یورپی یونین کو پھر پھانس چبھ گئی
(Jawaid Ahmed Khan, Karachi)
25دسمبر کے اخبارات میں
تین اہم خبریں شائع ہوئی ہیں پہلی خبر یورپی یونین کے حوالے سے ہے ۔نیوز
ایجنسی آن لائن کی خبر ہے کہ "یورپی یونین نے پاکستان میں پھانسیوں کی سزا
پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے موقف پیش کیا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ
میں سزائے موت کا ہتھیار موثر نہیں ۔بیان میں کہا گیا ہے کہ پشاور سانحے پر
بہت دکھ ہے اور یورپی یونین پاکستان کے ساتھ غم کی گھڑی میں برابر کی شریک
ہے ،لیکن دہشت گردی کے خلاف جنگ میں سزائے موت موثر ہتھیار نہیں ۔پاکستان
میں یورپی یونین کے سفیر لارس گنارو گیمارک نے کہا ہے کہ حکومت پاکستان کی
جانب سے سزائے موت پر پابندی اٹھانے کے فیصلے سے مایوسی ہوئی ہے ۔انھوں نے
پابندی کو جلد از جلد دوبارہ عائد کرنے کی امید کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے
کہ یورپی یونین کسی بھی طرح کی صورتحال میں سزائے موت کے خلاف ہے ۔تاہم لاس
گنار نے یقین دلایا کہ یورپی یونین دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے حکومت
پاکستان اور پاکستانی عوام کے عزم اور کوششوں کو سراہتی ہے۔"دوسری خبر
امریکا سے آئی ہے کہ امریکی محکمہ خارجہ کی ترجمان میری ہارف نے میڈیا
بریفنگ کے دوران کہاکہ دنیا کے کسی بھی دوسرے ملک کے مقابلے میں دہشت گردی
کا شکار ہونے والے پاکستانیوں کی تعدادبہت زیادہ ہے ۔جس سے واضح ہوتا ہے کہ
شدت پسندی ایک مشترکہ خطرہ ہے اور امریکا اس سلسلے میں پاکستانی حکومت کے
ساتھ تمام سطح پر قریبی رابطے میں ہے ۔دہشت گردی میں ملوث افراد کی سزائے
موت پر عملدرآمد پاکستان کا اندرونی معاملہ ہے ۔تیسری خبر یہ ہے کہ وطن
پارٹی کے بیرسٹر ظفراﷲ کی جانب سے سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں ایک درخواست
دائر کی گئی ہے ،جس میں کہا گیا ہے کہ پاکستان اقوام متحدہ کے سزائے موت کے
کے خاتمے کے حوالے سے کنونشن پر دستخط کر چکا ہے ،جبکہ پاکستان نے یورپی
یونین کی جانب سے سزائے موت پر پابندی کی شرط بھی قبول کر رکھی ہے ۔درخواست
میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کی جانب سے اقوام متحدہ کے کنونشن پر دستخط کرنے
کے بعد سزائے موت کا اطلاق سزائے موت کے منتظر عام قیدیوں پر نہیں ہوتا
۔درخواست میں کہا گیا ہے کہ فوجی عدالتوں سے سزائے موت پانے والے اور دہشت
گردی میں سزائے موت کے 600کے قریب قیدیوں کو کو پھانسیاں دینے کے حوالے سے
وزیر اعظم پہلے ہی حکم صادر کر چکے ہیں لہذا صرف 600ہی دہشتگروں کو سزائے
موت دی جائے جبکہ دیگر جرائم میں سزائے موت پانے والے عام مجرموں کو سزائے
موت سے مستثنیٰ قرار دیا جائے۔
یہ یورپی یونین کیا شےء ہے جو پاکستان کو اپنا فلسفہ ڈکٹیٹ کرانا چاہتی ہے
،وہ پہلے امریکا کی ان ریاستوں میں تو سزائے موت کا قانون ختم کرائے جہاں
پاکستان سے ایمل کانسی کو لے جا کر سزائے موت دی گئی تھی ۔اب تو ساری باتیں
کھل کر سامنے آرہی ہیں کہ امریکا نے کس طرح اذیت دینے کے نئے نئے طریقے
دنیا بھر کی اپنی جیلوں میں نہ صرف متعارف کرائے بلکہ اس گھناؤنے انداز
تفتیش کو اختیار بھی کیا اس میں ابوغریب جیل ہو گوانتا موبے کی جیل ہو سب
جگہ امریکا نے مسلمان قیدیوں کے ساتھ انتہائی بہیمانہ سلوک کیا اس وقت
یورپی یونین کو ہوش نہیں آیا جو مسلمان بلاوجہ موت کے گھاٹ اتارے جارہے ہیں
ان کے بارے میں کچھ آواز بلند کریں۔انسانی حقوق کی ساری تنظیمیں بھی بے حسی
کی چادر تانے سوجاتی ہیں ۔پاکستان میں جب بھی سزائے موت پر عملدرآمد کا
سلسلہ شروع ہوتا ہے یورپی یونین کے پیٹ میں مروڑ شروع ہو جاتا ہے ۔ ایک طرف
تو یورپی یونین پاکستانی عوام کے عزم کو سراہ بھی رہی ہے اور دوسری طرف
عوامی جذبات کے خلاف بات بھی کررہی ہے اس وقت پورے ملک کے عوام اس بات پر
نہ صرف متحد و متفق ہیں بلکہ حکومت پاکستان کے اس فیصلے سے خوش بھی ہیں
۔دنیا کے بیشتر ملکوں میں سزائے موت دی جاتی ہے سعودی عرب سے تو آئے دن یہ
خبریں آتی رہتی ہیں آج اتنے لوگوں کے سر قلم کردیے گئے جس میں ایک پاکستانی
بھی تھا ایک اور خبر کے مطابق پچھلے دو ماہ میں سعودی عرب میں بارہ
پاکستانیوں کے سر قلم کیے جاچکے ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ سعودی عرب میں جرائم کی
شرح امریکا سے بھی کم ہے ۔یہ کہنا کے سزائے موت دہشت گردی کے خلاف موثر
ہتھیار نہیں ہے احمقانہ انداز فکر ہے ،سزائے موت تو دہشت گردی کیا ہر قسم
کے جرائم کے خلاف موثر ہتھیار ہے ۔یہ جو بات کہی گئی ہے کہ قصاص میں زندگی
ہے کیوں یہ کہا گیا کہ وہ معاشرے اپنی موت آپ مر جاتے ہیں جہاں مجرموں کو
اپنے کیے ہوئے جرم کی سزا کاخوف نہ ہو ۔ایک قاتل کو موت کی سزا دے کر ہم
پورے معاشرے کو بچالیتے ہیں آج ہمارے ملک اور بالخصوص کراچی میں جو روز آنہ
ٹارگٹ کلنگ ہو رہی ہے اس کی اہم وجہ یہی ہے قاتلوں کو سزا کا کوئی خوف نہیں
یہاں تو سو سے زائد قتل کیے ہوئے مجرموں کو بھی اطمنان ہے کہ وہ نہ صرف سزا
سے بچ جائیں گے بلکہ اور مناسب سیاسی ماحول فراہم ہو گیا تو ملک سے باہر
بھی جا سکتے ہیں ۔
28دسمبر کے اخبارات میں یہ خبر ہے کہ اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل بانکی
مون نے نواز شریف صاحب کو فون کر کے سزائے موت پر پابندی برقرار رکھنے کی
بات کی لیکن وزیر اعظم نواز شریف نے ان سے معذرت کرلی اور کہا کہ یہ ہماری
مجبوری ہے اور موت کی سزاؤں کو ختم نہیں کر سکتے ۔اس تناظر میں آپ تین روز
قبل امریکی محکمہ خارجہ کی ترجمان میری ہارف کا وہ بیان دیکھیں جو اوپر درج
کیا گیا ہے اس میں انھوں نے کہا کہ سزائے موت پر عملدرآمد پاکستان کا
اندرونی معاملہ ہے ۔اقوام متحدہ جو امریکا کی باندی کہلائی جاتی ہے اس سے
آج سزائے موت کے خلاف بات کرائی گئی یہ امریکا کی خود ایک منافقانہ چال ہے
۔یہ امریکا نظام عدل ہے کہ ایک خاتون ڈاکٹر عافیہ کو ایک جھوٹے کیس میں اسی
سال کی سزا دے دی اور پاکستان میں ہزاروں افراد کے قاتلوں اور دہشت گردوں
کو سزائیں دینے پر اپنے حواریوں سے احتجاج کراتا ہے ۔
وطن پارٹی کے بیرسٹر ظفراﷲ صاحب سے ہم یہ کہنا چاہیں گے کہ انھوں نے کورٹ
میں یہ جو درخواست دائر کی ہے کہ جن لوگوں کو دہشت گردی کے جرم میں موت کی
سزا دی گئی ہے صرف ان ہی لوگوں کو کی سزاؤں پر عملدرآمد کیا اور باقی جنھیں
عام ملکی عدالتوں سزائے موت ہوئی ہے انھیں مستثنی ٰقرار دیا جائے ۔یہ بڑی
عجیب بات ہے کہ فوجی عدالتوں سے دی ہوئی سزاؤں کو انصاف کی دنیا میں ویسے
ہی مشکوک سمجھا جاتا ہے کہ اس میں ملزموں کو ٹھیک سے صفائی کا موقعہ نہیں
دیا جاتا بسا اوقات انھیں وکیل تک کرنے کی اجازت نہیں ہوتی ایسی سزاؤں پر
تو بیرسٹر صاحب کو کوئی اعتراض نہیں لیکن جو قتل کے کیسز عام عدالتوں برسوں
چلائے گئے جس میں قانون کے تمام تقاضوں کو پورا کیاگیا ان کی معافی کی بات
کی گئی ہے ۔ہمارے ملک میں قتل کے سو کیسز میں مشکل ہی سے پانچ دس مجرموں کو
سزائیں ہو پاتی ہیں زیادہ تر ملزمان تھانوں ہی سے بھاری رشوتوں کے ذریعے
ایسے کمزور چالان بنواتے ہیں کہ ہائی کورٹ کی پہلی ہی پیشی میں اکثر ان کی
ضمانتیں ہو جاتی ہیں پھر چونکہ ہمارے یہاں گواہوں کے تحفظ کا کوئی انتظام
نہیں ہے اکثر کیسز میں گواہان یا تو اپنی پہلی گواہی سے منحرف ہو جاتے ہیں
یا وہ تاریخوں پر پیش ہی نہیں ہوتے اور ملزمان چھوٹ جاتے ہیں ۔لیاقت آباد
میں جیو گروپ کے ولی بابر کا جو قتل ہوا تھا اس کے پانچ گواہان کو یکے بعد
دیگرے قتل کردیا گیا جب کہ اس کیس کی پشت پر ایک مضبوط میڈیا گروپ تھا ۔اس
لیے ان تمام چھننیوں سے گزر کر جو مجرم پھانسی کے پھندے تک پہنچتے ہیں
۔انھیں اس مرحلے پر آکر معاف کردینا مقتول کے لواحقین ہی کے ساتھ نہیں بلکہ
پورے معاشرے کے ساتھ زیادتی ہے ۔اس لیے ہمارا کہنا تو یہ ہے کہ چاہے آپ
سمری ٹرائل کورٹ کے سزا پانے والوں کے کیسز کو ریویو کر لیں اور انھیں عام
عدالتوں سے سزا دلوانے کی کوشش کریں لیکن جن لوگوں کو ملک کی عام سول
عدالتوں سے سزائیں ہوئی ہیں انھیں ہرگز معاف نہ کیا جائے۔ |
|