صدر کے پاس کون سے ہتھیار ہیں؟ قوم جاننے کو بیتاب ہے؟

صدر اپنا ہتھیار استعمال کر کے کیا؟ اپنی گرتی ہوئی ساکھ اور حکومت بچا پائیں گے.....؟
یومِ عاشورہ کے بلوائیوں پر پولیس گولی چلا دیتی تو اتنی تباہی تو نہ ہوتی.....؟
توہمات میں مبتلا صدر اور میڈیا

کہاجاتاہے کہ سچی اور کھری بات کہیں سے بھی مل جائے اُسے قبول کرنے میں تامل سے کام نہیں لینا چاہئے اور کیوں کہ دنیا کی تاریخ گواہ ہے کہ ہر کامیاب آدمی نے اِسی کلیے کو اپنی گِرہ سے باندھے رکھا اور یوں وہ امر ہوگیا مگر آج کا انسان اپنے جذبات کے ہاتھوں اتنا اندھا ہوگیا ہے کہ اُسے اَب کوئی اچھی بات بھی پسند نہیں آتی ہے اور وہ خوش فہمی کے ایک ایسے مرض میں مبتلا ہو کر رہ گیا ہے کہ وہ یہ سمجھتا ہے کہ وہ جو کہہ رہا ہے بس وہ ہی حق اور سچ ہے اور اِس کے علاوہ سب جھوٹ اور غلط ہے۔

اور ساتھ ہی آج کے اِنسان کو دوسرا بڑا مرض وہم کا لاحق ہے جس سے متعلق یہ مشہور ہے کہ اگر کوئی شخص وہم کے مرض میں مبتلا ہوجائے تو پھر اِس مرض سے چھٹکارا بڑی مشکل سے ہی حاصل ہوتا ہے، اِس لئے بزرگوں نے فرمایا ہے کہ وہم کا علاج لقمان حکیم کے پاس بھی نہیں تھا اِسی وہم کے حوالے سے میں اپنی بات مزید آگے بڑھاتے ہوئے ڈاکٹر براوئن کا ایک واقعہ بیان کرنا چاہوں گا کہ ڈاکٹر براوئن کو ایک ایرانی نے بتایا کہ چلے کاٹنے والے تنہائی، فاقہ زدگی اور غیر معمولی توقعات کے باعث واہموں میں مبتلا ہوجاتے ہیں اور اِسی حالت میں انہیں عجیب و غریب خیالی صورتیں بھی دکھائی دینے لگتی ہیں جنہیں وہ جن سمجھنے لگتے ہیں اور وہ بعد میں اِسی خوش فہمی کی وجہ سے یہ دعوے بھی کرتے پھرتے ہیں کہ جن اِن کے قبضے میں ہے۔ اور وہ اِن جنوں سے جو چاہیں کرواسکتے ہیں حالانکہ ایسا کچھ نہیں ہوتا جیسا جو وہ سمجھ رہے ہوتے ہیں سِوائے اِن کے ذہنوں کے فتُور کے اور بس......

ایسی ہی کچھ کیفت آج کل ہمارے یہاں ایوان صدر اور ایک میڈیا کے خاص گروپ کے درمیان بھی پیدا ہوچکی ہے کیوں کہ ایوانِ صدر والے سچی اور کھری با ت کو سننا اور برداشت کرنا تو اپنی توہین سمجھنے لگے ہیں اور میڈیا ہے کہ جو اِس خوش فہمی میں کثرت سے مبتلا ہوچلا ہے کہ یہ جو کہہ دیتا ہے وہ ہوکر رہتا ہے اور اِسی بنا پر طاقتور میڈیا اِس حکومت کے جانے کے دن گن رہا ہے یوں ایوان صدر اور میڈیا کے ایک خاص گروپ کے درمیان ایک سرد جنگ جاری ہے دیکھیے کہ یہ جنگ کہاں جاکر رکتی ہے۔

بہرحال! اِس طاقتور میڈیا گروپ جس سے آج ایوانِ صدر خوفزدہ ہے اِس کی مثال بھی اِس کے اِس حکومت سے متعلق تبصروں اور تجزیوں سے کچھ ایسی ہو گئی ہے کہ ایک پیر دس عورتوں کو اولادِ نرینہ کا تعویذ دیتاہے نو کے یہاں بیٹا پیدا نہیں ہوتا لیکن دسویں کے ہاں بیٹا پیدا ہو تو لوگ ناکامیوں کو بھولا دیتے ہیں اور بیٹا پیدا ہونے کو پیر کی کامیابی قرار دیتے ہیں عوام کی یہی سادہ لوحی پیروں کے لئے سونے کی کان بن گئی ہے اور اِسی وجہ سے ہمارے ہاں پیر قدیم جادوگروں کی یادگار ہیں اِن کا کاروبار زیادہ ترحُب کے تعویذوں سے چلتا ہے ۔اور اِسی طرح گزشتہ کئی سالوں سے اِس طاقتور میڈیا کا کاروبار بھی حکومتوں کے آنے جانے سے متعلق اِس کے نت نئے سیاسی تجزیوں اور تبصروں سے اُس پیر کے حُب کے تعویزوں کی طرح چل رہا ہے۔ جس یہ میڈیا سونے کی کان بن گیا ہے۔

اور اِسی طرح ٹھیک ہے کہ اِس طاقتور میڈیا نے ماضی کی حکومتوں کو جانے کے لئے ضرور دن گننے ہوں گے اور اُن حکومتوں میں سے کوئی ایک دو حکومت اِس کے اِس طرح دن گنے جانے اور اِس کے سچے اور کھرے تبصروں اور سیاسی تجزیوں سے چلی بھی گئی ہو گی تو اِس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ اِس میڈیا کی ہر بات، ہر بار اور ہر حکومت کے لئے درست ہی ثابت ہو اور ہر حکومت اِس کے بے لاگ تبصروں اور تجزیوں سے چلی بھی جائے۔ اور اِس پیر کے تعویذوں کی طرح درست ثابت ہو جنہیں پیر نو عورتوں کو بیٹے کے لئے دیتا ہے مگر نوعورتیں کامیاب نہیں ہوتیں اور آخر کار دسویں عورت اِس پیر کے تعویذ سے بیٹا پیدا کرنے میں کامیاب ہوجاتی ہے تو پیر کا اِس میں کیا کمال ہے کہ نوعورتوں کو تو اولادِ نرینہ نصیب نہیں ہوئی مگر دسویں کو بیٹا پیدا ہوگیا۔

بہر کیف!یہ بھی کتنا عجیب اتفاق ہے کہ وہ صدر جن کے پاس صرف سیاسی ہتھیار ہیں وہ اپنی حکومت کو بچانے کے لئے اپنے ہتھیار کے استعمال کے بہانے کا وقت تلاش کر رہے ہیں اور وہ اِس فِراق میں مبتلا ہیں کہ یوں ہی اِن کی حکومت اور اِن کی ذات پر اَب کسی بھی جانب سے کوئی بھی وار ہوا اور اِن دونوں پر کسی نے بھی کاری ضرب لگانے کا ارادہ بھی ظاہر کیا تو وہ تُرنت(فوراً) اپنے ہتھیار استعمال کر کے وہ کارنامہ انجام دے جائیں گے کہ دنیا حیران، پریشان اور ششدر رہ جائے گی۔ یہاں پاکستانی عوام اور سیاسی حلقوں کے لئے یہ نکتہ توجہ طلب ضرور ہے کہ ایک طرف تو ہمارے یہ صدر ہیں جن کے ارادے خطرناک معلوم دیتے ہیں اور جو ہمہ وقت تیار ہیں کہ اِنہیں اِن کے سیاسی ہتھیار استعمال کرنے کا بس ایک بہانہ چاہئے تو پھر دیکھو کہ وہ اپنے اِن سیاسی ہتھیاروں کا استعمال کس طرح سے کرتے ہیں کہ جس سے آر یا پار ہوجائے گا۔

ایک خبر یہ ہے کہ اپنے اِن سیاسی ہتھیاروں کی موجودگی کا اظہار صدر مملکت آصف علی زرداری نے گزشتہ دنوں اپنے ایک انٹرویو میں کچھ اِس طرح سے کیا کہ” میرے پاس سیاسی ہتھیار ہیں جنہیں میں وقت آنے پر استعمال کروں گا“اور اِس کے بعد سے ہی قوم یہ جاننے کے لئے بیتاب ہے کہ صدرمملکت کے پاس ایسے کون سے خفیہ ہتھیار ہیں جن کا انہوں نے اِس طرح برملا اور کھل کر اظہار کر ڈالا ہے؟ اور اِس کے ساتھی ہی قوم یہ بھی تسلی کرلینا چاہتی ہے کہ کیا میڈیا اور ایوان صدر کی جانب سے ایک دوسرے کے خلاف تُوہمات کی جاری جنگ میں کون؟، کون سا اپنا آخری اور فیصلہ کن ہتھیار استعمال کرے گا؟ اور کیا صدر اپنے اِن سیاسی ہتھیاروں کے فوری استعمال سے ایک میڈیا کی جانب سے مسلسل اپنی حکومت کی گرائی جانے والی مہم سے اپنی ساکھ اوراپنی حکومت کو بچا پائیں گے؟ یا اِس میڈیا اور اپنی حکومت کے خلاف کی جانے والے سازشی عناصر کے خلاف اپنے سیاسی ہتھیار استعمال کر کے امر ہوجائیں گے؟میرے خیال سے تو اِس کا فیصلہ آنے والے دنوں میں ہی ممکن ہوسکے گا کہ کون کس ہتھیار کے استعمال کے بدولت فاتح قرار پاتا ہے یا شکست اُس کا مقدر بنتی ہے۔

جبکہ اُدھر کتنے افسوس کی بات ہے کہ کراچی میں یوم عاشورہ پر عزاداروں کے مرکزی جلوس کی حفاظت کے لئے تعینات فورسز کے وہ چاک و جوبند دستے جن میں رینجرز اور پولیس کے اہلکاروں کی بھاری تعداد شامل تھی اور جو اُس روز شرپسندوں کے مضموم عزائم کو خاک میں ملانے اور انہیں کچلنے کے لئے جدید گنوں اور ہتھیاروں سے بھی لیس تھے اُس روز اِن سیکورٹی کے اہلکاروں کو دیکھ کر عوام میں یہ احساس پیدا ہوگیا تھا کہ ہمارے سیکورٹی کے یہ اہلکار کیسے بھی خراب حالات میں عوام کی جان و مال کی حفاظت کے لئے اپنی جانوں کی بھی بازی لگانے سے دریغ نہیں کریں گے اور چاہے اپنے فرائض کی ادائیگی کے دوران انہیں اپنی جانوں سے بھی ہاتھ دھونا پڑجائے تو یہ اِس سے بھی پیچھے نہیں ہٹیں گے۔

مگر عوام کے اِن احساسات اور جذبات پر اُس وقت اُوس پڑگئی جب یہی پولیس اور رینجرز کے اہلکار عاشورہ محرم کے موقع پر اعزاداروں کے جلوس میں خود کش بم دھماکے کے بعد مشتعل افراد اور شرپسندوں کو قہر وغضب میں مبتلا دیکھ کر سرپٹ گھوڑوں کی طرح اپنی جانیں بچا کر خود ہی بھاگتے نظر آئے اور کچھ دور جاکر یہ رینجرز اور پولیس کے اہلکار شرپسندوں کو تماش بین کی حیثیت سے دیکھتے رہے اور اپنے بھاری بھرکم اسلحے کے باوجود یہ فورسز کے اہلکار ایک گولی بھی نہ چلا سکے اور آنسوں گیس کا ایک شیل بھی استعمال نہ کرسکے تو اِنہیں گولی چلانے کے اگلے حکم کے آنے تک دو سے تین گھنٹوں میں اِن سیکورٹی کے اہلکاروں کی لاچارگی کے باعث شرپسندوں کے حوصلے اور بلند ہوئے اور اِن پاکستان، اسلام اور کراچی دشمن عناصر نے کراچی کی بڑی مارکیٹوں میں آگ لگا کر اِنہیں بھسم کردیا۔ اور پاکستان کے تجارتی حب کراچی کو اربوں، کھربوں کا نقصان کر کے اپنے عزام کی تکمیل کے بعد سکون سے بڑے فاتحانہ مگر ناپاک جذبات کے ساتھ اپنے کمین گاہوں کو واپس لوٹ گئے اور اس سارے عمل کے دوران وہاں موجود سیکورٹی فورسز کے اہلکار مجسمہ بنے اِن شرپسندوں کو جاتا دیکھتے رہ گئے۔

اگرچہ خبروں سے یہ بات بھی واضح ہو رہی ہے اور اُس روز وہاں موجود لوگوں کا بھی یہی خیال ہے کہ یومِ عاشورہ پر خودکش بم دھماکے کے بعد مشتعل افراد اور شرپسند عناصر اُس وقت جب وہ کراچی ہی کیا پاکستان کی بڑی ہول سیل کی مین مارکیٹوں کو آگ لگا رہے تھے اُس دم یہی موٹر سائیکل پر ڈبل سواری پر سفر کرنے والوں اور راہ گیروں کو بلاوجہ پکڑ کر تلاشی لینے اور اِنہیں رات دن تنگ اور پریشان کرنے پر معمور پولیس اور رینجرز کے اہلکار اپنے جانیں بچا کر بھاگنے کے بجائے بغیر کسی مصلحت کا شکار ہوئے شرپسندوں پر فائرنگ اور آنسووں گیس کے شیل ہی استعمال کردیتے اور اِن کی جانب سے ایک گولی ہی چل جاتی جس سے ایک دو شرپسند اور بلوائی اِن کی گولی کا نشانہ بنتا تو کراچی کی مارکیٹیں اِن شرپسند عناصر کے ہاتھوں جلنے سے تو بچ جاتیں مگر اِن اہلکاروں کی جانب سے جب کسی بھی قسم کا طاقت اور قوت کا استعمال سامنے نہیں آیا تو اِس سے شرپسندوں کے حوصلے اور بڑھے اور انہوں نے ایم اے جناح روڈ کی اِن مارکیٹوں کو اپنے آگ و خون کے گھناؤنے عمل سے نشان عبرت بنا دیا اور آج ان مارکیٹوں کے وہ دکانداروں جن کے ہاتھ کبھی دینے والے ہوا کرتے تھے اَب امداد لینے کے لئے پھیلے ہوئے ہیں جن کی دکانوں کو آج اِن شرپسندوں نے سوچی سمجھی سازش کے تحت جلا کر اِنہیں ایک ایک کوڑی کا بھی محتاج کردیا ہے۔ جنہیں سنبھلنے میں اَب کئی سال لگ سکتے ہیں۔

اگرچہ وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے سانحہ کراچی کے متاثرین کے لئے ایک ارب امداد دینے کا اعلان تو کیا ہے جو میرے مطابق اِن ارب پتی دکانداروں کے لئے اِن کے آنسوں پہنچنے جیسے ٹِشو پیپر کی قیمت جتنی بھی مدد نہیں ہے وزیراعظم صاحب !اِس قلیل امداد سے اِن متاثرہ دکانداروں کا کچھ بھی نہیں بننے گا اِن دکانداروں کی اگر حکومت کو مدد ہی کرنی ہے تو مزید نو سے دس ارب کی اورامداد کرے تو جس سے اِن چار ہزار دکانداروں کا کاروبار بھی چل پڑے گا اور تو اِن کے گھر کے چولہے بھی دھک اٹھیں گے۔

آخر میں میرا حکومت کو ایک مخلصانہ مشورہ تو یہ ہے کہ وہ ایسے مواقعوں پر سیکورٹی کے اہلکاروں کو صورتِ حال دیکھ خود گولی چلانے کا اختیار دے کر حفظات کے لئے معمور کیا کرے یا اگر حکومت ایسا بھی نہیں کرسکتی تو پھر انہیں(رینجرز کے اہلکاروں کو) واپس سرحدوں پر بھیج دے جہاں وہ سرحدوں کی حفاظت کرتے ہوئے دشمن پر گولی چلانے کے لئے تو آزاد ہوں گے۔ اور محکمہ پولیس کے اہلکاروں کو بھی حکومت کو ایسے موقعہ کے لئے بغیر کسی کے حکم کے گولی چلانے کے اختیار دے کر حفاظت کے لئے بھیجا کرے اور اگر حکومت مصلحتوں کا شکار ہوکر انہیں یہ اختیار نہیں دے سکتی تو پھر یہ اِن بیچارے پولیس والوں کو کیوں نہتہ کر دشمنوں سے مقابلے کے لئے بھیجتی ہے اِس سے تو اچھا ہے کہ حکومت محکمہ پولیس ہی کو ختم کردے تاکہ یہ بیچارے یوں ہی نہتے ہوکر اپنی جانیں تو نہ گنوائیں(ختم شد)
Muhammad Azim Azam Azam
About the Author: Muhammad Azim Azam Azam Read More Articles by Muhammad Azim Azam Azam: 1230 Articles with 971222 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.