بھولنے کی بجائے سبق حاصل کریں
(Abdul Majid Malik, Lahore)
ہم بھلکڑ قوم ہیں ہر بات ،ہر سانحہ،ہر زخم
اور ہر کامیابی کو بھی جلد بھول جاتے ہیں ،بھول جانا بھی کئی طرح کا ہوتا
ہے انسان کو کوئی حادثہ درپیش آئے اور وہ اس سے سیکھے پھر حادثے کو بھلا کر
نئی راہوں پر نکلتے ہوئے ایسے اقدامات کرے تاکہ پھر ویسا کوئی حادثہ نہ ہو
لیکن ہم ایسا نہیں کرتے ،ہر گزرتے دن کے ساتھ ہمارے زخم جیسے ہی مندمل ہوتے
ہیں تو ہم اس سانحے کو بھول جاتے ہیں ،اور اس سانحے سے کوئی سبق حاصل کرنے
کی بجائے زندگی کے کاموں میں مشغول ہو جاتے ہیں ، پھر سے آنکھیں موند لیتے
ہیں اچانک پھر ایک حادثہ رونما ہوتا ہے تو چند لمحوں کے لئے آنکھیں کھولتے
ہیں ،آنسو بہاتے ہیں ،فیس بک پر واویلا مچاتے ہوئے اپنی ڈسپلے فوٹو کو سیاہ
کر دیتے ہیں،اس حادثے پر ادیب ،شاعر،صحافی اپنا قلم چلاتے ہوئے نظمیں ،غزلیں
،نثریے اور کالم لکھ دیتے ہیں،سول سوسائٹیز شمعیں روشن کرتی ہیں،شاید کہیں
کہیں دعائیہ تقاریب کا اہتمام بھی ہوجاتا ہے اور حکومتی سطح پر کمیٹیاں
تشکیل دی جاتی ہیں لیکن وہ چند دن اور پھر ہم بھول جاتے ہیں ۔
اگر ہم نہ بھولتے،اپنی تاریخ کو یاد رکھتے ،اپنا تابناک ماضی اپنے پاس
محفوظ رکھتے ،اسلاف کی تعلیمات پر عمل پیرا ہوتے ،اور اپنے پیروکاروں کے
نقش قدم پر چلتے تو ہم کامیاب ہو جاتے ،لیکن افسوس کہ ہم بھول گئے اور
اغیار کی باتوں میں آگئے ،پھر انہوں نے سازشیں چلیں میرے خوبصورت گلشن کو
جلانے کی،میرے حسین وطن کو تباہ کرنے کی اور پیارے پاکستان کو تباہ کرنے کی
،لیکن ہم نہیں جان پائے ہم لاشے اٹھاتے رہے ،ہماری املاک جلتی رہیں ،ظالم
ہمارے ساتھ مل کر ظلم کے خلاف جھوٹی آوازیں لگاتا رہا ،ہم اسے نہیں پہنچان
پائے ،اس طرح ہم آج بھی بھٹک رہے ہیں ظلمت کے اندھیروں میں گم ہوتے چلے جا
رہے ہیں ،ذلت و رسوائی کا طوق گلے میں ڈالنے کے لئے اغیار کی ڈکٹیشن پر چل
رہے ہیں ،ہمیں اب واپس جانا چاہئے اور لوٹ جانا چاہئے ویسے بھی صبح کا
بھولا ہوا،شام کو گھر آ جائے تو اسے بھولا نہیں کہتے ۔
اسی طرح جو سانحہ گزشتہ دنوں رونما ہوا ،سولہ دسمبر پاکستان کی تاریخ کا
سیاہ دن تھا لیکن پشاور حادثے نے اسے سیاہ ترین دن بنادیا جب معصوم کلیاں
دہشت گردی کی بھینٹ چڑھ گئیں وحشی درندوں نے معصوموں کے خون سے ہولی کھیلی
،اور ان کلیوں کو مسل دیا گیا جو ابھی کھلی ہی نہیں تھیں ،دنیا کا کوئی
مذہب بھی ایسے ظلم عظیم کی اجازت تو درکنار واضح مذمت کرتا ہے اور ایسے
دہشت گردوں کا کسی مذہب کے ساتھ کوئی تعلق نہیں بلکہ انسانیت کے ساتھ بھی
کوئی رشتہ نہیں ہے یہ انسان نہیں جانور ہیں بلکہ جانوروں سے بھی بدتر ہیں
لیکن اس المناک سانحے کے بعد تمام سیاسی و عسکری قیادت ایک پیج پر اکٹھی
نظر آئیں اور قوم بھی بیدار ہو کر ان کے شانہ بشانہ کھڑی نظر آئی ،چاہئے تو
یہ ہے کہ اس قوت کو اب بروئے کار لا کر ایسے شر پسند عناصر کو کچل دیا جائے
لیکن افسوس ابھی تو زخم ہرے ہیں ،ابھی تو ان سے خون بھی رس رہا ہے ،ابھی تو
ان معصوم کلیوں کی چہکار فضا میں سنی جا سکتی ہے ،ابھی تو ان کے درد ناک
کراہیں ہمارے دل و دماغ پر دستک دیتے ہوئے ہم سے پوچھ رہی ہیں کہ
اے والیء شہر !اتنا تو بتا
آخرش ہماراقصور تھا کیا
لیکن ہم ان معصوم کلیوں کے بہنے والے خون کو بھی بھول جائیں گے کیونکہ ہم
حادثے سے سیکھنے کی بجائے نئے سانحے کے منتظر رہتے ہیں اور تب چند لمحے کے
لئے ہماری آنکھیں وا ہوتی ہیں جب کوئی نئی واردات ہوتی ہے،اور بے حسی کی
انتہا تو ملاحظہ کیجئے کہ اگر کوئی دھماکہ میرے پاکستان کے کسی اور صوبے
میں ہوتا ہے تو ہونٹ سیتے ہوئے کہتے ہیں کہ شکر ہے پنجاب تو محفوظ ہے اور
جب پنجاب میں ہوتا ہے توخاموش رہتے ہیں اور سنائی دیتا ہے کہ اﷲ کا کرم ہے
کہ میرا شہر تو سلامت ہے جب ان کے شہر میں ہوتا ہے تو یہ کوئی صدا بلند
نہیں کرتے بلکہ آرام سے کہتے ہیں کہ اﷲ کی کرم نوازی ہے کہ میرا علاقہ
محفوظ ہے ،ہم یہ بھول چکے ہیں کہ ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے
لیکن یہاں بحثیت پاکستانی قوم ہمیں ان لوگوں کے زخموں کا بھی احساس کرنا
چاہئے جو بلوچستان میں بستے ہیں جو سندھ میں رہتے ہیں ،جو خیبر پختونخواہ
کے باسی ہیں ،جو پنجاب کے رہائشی ہیں اور جوکشمیر اور گلگت و بلتستان کے
مکین ہیں اگر یہ احساس اجاگر ہو گیا تو میرے اس خوبصورت چمن میں سدا بہار آ
جائے گی اور خزاں کا موسم رفو ہو جائے گا۔
خدا کرے مرے ارض پاک پر اترے
وہ فصل گل جسے اندیشہ ء زوال نہ ہو
یہاں جو پھول کھلے ،کھلا رہے صدیوں
یہاں خزاں کے گزرنے کی بھی مجال نہ ہو |
|