جرئی دہر میں ان آنکھوں نے کیا کیا دیکھا
بھرے بازاروں، مسجدوں، درگاہوں، میں بم پھٹتے دیکھا، خودکش حملوں کی
قیامتیں دیکھیں، نمازیوں، عقیدتمندوں، بازار میں خریداری کرتی عورتوں، بچوں
کو مرتے سسکتے دیکھا اور یہ سب کچھ اسلام کے نام پر۔ مگر اب جو سانحہ گزرا
وہ اس ساری دہشت گردی کا نقطۂ عروج تھا۔ کم سنوں پر گولیاں چلانے والے
کتنے سفاک تھے اور یہ منصوبہ بنانے والے کتنے شقی القلب اور کتنے بے بصیرت
تھے۔ انھوں نے تو شاید یہ سوچ کر یہ منصوبہ بنایا تھا کہ سارے پاکستان کو
ایک بڑا خوف آ لے گا، وہ خود یہ دیکھ کر کتنے حیرت زدہ اور دہشت زدہ ہوئے
ہوں گے کہ اثر الٹا ہوا۔ اس سانحہ نے لوگوں کو اس طرح جھنجھوڑا کہ جس خوف
میں وہ اب تک بسر کر رہے تھے وہ غائب ہوگیا اور ملعونوں کے خلاف غم و غصے
کی ایک بڑی لہر ملک کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک دوڑ گئی۔
اگرچہ بظاہر ایک بہت بڑی ٹریجڈی ہے لیکن واقعتاً اسے اگر خیر مستور )کہا
جائے تو شاید بے جا نہ ہوگا۔ اس سانحے نے وہ کام کر دکھایا ہے جو بڑی سے
بڑی منصوبہ بندی یا تدبیر سے ہونا مشکل تھا۔ اس نے قوم کو آناً فاناً پوری
طرح متحد اور پرعزم کردیا ہے۔ اس کے نتیجے میں ہماری تمام سیاسی جماعتیں
آپس کی رنجشیں اور اختلافات بھلاکر ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا ہوگئی ہیں۔ 1965
کی پاک بھارت جنگ کے بعد یہ دوسرا موقع ہے جب پوری قوم سیسہ پلائی ہوئی
دیوار بن کر کھڑی ہوگئی ہے۔ پاکستانی قوم اس مسئلے پر متحد ہوکر مسلح افواج
کے شانہ بہ شانہ کھڑی ہے۔ وہی عمران خان جو چند روز قبل ’’گو نواز گو‘‘ کے
نعرے بلند کرتے ہوئے دکھائی دے رہے تھے۔ وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کے
برابر والی نشست پر دست تعاون دراز کرتے ہوئے نظر آئے۔
یہ کسی کے ہار ماننے یا سبکی والی بات نہیں بلکہ قومی یکجہتی کی ایک روشن
اور واضح علامت ہے۔ عمران خان نے نہ صرف میاں نواز شریف کے کندھے سے کندھا
ملایا ہے بلکہ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے بعض اہم تجاویز بھی پیش کی ہیں۔
پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین کی جانب سے آٹھ نکات پر مبنی ان تجاویز میں
کہا گیا ہے کہ دہشت گردی پر قابو پانے کے لیے پاک افغان سرحد کی سخت نگرانی
کی جائے اور آمد و رفت کو سختی کے ساتھ کنٹرول کیا جائے۔
پشاور کے المناک سانحے پر پورے ملک کے لوگ چلا اٹھے۔ بنا کسی سیاسی سپورٹ،
بنا کسی سماجی تنظیموں کے بلاوے کے لوگ بیقرار ہوکر راستوں میں نکل آئے،
طالبان کے خلاف شدید نفرت کا اظہار کرنے لگے۔ معصوم بچوں کا خون اتنا زیادہ
ہے کہ نہ وہ سوکھ رہا ہے نہ وہ اپنا رنگ چھوڑ رہا ہے۔ اس خون کی مہک میں
بیشمار ماؤں کے آنسو شامل ہیں جوکہ اس کو سوکھنے نہیں دے رہے۔ دیس کی
کروڑوں مائیں آج خون کے آنسو رو رہی ہیں۔ انسانیت، محبت اور درد کے رشتے
الگ ہوتے ہیں اور سیاسی داؤ پیچ کے راستے الگ ہوتے ہیں۔ جب 9 جون کو
ایئرپورٹ پر طالبان نے حملہ کیا تھا تب بھی پوری قوم سراپا سوال تھی کہ
حفاظت کرنیوالے کہاں گئے؟ یہ طالبان ہتھیاروں اور بھاری بھرکم تھیلوں سمیت
کیسے ایئرپورٹ میں داخل ہوگئے؟ پشاور اسکول پر حملے پر بھی ہزاروں سوال ہیں
جوکہ غم کے بوجھ تلے دب چکے ہیں۔
وزیراعظم نے اب تک جن قومی خطرات کا اظہار کیا ہے اور ان کا مقابلہ کرنے کے
عزم کا اعلان کیا ہے اور عمل بھی شروع کر دیا ہے یہ سب پوری قوم کے اطمینان
کے لیے کافی ہے کہ ان کا حکمران جو ان کی جان و مال کی حفاظت کا ذمے دار ہے
جاگ اٹھا ہے۔ میاں صاحب دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کے لیے منصوبے بنا رہے
ہیں اور بڑی تیزی کے ساتھ لیکن ہمارے ملک کو ماضی میں جس سست مزاج اور خود
پرست قیادت کا سامنا رہا ہے وزیراعظم کو اپنے ان ساتھیوں کو بھی خواب غفلت
اور بے حسی سے جگانا ہے۔
یہ کس قدر خوفناک بے حسی کی بات ہے کہ تھر میں اب تک کوئی ڈھائی سو سے
زیادہ بچے صرف بھوک کی وجہ سے مر گئے ہیں اور یہ سلسلہ جاری ہے۔ یہ
بدانتظامی اور متعلقہ صوبائی حکومت کی غفلت اور لاپروائی ہے، یہ ملک اتنا
بھوکا نہیں کہ یہاں لوگ بھوک سے مر جائیں یہ کوئی بھارت نہیں جہاں سیاست کے
ساتھ افلاس کی حکومت بھی ساتھ ساتھ چل رہی ہو۔ اگر وزیراعظم کو آئینی
اختیار حاصل ہے تو وہ سندھ کی حکومت کو فوراً برطرف کر دیں یا صدر صاحب سے
اس کی سفارش کریں، آج کے دور میں اس قدر نالائق اور عوام کے مفاد سے غافل
حکومت کو باقی رہنے کا حق ہر گز نہیں ہے ایسا تو دشمنوں کی حکومتیں بھی
نہیں کرتیں۔ سب کو معلوم ہے اور نہیں تو ہونا چاہیے کہ غربت اور دہشت گردی
معاشرتی انصاف کے بغیر ختم نہیں ہو سکتیں بلکہ کوئی بھی قومی مرض ہو اس کا
علاج قومی سطح پر انصاف اور مساوات ہے۔
س پر تعجب تو ہونا چاہیے کہ تشدد کی جب ہوا چلتی ہے تو کیسے کیسے ظالمانہ
واقعات گزرتے ہیں۔ لوگ کسمساتے ہیں، کڑھتے ہیں، مگر خوف سے بولنے اور اٹھ
کھڑے ہونے کی ہمت نہیں کرتے۔ مگر اس عمل میں جب کوئی ایسا عجیب سا سانحہ
گزرتا ہے کہ خوف زدہ مخلوق کے اندر سوئی ہوئی انسانیت ہربڑا کر جاگ اٹھتی
ہے تو یہ کیسے ہوتا ہے، کب ہوتا ہے، بس ایسا واقعہ اچانک ہو جاتا ہے۔ پھر
آپ سوچتے رہیے اور افسوس کرتے رہیے کہ ارے کتنی مرتبہ ایسے موقعے آئے
تھے۔ اگر اس وقت لوگ جاگ جاتے تو آج یہ انسانیت سوز واقعہ نہ گزرتا۔
قینا پاکستانی فوج میں آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی پرجوش اور پرعزم قیادت
میں یہ صلاحیت بدرجہ اتم موجود ہے۔ بس ضرورت صرف اس بات کی ہے کہ ملک کی
سول قیادت اور پوری قوم اپنی عسکری قیادت کے ساتھ کندھے سے کندھا ملاکر
کھڑی رہے۔ دہشت گردی سے نجات کا یہی ایک راستہ ہے۔
آگے ہم کیا کہیں بس اتنا ہی کہہ سکتے ہیں کہ
کفر ٹوٹا خدا خدا کر کے |