امام احمد رضا بریلوی علیہ الرحمہ

صفر کے مہینے کا آخیر ہے اور اس ماہ کی غالبا ٢٥ کو اعلی حضرت فاضل بریلوی کا وصال ہوا آج موضوعات تو میرے ذہن میں بہت تھے موجودﺀ حالات کے پیش نظر مگر اچانک جب میں لکھنے بیٹھا تو میرے ذہن کے کسی کونے سے استاد داغ دہلوی کا ایک شعر میری زبان پر آگیا اور میں نے کچھ دیر اس شعر کو گن گنایا ترنم کے ساتھ حالانکہ سر میں میرا کافی ہاتھ تنگ ہے - وہ شعر تھا ۔۔۔۔۔۔
ملک سخن کی شاہی تم کو مسلم اے رضا
تم جس سمت آگئے ہو سکے بٹھا دیے ہیں ۔

جب شعر ختم کیا تو مجھے خیال آیا کہ یہ تو صفر کے مہینے کا اختتام ہونے جارہا ہے اور اعلحضرت کا وصال بھی صفر میں ہوا تھا لہذا آج کچھ تذکرہ امام عشق و محبت کا ہونا چاہئیے چنانچہ آج کا آرٹیکل امام اہلسنت کے نام ۔ اوپر شعر میں داغ دہلوی نے جو کہا یہ شاعر کا غلو نہیں حقیقت ہے میرے امام احمد رضا نے جس موضوع پہ قلم اٹھایا حق ادا کیا ، علوم القرآن ، تفسیر ، حدیث ، فقہ ، منطق ، فلسفہ ، ہندسہ ، علم الاعداد ، جفر ، تعبیر ، فلکیات ،نجوم ، ریاضی ، سائنس پر قلم اٹھایا تو حق ادا کردیا اور اپنا سکہ بٹھا دیا - اعلحضرت نے علم مصطفی ، حلم مصطفی ، جمال مصطفی، کمال مصطفی، سیرت و صورت مصطفی، نورانیت مصطفی ، شفاعت و اختیارات مصطفی ، عظمت رفعت شان مقام مصطفی صلی الله علیہ وسلم پر قلم اٹھایا تو حق ادا کر دیا مگر جب آپ نے توصیف مصطفی اور نعت مصطفی صلی الله علیہ وسلم پر قلم اٹھایا تو آپ نے بیشمار نعتیں لکھنے کے بعد فرمایا ۔
میں سرور کہوں کہ مالک و مولا کہوں تجھے
باغ خلیل کا گل زیبا کہوں تجھے
تیرے تو وصف عیب تناہی سے ہیں بری
حیرآں ہوں میرے شاہ کیا کیا کہوں تجھے
آخر رضا نے ختم سخن اس پہ کردیا
خالق کا بندہ خلق کا آقا کہوں تجھے ۔۔

اب ان اشعار کی تشریح کرنے لگوں تو مجھ جیسا کم پڑھا شخص ایک کتاب لکھ سکتا ہے ۔ موٹی بات جو آپ نے بیان کی کہ نعت نبی صلی الله علیہ وسلم وہ چوٹی ہے جو کوئی آجتک سر نہیں کرسکا اور نہ کوئی حضور صلی الله علیہ وسلم کی شان کما حقہ بیان کرسکتا ہے - ورفعنا لک ذکرک کا ہے سایہ تجھ پر - بول بالا ہے تیرا ذکر ہے اونچا تیرا ۔ مٹ گئے مٹتے ہیں مٹ جائیں گے دشمن تیرے - نہ مٹا ہے نہ مٹے گا کبھی چرچا تیرا ۔
آج سے لگ بگ دو صدیاں پہلے امت مسلمہ کے خلاف قلمی دہشت گردی ہوئی ۔ اس دہشتگردی کے خلاف جو سینہ سپر ہوکر لڑا اسے امام احمد رضا علیہ الرحمہ کہتے ہیں ۔ توہین رسالت سنکر جو خاموش ہوجائے اسے لبرل اور روشن خیال کہتے ہیں ، جو خنجر اٹھا لے اور تختہ دار پر جھول جائے اسے غازی علم دین کہتے ہیں اور جو قلم اٹھا کر گستاخوں کے سینے چھلنی کردے اسے احمد رضا محدث بریلی کہتے ہیں ۔
وہ رضا کے نیزے کی مار ہے ۔۔ کہ عدو کے سینے میں غار ہے ۔۔ آپ کا ایک اور شعر یاد آرہا ہے ۔ کہ
کلک رضا ہے خنجر خونخوار برق بار ۔۔ اعداء سے کہہ دو کہ خیر منائیں نہ شر کریں ۔

کلک قلم کو کہتے ہیں ۔ آپ نے فرمایا دشمنو قلمی دہشتگردی سے باز آجاؤ رضا کا قلم خنجر سے بھی زیادہ تیز ہے - اعداء کی ان گنت قلمی دہشتگردیاں ہیں جن پر بھی کتاب لکھی جاسکتی ہے صرف دو عدد نقل کرتا ہوں نمونے کے طور پر ۔ جسکا نام محمد صلی الله علیہ وسلم و علی ہے وہ کسی شے کا مالک و مختار نہیں ۔
امام احمد رضا نے خنجر اٹھایا اور جواب دیا ۔
میں تو مالک ہی کہوں گا کہ ہو مالک کے حبیب
یعنی محبوب و محب میں نہیں میرا تیرا

دوسری دہشتگردی ملاحظہ کریں ۔ محمد صلی الله علیہ وسلم مر کر مٹی میں مل گئے معاذ الله نقل کفر کفر ناباشد --- تاجدار بریلی نے نجدیت کے سینے پر مونگ دلتے ہوئے فرمایا ۔۔
آقا تو زندہ ہے والله تو زندہ ہے والله
میری چشم عالم سے چھپ جانے والے ۔
یہ آپکا شاعرانہ غلو نہیں بلکہ ابوداود شریف کی حدیث کا مفہوم ہے ۔ میں تو امام احمد رضا کا عقیدت مند ہوں جو کہ مجھے وراثت میں ملی لیکن میں صرف وراثت کی بنیاد پر کسی سے عقیدت کرنے والا نہ تھا لہذا جب میں نے شعور کی آنکھیں کھولیں تو میں نے تمام مسالک و علماء کی کتب پڑھیں آخرکار اس نتیجے پر پہنچا کہ برصغیر میں مصطفی جان رحمت پہ لاکھوں سلام کی شمع روشن جس شخصیت نے کی ہے اور اسلامی عقائد کا تحفظ اور گستاخوں کا رد جس نے کیا اس ہستی کو ہی امام عشق و محبت رسول صلی الله علیہ وسلم کہتے ہیں اسطرح میری وراثتی عقیدت پختہ اور تحقیقی ہوگئی ۔ میں ٹہرا آپکا معتقد میں تو تعریف کروں گا چند سطریں آپکے مخالفین کی آپکے بارے میں درج کرتا ہوں جادو وہ جو سر چڑھ کر بولے ۔
دیوبندی عالم کوثر نیازی لکھتے ہیں مفتی اعظم پاکستان حضرت مولانا مفتی محمد شفیع دیوبندی سے میں نے سنا، فرمایا: جب حضرت مولانا احمد رضا خان صاحب علیہ الرحمہ کی وفات ہوئی تو حضرت مولانا اشرف علی تھانوی کو کسی نے آکر اطلاع کی مولانا تھانوی نے بے اختیار دعاء کے لئے ہاتھ اٹھا دئیے جب وہ دعاء کر چکے۔ تو حاضرین مجلس میں سے کسی نے پوچھا وہ تو عمر بھر آپ کو کافر کہتے رہے اور آپ ان کے لئے دعائے مغفرت کر رہے ہیں۔ فرمایا اور یہی بات سمجھنے کی ہے مولانا احمد رضا خان نے ہم پر کفر کے فتوے اس لئے لگائے کہ انہیں یقین تھا کہ ہم نے توہین رسول کی ہے اگر وہ یہ یقین رکھتے ہوئے بھی ہم پر کفر کا فتوٰی نہ لگاتے تو خود کافر ہو جاتے۔ (اعلٰی حضرت فاضل بریلوی ایک ہمہ جہت شخصیت صفحہ7 طبع نارووال)
(روزنامہ جنگ لاہور3، اکتوبر 1990ء) (روزنامہ جنگ راولپنڈی 10 نومبر 1981ء)۔
نہ تم توہین یوں کرتے نہ ہم تکفیر یوں کرتے
نہ کھلتے راز تمہارے نہ یوں رسوائیاں ہوتیں۔

دیوبند کے محدث انور شاہ کشمیری لکھتے ہیں جب بندہ ترمذی شریف اور دیگر کتب احادیث کی شروح لکھ رہا تھا۔ تو حسب ضرورت احادیث کی جزئیات دیکھنے کی ضرورت درپیش آئی تو میں نے شیعہ حضرات و اہل حدیث حضرات و دیوبندی حضرات کی کتابیں دیکھیں مگر ذہن مطمئن نہ ہوا۔ بالآخر ایک دوست کے مشورے سے مولانا احمد رضا خان صاحب بریلوی کی کتابیں دیکھیں تو میرا دل مطمئن ہو گیا کہ اب بخوبی احادیث کی شروح بلاجھجک لکھ سکتا ہوں۔ تو واقعی بریلوی حضرات کے سرکردہ عالم مولانا احمد رضا خان صاحب کی تحریریں شستہ اور مضبوط ہیں جسے دیکھ کر یہ اندازہ ہوتا ہے کہ یہ مولوی احمد رضا خان صاحب ایک زبردست عالم دین اور فقہیہ ہیں۔ (رسالہ دیوبند صفحہ 21 جمادی الاول 1330ھ )۔

آرٹیکل طویل ہوچکا ہےزندگی رہی تو احمد رضا بریلوی مخالفین کی نظر میں کے عنوان سے پورا آرٹیکل پھر کبھی لکھوں گا ۔ امام احمد رضا ایک جامع کمالات اور نابغئہ روزگار شخصیت تھے،علوم نقلیہ اور عقیلہ پر کامل دسترس رکھنے والے ایک بے مثال عالم دین تھے۔ جیسا کہ آپ کے یکتاے زمانہ ہونے پر مہر تصدیق ثبت فرماتے ہوئے مولانا سید مامون البری المدنی فرماتے ہیں: "وہ اس لائق ہیں کہ کہا جائے کہ ان جیسا ان کے زمانہ میں کوئی نہیں کیونکہ ان کا فضل و کمال مشہور زمانہ ہے"۔

25/صفر المظفر بروزجمعہ 1340ھ مطابق 28 اکتوبر1921ء میں آپ اس دار فانی سے رحلت فرماگئے۔
Usman Ahsan
About the Author: Usman Ahsan Read More Articles by Usman Ahsan: 140 Articles with 186588 views System analyst, writer. .. View More