودی نے ان کو پارٹی کاصدر بنادیا۔ بہار کے گری راج سنگھ اور یوپی میں مظفرنگر فسادات میں ماخوذ سنجیوبالیان کو کابینہ میں ان کی بدزبانی کے باوجود لے لیا گیا۔ یہ سب ظاہر کرتا ہیں کہ مودی اور ان کی پارٹی اس طرح کی لوگوں کی حوصلہ افزائی کررہی ہیں۔ چنانچہ اپوزیشن نرنجن جیوتی کو کابینہ سے الگ کئے جانے کے مطالبے میں حق بجانب ہے۔

دراصل نرنجن کی یہ بدزبانی نہ پہلی ہے اور نہ صرف اقلیت پر حملہ ہے۔رام مندر تحریک کے دوران وہ جہاں گئی ، زہراگلا۔ اب اس نے ان سب کو گالی دی ہے جو بھاجپا کے خلاف ووٹ کریں یا الیکشن لڑیں۔ اگر معاملہ صرف اقلیت کا ہوتا تو نہ مودی صفائی پیش کرتے اور نہ نرنجن سے معافی مانگنے کے لئے کہا جاتا۔ لیکن نرنجن کے استعفے کا مطالبہ صرف پارلی منٹ میں نہیں ہونا چاہئے ، کانگریس اور دیگر اپوزیشن پارٹیوں کو ہمت کرکے عوام میں اس بات کو لیکر جانا چاہئے اور پوچھنا چاہئے کہ کیا ان کو نرنجن کا یہ طعنہ گوارا ہے؟

کشمیر میں دہشت گردی
کشمیر میں عین انتخابات کے دوران ایک ہی دن میں چارشیطانی حملوں میں کم از کم ا۲؍ افراد کی جانیں گئیں۔ سب سے شدیدحملہ اڑی کی قلعہ بند فوجی چھاؤنی پر ہوا، جس میں ایک اعلا افسرسمیت ۱۱؍ فوجی مارے گئے۔ جس مشاقی اورسفاکی سے یہ حملے ہوئے، ان سے ظاہر ہے کہ وہ اچھی طرح تربیت یافتہ تھے اور ان کی ذہن سازی کی گئی تھی ۔ وہ جان کی پروا کئے بغیر بے جگری سے حملہ آور ہوئے، اگرچہ مارے گئے مگر جوچاہتے تھے کرگزرے۔ چنانچہ یقین کے ساتھ کہا جاسکتا ہے یہ منصوبہ بند حملے تھے۔

فوجی زرائع کے مطابق حملہ آور چوری چھپے بھاری ہتھیاروں کے ساتھ سرحد پار سے آگئے تھے۔ بظاہر یہ مودی سرکار کی ناعاقبت اندیشی کا رد عمل ہے کہ بلاوجہ خارجہ سیکریٹری مذاکرات منسوخ کردئے ۔وزارت خارجہ کے دیدہ افسران سے بھی مشورہ نہیں کیا۔ یہ ایک فطری بات ہے کہ جب آپ مسائل کے حل کے لئے پرامن راستوں کو بندکردیں گے تو شیطانی دماغوں کو یہی سب سوجھے گا۔ مودی نے اپنی حلف برداری میں نواز شریف کو بلاکر ایک اچھی پہل کی تھی۔ اس کے بعد ان کا ’یوٹرن ‘قومی اورعلاقائی مفادکے سراسر خلاف ہے۔ سارک پر بھی اس کا منفی اثر پڑرہا ہے جو کٹھمنڈو کانفرنس میں صاف نظرآیا۔ ہمیں امریکا سے سبق لینا چاہئے۔ بہت داداگیری دکھائی مگر آخر ایران کے ساتھ مذاکرات پر آمادہ ہونا پڑا۔ مسائل کے حل کا غیرمشروطمذاکرات کے سوا کوئی اور راستہ نہیں۔

اس واقعہ پر وزیرداخلہ راجناتھ سنگھ کا بیان مضحکہ خیز ہے۔ چار ہی دن قبل چھتیس گڑھ میں ایک دہشت گرد حملے میں سی آرپی ایف کے ۱۱؍ جوان مارے گئے۔ اس شدید ناکامی کے بعد ان کا یہ کہنا بے معنی ہے کہ پاکستان اگراس طرح کے حملے روکنے میں ناکام ہے تو ہندستان سے مددلے۔ پاکستان ہمارے ملک میں ہونے والے حملوں کو کیا روکے گا، وہ اپنے گھر میں ہی دہشت گردی روکنے میں ناکام ہے۔ سوال یہ بھی ہے کہ پیشگی اندیشے اورتمام ترچوکسی کے باوجود درانداز ہمارے خطے میں داخل کیسے ہوگئے اور کس طرح ایک قلعہ بند فوجی چھاؤنی میں گھسنے میں کامیاب ہوگئے ؟ اس کو روکنے کی زمہ داری تو ہم کو خود ہی قبول کرنی ہوگی۔

ابھی زیادہ دیر نہیں ہوئی۔ پاکستان مذاکرات کے لئے آمادہ ہے۔ فرار کے بجائے ہمیں اپنے مذکرات کاروں پر بھروسہ ہونا چاہئے اور اس عفریت کو مزید پھیلنے سے روکنے اور باہمی مسائل کو باعزت طریقہ سے حل کرنے کے لئے پرامن راستے کھولنے کی تدبیر کی جانی چاہئے۔ ہم چھتیس گڑھ اور کشمیر میں ان پرتشدد کاروائیوں کی مذمت کرتے ہیں اور حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ ناحق مارے گئے افراد کے اہل خاندان کی تاحیات خبرگیری کے لئے پنشن کا نظام قائم کیا جائے۔(ختم)
Syed Mansoor Agha
About the Author: Syed Mansoor Agha Read More Articles by Syed Mansoor Agha: 226 Articles with 180664 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.