بے نظیر بھٹو جمہوریت کا نام
(Abdul Rauf Chohan, Lahore)
وطن عزیز میں ڈیرے ڈالنے والی
دہشت گردی نے پاکستان کا سکون تباہ وبرباد کر رکھا ہے۔اس دہشت گردی کا جہاں
جوا ں سالہ مرد نشانہ بنے ،وہیں عورتیں،بوڑھے،اور بچے بھی محفوظ نہ رہ
سکے۔ہر عمرسے تعلق رکھنے والے مرد و خواتین کا خون دہشت گردوں کی بزدلانہ
کاروائیوں میں بہا۔اس دہشت گردی کی مثال کچھ روز قبل پیش آنے وا لا سانحہ
پشاور بھی ہے ۔جس میں 134بچوں سمیت 143لوگوں نے جامِـ شہادت نوش کیا۔
جب دہشت گردی کی بات کریں اور دن بھی 27دسمبر کاہو۔تو کیسے بھولا جاسکتا ہے
کہ اسی روز 27دسمبر 2007کو اس ملک کی بے مثال بیٹی ،دنیا اسلام کی پہلی
وزیراعظم ،دختر ذواالفقار علی بھٹو ،بھی دہشت گردی کا نشانہ بنتے ہی دنیا
فانی کو الوداع کہہ گئی تھیں۔قارئین ! آج کا کالم بے نظیر بھٹو کے نام کرتے
ہیں۔بی بی کی قابلیت ،دلیری ،اور حوصلے کی بات کریں توانکی تاریخ مثالی
ہے۔اور بی بی کی قابلیت کی مثالیں تو دنیا سیاست کے ہر پلیٹ فارم پر دی
جاتی ہے۔بھٹو کی پھانسی کے بعد ڈکٹیٹر کے برسراقتدار ہونے کے باوجود ،بغیر
کسی خوف کے ،جس طرح ایک جواں سالہ عورت نے پاکستان پیپلز پارٹی کی بھاگ دوڑ
سنبھالی ۔بی بی کی دلیری اور قابلیت کے لیے اس سے بڑھ کر کوئی مثال نہیں
ہوگی۔جس دور میں بھٹو کا نام لینے والوں کو سرعام سزائیں دی جاتی تھیں،اس
دور میں بھی بی بی شہید مختلف انداز میں پارٹی جیالوں کے حوصلے بلند کرتی
رہتیں۔بھٹوکی پھانسی کے بعد ،بھٹو کے جیالو ں کو بی بی کی صورت میں بھٹو
دکھائی دینے لگا۔اور بی بی نے بھی ہمیشہ اپنے والد گرامی کی طرح پارٹی
کارکنوں سے روابط قائم رکھے۔تاریخ دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ بی بی کے
نزدیک کارکن چاہے کسی بھی لیول کا ہوتا ۔ بی بی کاملنے اور عزت دینے کا
انداز ایک ہی ہوتا۔بلکہ بتانے والے بتاتے ہیں کہ بی بی اکثر ضرورت مند
کارکنوں کی مالی مدد بھی کردیا کرتی تھیں۔اور اکثر و بیشتر اپنے کارکنوں کے
پاس بغیر پیشگی اطلاع پہنچ کر حیران کر دیا کرتی تھیں۔
1988میں جنرل ضیاء الحق کی حادثہ میں وفات کے بعد PPPکو ایک بار پھر بھرپور
انداز میں سامنے آنے کا موقع ملا۔1988میں الیکشن کے اعلانات کے ساتھ ہی بی
بی نے بھرپور انداز میں الیکشن مہم چلائی۔ اور2دسمبر 1988کو بے نظیر بھٹو
دنیا اسلام کی پہلی خاتون وزیراعظم منتخب ہوئیں۔ 1993میں بی بی کو دوسری
بارملک کی وزیراعظم بننے کا موقع ملا۔ اپنے دور اقتدار میں بہت سے سیاسی
نشیب و فراز کے باوجود بی بی نے خوب سیاست کی ،اور پاکستان کے لیے کام کیا۔
بے نظیر کے اعلیٰ ظرف کے لیے تو یہی مثال کافی ہوگی کہ جب جسٹس (ر) نسیم
حسن شاہ نے اپنی ریٹارمنٹ کے بعد ایک مقام پر کہا کہ بھٹو کی پھانسی کا
فیصلہ صیح نہیں تھا۔ اور بھٹو کوپھانسی دینے کے لیے ہمارے اوپر دباؤ
تھا۔جسٹس (ر) نسیم حسن شاہ کے بیان کے بعد ، بینظیر بھٹو کے برسر اقتدار
آنے کے باوجود ، PPPکے پارٹی رہنماوٗں اور جیالوں کے بارہا اسرار کے باوجود
بی بی شہید نے نسیم حسن شاہ کے خلاف کسی بھی قسم کی کاروائی کرنے سے گریز
کیا۔بلکہ جیالوں اور پارٹی عہدیدارورں کی تربیت کرتی رہیں کہ جمہوریت میں
انتقامی کاروائی نہیں کی جاتی۔
یقینا بینظیر ایک عورت نہیں بلکہ جمہوری قوت ، فلاح بہبود ، اور دشمنوں کو
معاف کرنے کا نام تھا۔1997 کے الیکشن میں پیپلز پارٹی کی ناکامی کے بعد بی
بی شہید کی پارٹی اپوزیشن جماعت کی حیثیت سے سامنے آئی۔لیکن بعدازکچھ مسائل
کے باعث بی بی ملک سے باہر چلی گئیں ۔اور خود ساختہ جلا وطنی کاٹنے
لگیں۔1999میں ایک بار پھر ملکی اقتدار پر اس وقت کے آرمی چیف آف سٹاف جنرل
پرویز مشرف قابض ہوگئے۔پاکستان میں جمہوری حکومت کا خاتمہ کردیا گیا۔لیکن
ملک سے باہر ہونے کے باوجود بی بی کو ہر وقت وطن عزیر کی فکر رہتی ۔بی بی
اقتدار میں نہ ہونے کے باوجود PPPکے رہنماؤں کو دوبئی میں بلوا کر ملکی
صورتحال پر تبادلہ خیال کرتی رہتی تھیں۔بی بی کی کوشش تھی کہ ملک میں
جمہوری نظام قائم ہو اور کچھ ایسا راستہ نکالا جائے جس سے جمہوری نظام کی
راہ ایک بار پھر ہموار ہو سکے۔ جمہوری نظام کی بحالی کے لیے بے نظیر اپنے
سب سے بٹر ے سیاسی حریف میاں برادران کوبھی جدہ جا کر ملیں ۔جن کو پرویز
مشرف نے ملک بدر کردیا تھا۔1999سے مسلسل جمہوریت کی بحالی کے لیے کی جانے
والی کوششوں کے بعد بی بی کو اس وقت کامیابی ملی جب مشرف نے بی بی پر قائم
تمام سیاسی مقدمات عام معافی دیتے ہوئے ختم کردیے۔18اکتوبر 2007کو بی بی
پاکستان پہنچیں۔اور وطن کی مٹی پر قدم رکھتے ہی محترمہ نے جمہوری نظام کی
بحالی کے لیے حکمران وقت سے پاکستان کے سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کی
بھی وطن واپسی مطالبہ کردیا۔اسطرح میاں بردران کا پاکستان آنا آسان ہوا۔ملک
بھر سے بی بی کے استقبال کے لیے لوگ کراچی پہنچے ۔بی بی کے استقبال کے لیے
آئے لوگوں میں دہشت گرد بھی گھس آئے ۔اور انہوں نے کراچی میں استقبال کی
غرض سے موجود ہجوم میں دھماکہ کردیا۔جس میں 136لوگ مارے گئے۔اور سینکڑوں
زخمی ہوئے۔لیکن بی بی ہمت اور حوصلے کا مظاہرہ کرتے ہوئے آگے بڑھتی گئیں۔ان
دنوں 2008کے الیکشن بھی قریب تھے۔ تمام سیاسی پارٹیوں کی جانب سے بھرپور
الیکشن مہم چلائی جارہی تھی۔کہ پرویز مشرف نے ملک میں ایمرجنسی لگاتے ہوئے
عدلیہ کے معزز ججزصاحبان کو گھروں کو بھیج دیا۔جس کے بعد بی بی شہید نے
جمہوریت کے ساتھ ساتھ آزاد عدلیہ کی بہالی کا بھی نعرہ لگا دیا۔اور پرویز
مشرف کو ڈکٹیٹر کے نام سے بلانے لگیں۔اور سیاسی جلسوں میں بھٹوکے نعرے بلند
کرنے لگیں۔
لیکن پاکستان دشمن قوتوں سے بی بی کا دلیرانہ انداز اور پاکستان کے لیے کچھ
کرنیکی سوچ برداشت نہ ہوسکی۔اور دشمن قوتیں بی بی کے پیچھے پڑ گئیں۔بی بی
کو خود بھی معلوم تھا کہ انکی جان کو خطرہ ہے لیکن بی بی کہتی تھیں کہ مجھے
یقین ہے کہ جو رات قبر میں ہے وہ باہر نہیں ۔اور اسی ایمان کے ساتھ محترمہ
آگے بڑھتی گئیں۔اور الیکشن مہم تیز سے تیز کرنے لگیں۔وطن واپسی کے بعد بی
بی کی ہر تقریر میں ملک کے لیے کچھ کرنے کا جذبہ دکھائی دیتا تھا۔27دسمبر
2007کا دن تھا ۔بی بی نے لیاقت باغ راولپنڈی میں پاکستان پیپلز پارٹی کے
جلسے میں خوب جذبے کے ساتھ تقریر کی۔لیکن جلسے کے اختتام کے بعد بی بی
لیاقت باغ ہی میں دہشت گردوں کی کاروائی کا نشانہ بن گئیں۔اور ہمیشہ ہمیشہ
کے لیے اس دنیا فانی سے علیحدگی اختیار کرگئیں۔
محترمہ کی کاوشوں سے ملک میں ایک بار پھر جمہوری نظام بحال ہوا۔جو اب تک
مسلسل سات برس سے کامیابی کے ساتھ جاری و ساری ہے۔لیکن محترمہ کی شہادت کے
بعد پاکستان پیپلز بارٹی میں نہ پارٹی جیالے رہے اور نہ ہی پارٹی قیادت
۔محترمہ کے دور کے بہت سے لوگ محترمہ کی وفات کے بعد PPPکے برسراقتدار آنے
کے باوجود پارٹی سے علیحدہ ہو کر خاموشی اختیارکرگئے۔یقینا بی بی کے خون کے
نام پر بننے والی پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت ملک کے لیے کوئی ایسا خاص
کام نہ کرسکی،جس پر PPPکے جیالوں کو فخر ہوتا۔ پاکستان پیپلز پارٹی کی
گزشتہ حکومت کی کارکردگی کا کمال تو یہ تھا کہ بی بی شہید کے کیس کی تفتیش
،اقوام متحدہ کی ٹیموں سے کروانے کے باوجود PPPٰؓ بی بی کے قاتلوں کو
گرفتار نہ کرسکی۔جس پر پاکستان پیپلز پارٹی کے تمام جیالے موجودہ پارٹی
قیادت سے نالاں ہیں۔
لیکن آج جب موجودہ حکومت دہشت گردوں کا قَلع قمع کرنے کے لیے تیار ہے ۔
تمام سیاسی و عسکری قیادت کے لوگ ایک میز پر موجود ہیں تو حکومت اس موقع پر
بی بی کے قاتلوں کو بھی ہرگز نہ بھولے۔ دہشت گردی کے خاتمے اور بی بی کے
قاتلوں کو انجام تک پہنچانے کا جو کام بی بی کی پارٹی نہیں کرسکی وہ کام
مسلم لیگ(ن) کی حکومت کرکے پاکستانی عوام اور بھٹو کے جیالوں کو شکریہ کا
موقع دیں۔ |
|