سانحہ پشاور اور ہمارا مستقبل

16 دسمبر ایک مرتبہ پھر ہمیں رلانے اور تڑپانے کے بعد تاریخ کا حصہ بن چکا ہے۔ سانحہ پشاور نہ صرف پاکستان کے عوام بلکہ پوری دنیا کو ایک اندوہناک کرب سے دوچار کرچکا ہے۔ جو بچے، اساتذہ اور فوجی اس سانحے میں شہید ہوچکے ہیں، وہ بلا شبہ جنت کے مکین بن چکے ہیں لیکن اپنے پیچھے ان گنت سوالات ہماری قوم اور ہمارے سیاسی و عسکری لیڈروں کے لئے چھوڑ کر چلے گئے ہیں۔ دنیا کا کوئی مذہب اور انسانیت ایسے غیر انسانی اقدامات کی حمایت نہیں کرسکتے۔ کیا وجہ ہے کہ ہم ، جو اس مذہب کے ماننے والے ہیں جس میں جنگ کے دوران کفار اور دشمنوں کے بچوں، خواتین اور بزرگوں پر ہرگز حملوں کی اجازت نہیں ہے، نبی مہربان ﷺ نے جنگ کے جو اصول مسلمانوں کو بتائے اس کے مطابق کسی بچے، کسی خاتون، کسی بوڑھے پر ہاتھ اٹھانا جائز نہیں، جو لوگ جنگ میں شریک نہ ہوں، انہیں بھی تحفظ حاصل، جو لوگ اپنے گھروں یا عبادت گاہوں میں خود کو بند کرلیں اور جنگ میں شامل نہ ہوں، ان کو بھی حفاظت کی نوید، یہاں تک کہ درختوں، پھل دارو پودوں کو بھی تحفظ فراہم کیا گیا ہے، تو کیا وجہ ہے آج اسلام کے نام لیوا، خود کو محمد عربی ﷺ کے امتی کہلوانے والے اس طرح جنگ و جدل میں مصروف ہوں کہ نہ ان سے بچے محفوظ، نہ خواتین، نہ کوئی شاہراہ، نہ کوئی سکول محفوظ؟

میرا خیال ہے یہ سوال اتنا سادہ بھی نہیں۔ ایک سوال میں بہت سے سوالات پنہاں ہیںلیکن ان سوالات کا یہاں ذکر ایک لمبی اور نہ ختم ہونی والی بحث کا آغاز کردے گا۔ ہمیں اگر صدق دل سے اپنے ملک کو دہشت گردی کی لعنت سے بچانا ہے، اگر ہمیں اپنے بچوں کو کسی مزید سانحے سے محفوظ رکھنا ہے، اگر ہمیں اپنے وطن کو جنگ و جدل سے نکال کر امن ا آتشی میں لانا ہے، اگر ہم چاہتے کہ ہماری آنے والی نسلیں ایک مضبوط اور مستحکم پاکستان دیکھیں، اگر ہم اپنے مستقبل کو شاندار ار تابناک بنانا چاہتے ہیں، اگر ہم اقوام عالم میں سر اٹھا کر اور غیرت کے ساتھ زندگی گذارنا چاہتے ہیں تو ہمیں ان وجوہات کو بھی ختم کرنا ہوگا جن سے دہشت گردی کو فروغ ملتا ہے۔ ہمیں اگر بدلے کی آگ سے بچنا ہے تو از سر نو قومی پالیسی کو تشکیل دینا ہوگا۔ ہماری لیڈرشپ کو اپنے اندر جرات اور حوصلہ پیدا کرنا ہوگا، بہادری اختیار کرنا ہوگی، عدل و انصاف کا معاشرہ قائم کرنا ہوگا۔ ہمیں اس ملک میں دہشت گردی کی وجوہات کو تلاش کرنا ہوگا، ہمیں اس سوال کا جواب بھی تلاش کرنا ہوگا کہ مشرف کی آمد اور راتوں رات یو ٹرن (U Turn) کے بعد ہی کیوں دہشت گردی اتنی زیادہ اور تسلسل کے ساتھ ہوئی؟ہمیں بلا شبہ مذہبی انتہاءپسندی کے فتنے کا سد باب بھی کرنا ہوگا لیکن اس کے ساتھ لبرل فاشزم اور لبرل انتہاءپسندی بھی جو بڑھتی چلی جارہی ہے، اس کو بھی لگام ڈالنا ہوگی۔ ہمیں دینی مدرسوں پر نظر رکھنے کے ساتھ ساتھ غیر ملکی فنڈز سے پنپنے والی این جی اوز کو بھی مانیٹر کرنا ہوگا۔ ہمیں مذہبی انتہا پسندی کو روکنے کے ساتھ ان لبرلز کو، جو اس وطن کی اساس کو ہی ماننے کو تیار نہیں، جو غیر ملکی دہشت گردوں کو عزت و احترام کے ساتھ واپس بھیجنے کے حق میں ہیں، ان کا بھی توڑ کرنا ہوگا۔ریمنڈ ڈیوس جیسے کتنے لوگ یہاں کام کررہے ہیں اور ان کو کن کی آشیر باد حاصل ہے، اس پر بھی خصوصی طور پر فکر، تدبر اور غور کی ضرورت ہے۔ اگر ہزاروں کی تعداد میں امریکن بلیک واٹر کے لوگ یہاں موجود ہیں تو آخر وہ کر کیا رہے ہیں؟ وہ ہمارے ملک میں کیا کیا ”گل“ کھلا رہے ہیں؟ کس قسم کی بھرتیاں کررہے ہیں اور کیسی ٹریننگ دے رہے ہیں، اس کے کیا نتائج نکل رہے ہیں، ہماری ایجنسیاں اور متعلقہ اداروں کو اس پر بھی خصوصی توجہ دینا ہوگی۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ پشاور سانحہ ایک درندگی، وحشیانہ عمل، غیر انسانی اوربے شرمی پر مبنی فعل ہے، اس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے، لیکن ضرورت اس امر کی ہے کہ دہشت گردی کے سد باب کے ساتھ ساتھ دہشت گردی کی پیدائش کے اسباب پر بھی غور کیا جائے اور ان سے بھی پرہیز کیا جائے۔ پاکستان کی سرزمین کو کسی بھی ملک کے خلاف استعمال نہ کرنے دیا جائے، ان میں صرف ہندوستان، ایران، امریکہ وغیرہ ہی نہ ہوں بلکہ اسلامی ممالک بشمول افغانستان بھی ہو۔ دہشت گردوں کو کیفر کردار تک ضرور پہنچایا جائے لیکن ساتھ ہی ساتھ ایسی پالیسیاں اور قومی اہداف بھی مقرر کئے جائیں جس میں امریکہ کی جنگ سے نکلنا بھی شامل ہو اور کسی نئی جنگ میں کودنے سے احتراز بھی شامل ہو۔ اپنے آپ کو خود کفیل کرنا بھی شامل ہو اور اغیار سے مدد نہ مانگنا بھی، کیونکہ جب آپ کسی کے ممنون احسان ہوں، اپنی روز مرہ کی ضروریات کے لئے بھی کسی کے دست نگر ہوں تو کہاں کی خود داری، کہاں کی خود کفالت اور کہاں کی آزادی؟

دہشت گردوں کو پھانسیاں ایک احسن عمل ہے، بلکہ ان کی سزاﺅں پر عام شاہراہوں اور ہر شہر کی بڑی مساجد کے باہر عمل کا اہتمام کیا جانا چاہئے تاکہ دوسرے دہشت گردوں کو بھی عبرت ہو، بے شک شروع میں نامی گرامی دہشت گردوں کو سزائیں دی جائیں لیکن جن جن مجرموں کو موت کی کنفرم سزائیں ہوچکی ہیں، یہ عمل ان سب کے ساتھ یکساں ہونا چاہئے تاکہ کوئی کسی غلط فہمی میں نہ رہے۔ ایک اور بات جو بہت ضروری ہے، وہ یہ کہ اب ہمیں ”گڈ طالبان“ اور ”بیڈ طالبان“ کے چکر سے نکل آنا چاہئے، جو بھی اسلحہ و بارود اور بم کی زبان استعمال کرے، جو بھی طاقت اور دہشت سے دوسروں کو مطیع بنانے کی کوشش کرے، وہ ہمارا دشمن ہے، چاہے کوئی مذہب کا نام لے کر مذہب کو بدنام کررہا ہو، چاہے کوئی لبرل ازم کے پردے میں ان بدیسی دہشت گردوں کی حمائت کررہا ہو جو ارض وطن میں بم دھماکوں کے مجرم ہوں۔ اسلحہ صرف فوج، پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے پاس ہونا چاہئے، کسی اور کو اسلحہ رکھنے کی ممانعت ہونی چاہئے۔ اگر اب بھی کوئی ”گڈ طالبان“ اور ”بیڈ طالبان“ کا ذکر کرتا ہے تو اس کا حل یہ ہے کہ جو ”گڈ طالبان“ اپنے آپ کو پاکستان کا حامی کہتے ہیں اور ہماری حکومت یا عسکری ادارے بھی ایسا ہی سمجھتے ہوں تو انہیں یا تو فوج میں بھرتی کرلیا جائے یا کوئی الگ سے ملیشیا کی طرز پر فورس بنالی جائے اور انہیں ”بیڈ طالبان“ کی کارروائیوں کو روکنے اور ان کا قلع قمع کرنے کا ٹاسک سونپ دیا جائے، ان کو باقاعدہ تنخواہیں دی جائیں، ان کے خاندانوں کی اسی طرح کفالت کی جائے جس طرح باقی عسکری اداروں کے ارکان کے خاندانوں کی ہوتی ہے تاکہ ان کی لڑنے بھڑنے کی جبلت کی تسکین بھی ہو جائے اور وہ اپنی سرگرمیوں کو کسی مثبت اور تعمیری کام میں جاری رکھیں۔

آخر میں، سانحہ پشاور میں شہید ہونے والے بچوں، اساتذہ اور افواج پاکستان کے جری جوانوں کو سلام، اللہ ان کو جوار رحمت میں اعلیٰ درجات عطا فرمائے اور ان کے لواحقین کو صبر جمیل عطا فرمائے۔ وہ بلا شبہ شہداءہیں اور شہید کبھی مرتے نہیں۔ ان کی قربانی ہرگز رائیگاں نہیں جائے گی بلکہ ان کی شہادت کی وجہ سے انشاءاللہ اس پاک سرزمین سے ان ناپاک لوگوں کا صفایا ہوگا، جنہوں نے یہاں کشت و خون کا بازار گرم کیا ہوا تھا۔ اللہ تعالیٰ ہمیں حق سمجھنے اور اس پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے.... آمین!
Mudassar Faizi
About the Author: Mudassar Faizi Read More Articles by Mudassar Faizi: 212 Articles with 206884 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.