وزیر اعظم کی زیر صدارت قومی پالیمانی کانفرنس کے اہم فیصلے

بسم اﷲ الرحمن الرحیم

وزیر اعظم نواز شریف کی زیر صدارت وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں قومی پارلیمانی کانفرنس ہوئی ہے جس میں قومی پارلیمانی جماعتوں کے علاوہ پاک فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف اور ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل رضوان اخترنے شرکت کی۔پارلیمانی کانفرنس میں دہشت گردی کے مقدمات کی سماعت کیلئے فوجی افسروں کی سربراہی میں سپیشل ٹرائل کورٹس قائم کرنے پر اتفاق رائے ہو گیا ہے۔یہ ملکی تاریخی کی انتہائی اہم کانفرنس تھی جو گیارہ گھنٹے جاری رہی اور اس میں صرف نماز کا وقفہ کیا گیا۔ قومی کانفرنس میں کئی مرتبہ ایسے مراحل بھی آئے کہ محسوس ہوتا تھا شاید خصوصی عدالتوں کے مسئلہ پر اتفاق نہ ہو سکے لیکن سانحہ پشاور کی سنگینی کو مدنظر رکھتے ہوئے سیاسی و عسکری قیادت بخوبی سمجھتی تھی کہ ہمیں اتفاق رائے کئے بغیر یہاں سے نہیں اٹھنا۔ یوں بالآخر حکومت، سیاسی جماعتیں اور فوج خصوصی عدالتوں کے قیام کے مسئلہ پر متفق ہو گئے اور اس سلسلہ میں حائل قانونی رکاوٹوں کا جائزہ لینے کیلئے آئینی و قانونی ماہرین کی کمیٹی قائم کر دی گئی ہے۔ عسکری حلقوں کی جانب سے طویل عرصہ سے یہ شکایات کی جارہی تھیں کہ دہشت گرد کمزور قانونی نظام کی وجہ سے سخت سزاؤں سے بچ جاتے ہیں اور یہ چیزدہشت گردی کے خاتمہ کیلئے نقصان دہ ثابت ہو رہی ہے۔اب فوجی افسروں کی سربراہی میں ان خصوصی عدالتوں کے یقینی طور پر انتہائی دور رس اثرات مرتب ہوں گے اور دہشت گردوں کو جلد کیفر کردار تک پہنچانے میں مدد مل سکے گی۔ پارلیمانی کانفرنس میں کہا گیا ہے کہ کالعدم جماعتوں کو نئے نام سے کام کرنے کی اجازت نہیں ہوگی۔ بعض دانشوروں کی رائے ہے کہ یہاں یہ فرق ملحوظ خاطر رکھنا چاہیے کہ وہ جماعتیں جو پاکستان میں مسلح جتھے بنا کر اپنے ہی مسلمان بھائیوں کے خلاف برسرپیکار ہیں اور انہیں کالعدم قرار دیا گیا ہے‘ ان کے خلاف سخت کاروائی ہونی چاہیے ۔ کلمہ طیبہ کے نام پر حاصل کئے گئے ملک میں جہاداور شریعت کے نام پر خون خرابہ کو کسی طور درست قرار نہیں دیا جاسکتا اور نہ ہی اسلام اس کی اجازت دیتا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی بہت ضروری ہے کہ بھارت، امریکہ یا کسی اور ملک و ادارے کی جانب سے پاکستان کی کسی محب وطن جماعت کو کالعدم قرار دینے کا مطالبہ تسلیم نہیں کرناچاہیے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ بات بالکل درست ہے۔ملک میں قومی یکجہتی کی فضا برقرار رکھنے کیلئے ان چیزوں کا خیال رکھنا بہت ضروری ہے۔ قومی کانفرنس کے بعد رات گئے وزیر اعظم نواز شریف نے قوم سے خطاب کے دوران پارلیمانی پارٹیز کے رہنماؤں کے تجویز کردہ ایکشن پلان سے آگاہ کرتے ہوئے بتایاکہ دہشتگردوں کی فنڈنگ اور ان کے وسائل و گردنیں کاٹنے والے لٹریچر کو ختم کیا جائے گا۔اقلیتوں کا تحفظ ہو گا۔ دہشتگردوں کی تشہیر پر مکمل پابندی ہو گی۔آئی ڈی پیز کی فوری واپسی کیلئے کوششیں کی جائیں گی۔ دہشتگردوں کے معاشرتی نیٹ ورکس کا خاتمہ کیا جائے گا۔انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا پر دہشتگردی کی روک تھام کے فوری اقدامات کئے جائیں گے۔ کراچی آپریشن کو منطقی انجام تک پہنچایا جائے گا۔ صوبائی انٹیلی جنس اداروں کو دہشتگردوں کے مواصلاتی رابطے تک رسائی دینے اور انسداد دہشتگردی کے اداروں کو مزید مضبوط بنانے کیلئے فوجداری عدالتی نظام میں بنیادی اصلاحات کا عمل تیز کیا جائے گا۔قومی کانفرنس میں کئے جانے والے ان فیصلوں پر سب پارلیمانی جماعتوں نے اتفاق رائے کا اظہار کیا ہے۔یہ اقدامات یقینا دہشت گردی کے خاتمہ میں مفید ثابت ہو ں گے لیکن افغانستان جہاں سے دہشت گردوں کو ہر قسم کا تعاون اور مدد حاصل ہو رہی ہے وہاں بھی ان کے نیٹ ورک کا خاتمہ کرنا بہت ضروری ہے۔ پاک افغان سرحد ی علاقوں میں قائم بھارتی قونصل خانے دہشت گردوں کی آماجگاہ بنے ہوئے ہیں جہاں سے انہیں تربیت دیکر پاکستان میں تخریب کاری و دہشت گردی کیلئے داخل کیا جارہا ہے۔ امریکہ اورا س کی اتحادی فورسز جو افغانستان میں بھارتی فوج کو لاکر بٹھا رہی ہیں وہ مکمل طور پر ہندوستان کی پشت پناہی کر رہی ہیں۔ سانحہ پشاور کے بعدافغان فورسز کی دہشت گردوں کے خلاف صحیح معنوں میں کاروائی کیلئے بھی یہ ملک رکاوٹ بنے ہوئے ہیں اور افغان حکومت پر دباؤ بڑھایا جارہا ہے کہ وہ اس سلسلہ میں خاموش رہے‘ یہی وجہ ہے کہ افغان فورسز کی طرف سے اب تک کنٹر وغیرہ میں دہشت گردوں کے خلاف جاری آپریشن محض دکھاوا ثابت ہوا ہے۔ یہ حقائق بھی اب واضح طور پر منظر عام پر آچکی ہیں کہ کالعدم تحریک طالبان کا سربراہ ملافضل اﷲ افغانستان کے سرحدی شہر جلال آباد میں موجود ہے جبکہ افغان فوج اس کے خلاف صوبہ کنڑ میں آپریشن کر رہی ہے اور پاکستان کے ساتھ دھوکہ کیا جا رہا ہے۔اگرچہ یہ بات درست ہے کہ ملافضل اﷲ کے ٹھکانے ضرور کنڑ میں موجود رہے ہیں مگر کئی مہینوں سے وہ کنڑ کے ٹھکانے چھوڑ کر مختلف افغان شہروں میں مقیم رہا اور تازہ ترین دستیاب اطلاعات کے مطابق وہ جلال آباد میں مقیم ہے جہاں کنڑ کی نسبت اس کے خلاف آسانی سے کارروائی کی جا سکتی ہے کیونکہ کنڑ کے دور افتادہ کوہستانی علاقوں میں فوجی آپریشن افغان فوج کے لئے ممکن نہیں ہے۔ یہاں یہ امربھی قابل ذکر ہے کہ سانحہ پشاور کے فوراً بعد آرمی چیف جنرل راحیل شریف اور ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل رضوان اختر نے کابل کا دورہ کرکے اس سانحہ میں افغان سرزمین استعمال کئے جانے کے شواہد افغان صدر اور ایساف کمانڈر کے سپرد کئے تھے جس کے بعد افغان نیشنل آرمی نے پاکستان کے علاقہ چترال کے ساتھ متصل صوبہ کنڑ میں پاکستانی شدت پسندوں کے خلاف آپریشن شروع کیا جس کی ملکی و غیر ملی ذرائع ابلاغ نے نمایاں کوریج کی۔اس آپریشن کے حوالہ سے اگرچہ بعض حلقے سمجھتے تھے کہ افغان حکومت اور ایساف پاکستان کو مطلوب افراد کے خلاف کارروائی کریں گے لیکن کنڑ میں محض ایک فوجی آپریشن کے علاوہ ابھی تک کسی کارروائی کی اطلاع موصول نہیں ہوئی ہے۔اس لئے ہم سمجھتے ہیں کہ افغانستان میں موجود دہشت گردوں کے ٹھکانوں کے خاتمہ کیلئے بھی ہمیں افغان حکومت پر بھرپور انداز میں دباؤ بڑھانا ہو گااور قونصل خانوں کی آڑ میں وہاں موجود دہشت گردی کے بھارتی اڈوں کو ختم کروانا ہو گااس کے بغیر آئندہ بھی اس قسم کے سانحات سے بچنا ممکن دکھائی نہیں دیتا۔ آخر میں یہاں میں ایک اور بات کی وضاحت کرنا چاہتاہوں کہ معصوم بچوں کے قتل عام پرجہاں پاکستان میں تین دن کا سوگ منایا گیا وہیں سعودی عرب، ترکی اور دیگر مسلم ملکوں میں بھی غم کی کیفیت رہی۔ سعودی عرب میں رہائش پذیر پاکستانیوں کا کہنا ہے کہ وہاں کے عوام ہمارے ساتھ مل کر اس طرح تعزیت کا اظہار کرتے اور آنسو بہاتے رہے کہ جیسے ان کے اپنے بچے اس افسوسناک سانحہ میں شہید ہوئے ہوں۔ہر مشکل وقت میں سب سے پہلے سعودی عرب ہی وہ برادراسلامی ملک ہے جو ہمیشہ پاکستانیوں کی مدد کیلئے پہنچااور ساتھ نبھانے کا حق ادا کیا ہے مگر افسوسناک امر یہ ہے کہ پاک سعودی تعلقات میں دراڑیں ڈالنے کا خواہشمند طبقہ سوشل میڈیا پر بے پرکی خبریں اڑا رہا ہے کہ سعودی عرب کی جانب سے اس سانحہ کی مذمت نہیں کی گئی ۔ یہ انتہائی افسوسناک اور قابل مذمت حرکت ہے جس کا حکومتی ذمہ داران کو ضرور نوٹس لینا چاہیے اور ایسا بے بنیاد پروپیگنڈا کرکے پاکستان اور سعودی عرب کے مابین غلط فہمیاں پیدا کرنے کی مذموم کوششیں کرنے والوں کا ضرور محاسبہ کرنا چاہیے۔ الیکٹرونک و پرنٹ میڈیا اس بات کا گواہ ہے کہ سانحہ پشاور کے بعد جہاں سعودی عرب کے فرمانروا شاہ عبداﷲ بن عبدالعزیز آل سعودسعودی ولی عہد اورنائب وزیر اعظم و وزیر دفاع شہزادہ سلمان بن عبدالعزیز نے صدر پاکستان ممنون حسین کے نام اپنے علیحدہ علیحدہ تعزیتی پیغام میں اس انتہائی دردناک سانحہ پر گہرے افسوس اور رنج و غم کا اظہار کیا‘معصوم شہداء کے درجات کی بلندی کیلئے دعائیں کی اور ان کے والدین سے اظہار یکجہتی کیا گیا وہیں امام کعبہ امام کعبہ شیخ صالح بن محمد طالب اور امام شیخ احمد الحذیفی نے آرمی پبلک سکول پشاورمیں دہشتگردوں کے ہاتھوں بچوں کے بہیمانہ قتل کی شدید مذمت کرتے ہوئے اسلامی شریعت کی روشنی میں اسے حرام عمل قرار دیااور کہاکہ اسلام کسی کا ناحق خون بہانے کی اجازت نہیں دیتا ۔ اسلام میں بچوں کا قتل حرام ہے اور اﷲ تعالیٰ بچوں کے قاتلوں کو کبھی معاف نہیں کرتا۔اسی طرح پاکستان میں بھی سعودی عرب کے قائم مقام سفیر جاسم محمد الخالدی نے ذاتی طور پر وزارت خارجہ جاکر اس افسوسناک سانحہ پر سعودی حکومت اور سعودی عوام کی طرف سے گہرے دکھ اور رنج و غم کا اظہار کیا اور دہشت گردی کے اس افسوسناک سانحہ کی سخت مذمت کی۔ ہم سمجھتے ہیں کہ جس طرح سعودی عرب میں سانحہ پشاور کا دکھ اور غم محسوس کیا گیاپاکستان کے علاوہ شاید ہی کسی اور ملک میں محسوس کیا گیا ہو۔ہم اﷲ تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں کہ پاکستان اور سعودی عرب کے عوام کے مابین محبتوں کے ان رشتوں کو قائم و دائم اور دونوں ملکوں کے مابین تعلقات میں دراڑیں ڈالنے کی کوششیں کرنے والے حاسدوں کے شر سے محفوظ رکھے‘ آمین۔
Habib Ullah Salfi
About the Author: Habib Ullah Salfi Read More Articles by Habib Ullah Salfi: 194 Articles with 141309 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.