سال ِنو کا پہلا تحفہ ...... بجلی بم

جمہوری حکومت کا ایک اور عوام کش فیصلہ

عموماً دنیا میں یہ اصول رائج ہے کہ قیمت صرف اسی چیز کی بڑھائی جاتی ہے جس کی خصوصیات بہتر و اعلیٰ ہوں، کوالٹی معیاری ہو، مارکیٹ میں وہ چیز باآسانی دستیاب اور ایک عام صارف کیلئے فائدہ مند ہو، مگر اس اصول کے برخلاف ہمارے ملک میں تو الٹی ہی گنگا بہہ رہی ہے، چیز کی کوالٹی خراب ہو، مارکیٹ سے نایاب ہو، لوگ حصول کیلئے مارے مارے پھر رہے ہوں تو سمجھ لیجئے کہ دام بڑھ گئے ہیں، دالیں، چاول، چینی، گھی، تیل، آٹا غرضیکہ انسانی ضرورت کی وہ کونسی اشیاء ہیں جو وافر مقدار میں سستے داموں باآسانی مارکیٹ میں دستیاب ہیں، یہی حال گیس اور بجلی کا ہے، اکثر علاقوں میں گیس کی لوڈ شیڈنگ ہے اور کئی کئی گھنٹوں کیلئے بجلی غائب ہے، جبکہ بجلی کے نظام کا یہ حال ہے کہ ذرا سی تیز ہوا چلے تو تاروں کا نظام درہم برہم ہوجاتا ہے، آندھی آئے تو بجلی غائب اور بارش ہو تو بجلی ناپید، گرمیوں میں تو لوڈ شیڈنگ تھی ہی، لیکن سرد موسم میں بھی آٹھ آٹھ گھنٹوں کی لوڈ شیڈنگ اب تو معمول کی بات بن گئی ہے، اس صورتحال میں ان گنت لوگ ذہنی مریض بن کر رہ گئے ہیں، لیکن اس سب کے باوجود طرفہ تماشہ دیکھئے کہ ایک طرف عوام لوڈشیڈنگ کا عذاب بھگت رہے ہیں تو دوسری طرف بجلی کے نرخوں میں نہ رکنے والا اضافہ ایک ایسا ظلم ہے جس کی پاکستانی تاریخ میں نظیر ملنا مشکل ہے۔

حیرت کی بات ہے کہ ایک طرف عوام کو دینے کے لئے حکومت کے پاس بجلی نہیں ہے جبکہ دوسری طرف بجلی کی قیمتوں میں ہوش ربا اضافہ کر کے ان کی زندگی اجیرن بنائی جارہی ہے، حالت یہ ہوچکی ہے کہ 2008ء میں جو لوگ ایک ہزار روپیہ بجلی کا بل ادا کر رہے تھے، وہی لوگ آج ڈبل بل ادا کر رہے ہیں، ستم ظریفی تو یہ ہے کہ اس عرصہ میں کروڑوں لوگوں کی آمدنی میں ایک پائی کا بھی اضافہ نہیں ہوا، ایک بجلی کے بلوں پر ہی کیا موقوف صرف ایک سال کے عرصہ میں اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں اس قدر خوفناک اضافہ ہوچکا ہے کہ پہلے لوگوں کے صرف ہاتھ کانپتے تھے اب ان کی ٹانگیں بھی لرزنا شروع ہوگئی ہیں، اس کے باوجود مہنگائی، ذخیرہ اندوزی، امن و امان کی بگڑتی ہوئی صورتحال اور بحرانوں کی بھنور میں جکڑے عوام کیلئے حکومت کی جانب سے بجلی کی قیمتوں کے اضافے کا بم گرا دیا گیا، حیرت اس بات پر ہے کہ یہ سب کچھ ایک ایسی جمہوری دور حکومت میں ہو رہا ہے جس کا بنیادی نعرہ روٹی، کپڑا اور مکان کی فراہمی تھا، لیکن حالات یہ ہیں کہ عوام کے منہ سے روٹی، تن سے کپڑا اور سر سے مکان کا سایہ بھی چھنتا جارہا ہے، غریب عوام غربت، بھوک، مہنگائی اور بے روزگاری جیسے بحرانوں کے گرداب میں اس قدر بری طرح پھنس چکے ہیں کہ عوام کی تمام خوشیاں اور امیدیں دم توڑتی نظر آرہی ہیں۔

امر واقعہ یہ ہے کہ حکومت نے پہلے ہی آئی ایم ایف سے کیے گئے معاہدے کے تحت یکم جنوری2010 ء سے عوام پر ”بجلی بم“ گرانے کی تیاری کرلی تھی، ظلم تو یہ ہے کہ 12 فیصد اضافے کی زد میں وہ لوگ بھی آئے جو غربت کی سطح سے بھی بہت نیچے زندگی گزار رہے ہیں، آپ کو یاد ہوگا کہ موجودہ حکومت نے دو سال قبل الیکشن مہم کے دوران عوام سے وعدہ کیا تھا کہ وہ برسر اقتدار آکر عوام کو کمر توڑ مہنگائی سے نجات دلائے گی، جبکہ 2009ء میں حکومت نے ایک وعدہ آئی ایم ایف سے بھی کیا تھا کہ بجلی کی قیمتوں میں بتدریج ہوشربا اضافہ کر کے عوام کی کمر توڑ کر رکھ دے گی، حقیقت حال یہ ہے کہ عوام سے کیا گیا وعدہ تو ایفا نہ کیا گیا لیکن آئی ایم ایف سے کیا گیا ہر وعدہ پورا کیا جارہا ہے، جس کی اصل وجہ یہ ہے کہ قرض کی اگلی قسط کی وصولی کیلئے حکومت آئی ایم ایف کی دست نگر اور مجبور ہے، جبکہ عوام کی کمر اس لئے توڑی جارہی ہے کہ وہ بے بس، کمزور اور مجبور ہے گویا اس ملک میں کمزور ہونا ایک ایسا جرم بن گیا ہے جس کی سزا ”مرے کو مارے شاہ مدار“ ہے، یہ عجب ستم ظریفی ہے کہ ایک طرف حکومت عوام سے اپنے لئے حمایت مانگ رہی ہے اور یہ تقاضا کر رہی ہے کہ موجودہ حکومت کے ہاتھ مضبوط کیے جائیں لیکن دوسری جانب وہ عوام کو دیوار سے لگا رہی ہے۔

یہ درست کہ جمہوریت پاکستان کے لئے ناگزیر ہے یہ بھی درست کہ عوام آمرانہ دور کے غلط فیصلوں کی سزا بھگت رہے ہیں لیکن یہ جمہوریت کا کیسا عجب نمونہ ہے کہ جس میں عوام کی زندگی اجیرن ہوتی جارہی ہے، ایک طرف صدر محترم یہ کہتے نہیں تھکتے کہ جمہوریت بہترین انتقام ہے اور وہ بی بی کی شہادت کا انتقام نظام بدل کر لیں گے لیکن دوسری طرف بجز اس کے اب تک کوئی تبدیلی نہیں آئی کہ ہر گزرتے دن کے ساتھ عوام پر مہنگائی کے بم گرائے جارہے ہیں، اگر حکومت کا یہی وطیرہ رہا تو وہ اس بات کا یقین کرلے کہ عوام میں پائی جانے والی بے چینی غیر جمہوری قوتوں کا راستہ ہموار کرے گی اور اگر ایسا ہوا تو اس کی تمام تر ذمہ داری موجودہ حکومت کے عوام کش فیصلوں پر عائد ہوگی، حکومت کے اس قسم کے اقدامات کے نتیجے میں غریب عوام کیلئے جو حالات پیدا ہورہے ہیں اس سے تو یوں لگتا ہے کہ حکومت جانتے بوجھتے اس سے صرف نظر کررہی ہے، جبکہ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت ان عوام دشمن اداروں کے فیصلوں اور عوام کی مشکلات کو دیکھتے ہوئے ہنگامی بنیادوں پر ایسے اقدامات کرے جس سے عوام مایوسیوں کی دلدل سے نکل کر امیدوں کے راستے پر گامزن ہوسکیں۔

یہاں یہ حقیقت بھی پیش نظر رہے کہ پہلے ہی صرف پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے سے عوام مہنگائی کے بوجھ تلے بری طرح دب چکے ہیں، اس کے باوجود بجلی کی قیمتوں میں حالیہ اضافے سے مہنگائی کا ایک ایسا طوفان آئے گا جس سے حکومت کیلئے بھی حالات پر قابو پانا مشکل ہوجائے گا، موجودہ حالات میں مہنگائی کے اس طوفان اور مختلف اداروں کی اجارہ داری سے یوں محسوس ہوتا ہے کہ عوام کا کوئی پرسان حال نہیں، صرف جاگیرداروں، سرمایہ داروں، سیاستدانوں، حکمرانوں اور لوٹ مار کرنے والوں کیلئے ہی تمام سہولیات میسر ہوسکتی ہیں، غریب عوام اس وقت اپنے آپ کو بالکل تنہا اور بے سہارا محسوس کر رہے ہیں اور مایوسیوں کی انتہا تک پہنچ چکے ہیں، چنانچہ ان حالات میں عوام یہ سوال کرنے میں بالکل حق بجانب ہیں کہ حکومت کہاں ہے اور حکومت کی وہ رٹ کہاں ہے جس کے تحت عوام کو تحفظ اور سہولیات میسر آتی ہیں، کیا عوام کے ان سوالوں کا جواب اور مشکلات کا تدارک حکمرانوں اور سیاستدانوں کے پاس ہے؟ کیا عوام کے نام پر سیاست کرنے والوں کی یہ ذمہ داری نہیں بنتی کہ وہ عوام کے سوالوں کا جواب دیں اور ان کی مشکلات کے خاتمے کیلئے عملی اقدامات کریں، لیکن یہ تو جب ہی ممکن ہے جب حکمران اور سیاست دان اپنے قلعہ نما محلات سے باہر نکل کر دیہی علاقوں اور شہروں کی غریب بستیوں میں جاکرحالات معلوم کریں تو انہیں اندازہ ہوگا کہ عوام کی اکثریت کن مصائب اور مشکلات میں زندگی بسر کر رہی ہے۔

آج یہی وہ عوامل ہیں جس کی وجہ سے مہنگائی، بے روزگاری اور غربت کے مارے افراد خودکشیوں اور جرائم کی طرف مائل ہو رہے ہیں، لوگوں کے کاروبار اور وسائل ختم ہوتے جارہے ہیں اور مسائل بڑھتے جا رہے ہیں، جبکہ دوسری طرف حکمران صرف آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کی خوشنودی اور ان کی شرائط پوری کرنے کے چکر میں عوام کو زندہ درگور کرنے پر تلے ہوئے ہیں، سوال یہ ہے کہ یہ حالات کب تک رہیں گے اور عوام کب تک اچھے وقت کی آس میں بھوک، افلاس، بے روزگاری اور بدامنی برداشت کرتے رہیں گے، آخر کبھی تو انکے صبر کا پیمانہ بھی لبریز ہوگا، اس وقت جو حالات پیدا ہوں گے، کیا حکمرانوں اور سیاستدانوں کو اس کا کچھ ادراک ہے کہ نہیں؟ ان حالات میں غربت، بھوک اور بے روزگاری کے ہاتھوں ستائے ہوئے عوام کیلئے وہ دور کب آئے گا جب عوام کو حقیقی معنوں میں خوشیاں نصیب ہوں گی۔

آج 62 برس گزرنے کے بعد بھی قومی منظر نامہ یہ ہے کہ ہر آنے والی حکومت نے غریب عوام کے معیار زندگی میں تبدیلی لانے کیلئے عملی اقدامات کرنے کے بجائے، صرف بلند بانگ دعوؤوں، جھوٹے وعدوں اور کھوکھلے نعروں کی آڑ میں اُن سے معمولی ریلیف بھی چھیننے کے سوا، اور کچھ نہیں کیا، آج حالت یہ ہے کہ مہنگائی اور بے روزگاری کے زخموں سے چور، سسکتے، بلکتے اور چیختے چلاتے عوام کی آہ و بکا نقار خانے میں طوطی کی آواز ثابت ہو رہی ہے، جبکہ دوسری طرف ہمارے حکمران مسلسل وہ اقدامات کر رہے ہیں جس سے عوام کی مشکلات میں بے پناہ اضافہ ہی ہورہا ہے، کیا ہمارے حکمرانوں، سیاستدانوں اور پالیسی ساز اداروں کو ادراک نہیں کہ پاکستان کے عوام کس قدر مشکل حالات میں زندگی کی دوڑ سے ناطہ جوڑے ہوئے ہیں، بے روزگاری، مہنگائی اور امن و امان کی ناقص صورتحال نے غربت میں اس قدر اضافہ کر دیا ہے کہ کم آمدنی والا طبقہ مایوسیوں کی انتہاﺅں تک پہنچ چکا ہے اور اپنے بچوں کی بھوک مٹانے کیلئے ہزار ہا کوششوں کے باوجود بھی ناکام ہوتا نظر آرہا ہے۔

درحقیقت یہی وہ عوامل ہیں جس کی وجہ سے مایوس افراد کا دھیان جرائم اور خودکشیوں کی طرف جاتا ہے، دولت اور وسائل کی ناجائز تقسیم نے ہمارے ملک میں افراتفری، انتشار اور نفرتوں بھرے جس ماحول کو جنم دیا ہے اس سے نکلنے میں ہمارے حکمران، سیاستدان اور قومی پالیسی ساز ادارے بری طرح ناکام ہوچکے ہیں اور ان کی حالیہ کارکردگی سے یہ ثابت ہوتا نظر آرہا ہے کہ ارباب اقتدار غربت مٹانے کی بجائے ملک سے غریب مٹا رہے ہیں، اس لئے ضرورت اس امر کی ہے کہ عوام کی مشکلات کا ادراک کرتے ہوئے حکومت ایسے انقلابی اقدامات اور ٹھوس پالیسیاں اختیار کرے جس سے عوام کی مشکلات میں کمی واقع ہو اور عوام کیلئے روٹی، کپڑا اور مکان کا حصول آسان ہو۔
M.Ahmed Tarazi
About the Author: M.Ahmed Tarazi Read More Articles by M.Ahmed Tarazi: 316 Articles with 314154 views I m a artical Writer.its is my hoby.. View More