بھٹو خاندان کا جرم کیا تھا؟

ایک منتشر ریاست کے شیرازے کو مزیدبکھرنے سے بچانے کیلئے چالیس سال میں ہر عشرے میں اپنے خون سے آبیاری کرنے والے بھٹو خاندان کا آخری چراغ27دسمبر2007کوٖ گل ہوگیا۔ 1979ء میں ذوالفقار علی بھٹو کو بے جرم و خطا سولی کے پھندے پر چڑھا دیاگیا۔ 1985ء میں شاہنواز بھٹو کو فرانس میں زہر دیاگیا۔ 1996ء میں میر مرتضیٰ بھٹو کو پولیس مقابلہ میں قتل کردیاگیا اور آخر کار 27 دسمبر کو بے نظیر بھٹو کو خود کش حملے میں شہید کرکے ہم نے گڑھی خدا بخش سے ملک و قوم کی خدمت کا درد لے کر اٹھنے والے تمام افراد کو ان کی وفاؤں اور خدمات کا خوب صلہ دے دیاہے۔ ان کا جرم صرف قوم کی خدمت اور وطن کی خوشحالی کا عزم تھا۔ نوڈیرو کے گورکن سوال کرتے ہیں کہ ہم نے تو پھول بھیجے تھے تم نے بدلے میں میتیں بھیجیں۔ آخر کیوں؟ خاندان بھٹو کا جرم تو بتائیں۔ بلاول ، بختاور اور آصفہ کی جنت ان سے کس جرم کی پاداش میں چھین لی گئی؟ قربانیاں کیا صرف اس خاندان کیلئے لازم تھیں۔ کیل ، کوڑے ،الزام، جلاوطنی ، پھندا، نظر بندی، زہر، بر طرفی اور گولی یہ وہ تحفے ہیں جو ہم نے انہیں بعوض خدمت وطن دیے۔

21جون 1953ء میں بھٹو خاندان میں جنم لینے والی پنکی کو رب کائنات نے ذہانت ، فہم و فراست ، تدبر ، بصیرت اور حسن سے اس طرح مالا مال کیاکہ ان کا شمار دنیا کی پچاس خوبصورت خواتین کے علاوہ ہلیری کلنٹن کے بعد شہرت میں دنیا میں دوسرے نمبر پر ہیں۔ عالمی ذرائع ابلاغ کا محور یہ شیریں انگیز خاتون قانون ، سیاست ، فلسفہ اور معاشیات کے مضامین پر مکمل دسترس رکھتی تھیں۔ ان کا سیاسی سفر باپ کے تختہ دار پر چڑھنے سے شروع ہوا۔ آکسفورڈ اور ہارورڈ یونیورسٹیوں کی آزاد فضا میں پلنے والی اس پنچھی کو اس وقت قید کر لیاگیا جب اس میں اڑان کی سکت نہ تھی ۔ 1979ء کا سال اسے باپ کے سائے سے محروم کرکے چلا گیا۔ زندگی کی پہلی جلاوطنی وطن سے بے حد محبت کے صلہ میں ملی ۔ اس جلاوطنی نے اس معصوم اور ننھے دماغ پر فوج اور جرنیل کا خوف طاری کردیا۔ اس خوف کو پس پشت ڈالتے ہوئے یہ نڈر اور بے باک خاتون اسی جرنیل کے دور حکومت میں وطن واپس آئی تو دنیا نے دیکھا کہ لاہور ائیر پورٹ پر فقید المثال استقبال ہوا جس کی دنیا میں کوئی نظیر نہیں۔ اس وقت کے نعرے، بینظیر ، بینظیر زبان ہر زدعام تھے۔
مورخین کے جب بھی قلم اٹھیں گے تو شاہد کانپ اٹھیں گے ۔ بلاول ، بختاور کی ما ں کی ماں کو وطن عزیز نے کیا دیا؟اس کے سر کا تاج ظالموں نے اس وقت چھین لیا جب سرپر سایہ بھی نہیں تھا۔ وطن کے ہوتے ہوئے بھی بے یارووطن ، ایک ماں نے سکھ کا سانس بھی نہیں لیاتھا کہ دیار غیر میں اس کے لخت جگر کو کسی نے بیدردی سے زہر دے کر قتل کردیا اور شریک جرم اپنے ہی نکلے۔ عوام نے ان مصائب کے عوض کچھ محبتیں اس شہید کی بیوہ کی جھولی میں ڈالنی چاہیں تو ارباب اختیار کے عزائم کچھ اور بھی تھے۔ نہ کردہ خطاؤں اور گناہوں کے عوض بیٹی کی حکومت بر طرف۔داستان سانحات ابھی ختم کب ہوئی تھی۔ پارٹی کے انتخابی نشان تیر نے اس وقت ماں کے کلیجے کو چھلنی کر دیا جب ان کے دوسرے بیٹے کو بہن کے دور حکومت میں موت کے گھاٹ اتاردیا۔ دونوں بیٹوں کی دردناک موت نے ماں کو نیم مردہ کردیا اور وہ زندہ ہوکر بھی زندگی کی بازی ہار گئیں۔ گردش ایام کا چکر ابھی پورانہیں ہوا تھا۔ اپنوں نے ایک مرتبہ پھر نشیمن پر بجلیاں گراتے ہوئے اپنے گھر کے دیے روشن کیے۔ وہ جنہیں بے نظیر نے فرش سے عرش تک پہنچادیا تھا۔ وہ جنہیں بے نظیر نے زیریں چوٹی سے بالا چوٹی تک پہنچا دیاتھا۔ کچھ مافوق الفطرت قوتوں نے کام دکھایا اور عوام کے دلوں کی دھڑکن ، وفاق کی علامت ، ترجمان جمہوریت اور بھٹو کی تصویر بے نظیر کو فریم سے ہٹاد یاگیا۔ قاتل 58B2 نے دوسری مرتبہ عوام کے مینڈیت کا گلہ گھونٹ دیا۔ ایک فرد واحد نے ان الزامات کا سہار ا لیتے ہوئے ایک عوامی حکومت برطرف کردیا جن میں سے ایک بھی آج تک ثابت نہیں ہوا۔

بھٹو کی لخت جگر نے حالات کا مردانہ وار مقابلہ کیا۔ اپنے باپ اور بھائیوں کا نذرانہ پیش کرنے والی برصغیر کی عظیم سیاستدان نے آمریت کیخلاف اعلان جنگ کیا۔ خودساختہ جلاوطنی ختم کرکے ایک مرتبہ پھر اس زہریلی فضا میں سانس لینے کیلئے آئین جس سے انہوں نے اپنی اولاد کو دور رکھا ۔قاتلوں نے قتل گاہ کی طرف دعوت دی ۔ بیٹے اور بیٹیوں نے کہا کہ اماں جان واپس مت جائیں ہمیں جرنیلوں سے خوف آتا ہے وہ ہم سے ہماری ماں بھی چھین لیں گے ۔ کہا جاتاہے کہ جس طرح مچھلی پانی کے بغیر تڑپتی ہے بے نظیر کا حال عوام کے بغیر ایسا ہی تھا۔ عوام سے دوری برداشت کی تمام حدوں کو عبور کرگئی اور تمام خطرات اور دھمکیوں کے باوجود بے نظیر بھٹو صاحبہ نے 18اکتوبر 2007ء کو اپنی دھرتی پر قدم رکھا ۔ 1986ء کی یاد دلاتے ہوئے عوام کے سمندر نے بے نظیر کو اشک بار کردیا۔ وقت کے قاتلوں نے پہلا وار کیا ۔ کاتب تقدیر نے انگاروں سے پھول کو نکال لیا۔ شہید باپ کی بیٹی اور شہید بھائیوں کی بہن نے عرض پاک سے سوال کیا
؂ پھر کس نے تم سے لہو کا خراج مانگا
ابھی تو سوئے تھے مقتل کو سرخرو کرکے

دو ماہ نودن بعد راوالپنڈی کا لیاقت باغ ان کا منتظر تھا ۔ یاد رہے کہ ذولفقار علی بھٹو اور لیاقت علی خان کی لاشیں بھی اسی شہر سے روانہ کی گئی تھیں۔ اپنے سیاسی نقطہ عروج پر محترمہ بے نظیر بھٹو کو جن لوگوں نے آخری لمحوں میں دیکھا ان کے چہرے پر وقار تھا۔ خوشی تھی اور بے خوفی تھی ۔ مجھے فیض کا یہ شعر یاد آرہاہے۔
؂ جس دھج سے کوئی مقتل میں گیا وہ شام سلامت رہتی ہے
یہ جان تو آنی جانی ہے اس جان کی تو کوئی بات نہیں

آج اگر ہم در احساس پہ دستک دیں اور ضمیر کے بند کواڑوں میں جھانک کر دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ ہم قاتل محسن ہیں ۔ یہ شاید ہماری ریت ہے کہ ہم محسنوں کو سرعام سزا دیتے ہیں۔ ہم ایک ایسی سرزمیں کے باسی ہیں جہاں احساس وجذبات کے ساتھ گھناؤنا کھیل کھیلا جاتاہے۔ حالات کی زلفوں کو سنوارنے والی کنگھیوں کے دانوں کو بے دردی سے توڑ دیا جاتاہے ۔ یہاں کا طرز انوکھاہے۔ گھر اجاڑ کر تعزیت کے پیغام بھیجے جاتے ہیں۔ ارض پاک کے درودیوار ہل جاتے ہیں اور ارباب اختیار ٹس سے مس نہیں ہوتے ۔ جہاں مؤرخین کے دل ہل جاتے ہیں لیکن عوام کے ناخداؤں کے محلات کی ایک اینٹ تک نہیں ہلتی۔

شہید ملت سے شہید جمہوریت تک کے کارواں کے ناجانے کتنے قافلے لٹے۔ کتنے رہبروں نے دم توڑ دیااور ناجانے خون کے پیاسوں کی پیاس کب بجھے گی۔ کفن کے سوداگروں کو شاید یہ بھول گیاہے کہ یہاں سر ختم نہیں ہوتے ۔ بھٹو اب ایک نام نہیں بلکہ ایک علامت ہے۔ اب ہر گھر سے بھٹو نکلے گا۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ بے نظیر بھٹوکی پر کشش شخصیت نے مسلم لیگ ن کے قائد میاں نواز شریف جیسے سیاسی حریف کو حلیف میں بدل دیااور بے نظیر کی شہادت پر ہسپتال پہنچنے والا واحد سیاسی لیڈر نواز شریف ہی تھا۔ انہوں نے بے نظیر کو اپنی بہن قرار دیا ۔ جہاں تک بھٹو خاندان کے دیگر مخالفین کا تعلق ہے ان میں غنویٰ بھٹو اور فاطمہ بھٹو بھٹو ہاؤس میں پہنچنے والی اولین خواتین تھیں۔ بے نظیر بھٹو کی شہادت نے پتھر دل ممتاز بھٹو کو بھی پگھلا کر رکھ دیا اور وہ اپنے اہل خانہ کے ہمراہ بھٹو ہاؤس پہنچے۔

زیر بحث موضوع کو اس بات کے ساتھ سمیٹتے ہیں کہ بھارت کے گاندھی خاندان کی طرح بھٹو خاندان بھی وطن پر یکے بعد دیگرے قربان ہوتا گیا۔ شہادت کی تحقیقات کا لاحاصل سلسلہ شروع ہوگیاہے۔ حالانکہ بے نظیر بھٹو نے خود کہہ دیا تھا
؂ ہماری لاش پر نہ ڈھونڈو انگلیوں کے نشاں
ہمیں معلوم ہے یارو یہ کس کا کام ہے

بے نظیر بھٹو نے بار ہا حکومت وقت کو آگاہ کیا کہ انہیں کن قوتوں سے خطرہ ہے لیکن حکومت نے کوئی دھیان نہ دیا۔ میں ایک عظیم شاعر کے اس شعر میں ترمیم کیلئے معذرت خواہ ہوں جس نے شہر کی ویرانی کا ذکر کیاتھالیکن یہاں معاملہ شہر کی ویرانی سے بڑھ کر دیس کی ویرانی تک کاہے۔
؂ بچھڑا کچھ اس اداسے کہ رت ہی بدل گئی
اک شخص سارے شہر(دیس) کو ویران کرگیا۔

Mushtaq Ahmad kharal
About the Author: Mushtaq Ahmad kharal Read More Articles by Mushtaq Ahmad kharal: 58 Articles with 105232 views Director princeton Group of Colleges Jatoi Distt. M.Garh and a columnist.. View More