سانحہ فیصل آباد کے بعدکپتان کا کراچی میں کامیاب شو
(Dr Rais Ahmed Samdani, Karachi)
کپتان کے ۳۰ نومبر کے اعلان کردہ
پلان ’سی‘ کے مطابق ۸ دسمبر کو فیصل آباد سانحہ ظہور پذیر ہوا۔جس کی تفصیل
پرنٹ اور برقی میڈیا پر آچکی ہے۔ متعدد کالم نگار، تجزیہ کار اور ٹی وی
اینکر اس واقع کو حکومت کی ناقص منصوبہ بندی اور ملک میں موجود طویل عرصے
سے سیاسی کشیدگی کو سہل انداز سے لینے، ٹال مٹول کی حکمت عملی قرار دے چکے
ہیں۔عدالت عظمیٰ نے’ ساڑے آٹھ کروڑ روپے کے فراڈ میں ملوث ملزمان کی عدم
گرفتاری سے متعلق کیس‘ کی سماعت کے دوران جسٹس جواد ایس خواجہ نے سخت برہمی
کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس میں کہا کہ ’ملزمان دندنا تے پھر رہے ہیں ملک
صرف مراعات یافتہ لوگوں کا بن کر رہ گیا ہے، پسماندہ طبقے کو کوئی پوچھنے
والا نہیں، حالات ایسے ہیں کہ ’ نینداڑانے والے حالات ہیں مگر چین کی
بانسری بجائی جارہی ہے‘۔ عدالت عظمی کے یہ ریمارکس بظاہر تو ایک کیس میں
دیے گئے لیکن یہ ریمارکس ملک میں سیاسی صورت حال اور حکمرانوں کی بے حسی کی
جانب بھی اشارہ کرتے ہیں۔ سانحہ فیصل آباد کے بعد جس میں ایک سیاسی کا ر کن
اپنی جان سے گیا ہر جانب یہی صدائیں تھیں کہ حکومت آخر کب تک اس معاملے سے
آنکھیں چراتی رہے گی۔ہر ایک حکومت کو پہل کرنے، مذاکرات کی میز پھر سے
بچھانے ، سیاسی معاملات کو سیاسی طور پر حل کرنے کی تجویز دے رہا تھا۔ تمام
سیاسی جماعتوں نے حکومت سے صاف صاف الفاظ میں مذاکرات کرنے کوکہا۔ خورشید
شاہ نے سخت الفاظ میں حکومت کو مذاکرات کرنے کی ہدایت کی۔ اس واویلے کا کچھ
اثر حکومت پر ہوا اور مذاکرات کی نوید سنائی دی ۔ کپتان نے بھی صاف صاف کہہ
دیا کہ اگر حکومت تحقیقاتی ٹریبونل قائم کردے اور ٹریبو نل اپنا کام شروع
کردے تو دھرنے اور کراچی و لاہور کا احتجاج ختم کردیں گے۔ خیال تھا کہ
حکومت اب سنجیدگی سے نہ صرف مذاکرات شروع کرے گے بلکہ تحقیقات کے لیے
جوڈیشل کمیشن کی تشکیل کو فوری طور پر ممکن بنا دے گی۔ لیکن ہوا وہی جس کے
لیے مسلم لیگ نون مشہور ہے یعنی بیان بازی، لارے لپوں سے وقت گزارا
گیا۔یہاں تک کہ ۱۲ دسمبر آن پہنچی۔ کپتان نے کراچی کے احتجاج کی تیاری پہلے
ہی سے کی ہوئی تھیں۔ شروع رات ہی سے تحریک انصاف کی ریلیاں کراچی کی مختلف
علاقو ں میں گشت کرتی نظر آئیں۔ تین تلوا ر کلفٹن پر دھرنے کاآغاز سب سے
پہلے ہوا۔ عوام بے حد پریشان تھے کہ کیاملک میں سانحہ ماڈل ٹاؤن، سانحہ
اسلام آباد اورسانحہ فیصل آباد کے بعد خدا نا خواستہ ’سانحہ کراچی‘ وقوع
پذیر ہونے جارہا ہے۔اب جب کہ کراچی شو ساتھ خیریت سے گزر گیا لاہور میں
احتجاج کرنا ابھی طے ہے۔ اب بھی وقت ہے کہ حکومت سنجیدگی کا مظاہر کرے اور
لاہور کے احتجاج سے قبل مذاکرات کے ذریعہ سیاسی حل نکالنے کی کوشش کی
جائے۔مذاکرات کی ابتدا ملک و قوم کے لیے نیک شگون ہے ۔ مذاکرات کا نتیجہ
کچھ بھی ہو یہ اگر شروع ہوجاتے ہیں تو گرم سیاسی ماحول کا نارمل کرنے میں
ساز گار ثابت ہوں گے۔ ان کا شروع ہونا ملک و قوم کے لیے حوصلہ افزا پیغام
ہے۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے لیڈر سیدخورشید شاہ ، سندھ کے وزیر اعلیٰ سید قائم
علی شاہ نے صاف صاف کہہ دیا کہ عمران خان کو کراچی میں احتجاج کرنے کا حق
حاصل ہے اگر قانون کی خلاف ورزی ہوئی تو قانون حرکت میں آجائے گا۔ بات اپنے
طور پر درست تھی۔ اور سب سے بڑھ کر کراچی میں اپنا سیاسی غلبہ اور کنڑول
رکھنے والی جماعت کے قائد جناب الطاف حسین نے یہ بیان دے کر کہ’ تحریک
انصاف کو کراچی میں احتجاج کا پورا پورا حق حاصل ہے لیکن اس احتجاج میں
تشدد نہیں ہونا چاہیے‘پاکستانی عوام خصوصاً کراچی کے عوام کو اطمینا ن اور
سکون سے ہمکنار کردیا۔اب یہ یقین ہو گیا کہ کپتان کے احتجاج کے سامنے کوئی
سیاسی جماعت مزاحمت نہیں کرے گی جس طرح فیصل آباد میں نون لیگ کے کارکنوں
نے پی ٹی آئی کے کارکنوں کے سامنے آکر نعرے بازی ہی نہیں کی بلکہ کھلے عام
اَسلِحَہ کا استعمال بھی کیا جس کے نتیجے میں تحریک انصاف کا ایک کارکن
ہلاک ہو گیا۔ نجم سیٹھی کی چڑیا نے یہ اطلاع دی کہ ’کراچی متحدہ نے بند
کرایا‘ ۔ بہت خوب اگر بہتر حکمت عملی اپنائی جائے، دانائی اور ہوش مندی سے
کام لیا جائے تو اس کی تعریف کے بجائے اس پر شکوک و شبہات کے نشتر چلائے
جائیں۔اگر متحدہ اس کے خلاف کام کرتی توچڑیا نے تب بھی تنقید ہی کرنا تھی۔
گویا جب تنقید مقصد ہو تو کوئی اچھی بات بھی بری محسوس ہوتی ہے۔ بیرسٹر
خواجہ نوید احمد کی یہ رائے ہے کہ ’خدا کا شکر ہے کہ سندھ کے سیاستدانوں نے
برد باری اور عقلمندی کا مظاہرہ کیا جناب خورشید شاہ اور الطاف بھائی نے
جمہوری حق اور احتجاج کے حق کی حمایت میں بیان دیئے اور ماحول سازگار رہا‘۔
کپتان کا’ کراچی شو کامیاب رہا۔ کسی بھی قسم کا ناخوش گوار واقعہ پیش نہیں
آیا۔کپتان کے ساتھ ساتھ سندھ کی سیاسی قوتوں کو بھی کریڈٹ جاتا ہے کہ کراچی
میں امن رہا۔
کراچی میں احتجاج ہوا ، کپتان کراچی تشریف لائے ، کارکنو ں سے مختصر خطاب
کے بعد واپس اپنے کنٹینر اسلام آباد پہنچ گئے۔ کراچی کے عوام نے سکھ کا
سانس لیا۔ کپتان کے جاں نثار رات گئے تک بھنگڑا ڈالتے رہے، خوشیاں مناتے
رہے اور رفتہ رفتہ اپنے اپنے گھروں کو بخیریت واپس لوٹ گئے۔ کاش یہی حکمت
عملی جو متحدہ قومی موومنٹ کے قائد نے دکھا ئی، پاکستان پیپلز پارٹی کے
حکمرانوں نے اس کا عملی مظاہرہ کیا، اور مسلم لیگ نون کے ناہونے کے برابر
کارکنوں نے کراچی میں دکھائی فیصل آباد میں بھی حکمرانوں،نون لیگ کے فیصل
آباد کے سیاسی لیڈروں خاص طور پر رعنا ثنا اﷲ اور عابد شیر علی اور کارکنوں
نے دکھائی ہوتی تو قوم سانحہ فیصل آباد سے دوچار نہ ہوتی اور حکومت کے
ماتھے پر ایک اور بد نما داغ نہ سجتا۔ جب چڑیاں چک گئی کھیت اب بچھتاوت کیا
ہووت‘، اب عابد شیر علی بہ نفس نفیس فیصل آباد تھانے پہنچ گئے اپنی بے
گناہی ثابت کرنے حالانکہ وہ اس سانحہ کی ایف آر میں شریک ملزم کی حیثیت
رکھتے ہیں۔ اگر کوئی عام شہری جس کانام کسی بھی ایف آر میں ہو وہ اپنے
پیروں چل کر کنویں کے پاس چلا جائے تو پیاسا اس پر عقاب کی مانند جھپٹ پڑتا
ہے اور پنجاب پولس تو نابینا ؤں کو نہیں بخشتی۔ لیکن یہ بھی انداز ہے ہمارے
ملک میں حکمرانی کا۔ طاقت کے سامنے طاقت بے بس و لاچار دکھائی دیتی ہے۔
سانحہ فیصل آباد کے اگلے ہی روز رعناصاحب نے ان تمام ملزمان کے مَعِیَت میں
پریس کانفرنس کر ڈالی۔ جوں ہی یہ پریس کانفرنس ختم ہوئی آزاد میڈیا نے ان
تمام چہروں کو دکھانا شروع کردیا جو ایک جانب تو تحریک انصاف کے کارکنوں پر
پستول تانے ہوئے تھے تو دوسری جانب شیرنواز لیگ کی پریس کانفرنس میں پیچھے
کھڑے ہوئے فاتحانہ انداز میں سینے چوڑے کر کے کہہ رہے تھے کرلو جو کرنا ہے۔
یہ بھی ہمارا انداِ حکمرانی ہے۔
کپتان کا مطالبہ صرف چار حلقوں کو کھولناہی تو تھا۔یہ چار حلقے بڑھ کر کئی
حلقے ہوئے ، پھر پورا الیکشن ۲۰۱۳ء کو اس نے اپنی لپیٹ میں لے لیا، بعد
ازآں ’گو نواز گو‘ اور انتخابات کی آزادانہ تحقیق پر دھرنوں کے ساتھ ساتھ ،
مختلف شہروں میں جلسوں کا روپ اختیار کرکیا، پھر کپتان نے پلان ’سی‘پیش کیا
اور اب کہنا ہے کپتان کا کہ’ سی‘ کے بعد ’ای‘ اور پھرپلان’ ڈی‘سامنے آئے
گا۔ کپتان کی اس بات میں صداقت نظر آتی ہے کہ حکومت پر دباؤ کم ہوجائے تو
یہ سونے کے ساتھ ساتھ خرانٹے لینے لگتی ہے۔ واقعتا ایسا ہوا ، جب علامہ
طاہر القادری اور کپتان کے دھرنوں کی طاقت سر چڑھ کر بولنے لگی تو حکومتی
مشینری فوراً حرکت میں آگئی اور مطالبات ماسوائے ایک ’گو نواز گو‘ کے ماننے
کو تیار ہوگئی۔ جوں ہی ڈاکٹر قادری نے اپنی بَساط لپیٹی ، واپسی کی راہ لی،
حکومت کو اسلام آباد میں طاقت کمزور پڑتی دکھا ئی دی فورناً حکومتی طرز عمل
تبدیل ہوگیا۔ کہاں کے دھرنے ، کہاں کے مذاکرات، کیسے مذاکرات۔یہ پالیسی
مناسب نہیں۔ کپتان نے اپنے پروانوں کی جماعت کو بہت وسیع کر لیا ہے۔ ملک کے
کونے کونے میں ان کے چاہنے والے اب پائے جانے لگے ہیں، تحر یک انصاف ملک کی
بڑی اور اہم سیاسی قوت بن کر سامنے آچکی ہے۔ اس سے آنکھیں ہر گز بند نہیں
کی جا سکتیں۔اگر حکومت نے ایسا کیا تو یہ خرگوش شیر کو دیکھ کر آنکھیں بند
کر لے اور یہ سمجھے کہ شیر اسے پیار کرکے چلا جائے گا۔ شیر تو شیر ہوتا ہے
۔
آخر حکومت کو تھیلے کھولنے میں کیا ڈر یا خوف ہے ۔ ایک نہ ایک دن تو بلی
تھیلے سے باہر آئے گی اور سب کو چیخ چیخ کر یہ بتائے گی کہ اسے تھلے میں
کیوں بند رکھا گیا۔ اگرحکمراں سمجھتے ہیں کہ وہ بے قصور ہیں ،ا نہوں نے یا
ان کی جماعت نے انتخابات میں دھاندلی نہیں کی، عوام نے انہیں حقیقی حمایت
دی ہے تو تھیلے کھلنے سے یہ بات ثابت ہوجائے گی کہ کپتان کا مطالبہ جائز
نہیں لیکن کپتان کو یقین ہے کہ تھیلے کھل گئے تو انتخابات میں گڑ بڑ کرنے
والوں کے کالے کرتوت کھل کر سامنے آ جائیں گے۔ بقول بیرسٹر خواجہ نوید احمد
’جوں جوں تھیلے کھلیں گے کئی راز کھل جائیں گے‘۔حکمراں جماعت چاہتی ہے کہ
بیگ نہ کھولے جائیں ۔ کیوں؟ اس میں کیا ڈر ہے ، دودھ کا دودھ پانی کا پانی
ہوجانے دیں۔ اگر آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ تھلوں کو بند ہی رکھا جائے انہیں
ہرگز ہرگز نہ کھولا جائے تو اس کے پیچھے یقینا کوئی ڈر ہے، کوئی راز ہے،
کوئی بھیدہے، کوئی سِر ہے،کوئی اندیشہ ہے یا پھر آپ کو ھَول ہے اس بات کا
کہ سچ سامنے نہ آجائے گا۔تجزیہ کارایازامیرکا کہنا ہے کہ’ اسحق ڈار کا یہ
کہنا کہ حکومت پی ٹی آئی سے غیر مشروط مذاکرات پر آمادہ ہے، کسی دانائی یا
بصیرت کا اظہار نہیں بلکہ اب حکومت کے پاس ’دانائی‘ کے سوا کوئی اور آپشن
بچا ہی نہیں۔ پہلے اسلام آباد میں ۳۰ نومبر کے عظیم الشان جلسے اور پھر آٹھ
دسمبر کو فیصل آباد بند ہوجانے کی ٹھکا ئی سے حکومت کی عقل ٹھکانے آنا شروع
ہوگئی ۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو کہاں کی بات چیت کہا ں کے مذاکرات ۔ ۔ دراصل
لاتوں کے بھوت لاتوں سے کم پر راضی نہیں ہوتے‘۔ اپنی اپنی رائے ہے۔
پروردگار حکمرانوں کو ملک کی فکر عطا فرما۔ اقتدار آنی جانی چیز ہے۔ میاں
صاحب اگر آپ سچ پر ہیں تو پھر ڈر و خوف نہیں ہونا چاہیے۔آپ کو چوتھی بار
بھی اقتدار مل جائے گا۔فتح ہمیشہ حق کی ہوتی ہے۔ سچ تو پھر سچ ہوتا ہے آج
نہیں تو کل سامنے آکر ہی رہے گا۔ انشاء اﷲ۔تین ماہ اور پندرہ دن کے
تھکادینے تکلیف دہ ایکسر سائز کے بعد مذاکرات کی بحالی کی کرن نظر آرہی ہے۔
سیاسی حل ہی سیاسی مسائل کا واحد حل ہے۔ سنجیدگی، ایمانداری، سچائی ، خلوص
کے ساتھ ساتھ ملک و قوم کے مفاد کو ترجیح دینے کی ضرورت ہے۔ اگر ایسا نہ
ہوا تو قوی امکان ہے کہ ہم اپنی تاریخ کو پھر سے دھرانے میں لگ جائیں گے۔
تمام تر خواب، تجزیے دھرے کے دھرے رہ جائیں گے۔ نہ کپتان کو کچھ حاصل ہوگا
نہ ہی نواز شریف صاحب کے پاس کچھ رہ جائے بلکہ کوئی اور دونوں کی بساط کو
الٹ دیگا اور پھر پوری قوم ایک بار پھر سے جمہوریت کی گاڑی کو پٹری
پرچڑھانے نے کی جدوجہد میں لگ جائے گی۔ اس ایکسر سائز سے ملک ایک بار پھر
سے سالوں پیچھے چلا جائے گا۔ دنیا میں جگ ہسائی بھی قوم کا مقدر ٹہرے گے۔
اس سے بہتر ہے کہ ہم ہوش کے ناخون لیں اور ایمانداری سے ، خلوص کے ساتھ وہ
کام کریں جس میں ملک و قوم کی بھلائی ہو۔ دوسری اہم بات جس طرح سندھ کے
سیاست دانوں اور اکثریت رکھنے والی سیاسی جماعتوں نے کراچی میں عمران خان
کے احتجاج کے ساتھ کھلے دل اور وسیع القلبی دکھائی جس کے نتیجے میں ایک بڑا
خطرہ ٹل گیا ۔کپتان کے اس احتجاج سے سندھ کی کسی بھی سیاسی جماعت پر کوئی
منفی اثر نہیں ہوا بلکہ سب نے پیپلز پارٹی اور متحدہ قومی موومنٹ کے اس
فیصلے کو دانشمندانہ اور جمہوریت کے عین مطابق قرار دیا۔ امید کی جاسکتی ہے
کے اگر لاہور یا کسی اور شہر میں کپتان یا کوئی اور جماعت سیاسی مظاہرہ یا
احتجاج کرے تو وہاں کے سیاسی رہنما اور سیاسی جماعتیں بھی اسی قسم کی فراغ
دلی کا مظاہرہ کریں گی۔ اس طرح کے اقدام سے مثبت سیاسی کلچرفروغ پاتا
ہے۔کارکنوں میں ایک دوسرے کو برداشت کرنے کا حوصلہ پیدا ہوتا ہے۔ سب سے بڑھ
کر یہ کہ ملک جانی و مالی نقصان سے محفوظ رہتا ہے۔ (۱۳ دسمبر ۲۰۱۴ء) |
|