دیکھ دسمبر ’’پھر‘‘ مت آنا

یوں لگتاہے جیسے یہ کل ہی کی بات ہے میری عمریہی کوئی آٹھ دس سال رہی ہوگی اور غالباََ میں چھٹی کلاس میں پڑھتی تھی۔ مجھے وہ جوش، وہ ولولہ اور وہ جذبہ ابھی تک یاد ہے جو ۷۱؁ء کی جنگ کے حوالے سے ہمارے گھرانے میں پایا جاتا تھا۔ ہمارے گھر کا وہ چھوٹا سا کمرہ جو ڈبل کنکریٹ کی چھت سے بنا ہوا تھا بطور مورچہ استعمال ہوتا تھا۔ خطرے کا سائرن بجتے ہی ہم سب بہن بھائی اِس کمرے کی طرف دوڑتے اورپنجوں کے بل بیٹھ کر کانوں میں انگلیاں لے لیتے کہ اُن دنوں دفاعی ٹریننگ کا بڑا چرچا تھا اور سکولوں کالجوں میں یہ بڑی باقاعدگی سے کرائی جاتی تھی ۔ میرے دونوں بڑے بھائی رضاکاروں کے یونفارم پہن کر ہاتھوں میں ڈنڈے پکڑے رات بھر باہر گلیوں اور بازاروں میں پہرہ دیتے کہ بلیک آؤٹ کے اوقات میں کوئی اس کی خلاف ورزی تو نہیں کر رہا ہے۔ میری بڑی بہن اونی سویٹر بُن کر اور میری ماں چنوں پر آیت کریمہ پڑھ کر اِن کے پیکٹ بنواتیں اور محاذ پر بھیجتی تھیں۔ شہر بھر میں فوجی گاڑیوں کی آمد ورفت جاری رہتی تھی کہ میرا شہر باڈر سے کچھ زیادہ دور نہ تھا ۔ ہم بچے مل کر ہر گزرنے والی گاڑی میں موجود فوجیوں سے ہاتھ ملانا اور اُنہیں سلیوٹ کرنے کا کوئی موقع بھی ہاتھ نہ جانے دیتے تھے۔
۶۵؁ء کی جنگ کے واقعات ابھی تک ذہنوں میں محفوظ تھے کہ کس طرح پاک فوج کے جوانوں نے تن من کی بازی لگا کر دادِ شجاعت دی تھی اور دشمن کے دانت کٹھے کیے تھے۔ میری یاد کے گوشوں میں ابھی تک وہ منظر بھی محفوظ ہے جب ریڈیو سے خبریں سُننے کے لیے ہم سب چُپپ سادھ کر بیٹھ جاتے تھے اور دوردراز کے محاذوں سے آنے والی خبریں بڑی بے صبری اور اشتیاق سے سُنتے تھے۔ شکست اور پسائی کا تصور تو شاید کسی بھی پاکستانی کے ذہن میں نہیں آیا ہوگا یا کم ازکم میرے معصوم ذہن کے کسی گوشے میں بھی نہ تھا۔ لیکن 16دسمبر کی اُس انتہائی سرد ، اُداس اور خون رُلائی شام کا وہ منظرابھی تک میری آنکھوں میں چُبھ رہا ہے کہ جب گھر کے سارے افراد ایک بار پھر ریڈیو کے گرد جمع تھے اورسب کے چہروں سے بے چینی اور اضطراب عیاں تھا اور آنکھوں میں آنسو اور سب سر جُھکائے ریڈیو سے سقوطِ ڈھاکہ کا احوال سُن رہے تھے بھائی جان اُٹھے اور ڈُبڈبائی آنکھوں سے باہر نکل گئے گھر کے ہر فر د کو اُداس دیکھ کر میرا دل بھی غم سے بھر گیا اور میں نے روتے ہوئے ماں سے پوچھا کہ کیا ہوا ہے؟ ماں نے بتایا کہ ہندوؤں نے مشرقی پاکستان کو نہ صرف ہم سے چھین لیا ہے بلکہ ہمارے فوجی جوانوں کو قید بھی کر لیا ہے۔ مُجھے یاد ہے اُس شام کو نہ تو ہمارے گھر کھانا پکا اور نہ کسی نے کھایا اِس واقعے کو گزرے آج تینتالیس برس گزر چکے ہیں لیکن جب بھی دسمبر کا مہینہ آتا ہے وہ دُکھ اور درد پھر سے تازہ ہو جاتا ہے اور یوں لگتا ہے کہ جیسے یہ واقعہ ابھی کل ہی گزرا ہو۔

سوچتی ہوں کہ ہماری تاریخ کا یہ اتنا بڑا سانحہ کیا ہمیں کوئی سبق سکھا سکا۔شاید نہیں بلکہ یقینا نہیں ہم ابھی تک وہیں کھڑے ہیں بلکہ اُس سے بھی کُچھ برے حالات میں ہیں ہم تو ابھی تک اِسی بحث سے نہیں نکل پائے کہ کیا یہ شکست اور پسائی سیاسی محاذ پر تھی کہ عسکری محاذ پر۔۔۔۔۔ہم ابھی تک اُسی طرح جھوٹی سچی تاویلیں دے کر ایک دوسرے کو موردِ الزام ٹھہرا رہے ہیں۔ہمارے بہت سے نام نہاد روشن خیال دانشور اپنی روشن خیالی کے باعث آج بھی افواجِ پاکستان پر یہ الزام دھر رہے ہیں اور اُنہیں سقوطِ ڈھاکہ کا ذمہ دار قراردے رہے ہیں کیا یہ دانشور اپنی روشن خیالی کے باعث آج بھی افواجِ پاکستان پر الزام دھر رہے ہیں اور اُنہیں سقوطِ ڈھاکہ کا ذمہ دار قرار دے رہے ہیں کیا یہ دانشور یہ بھول جاتے ہیں کہ اِس عظیم اَلمیے اور سانحے کے پیچھے وہ انانیت،خودپسندی ، خود غرضی اور وہ بے حسی بھی شامل تھی جو ہمارے اُس دور کے سیاستدانوں کے پیشِ نظر رہی جن میں بُھٹو اور شیخ مجیب سرِفہرست تھے اور کسی حد تک یحییٰ خان بھی کہ وہ اپنی ذاتی سیاست بازی اور ہوسِ اقتدار میں ان سیاستدانوں سے کسی طرح بھی پیچھے نہ تھے کہ جنہوں نے وطنِ عزیز کو محض اپنی انا پرستی، اپنے ذاتی مفادات کی بھینٹ چڑھا دیا اور ناقابلِ تلافی نقصان پُہنچاتے ہوئے اپنا نام وطنِ عزیز کی تاریخ کے سیاہ اوراق میں لکھوا لیا۔ وطنِ عزیز کو اِس المیے سے دوچارکرنے والے یہ تمام کردار ایک المناک موت کا شکار ہو کر اپنے اپنے منطقی انجام کو پہنچ چکے ہیں ۔
اِس میں تو کوئی دوسری رائے نہیں ہو سکتی کہ وطنِ عزیز کی تقدیر میں لکھے ہوئے اِس المیے کے پیچھے جہاں سیاست دانوں کی خود غرضی اور اناپرستی شامل تھی وہیں بھارت کی ریشہ دانیوں اورسازشوں کا ہاتھ بھی تھابھارت کی دُشمنی سمجھ میں آتی ہے کہ وہ دشمن ہے اور اُس نے اپنے تمام وسائل صرف کرکے ہمیں ہی نقصان پہنچانا ہے ۔ اِس بات کے ناقابلِ تردید ثبوت سامنے آچکے ہیں کہ شیخ مجیب اور بھارتی خُفیہ ایجنسی ’’را‘‘ کے درمیان تعلقات تھے اور ’’را‘‘ نے اگر تلہ سازش کے ذریعے پاکستان کو دولخت کرکے مشرقی پاکستان کو علیحدہ ملک بنانے کی سازش کی ۔اِس بات کا اعتراف شیخ مجیب کی بیٹی حسینہ واجد اپنے ایک انٹرویو میں کر چُکی ہیں ۔ بھارت اپنے عزائم میں کامیاب ہوگیا مگر اِس کامیابی کو ہمارے سیاستدانوں اور حکمران طبقے کی سیاسی عدم فراست اور ہوسِ اقتدار نے نتیجہ خیز بنایا اور ہمیں بھارت کے ہاتھوں عبرت ناک شکست کا سامنا کرنا پڑاوہ بھارت کہ جِس کے ہاتھوں کرکٹ میچ ہارنا بھی قوم کو گوارانہیں ہے۔ کیا ہم اب پھر اُسی راستے پر چلتے ہوئے دُشمن کا کام آسان نہیں کر رہے؟

قارئین کرام!یہ المیہ یقینا ہماری تاریخ کا سیاہ المیہ ہے مگر افسوس اس بات کا ہے کہ ہماری نئی نسل اِس واقعے کے اصل کرداروں سے بے بہرہ ہے ۔حمودالرّحمن کمیشن رپورٹ تو کچھ سچ اور کچھ جھوٹ پر مبنی موجود ہے ، ’’میں نے ڈھاکہ ڈوبتے دیکھا‘‘ صدیق سالک کارپور ثاژ موجود ہے اور اسی طرح بہت سارے لوگوں نے اِس سلسلے میں اپنے اپنے نظریات اور تجزیے پیش کیے ہیں کیا ہی بہتر ہو کہ اِس الم ناک سانحے سے نئی نسل کو آگاہ کرانے کے لیے ہر درجے میں اُس کا کچھ نہ کچھ حصہ نصاب میں شامل کردیا جائے تاکہ اُس درداورکسک کو نئی نسل بھی اپنے خون میں محسوس کرے اور غیرتِ قومی اِن میں اُجاگر ہو یہ بات سچ ہے کہ ادارے اُسی وقت محفوظ اور مضبوط ہوتے ہیں جب وہ اپنے تفویض کردہ فرائض کو عدل کے ساتھ سرانجام دیں جب کوئی ادارہ اپنی حدود سے باہر پاؤں پھیلاتا ہے تو وہ روبزوال ہونا شروع ہو جاتا ہے ۔ہماری بدقسمتی یہ رہی ہے کہ ہمارے ہاں سیاسی فضا پننے ہی نہیں پاتی افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے ہاں سیاست دان کم اور سیاسی نابالغ زیادہ ہیں اور طُرفہ تماشایہ کہ وہ اپنے تئیں پختہ کار اور زیرک سیاستدان سمجھتے ہیں ۔ اُن کی نہ تو سیاسی تعلیم ہوتی ہے اور نہ ہی تربیت ۔اُن کا سارا زور ایک دوسرے کی ٹانگ گھسیٹنے اور دوسرے کو نیچادکھانے پر ہی ہوتا ہے۔ ہم سب اِس بات کے گواہ ہیں کہ جب جب وطنِ عزیز میں جمہوری حکومت آئی اپوزیشن نے کبھی بھی اُسے جم کر حکومت نہیں کرنے دی۔ سیاستدانوں کی آپس کی لڑائیوں اور انا پرستی ہی نے جمہوریت کی ریل کو پٹڑی سے اُتارا ۔ ۷۰؁ ء کے الیکشن کے بعد بھی نتائج کو دیانتداری سے تسلیم نہ کرنے کے نتیجے میں یہ المناک سانحہ پیش آیا ۔ یہ سیاستدانوں کی اناپرستی کا خول ہی تھا جو طوق بن کر ہماری فوج اور پوری قوم کے گلے پڑگیااور ابھی تک پڑا ہوا ہے مگر سبق ہم نے ابھی بھی نہیں سیکھا۔ ہم پھر وہی غلطیاں دہرا رہے ہیں اُسی طرح عدم مساوات کی راہ پر گامزن ہیں اور اُسی طرح ہمارے سیاستدان اپنے اپنے انا کے غُباروں میں ہوا بھرنے میں مصروف ہیں ۔امریکہ ، اسرائیل اور بھارت نے پچھلے تیرہ سالوں سے جس طرح وطنِ عزیز کو اندرونی اور بیرونی طور پر غیر مستحکم کررکھا ہے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں۔افواج پاکستان تو اِن کی ہٹ لسٹ پر ہیں ۔فوج نے اِس عرصہ میں جس طرح اپنی حکمتِ عملی سے اِن دشمنان وطن کا مقابلہ کیا ہے اور اِس سلسلے میں جتنی قربانیاں دی ہیں اُن کا اعتراف نہ کرنا زیادتی بلکہ بخیلی ہے۔

قارئین پاکستانی قوم بڑی باصلاحیت قو م ہے ۔ جب یہ کسی کام کی ٹھان لیتی ہے تو بڑی سے بڑی رُکاوٹ بھی اِن کے سامنے سدِ راہ نہیں بنتی۔ بے شک اِس وقت یہ قوم بکھری ہوئی اور بے راہ رو نظر آرہی ہے مگر اِس قوم کا خمیر عجیب مٹی سے بنا ہوا ہے۔ جب یہ قوم بننا چاہے تو امریکہ کی دھمکیوں سے بھی نہیں ڈرتی اور ایٹمی دھماکہ کرکے دنیا پر یہ ثابت کر دیتی ہے کہ ہم آپس میں لاکھ لڑیں جھگڑیں قومی غیرت و حمیت کا اگر کوئی بھی موقع آئے گا تو دشمن کو انشاء اﷲ سیسہ پلائی دیوار ہی کا سامناکرنا پڑے گا۔ ہمیں انشاء اﷲ اب سنبھلنا ہے اور دشمن کا آلہ کار نہیں بننا۔ہمیں عوام کے سیاسی مینڈیٹ کو تسلیم کرکے صبروتحمل سے اپنی باری کا انتظار کرنا ہے ۔ اِس سے بڑا المیہ اور کیا ہوگا کہ ہمیں اِس بات کا احساس ہی نہ ہو اور ہم اپنے ہی ہاتھوں دشمن کا ایجنڈا پورا کردیں۔ ذرا سوچیئے کیا ہم پچھلے تین ماہ سے ملک میں انارکی پھیلا کر یہی کچھ نہیں کر رہے۔۔۔؟
Dr Fauzia Chohdury
About the Author: Dr Fauzia Chohdury Read More Articles by Dr Fauzia Chohdury: 2 Articles with 1508 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.