ہر سال ماہ ِ دسمبر کی آمد پر ،
دسمبر 1971 میں وقوع پذیر ہونے والے افسوس ناک واقعات ہماری آنکھوں کے
سامنے گھوم جاتے ہیں۔ 16 دسمبر 1971 پاکستان کی تاریخ کے بدقسمت ترین دنوں
میں شمار ہوتا ہے ، جب ہمارا مشرقی بازو ہم سے الگ ہو کر بنگلہ دیش بن گیا۔
16 دسمبر 1971 سے قبل اور بعد پیش آنے والے واقعات دلخراش اور تکلیف دہ
ہونے کے ساتھ ساتھ سیاسی غلطیوں، عدم اعتمادی ، مفاد پرستی، علاقاء اور
لسانی سیاست کے علاوہ ضد اور ہٹ دھرمی جیسے منفی رجحانات سے بھری پڑی ہے ۔
تاریخی حقائق کا مطالعہ کرنے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ بار بار سیاسی
غلطیاں دہرائی جاتی رہیں جن کا بعد ازاں کسی طور کوئی ازالہ ممکن نہ ہو
سکا۔ قیام پاکستان کے فوراً بعد سیاست دانوں کے مابین مختلف معاملات کو لے
کر ایک رسہ کشی کا دور شروع ہو گیا۔ اس رسہ کشی کی اکثر وجہ علاقاء اور
لسانی حوالے سےکھڑے کیئے جانے والے تنا زعات ہوا کرتے تھے جن کا واحد مقصد
سستی عوامی شہرت حاصل کرنا تھا۔
قیامِ پاکستان کے وقت سے ہی ایک بہت بڑا مسلۂ درپیش تھا، وہ تھا مشرقی اور
مغربی بازوؤں کے درمیان سینکڑوں میل کا فاصلہ۔ ان سینکڑوں میلوں کے درمیان
بھارت جیسے دشمن کی موجودگی نے اس مسلئے کو مزید پیچیدہ بنا دیا تھا۔ یہ
بات بھی ایک مصدقہ حقیقت تھی کہ بھارت کی قیادت نے نہ صرف پاکستان کو
بحیثیتِ آزاد ریاست تسلیم نہیں کیا تھا ،بلکہ وہ ان کوششوں میں لگے ہوئے
تھے کہ جلد از جلد پاکستان کی آزاد حیثیت کو ختم کرکے اسے دوبارہ بھارت کا
حصہ بنایا جا سکے ۔ فوجی جارحیت کے ذریعے سے بھارت نے پاکستان پر قبضہ کرنے
کی کوشش کی مگر اسے بری طرح ناکامی ہوء۔ اس ناکامی کے بعد بھارتی قیادت
درپردہ سازشی جال بچھا کر اس ناپاک منصوبے کی تکمیل میں مصروف ہوگئی۔ بھارت
نے مغربی اور مشرقی پاکستان کے درمیان طویل فاصلے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے
مشرقی بازو کو بالخصوص نشانہ بنایا۔ مشرقی پاکستان تین اطراف سے بھارت میں
گھرا ہوا تھا۔ اپنے مخصوص جگرافیاء اور تہذیبی خدوخال کے باعث بھارت نے
مشرقی پاکستان کے خلاف اپنی تمام تر سازشی قوتیں لگا دیں۔
تحریکِ پاکستان برِ صغیر کے مسلمانوں کی بیداری کی سب سے بڑی تحریک تھی جس
میں تمام طبقات، مسلک، نسل اور زبان کے مسلمان بلا امتیاز و بلا تفریق شریک
تھے ۔ ان سب کا واحد مقصد حصولِ پاکستان تھا۔ اس تحریک نے تمام مسلمانوں کو
باہمی بھاء چارے کے مضبوط بندھن میں باندھ کر رکھا ہوا تھا۔ قیامِ پاکستان
کے فوراً بعد جب ذاتی مفادات اور منفی سیاست نے زور پکڑا، تو اخوت و بھاء
چارے کا مضبوط بندھن رفتہ رفتہ ٹوٹتا چلا گیا۔ قائدِ اعظم محمد علی جناح
مسلم اتحاد کے سب سے بڑے علمبردار تھے ۔ ان کی بلند و بانگ شخصیت اس اتحاد
کی ضامن تھی۔ بد قسمتی سے قائدِ اعظم کی ناوقت رحلت کے بعد کوء دوسری شخصیت
ان کی جگہ نہ لے سکی۔ قائدِ اعظم کی وفات کے بعد پاکستان کی سیاسی تاریخ
میں مشرقی اور مغربی بازوؤں کے درمیان سیاسی اتحاد کا ایک بہت بڑا خلِا
پیدا ہوگیا۔ بھارتی قیادت نے فوری طور پر اس خلا کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ریشہ
دوانیوں اور نفرتوں کے بیج بونے شروع کر دیئے ۔ کسی بھی سیاسی سطح پر اس
بات کو سمجھنے کی کوشش نہیں کی گئی کہ سیاسی یکجہتی وقت کی اہم ترین ضرورت
ہے ۔ مغربی بازو کے سیاستدان حکومتی نظم و نسق میں بڑے حصے کے خواہاں تھے ۔
ایسا کرتے ہوئے اکثر و بیشتر مشرقی حصے کو یکسر نظر انداز کیا جاتا رہا جس
کے باعث عدم اعتماد کی راہ ہموار ہوئی۔
سر ل ریڈکل وہ بدبخت شخص تھا جس نے بحیثیت سربراہ باؤنڈری کمیشن پاکستان کو
اس قدر ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا کہ بیان سے باہر ہے ۔ خصوصاً بنگال اور
پنجاب کی تقسیم میں اس بدبخت جہنم واصل نے نہ جانے مسلمان قوم کے ساتھ کن
جنموں کا انتقام نکالا۔ پنجاب کی تقسیم اور بعد میں اس میں شرمناک ردوبدل
مسلمانوں پر ایک ایسا شدید گھاؤ تھا کہ جس سے آج تک لہو رس رہا ہے ۔ بنگال
کی تقسیم میں بھی ریڈ کلف نے مغربی بنگال مشمول کلکتہ شہر بھارت میں شامل
کر دیا جو کہ سراسر بنگال کی مسلم آبادی کی منشا کے خلاف تھا۔ کلکتہ شہر
بنگال کے کسانوں اور تاجروں کی سب سے بڑی منڈی کی حیثیت رکھتا تھا۔ کلکتہ
اور مشرقی بنگال کے درمیان سرحد کھنچ جانے سے ان تاجروں کا کلکتہ سے رابطہ
کٹ گیا جس کے باعث ان کے کاروبار تباہ ہوگئے ۔ پٹسن کے تاجروں کو شدید
نقصان اٹھانا پڑا کیونکہ پٹسن کے زیادہ تر کارخانے کلکتہ ہی میں قائم تھے ۔
اس صورتِ حال پر بہت واویلا مچا مگر سیاسی قیادت کے کانوں پر کچھ خاص جوں
نہ رینگی۔ اصولاً اس مسلئے کو ترجیحی بنیادوں پر حل کیا جانا چاہیئے تھا
مگر ایسا نہ کیا گیا، جس کے باعث مشرقی پاکستان کے عوام میں احساسِ محرومی
کو فروغ ملا۔
رفتہ رفتہ اس نامعقول سیاسی صورتِ حال نے ناپسندیدہ واقعات کی شکل میں اپنا
رنگ دکھانا شروع کر دیا۔ آزادی کے فوراً بعد اثاثوں اور امداد کی تقسیم کا
مرحلہ آیا۔ اس تقسیم کے حوالے سے مشرقی پاکستان کے ساتھ امتیازی سلوک سامنے
آنے لگا۔ مغربی پاکستان سے تعلق رکھنے والے حکومتی اہلکاروں کا موئقف تھا
کہ چونکہ زیادہ تر حکومتی ادارے مغربی حصے میں موجود ہیں لہذا مشرقی
پاکستان کو فی الحال اس امداد کی کوء ضرورت نہیں ہے ۔ اس قسم کے واقعات سے
بد مزگی اور عدم اعتماد پیدا ہونے لگا۔ باقاعدہ گڑ بڑ کے آثار 1948ء میں اس
وقت سامنے آئے جب ڈھاکہ میں طلباء نے کرنسی نوٹوں اور سکوں سے بنگالی تحریر
حدف کیئے جانے اور بنگلہ زبان کو قومی زبان کا درجہ دینے کے مطالبے پر
احتجاج کا آغاز کیا۔ احتجاج کرنے والے طلباء میں شیخ مجیب الرحمان اور دیگر
لیڈر پیش پیش تھے ۔ رفتہ رفتہ یہ احتجاج شدت اختیار کرگیا۔ اس صورتِ حال کو
قابو میں کرنے کیلئے پولیس کو طاقت کا استعمال کرنا پڑا جس سے صورتِ حال
مزید بگڑ گئی۔ ان حالات میں قائدِ اعظم محمد علی جناح بذاتِ خود ڈھاکہ
تشریف لائے اور لوگوں کی شکایات سننے کے بعد یہ واضح کیا کہ قومی زبان کا
درجہ صرف اور صرف اردو زبان کو حاصل ہے ۔ قائدِ اعظم کے نزدیک اردو زبان
قومی یکجہتی کی علامت تھی ، مگر نا سمجھ لوگ اس بات کو سمجھنے سے قاصر تھے
۔ اگلے برس یعنی 1949 ء میں بنگالی لیڈر مولانا بھاشانی نے پاکستان مسلم
لیگ سے لاتعلقی اختیار کرتے ہوئے ، ایسٹ پاکستان عوامی مسلم لیگ کی بنیاد
ڈالی۔ اس جماعت کا قائم ہونا تھا کہ مشرقی پاکستان سے تعلق رکھنے والے
بیشتر سیاستدان اس جماعت میں شامل ہوگئے ۔ یہ وہی جماعت تھی جو آگے چل کر
عوامی لیگ بن گئی اور بنگلہ دیش کے قیام کا باعث بنی۔ اس پارٹی کے قیام کی
وجہ مغربی پاکستان کی امتیازی پالیسیاں بتایا گیا۔ یہ نومولود پاکستان کی
بد قسمتی تھی کہ بجائے اس کہ تمام سیاسی لوگ مل جل کر باہمی اتحاد کی فضا
قائم کرتے اور ملک کو ترقی کی راہ پر ڈالتے ، وہ اس کے برعکس مفاد پرستی
اور علاقاء سیاست میں لگ کر پاکستان کی جڑوں کو کھوکھلا کرنے لگے ۔یہ سب
کچھ خاموشی سے نہیں ہو رہا تھا۔ مغربی پاکستان کے سیاستدان یہ سب دیکھ اور
سن رہے تھے مگر وہ مشرقی پاکستان کے مسائل کو پسِ پشت ڈال کر ذاتیات اور
مفاد پرستی میں مشغول تھے ۔
اگلا تنازعہ اس وقت کھڑا ہوا جب مغربی پاکستان کو ون یونٹ کا درجہ دیا
گیا۔گورنر جنرل غلام محمد کے حکم پر ستمبر 1955ء میں مغربی پاکستان کے تمام
چھوٹے صوبوں کو ضم کر کے ون یونٹ یعنی ایک صوبہ بنا دیا گیا جس کا انتظامی
مرکز لاہور میں بنایا گیا۔ اس حکم کے نفاذ کے ساتھ ہی سندھ، بلوچستان اور
سرحد کی صوباء اسمبلیاں تحلیل ہوگئیں۔ ان چھوٹے صوبوں کے ساستدان اس فیصلے
سے بالکل خوش نہیں تھے ۔ ان کو کسی صورت اپنی ہاتھ سے اختیارات کا چھن جانا
قبول نہیں تھا۔ انہوں نے اس عمل کو پنجاب کی بالادستی کے قیام کی ایک گہری
چال سمجھتے ہوئے اس کے خلاف احتجاج کا سلسلہ شروع کر دیا۔ گو کہ مشرقی
پاکستان پر اس فیصلے کا براہِ راست کوء اثر نہیں پڑتا تھا، مگر اس کے
باوجود انہوں نے حکومتِ وقت کے خلاف احتجاج کا یہ نادر موقع ہاتھ سے جانے
نہ دیا۔ وہ فوراً اس احتجاج کا حصہ بن گئے اور اس فیصلے کو مشرقی پاکستان
کے خلاف ایک متحدہ محاذ سے تشبیح دینے لگے ۔
یوں تو سقوطِ ڈھاکہ سے متعلق واقعات ہزاروں صفحات پر مشتمل ہیں مگر درجِ
بال چند ابتداء واقعات تھے جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بگڑتے چلے گئے اور
پھر ایک وقت آیا کہ وہ لا علاج ہو کر رہ گئے ۔ اگر قومی یکجہتی کا مظاہرہ
کیا جاتا اور ذاتی مفاد سے ہٹ کر ملکی سیاست پر توجہ دی جاتی تو جو ندامت و
شرمندگی اٹھانی پڑی اس سے بخوبی بچا جا سکتا تھا۔ |