پشاور:پھولوں کا شہر لہو لہان ....قوم سوگوار!

16دسمبر کو سانحہ مشرقی پاکستان کے غم میں ڈوبی ہوئی پاکستانی قوم کو سانحہ پشاور نے افسردہ کردیا ہے۔ پشاور اسکول میں بچوں کی شہادت پر ہر آنکھ اشک بار اور دل غمگین ہے۔ صوبہ خیبر پختونخوا کے دارالحکومت پشاور میں آرمی پبلک اسکول میں مبینہ عسکریت پسندوں کے حملے میں سوا سو سے زاید بچوں سمیت140 افراد شہید ہوئے ہیں، جبکہ فائرنگ کے تبادلے میں ڈھائی سو افراد زخمی بھی ہوئے۔ منگل کے روز پشاور میں الیکشن کمیشن کے صوبائی صدر دفتر کے قریب ورسک روڈ پر واقع پاک فوج کی رہائشی کالونی سے متصل آرمی پبلک اسکول میں نصابی سرگرمیاں جاری تھیں کہ سیکورٹی فورسز کی وردی میں ملبوس 8سے 10 دہشت گرد اسکول کی عمارت کے عقبی حصے سے دیوار پھلانگ کر اندر گھس آئے اور فائرنگ شروع کر دی، جس کے نتیجے میں 500 سے 600 بچے، اساتذہ اور عملہ محصور ہو گیا۔ فائرنگ کی اطلاع ملتے ہی سیکورٹی فورسز نے اسکول اور علاقے کو گھیرے میں لے کر دہشت گردوں کے خلاف آپریشن شروع کردیا اور طویل آپریشن کے بعد تمام دہشتگردوں کو ہلاک کرنے میں کامیابی حاصل کی جاسکی۔ عینی شاہد طالب علم نے میڈیا کو بتایا کہ ان کے استاد لیکچر دے رہے تھے کہ اچانک عقب سے ہوائی فائرنگ ہوئی تو طلبہ نے کلاس کے دروازے بند کر دیے، لیکن دہشتگرد دروازے توڑ کر کلاس میں داخل ہو گئے، پہلے ہوائی فائرنگ کی اور بعد میں کچھ بچوں کو تشدد کا نشانہ بھی بنایا، بعد میں انہوں نے مختلف جگہوں پر مورچے سنبھال لیے اور وقفے وقفے سے فائرنگ کرتے رہے۔ حملہ آور غیر ملکی لگ رہے تھے اور عربی میں بات چیت کر رہے تھے۔ اس اسکول کے ایک استاد کا کہنا تھا کہ مسلح حملہ آوروں نے اسکول کو ایک ایسے وقت میں نشانہ بنایا، جب وہاں امتحانات لیے جا رہے تھے۔ ہم کمرہ امتحان میں تھے، جب یہ حملہ ہوا۔ جبکہ ایک دوسرے طالب علم کا کہنا تھا کہ اسکول کے بڑے ہال آڈیٹوریم میں نویں اور دسویں جماعت کے طلبا کی ایک تقریب ہو رہی تھی، جبکہ کچھ کلاسز میں بچوں کے امتحانات ہو رہے تھے۔ اس لیے آج اسکول میں بچوں کی تعداد معمول سے کم تھی۔ اسکول بس ڈرائیور جمشید خان نے روئٹرز کو بتایا کہ ہم اسکول کے باہر کھڑے تھے، جب اچانک فائرنگ شروع ہو گئی، ہر طرف افراتفری مچ گئی اور بچوں اور اساتذہ کی چیخ و پکار کی آوازیں سنائی دینے لگیں۔ شہید ہونے والے بچوں کی عمریں 9 سے 16 سال کے درمیان بتائی جاتی ہےں۔ صوبہ خیبر پختونخواہ کے وزیراطلاعات مشتاق غنی کے مطابق اسکول میں ”جونئیر اور سینئر“ سیکشن میں زیر تعلیم بچوں کی تعداد لگ بھگ 2500 تھی۔ پاکستان تحریک انصاف کے رہنما اور رکن صوبائی اسمبلی شوکت یوسف زئی کے مطابق دہشت گرد سیکورٹی فورسزکی وردیاں پہن کر آئے تھے، اسکول کے سینئر طلبہ کی ایک تقریب ہورہی تھی، جس میں دھماکا ہونے کی اطلاعات ہیں، جس سے اموات زیادہ ہوئی ہیں۔ شوکت یوسف زئی کا کہنا تھا کہ یہ حملہ آپریشن ضرب عضب کا رد عمل ہو سکتا ہے۔ جبکہ میڈیا کے مطابق طالبان کے ترجمان محمد عمر خراسانی نے روئٹرز کو ٹیلی فون پر اس حملے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے کہا کہ اس کارروائی میں ہمارے چھ ارکان ملوث ہیں۔ انہیں ہدایات دی گئی ہیں کہ وہ بچوں کو کوئی نقصان نہ پہنچائیں اور فوجیوں کو ہدف بنائیں۔ خراسانی کا مزید کہنا تھا یہ شمالی وزیرستان میں جاری فوجی کارروائی کا انتقام ہے۔

پشاور میں انسانیت کا سرجھکادینے والے بچوں کے قتل عام کی وزیر اعظم نوازشریف، تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان، جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن، اہلسنت والجماعت کے سربراہ مولانا احمد لدھیانوی، جمعیت علمائے اسلام(س) کے سربراہ مولانا سمیع الحق، امیر جماعت اسلامی سراج الحق، پاکستان پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین آصف زرداری، متحدہ قومی موومنٹ کے سربراہ الطاف حسین، پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ طاہر القادری، چودھری شجاعت حسین، عوامی نیشنل پارٹی کے سربراہ اسفند یار ولی خان سمیت تقریباً تمام مذہبی و سیاسی رہنماﺅں نے مذمت کی ہے۔ جبکہ بین الاقوامی سطح پر بھی اس سانحے کی شدیدمذمت کی گئی ہے۔ترک وزیر اعظم نے سانحہ کی مذمت کی اور اقوام متحدہ کے خصوصی سفیر برائے تعلیم گورڈن براؤن نے پشاور سانحے کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ پوری دنیا پشاور اسکول حملے پر دل شکستہ اور افسردہ ہے، اس کے علاوہ فرانس کے صدر فرانسوا اولاند نے بھی واقعے پر دکھ اورافسوس کا اظہار کیا۔ برطانوی وزیر اعظم نے اس سانحہ کی مذمت کی اور بھارتی وزیر اعظم نے بھی پشاور سانحہ کی مذمت کرتے ہوئے اسے بزدلانہ فعل قرار دیا ہے۔ پشاور کے اندوہناک اور تاریخ کے بدترین حملے کو قومی سانحہ قرار دیتے ہوئے وفاقی حکومت کی جانب سے تین روزہ ملک گیر سوگ کا اعلان کیا گیا ہے اور بدھ کی صبح تمام قومی پارلیمانی جماعتوں کا اجلاس طلب کیا گیا ہے۔ سندھ اور کے پی کے حکومت کی جانب سے بھی سانحہ پشاور پر تین روزہ سوگ کا اعلان کیا ہے۔ وزیر اعظم نواز شریف نے کہا ہے کہ پشاور میں اسکول کے معصوم بچوں کو نشانہ بنانے والے سفاک درندوں کو کسی صورت نہیں چھوڑیں گے۔ معصوم بچوں کو نشانہ بنانے کا یہ واقعہ انتہائی تکلیف دہ اور قومی سانحہ ہے، دہشت گردی کا شکار ہونے والے اسکول کے بچے میرے بچے تھے اور یہ پوری قوم کا نقصان ہے۔ وزیر اعظم نے صوبائی حکومت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو ہدایت کی کہ دہشت گردی کی اس بےہیمانہ واردات کے ماسٹر مائنڈ کو کسی صورت نہ چھوڑا جائے۔آرمی چیف راحیل شریف نے اپنے بیان میں کہا کہ دہشت گردوں نے قوم کے دل پر حملہ کیا ہے، جس کا مجھے بہت صدمہ ہوا ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے پشاور میں اسکول پر دہشت گردوں کے حملے کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا کہ پورا پاکستان سانحے میں شہید ہونے والوں کے لواحقین کے دکھ میں برابر کا شریک ہے۔ عمران خان نے کہاہے کہ سانحہ پشاور پر سیاست نہ کریں، آل پارٹیز کانفرنس میں ہونے والے مذاکرات کے فیصلے پر عمل درآمد کے لیے وقت دینا چاہیے۔ انہوں نے کہاکہ صوبے میں ایک سال میں 170حملے ہوئے، نوسال میں 50 ہزارافراد جاں بحق ہوئے، نو سال پہلے حالات کیا تھے اور اب کیا ہیں؟ دہشتگردوں کے درجنوں گروپ بن چکے ہیں، امن یاجنگ کا فیصلہ ہوناچاہیے، لیکن جوفیصلے اے پی سی میں ہوئے ہیں، ان پرعمل درآمد کے لیے وقت دینا چاہیے۔ عوام نے جنگ سے نکالنے کے لیے ووٹ دیے، وفاقی حکومت سیز فائرکا اعلان کرکے بات چیت کے نکات بتائے۔ پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے سانحہ پشاور کے سبب 18 دسمبر کو ہونے والا اپنا احتجاج ملتوی کر نے کا اعلان کیا ہے۔ جبکہ دوسری جانب پاکستان عوامی تحریک (پی اے ٹی) کے سربراہ ڈاکٹر طاہرالقادری نے بھی پشاور سانحے کے سبب 17 دسمبر کو عوامی تحریک کا ملک گیر احتجاج ملتوی کردیا ہے۔ یاد رہے کہ پاکستان عوامی تحریک کی جانب سے 17 دسمبر کو ملک گیر احتجاج کا اعلان کیا گیا تھا، جبکہ پاکستان تحریک انصاف نے بھی اپنے پلان۔سی کے تحت 18 دسمبر کو پورا پاکستان بند کرنے کی کال دے رکھی تھی۔

جماعت اسلامی کے سربراہ سراج الحق نے پشاور اسکول حملے کو ”بدترین“ واقعہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ واقعہ 18 کروڑ عوام کے لیے ایک بہت بڑا پیغام ہے۔ ہم غمزدہ خاندانوں کے ساتھ ہیں اور ساتھ ساتھ مرکزی، صوبائی اور دیگر متعلقہ اداروں سے مطالبہ کرتے ہیں کہ عام افراد کی حفاظت کو یقینی بنائے۔ دیگر معاملات میں حکومت کی لا پرواہی برداشت ہو سکتی ہے، تاہم اپنے بچوں اور ان کی جان و مال کی حفاظت میں کوتاہی کسی بھی صورت میں برداشت نہیں کی جائے گی۔ وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات پرویزرشید کہتے ہیں کہ پشاور کے اسکول پر حملہ پاکستان کے بچوں پر حملہ ہے، جس کا بھرپور جواب دیا جائے گا۔ دہشتگردی کو کسی ایک واقعے سے جوڑنا یا کسی خاص خطے سے منسلک کرنا مناسب نہیں ہوگا۔ پشاور میں اسکول پر حملہ کسی ایک صوبے کا معاملہ نہیں، یہ کارروائی پورے ملک کے خلاف ہے۔ وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے تحریک انصاف کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی کو فون کر کے سانحہ پشاور پر گہرے دکھ اور افسوس کا اظہار کیا اور پشاور میں دہشتگردوں کے اسکول پر حملے کے بعد حکومت اور تحریک انصاف کے درمیان مذاکرات ملتوی کردیے گئے۔ واضح رہے کہ تحریک انصاف کے انتخابی دھاندلی کے خلاف جاری احتجاج پر مذاکرات کے لیے حکومت اور پی ٹی آئی وفود کومنگل کے روز بیٹھنا تھا۔ پاکستان تحریک انصاف کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ اس حملے کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے، بچوں پر حملے کی اجازت کوئی مذہب یا معاشرہ نہیں دیتا۔ اے این پی کے رہنما میاں افتخار نے کہا کہ صوبائی حکومت کو خواب غفلت سے بیدار ہونا ہوگا، دھرنے کی سیاست ختم کر کے ملک کو اہم وقت میں متحد کرنے کی ضرورت ہے، جبکہ عوامی نیشنل پارٹی کے رہنما غلام احمد بلور نے پشاور اسکول حملے کے بارے میں کہا کہ یہ نہ یہودیوں اور نہ ہی ہندوؤں نے بلکہ ہمارے مسلمان افراد نے کیا، جو نہایت ہی شرمناک ہے۔ صوبائی حکومت مکمل طور پر ناکام ہو چکی ہے۔ یہ واقعہ سب سے زیادہ درر ناک ہے، جس میں معصوم بچوں کو نشانہ بنایا گیا۔ صوبائی حکومت عام افراد کو تحفظ دینے میں ناکام رہی ہے۔
عابد محمود عزام
About the Author: عابد محمود عزام Read More Articles by عابد محمود عزام: 869 Articles with 701564 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.