شہید تم سے یہ کہہ رہے ہیں !

پاکستانی قوم کا بالعموم اور حکمرانوں کا بالخصوص یہ المیہ ہے کہ خواہ کتنا بڑا قومی سانحہ وقوع پذیر ہو جائے، اُس سے سبق حاصل کرنا تو درکنار، اُسے چند دنوں میں ذہنوں سے یوں محو کر دیا جاتا ہے کہ گویا کچھ ہوا ہی نہیں تھا۔ پاکستان میں درجنوں ایسے واقعات رو نما ہو چکے ہیں کہ جن میں نہ صرف بے پناہ جانی نقصان ہوا بلکہ وہ قومی المیے تھے جیسے سانحۂ داتا دربار، سانحۂ کوئٹہ، سانحۂ میریٹ ہوٹل اور سانحۂ واہگہ ، مگر افسوس وہ حرفِ غلط کی طرح ملکی یاداشت سے مٹ چکے ہیں اور وقت کی دھول میں گم ہو چکے ہیں۔

۱۶ دسمبر کو پشاور میں جس طرح آرمی کے اسکول میں معصوم بچوں کو بربریت و درندگی کا نشانہ بنایا گیا ہے، وہ گزرے ہوئے تمام سانحات سے زیادہ سنگین اور دل دہلا دینے والا ہے اور اس کی جتنی مذمت کی جائے وہ کم ہے۔ ان ننھی کلیوں کا کیا قصور تھا، جن کو کھلنے سے پہلے مسل دیا گیا۔ ان پھولوں کا کیاجرم تھا، جن کو کھلنے سے پہلے کچل دیا گیا۔ وہ کم و بیش ڈیڑھ سو کے لگ بھگ والدین کے لختِ جگر، جن کو گولیوں اور بموں سے اُڑا دیا گیا، ان کی وردیوں کو لہو رنگ اور بستوں کو راکھ کا ڈھیر بنا دیا گیا، درحقیقت وہ ہمارا مستقبل تھا ، جس کو بارود کی نذر کر دیا گیا۔

آنکھیں نم ہیں، دل چھلنی ہے ، کلیجہ منہ کو آ رہا ہے اور انسانیت یہ سوچنے پر مجبور ہے کہ کیا کوئی انسان ایسی حیوانیت اور درندگی کا مظاہرہ کر سکتا ہے؟ کیا کوئی اشرف المخلوقات اتنی پستی میں گر سکتا ہے؟ مگر پھر خیال آتا ہے کہ وہ انسان نما بھیڑیے، جن کو ہمارے معاشرے کے چند مفاد پرستوں کی پشت پناہی حاصل ہو، جنہوں نے مذہب کا لبادہ اوڑھ رکھا ہو، جنہوں نے جہاد جیسے مقدس فریضے کو غلط رنگ دے دیا ہو اور جن کا مقصد پاک سرزمین میں دہشت کا بازار گرم کرنا ہو ، وہ اپنے ناپاک عزائم کی تکمیل کے لیے کچھ بھی کر سکتے ہیں اور ان سے یہ بہیمانہ قتلِ عام کچھ بعید نہیں۔

دوسری طرف ہمارے حکمرانوں اور ذمہ داروں کا یہ حال ہے کہ جب بھی کوئی اس قسم کا سانحہ ہوتا ہے ، یہ مل بیٹھنے کا ڈھونگ رچاتے ہیں، بڑے بڑے دعوے کیے جاتے ہیں، بیانات جاری ہوتے ہیں، کمیٹیاں بیٹھتی ہیں اور نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات، سب کچھ ویسے کا ویسا ہو جاتا ہے کہ جیسے کچھ ہوا ہی نہیں تھا۔انسانیت سسکتی رہتی ہے، آدمیّت لُٹتی رہتی ہے، لوگ مرتے رہتے ہیں، بچے تڑپ تڑپ کر جان دے دیتے ہیں، عصمتوں کے آنچل تارتار ہوتے رہتے ہیں مگر ہمارے لیڈران کبھی مذمتی بیانات سے آگے نہیں بڑھتے کیونکہ اس سے اُن کے مفادات پہ ضرب پڑتی ہے، اُن کے الیکشن جتوانے والے کارندے اور ڈُونرز بھی اسی ملک دشمن گروہ کا حصہ ہیں، وہ بھلا کیسے ان کے خلاف کاروائی کر سکتے ہیں؟ یہ ملک دشمنی اور غداری نہیں تو اسے اور کیا نام دیا جائے ؟

قوم آج سوال کرتی ہے کہ کیا ان کو اقتدار اس لیے دیا گیا تھا کہ ان کی توجہ ملک کی بجائے اپنے کاروبار اور اثاثہ جات کی طرف رہے؟کیا صدر، وزیرِ اعظم، گورنرز اور وُزراء اس لیے منتخب کیے گئے تھے کہ عوام ظلم و زیادتی کے پنجے میں تڑپتی، سسکتی رہے اور یہ لفاظی کر کے مطمئن ہو جائیں ؟ قوم ان سے عملی اقدامات کی اُمید رکھے اور یہ محض بیان بازی پر اکتفا کریں ؟

سوال یہ ہے کہ ان معصوم بچوں کے خون کا حساب کون لے گا؟ان نوخیز گُلوں کا کیا قصور تھا کہ ان کو بے رحمی سے آگ میں جھونک دیا گیا ؟کیا ان کے لہو کی کوئی قیمت نہیں کہ جس کو پانی کی طرح سڑکوں پر بہنے کے لیے چھوڑ دیا جائے ؟بس بہت ہو چکایہ چہرے لٹکا کر پریس کانفرنس کرنے کا ناٹک۔ بہت ہو چکا یہ لفظوں کا ہیر پھیر۔اب مزید ان ہتھکنڈوں سے لوگوں کو بے وقوف نہیں بنایا جا سکتا۔ اگر اب کی بار بھی عملی اقدامات نہ کیے گئے تو وہ وقت دور نہیں جب عوام حکمرانوں کو اقتدار کے ایوانوں سے اُٹھا کر سڑکوں پہ گھسیٹیں گے۔

حکمران طبقہ اگر ملک سے مخلص ہو جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ دہشت گردی کا خاتمہ نہ ہو سکے اور پاک سرزمین امن کا گہوارہ نہ بن سکے مگر افسوس کچھ جماعتوں میں دہشت گردوں کے ہمدرد ہیں جو بوقتِ ضرورت اُن کی پشت پناہی کرتے ہیں۔ان عناصر سے سماج کو پاک کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ مثل مشہور ہے: "گھر کا بھیدی لنکا ڈھائے۔ ــ"اس وقت سب سے پہلی ترجیح کے طور پر دہشت گردی کے قوانین کو موثٔر کرنے اور ان پر عمل درآمد کی ضرورت ہے۔

وقت آ گیا ہے کہ ہم مِن حیث القوم دہشت گردی کے ناسور کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لیے پُر عزم ہو جائیں ۔ ہم اپنے ارد گرد ان لوگوں کو پہچانیں جوـ"اگر، مگر، چونکہ، چنانچہ"کے روپ میں دہشت گردوں کی وکالت کرتے ہیں، جو انسانیت اور اسلام کے روشن چہرے پر بد نما داغ ہیں۔ جو کبھی مذہب کی آڑ میں اور کبھی مسلک کی اوٹ لے کر اُن کی درندگی کا جواز پیش کرتے ہیں۔ آئیں ہم سب اپنے ذاتی اور گروہی مفادات کو بالائے طاق رکھ کر ملک کے وسیع تر مفاد کے حصول کے لیے ایک قومی کردار ادا کریں کیونکہ:
؂ شہید تُم سے یہ کہہ رہے ہیں کہ خُون اپنا بہا کے ہم نے،
وطن کی مٹی کے قرض سارے لو آج ہم نے چکا دیے ہیں۔
(تبسم ؔ)

مگر پاکستانی قوم کا بالعموم اور حکمرانوں کا بالخصوص یہ المیہ ہے کہ خواہ کتنا بڑا قومی سانحہ وقوع پذیر ہو جائے، اُس سے سبق حاصل کرنا تو درکنار، اُسے چند دنوں میں ذہنوں سے یوں محو کر دیا جاتا ہے کہ گویا کچھ ہوا ہی نہیں تھا۔
 
Rauf Tabassum
About the Author: Rauf Tabassum Read More Articles by Rauf Tabassum: 4 Articles with 3024 views A Poet, Writer, Columnist, Teacher' Political Analyst, Motivational Speaker from Jhang, Pakistan... View More