اعلیٰ حضرت عظیم البرکت
(Syed Ali Husnain Chishti , Bhakkar)
اعلیٰ حضرت عظیم البرکت چودھویں
صدی کے ایک یگانہ ء روزگار عالم دین عرب و عجم کے مرجع فتاویٰ جن کے پاس
بلادی عرب و عجم افریقہ چین امریکہ و یورپ سے بیک وقت پانچ پانچ سو اسفتتاء
مسائل دینیہ و جدیدہ کی دریافت کیلئے آئے تھے وہ اپنی جرأت ایمانی اور
اظہار اعلائے کلمة الحق کے اعتبار سے اس کا صحیح مصداق تھے انہوں نے اپنی
تمام زندگی عقائد اسلامی کا پہرہ دیتے گزاری ۔ان کا قلم غیرت ایمانی کا
علمبردار عشق نبی پاک ۖ کا ترجمان تھا اعلیٰ حضرت 10 شوال المکرم 1272ھ
بمطابق 14 جون 1856ء کو اتر پردیش کے شہر بریلی میں ایک دینی و علمی گھرانے
میں پیدا ہوئے چار سال کی عمر میں ناظرہ قرآن ختم کیا آٹھ سال کی عمر میں
فن نحو کی ہدایت الخو نامی درسی کتاب پڑھنے کے دوران ہی عربی زبان میں اس
کی شرح لکھی دس سال کی عمر میں اصول فقہ کی اہم کتاب مسلم الثبوت مصنفہ محب
اللہ بہاری کی شرح لکھی علوم مروجہ درسیہ سے فراغت حاصل کرکے باقاعدہ تدریس
کا آغاز کیا اور منصب افتاء کی ذمہ داری سنبھالی اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی
امت کے وہ عالم دین اور پیشوا ہیں ۔جنہیں نا صرف دینی علوم و فنون س کما
حقہ آگاہی حاصل تھی بلکہ انہیں کئی ایک فنون کا موجد بھی تسلیم کیا گیا آپ
ایک صاحب طرز ادیب اور قادر الکلام شاعر بھی تھے فن شعر میں آپ کا رنگ سخن
اس وقت نکھرا جب آپ نے تاج دار مدینہ سرور قلب و سینہ حبیب کبریا حضرت محمد
مصطفیٰ ۖ کے فضائل و مناقب کے موتی بکھیرے آپ نے تین زبانوں اردو عربی
فارسی میں ہزار سے زائد رسائل سو سے زائد علوم و فنون کے عناوین لکھے ہیں
بلکہ یوں کہا جائے تو بہتر ہوگا کہ آج سے سو سال قبل کے علوم عقیلہ و تفیلہ
پر انہوں نے اپنے رشحات قلم سے یادگاریں چھوڑی ہیں امام احمد رضا ایک علمی
یونیورسٹی کا درجہ رکھتے تھے تاریخ پر نظر ڈالنے سے پتہ چلتا ہے کہ پچھلے
ڈھائی ہزار سال سے تصنیفات اور تالیفات کا سلسلہ جاری ہے جو تاریخ میں
محفوظ بھی ہے کسی نے ایک کسی نے دو چار دس تصنیفات کی ہیں لیکن ایک سے زائد
زبانوں اور جہتوں میں لکھنے والا مصنف نظر نہیں آتا اللہ رب العزت نے نبی
پاکۖ کے علوم کے وارثین میں سے اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی کی منتخب فرمایا ان
کے قلم سے ہزار سے زائد تصانیف کرائیں تاکہ دنیا محو حیرت رہے اور ایمان
والوں کا یقین اور پختہ ہو جب آقا کریم ۖ کے ایک امتی کے علم کایہ حال ہے
تو خود اس ذات مبارکہ کے علم کا کیا حال ہوگا مولانا ڈاکٹر حسن رضا اعظمی
امام احمد رضا کی فقہی خدمات پر پٹنہ یونیورسٹی انڈیا سے 1979ء میں پی ایچ
ڈی کی ڈگری حاصل کی آپ نے اپنے والد علامہ مفتی نقی علی خان اور پیرو مرشد
آل رسول مارہروی سے حدیث کی سند حاصل کی مزید برآں دیار عرب میں جاکر کئی
ایک بزرگوں سے بھی سندات حاصل کیں جن کا ذکر آپ نے اپنی تصنیف میں کیا ہے
آپ عالم شباب میں ہی فنون عربیہ اور علم دینیہ کے ماہر کے طور پر مشہور
ہوئے علم تفسیر ، علم حدیث اور علم فقہ میں ایسے القابات ان کے نام کے ساتھ
آنے لگے کہ ہر انجانے کو محسوس ہوتا کہ یہ کوئی عمر کے لحاظ سے بڑی شخصیت
کے حامل افراد ہیں ۔برصغیر کے علماء ان سے استفادہ کرتے جیسے جیسے عمر
بڑھتی گئی ویسے ویسے علوم کی تعداد بڑھتے بڑھتے 100 سے زیادہ ہوگئی جس کی
تصدیق جلیل القدر علماء نے کی آپ نے معاشرے میں پھیلی ہوئی برائیوں اور دور
جدید کی گمراہیوں کے خلاف فقیہانہ شان سے جہاد کیایہی وجہ ہے کہ جسٹس مفتی
سید شجاعت علی قادری (سابق جج وفاقی شرعی عدالت) نے ایک موقع پر کہا کہ جب
میں مولانا احمد رضا خان کی تصنیفات کا مطالعہ کرتا ہوں تو ان کو اسلاف کے
مسلک سے منحرف نہیں پاتا بلکہ مخریفین کے تعاقب میں مصروف پاتا ہوں آپ کی
تحریریں عشق مصطفیٰ ۖ کا درس دیتی ہیں آپ بائیس سال کی عمر میں بیعت و
خلافت سے مشرف ہوئے اور پیرومرشد نے فخریہ ارشاد فرمایا قیامت کے روز اللہ
عزوجل نے پوچھا کہ آل رسول مارہروی کیا لائے ہو تو میں فخریہ احمد رضا کو
پیش کردوں گا ۔ تدریس تصنیف و تالیف کے ساتھ ساتھ اصلاح معاشرہ کی طرف
خصوصی توجہ دی مسلمانوں میں پھیلی ہوئی غلط رسوم و رواج کو مٹانے کی تحریک
شروع کی بدعات و خرافات کے خلاف محاذ قائم کیا اسلام کے نام پر غیر اسلامی
نظریات پھیلانے والے مختلف فرقوں کے خلاف پوری تندہی کے ساتھ مصروف ہوگئے
ختم نبوت کا مسئلہ ایمان اور اعتقاد کے اعتبار سے بنیادی اہمیت کا حامل ہے
علمائے اہلسنت نے ختم نبوت کے منکرین کا سخت رد کرکے ان کے سراٹھانے سے
پہلے ہی انہیں کچل دیا چنانچہ فتنہ قادیانیت کی سرکوبی کیلئے انکا کردار
روز اول سے ہی بہت شان دار رہا برصغیر پاک و ہند بنگلہ دیش کے سو سے زائد
علماء نے اس قلمی جہاد میں حصہ لیا ان میں اہم شخصیت اعلیٰ حضرت امام احمد
رضا خان محدث بریلوی کی ہے قادیانیت کے خصوصی رد کے حوالے سے دو شخصیات کی
تصانیف اور فتاویٰ نے زیادہ شہرت پائی اعلیٰ حضرت مجدد دین و ملت امام احمد
رضا خان قادری برکاتی حنفی بریلوی اور حضرت پیر طریقت رہبر شریعت سید
مہرعلی شاہ گولڑوی امام احمد رضا خان علمی خانوادے نے ختم نبوت کے منکروں
اور قادیانیوں کا رد کیا مولانا احمد رضا خان بریلوی نے قادیانیوں کے متعلق
فرماتے ہیں یہ مرتد منافق ہیں ۔مرتد منافق وہ کہ کلمہ اسلام بھی پڑھتا ہے
اور پھر اللہ عزوجل یارسول اللہ ۖ یا کسی نبی کی توہین کرتا ہے ضروریات دین
میں سے کسی شے کا منکر ہے قادیانی کے پیچھے نماز باطل محض قادیانی کو زکوة
دینا حرام ہے اگر انہیں دے تو زکوة ادا نہ ہوگی قادیانی مرتد ہے اس کا
ذبیحہ محض نجس و مردار ، حرام قطعی ہے مسلمانوں کے بائیکاٹ کے سبب
قادیانیوں کو مظلوم سمجنے والا اور اس سے میل جول چھوڑنے کو ظلم و ناحق
سمجھنے والا اسلام سے خارج ہے ( احکام شریعت حصہ اول ) آپ کے مجموعہ فتاویٰ
رضویہ میں بھی متعدد فتاویٰ قادیانیت کے رد میں موجود ہیں اس کے علاوہ فاضل
بریلوی نے قادیانیت ، مرزائیت کے رد میں متعدد مستقل رسائل بھی تحریر
فرمائے جن کے اسماء درج ذیل ہیں ۔ المبین ختم النبین ، قہر الدینان علیٰ
مرتد بقادیان ، السوء والعقاب علی المسیح الکذاب ، اطیراز الدیانی علی
المرتد القادیانی ، حاشیہ المعتقد المنتقد اعلٰی المعتمد المستند وغیرہ ۔
قیام پاکستان کے بعد 14 مارچ 1949ء کو قانون ساز اسمبلی میں قرار داد مقاصد
پاس ہونے کے بعد قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے کی باقاعدہ تحریک
شروع ہوئی اس تحریک تحفظ ختم نبوت میں غالب اکثریت اہل سنت کے علماء مشائخ
اور عوام کی تھی جسے ہزاروں اہلسنت نے اپنی جان قربان کرکے کامیاب بنایا جب
ان پر گولیاں چلیں تو بقول شورش کاشمیری جس کے گولی لگتی تھی وہ یارسول
اللہ ۖ کا نعرہ بلند کرتا تھا بالآخر یہ جدوجہد 17ستمبر 1974ء کو امام احمد
رضا خان بریلوی کے خلیفہ اجل مبلغ اسلام حضرت علامہ مولانا شاہ عبدالعلیم
صدیقی کے فرزند قائد ملت اسلامیہ علامہ مولاناشاہ احمد نورانی صدیقی کی
سیاسی قیادت میں پاکستان کی قومی اسمبلی میں آئینی فتح پر منتخ ہوئی اور
عالم اسلام میں پہلی بار پاکستان کو یہ قابل فخر اعزاز حاصل ہوا کہ بیسویں
صدی کے اس مسلمہ کذاب اور اس کی ذریت کو غیر مسلم (کافر) قرار دیا گیا اس
کے الفاظ یہ ہیں۔
ہرگاہ کہ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ قادیان کے مرزا غلام احمد نے آخری نبی
پاک ۖ کے بعد نبی ہونے کا دعویٰ کیا، نیز ہر گاہ کہ نبی ہونے کا اس کا
جھوٹا اعلان بہت سی قرآنی آیات کو جھٹلانے اور جہاد کو ختم کرنے کی اس کی
کوششیں اسلام کے بڑے بڑے احکام کے خلاف غداری تھی ، نیز ہر گاہ کہ وہ
سامراج کی پیداوار تھا اور اس کا واحد مقصد مسلمانوں کے اتحاد کو تباہ کرنا
اور اس کو جھٹلانا تھا نیز ہر گاہ کہ پوری امت مسلمہ کا اس پر اتفاق ہے کہ
مرزا غلام احمدکے پیروکار چاہے وہ مرزا غلام احمد قادیانی کی نبوت کا یقین
رکھتے ہوں یا اسے اپنا مصلح یا مذہبی رہنما مانتے ہوں کسی بھی صورت میں
گردانتے ہیں دائرہ اسلام سے خارج ہیں نیز ہرگاہ کہ اس کے پیروکار چاہے کوئی
بھی نام دیاجائے مسلمانوں کے ساتھ گھل مل کر اور اسلام کا ایک فرقہ ہونے کا
بہانہ کرکے اندرونی و بیرونی طور پر تخریبی سرگرمیوں میں مصروف ہیں ۔نیز
ہرگاہ کہ عالمی مسلم تنظیموں کی ایک کانفرنس میں مکہ مکرمہ کے مقدس شہر میں
رابطہ الاسلامی کے زیر انتظام 6 تا 10 اپریل 1974کو منعقد ہوئی جس میں دنیا
بھر کے تمام حصوں میںسے 140 مسلمان تنظیموں اور اداروں کے وفود نے شرکت کی
متفقہ طور پر یہ رائے ظاہر کی گئی کہ قادیانیت اسلام اور عالم اسلام کے
خلاف ایک تخریبی تحریک ہے جو ایک مسلمان فرقہ ہونے کا دعویٰ کرتی ہے اب اس
اسمبلی کو یہ اعلان کرنے کی کاروائی کرنی چاہیے کہ مرزا غلام احمد کے
پیروکار چاہے انہیں جو بھی نام دیاجائے مسلمان نہیں ہیں یہ کہ قومی اسمبلی
میں ایک سرکاری بل پیش کیاجائے تاکہ اس اعلان کو موثر بنانے کیلئے اور
اسلامی جمہوریہ پاکستان کی ایک غیر مسلم اقلیت کے طور پر ان کے جائز حقوق و
مفادات کے تحفظ کیلئے احکام وضع کرنے کی خاطر آئین میں مناسب اور ضروری
ترمیمات کی جائیں یہ قرار داد پیش کرنے کا سہرا قائد ملت اسلامیہ علامہ شاہ
احمد نورانی صدیقی کے سر ہے علامہ فاضل بریلوی کے خلفاء نے علمی لحاظ سے وہ
عظیم الشان کام کئے کہ رہتی دنیا تک ان کا نام بلند رہے گا سید دیدار علی
شاہ ، مولانا نعیم الدین مراد آبادی ، شاہ عبدالعلیم صدیقی میرٹھی ، دیگر
خلفاء نابغہ روزگار شخصیات تھیں جن کے علمی مرتبے تک پہنچنا بہت مشکل ہے
اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی کو 1318ء میں مخدوم شرف الدین احمد یحیٰ منیری کے
جانشین شاہ امین احمد فردوسی ، زیب سجادہ نشین خانقاہ معظم بہار شریف کی
صدارت میں منعقدہ پٹنہ کے تاریخ ساز اجلاس کے اندر غیر منقسم ہندوستان
(موجودہ ہندوپاک بنگلہ دیش ) کے سینکڑوں علماء مشائخ اور خانقاہوں کے سجادہ
نشین حضرات کی موجودگی میں مجدد کے خطاب سے سرفراز ہوئے 1324 میں مکہ معظمہ
مدینہ منورہ اور دوسرے ممالک کے علماء و مشائخ نے بھی آپ کی عظمت کا اعتراف
کیا۔ 1330ھ کو آپ نے قرآن کریم کا اردو زبان میں ترجمہ کنزالایمان کیا پھر
بارہ جلدوں میں فتاویٰ رضویہ عالم اسلام کو عطا کیا ۔ احیائے علوم کے امور
کی انجام دہی کے ساتھ ساتھ 4 زبانوں اردو ، فارسی ، عربی میں آقا کریم ۖ کی
مدح سرائی کی اور نعتوں کے نئے افق تلاش کئے حدائق بخشش نعتوں کا عظیم
مجموعہ ہے آپ کا لکھا سلام مصطفیٰ ۖ جان رحمت پہ لاکھوں سلام ، شمع بزم
ہدایت پہ لاکھوں سلام ، پورے عالم اسلام میں محبت عشق اور عقیدت سے پڑھا
جاتا ہے ۔ آپ نے قمری مہینے کے اعتبار سے 67 سل کچھ ماہ کی عمر پاکر 25
صفرالمظفر 1340ھ کو اس دارفانی سے دارآخرت کی طرف رحلت فرمائی تو ملی و
قومی اثاثے میں ستھرادین پاکیزہ معاشرے قدیم و جدید علوم و فنون پر مشتمل
مختلف زبانوں میں ایک ہزار سے زائد تصنیفات اور سینکڑوں ہزاروں قابل فخر
تلامذہ چھوڑے ۔ قیامت تک اس عاشق رسول ۖ کی یاد اہل ایمان کے دلوں میں زندہ
و جاوید رہے گی ۔ جبھی تو کسی عاشق نے لکھا ہے کہ
مجھ سے خدمت کے قدسی کہیں ہا رضا
یعنی وہ اعلیٰ حضرت بریلی کے شاہ
جن کی ہر ہر ادا سنت مصطفیٰ ۖ
اس امام اہلسنت پہ لاکھوں سلام
(بشکریہ جنگ و دیگر)
|
|