قارئین کرام! پاکستان جسے اسلام کے نام پر حاصل کیاگیا۔
اورجب پاکستان بنایاگیاتویہ نعرہ لگایاجاتاتھاکہ پاکستان کامطلب کیالاالٰہ
الااﷲ ۔ آزادی پاکستان کے وقت لاکھوں مسلمان شہیدہوئے۔ آج وطنِ عزیز میں
مسلمان طرح طرح کی پریشانیوں میں مبتلاء ہیں۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ جیسے ہی
پاکستان آزادہواتوملک چلانے کے لئے کوئی قانون نہیں تھااورنہ ہی کوئی ترتیب
دیاگیاتھا۔ ایک سال ہی میں بانی پاکستان قائداعظم محمدعلی جناح اس دنیاسے
رحلت فرماگئے۔
اورلیاقت علی خاں نے جب پاکستان کانظام وضع کرنے کے لئے علماء ودنیاوی
سکالرزوغیرہ سے پوچھاتو یہاں تک کہ وہ لوگ جوخودکوکہلواتے تومسلمان ہی تھے
لیکن انہوں نے یہکہا کہ ہم نے توپاکستان کا مطلب کیا لاالٰہ الااﷲ کاجونعرہ
لگایاتھا وہ صرف پاکستان حاصل کرنے کے لئے تھا۔ اب ملک میں صرف سیکولرنظام
یعنی بے دینی کانظام نافذہوگا۔
لیکن پھربھی اس وقت کے وزیراعظم لیاقت علی خاں نے علماء کے حق میں فیصلہ
کردیا اورکہاکہ پاکستان کاآئین اسلامی بنیادوں پر ہوگااور سیکولربنیادوں
پرنہیں ہوگا۔ لیکن بیوروکریسی ور دیگر ماڈرن لوگ جو اس وقت اقتدارکے
اوپرچھائے ہوئے تھی اس نے اپنے اختیارات کی رسہ کشی میں ملک کو ۹ سال تک
اپنے آئن سے محروم رکھا اورجب ۱۹۵۶ء میں آئین آیا تواس کی بھی بنیاد
انگریزی قانون پرتھی۔ جب ۱۹۶۲ء میں صدرپاکستان محمدایوب خاں نے آئین
بنایاتووہ آئین بھی امریکہ سے ملتاجلتاتھا۔ ۱۹۷۳ء میں جب آئین بنایاگیا
تووہ بھی انگریزی آئین کوبنیادبناکر ۔ پاکستان میں اب تک جوبھی آئین وضع
کیاگیا وہ سارے کا سارا انگریزی بنیادوں پر ہی وضعکیاگیاہے۔اورایساآئین
ودستور اس پاکستان کے لئے موزوں نہیں جولاکھوں مسلمانوں نے اپنی جانوں کی
قربانی دے کرحاصل کیا۔ بلکہ یہ آئین وطنِ عزیز پاکستان میں سراسرلادینیت
کوعام کررہاہے۔
پاکستان میں ایک اندازے کے مطابق 97% مسلمان ہیں۔ لیکن پاکستان میں جوطریقہ
تعلیم وضع کیاگیاہے وہ بھی انگریزی تعلیم کی بنیادپروضع کیاگیا۔
نتیجتاًپاکستانی لوگ انگریز ی کلچرکوہی پسند کرتے ہیں انہی لوگوں کالباس
پہن کرفخر کرتے ہیں انہی کی زبان بولتے ہیں۔انہی کواعلیٰ کردارکی مخلوق
سمجھتے ہیں انہی کے معاشی نظام کودنیاکاترقی یافتہ معاشی نظام سمجھتے ہیں
اورانہی کے انگریزی آئین کوپسندکرتے ہیں جب تعلیم کی بنیاددینی تعلیم
پررکھی جائے گی توپھرہی لوگوں کوپتہ چلے گاکہ ہمارے تمام مسائل کاحل صرف
اورصرف اسلام میں پوشیدہ ہے۔
ہمارے ملک میں اسلامی وضع قطع پر عمل کرنے والے لوگ جنھیں مذہبی لوگ
کہاجاتاہے انہوں نے بھی اسلامی نظام لانے کے لیے ملک میں جماعتیں بنائی
ہوئی ہیں مگرآج تک انہوں نے کوئی اسلامی نظام پیش نہیں کیاکہ اسلامی نظام
اس طرح کاہوتاہے۔یہی وجہ ہے کہ آج کاپاکستانی مسلمان یہ تک نہیں جانتاکہ
اسلامی نظام ہوتاکیاہے اور وطنِ عزیز میں اسلامی نظام لانے سے ہمیں
کیافائدہ ملے گا۔
ان نام نہادمذہبی جماعتوں میں ایک منہاج القرآن ہے جس کانام توقرآن کاراستہ
ہے مگراس کے تمام طلباء انگریزی لباس پہنتے ہیں اپنے گلے میں پھندے لگاتے
ہیں اورنظام مصطفی ﷺکانام لینے سے شرماتے ہیں یاخوفزدہ ہیں شایدان کے بین
الاقوامی فنڈ بندہوجائیں۔میں یہ کہناچاہتاہوں کہ ان تمام مذہبی جماعتوں
کوچاہیے کہ وہ مسلمانوں کو بتائیں کہ اسلامی نظام کے تحت ملک میں حکمران
کیسے منتخب ہوگا۔ موجودہ دورکے تقاضوں کے مطابق آئین میں تبدیلی کرنے
کااختیارکس کوہے۔چوروں ڈاکوؤں کو کس طرح سزادی جائے۔ مقدمات کافیصلہ کس طرح
ہوناچاہیے؟کیااسلامی عدلیہ میں وکیلوں کی ضرورت ہے؟ بس ان نام نہادمذہبی
جماعتوں نے اپنی سیاست چمکانے کے لیے حکمرانوں پرکیچڑ اچھالتے رہناہے۔میں
لبرل لوگوں کی بات اس لیے نہیں کررہاکیونکہ انہوں نے تووہی سرکاری انگریزی
تعلیم پڑھی ہے۔جس میں انگریزوں کوہرطرح سے عزت والا ترقی یافتہ اوراونچا
ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
وطنِ عزیز پاکستان میں نظام حکومت کوبدلنے کی ضرورت ہے۔ میں اب صحیح اسلامی
نظام کے بارے میں قطعی بات تونہیں کہہ سکتاکہ صحیح طورپرمکمل اسلامی نظام
کیاہے؟کیونکہظاہرہے ہمیں کسی نے بتایاہی نہیں ہے کہ صحیح اسلامی نظام کیا
ہے؟ لہٰذامیں اپنے طورپرایک تجویزپیش کرتا ہو ں کہ پاکستان کانظام حکومت
کیساہوناچاہیے؟
سب سے پہلے توپاکستان میں کفارکی تعلیم ختم کردینی چاہیے یعنی جیسے سیاسیات
ہے اس میں مغربی سیاسی افکارپڑھائے جاتے ہیں۔ پھربین الاقوامی سیاست پڑھائی
جاتی ہے پھر جمہوری طریقے کے متعلق کفارکے اقوال وغیرہ پڑھائے جاتے ہیں۔
تویہ جوکفارکے نظریات وغیرہ ہیں یہ مکمل طورپر ہمارے وطن عزیزسے ختم کردینے
چاہئیں۔ جب ملک میں کافروں کی تعلیم نہیں پڑھائی جائے گی۔ توپھرذہن میں آئے
گاکہ اسلامی نظام جوماوردی نے پیش کیا یاامام غزالی علیہ الرحمۃ نے پیش
کیااورجیساکہ قرآن وحدیث میں موجودہے اس کے مطابق ہم اپنے ملک کوکس طرح
چلاسکتے ہیں۔ جب ہم نے اپنے ملک میں کفارکانظام نافذ ہی نہیں کرنا تواس
کوپڑھنے کاکیافائدہ ؟
اسی طرح سائنس وغیرہ میں بھی عمومی تجربات بیان کیے جائیں نہ کہ ردرفورڈنے
اس طرح ایٹمی ماڈل پیش کیانیل بوہرنے یہ کیا فلاں نے یہ کیا فلاں نے یہ کیا
بلکہ تجربات بیان کریں کوئی بھی تجربہ کرلے۔توکافروں کی تعریفیں سائنس سے
بھی ختم کی جائیں۔ معاشیات کی توتعریف میں ہی سودڈال دیاگیاہے کہ طالب علم
جب قاعدہ میں ہی سودپڑھے گاتوسود سے چھٹکارا کاکوئی نظام نافذنہیں کرپائے
گاتواس کے لیے بزرگانِ دین کی لکھی ہوئی کتابیں جس میں اسلامی تجارت‘ممنوع
تجارتوں کے بارے میں اورسودکے بارے میں بیان ہے ان کتابوں کی تعلیم دی جائے
اورموجودہ سٹاک مارکیٹ وغیرہ کے ادارے ختم کیے جائیں اس کی بجائے اسلامی
بینکاری کوفروغ دیاجائے۔ انگریزی زبان کے ساتھ ساتھ عربی زبان ، چائنہ زبان
، ملائشیائی زبانیں، افریقی زبانیں تمام ملکوں کی زبانیں پڑھائی جانی چاہیے
کہ دنیاصرف برطانیہ میں ہی نہیں ہے اوربھی ملکوں میں بستی ہے۔
پھرجب صرف اسلامی تعلیم رکھنے والے لوگ ہوں گے تو ان کو نمائندہ بنایاجائے
علاقائی سطح پرتحصیل سطح پر ضلع سطح پر یاڈویژن یا صوبہ کی سطح پر ۔
جوعلاقہ سطح پر ہوں صرف وہ لوگ براہ راست عوام سے منتخب ہوں کیونکہ عوام
انھیں ذاتی طورپر جانتے ہوں گے ان کے کردارکوجانتے ہوں گے اوران کوتقویٰ
اورپرہیزگاری کی بنیادپراورلوگوں کی خیرخواہی کی بنیادپرمنتخب کیاجائے
یااگرمذکورہ بالاطریقے پر نظام تعلیم وضع ہوجائے توپھر اس کے مطابق اہلیت
ترتیب دی جائے۔
پھرتحصیل سطح پر اورضلع سطح پر انہی علاقائی نمائندوں سے انتخاب کیاجائے۔
اس کے بعد ملکی سطح پر ضلع سطح کے نمائندہ انتخاب کریں یعنی وہ حکمران کو
ضلع سطح کے لوگ منتخب کریں جوکہ سارے کے سارے اہل علم ہوں یعنی قرآن وحدیث
کاعلم رکھنے والے ہوں نیزوطنِ عزیزکاحکمران داڑھی والاہوناچاہیے نہ کہ
داڑھی منڈے عورتوں جیسی شکل بنانے والے کیونکہ اگرحکمران مردکی عظمت کونہیں
جان سکتاتووہ مسلمان کی عظمت کوکیسے جانے گا۔جب کوئی ملک کاحکمران بنے تواس
کو کسی اعتراض کی بناء پرتوفارغ کیاجائے مگرایسا نہیں ہوناچاہیے کہ یہ پانچ
سال کے لیے حکمران ہے یہ دس سال کے لیے ہے بلکہ وہ تاحیات ملک کاحکمران
بنے۔اسی طرح جب ہمارے حکمران عالم باعمل ہوں گے توان شاء اﷲ تعالیٰ وہ دن
دورنہیں جب پوری دنیا پر صرف مسلمانوں کی حکومت ہو۔
موجودہ نظام حکومت میں ایک بڑی خرابی یہ ہے کہ اس میں عوام کوبے جااخراجات
کا سامنا کرناپڑتاہے مثلاًعدلیہ کے نظام کو ہی لے لیں۔اس میں جوسب سے بڑی
اورانتہائی تباہ کن خرابی یہ ہے کہ اگرپولیس کسی بھی آدمی پر الزام لگادے
یعنی مدعی بن کرعوام کے خلاف دعویٰ دائرکردے تووہ چاہے کتناہی غریب آدمی ہو
اس کو وکیل تولازمی کروانا پڑے گا اوروکیل کی کم سے کم فیس بھی 5000ہوتی
ہے۔ اب ایک غریب آدمی کہاں سے لائے 5000روپے۔ وہ ادھارپکڑے گاپھردو تین سال
وہ عدالت میں کھپے گاوکیلوں کی منتیں سماجتیں کرنے کے بعد عدالت اگراسے بری
بھی کردے تو اتناعرصہ عدالتوں میں لٹکنا فیسیں بھرنا کرائے لگانا یہ کس جرم
کی سزاہے ۔بلکہ یہاں تک کہ لوگوں کے والدین قتل ہو جاتے ہیں بھائی قتل
ہوجاتے ہیں حتی کہ ثبوت موجود ہوتے ہیں قاتل بھی موجود ہوتاہے۔ لیکن وہ ایف
آئی آربھی نہیں کٹواتے کیوں کہ باپ کے قتل ہونے کے بعدتوانہیں اپنی
گزربسرمشکل ہوجاتی ہے وہ وکیل کی فیسیں اورعدالتی فیسیں کہاں سے بھریں
اوردس سال تک عدالتوں میں کیسے دھکے کھائیں۔دس سال جی ہاں دس سال اگرکسی
کیس میں شواہدموجودہوں اورمجرم بھی جیل میں ہوتب بھی دس سال لگ جاتے ہیں اس
کوپھانسی کے تحتے پرپہنچانے کے لیے۔وہ بھی کوئی خوش نصیب ہو ورنہ تواس سے
پہلے ہی مجرم بری ہوجاتے ہیں مقدمات کافیصلہ ہی نہیں ہوپاتا۔غریب کی کیابات
ہے خودآج تک ہمارے حکمرانوں کے قاتلوں کوکوئی سزانہیں ملی۔ لیاقت علی خاں
کے قاتل کو آج تک کوئی سزانہیں دی گئی۔
غریب آدمی جو محنت مزدوری کرکے بمشکل اپنے بچوں کاپیٹ پالتاہواتنی کھجل
خواری کیسے برداشت کرے گا۔ اگراس کوقتل کردیاجائے تواس کے یتیم بچے ایف آئی
آر کیسے کٹوائیں گے عدالتوں میں دھکے کیسے کھائیں گے ۔ انہیں تواپنی روزی
کی فکرپڑجاتی ہے۔
اب اگروکیل نہ ہوں اورسائل اورمسؤل علیہ کو عدالت میں خودپیش ہوناپڑے
تومقدمات کافیصل سالوں نہیں بلکہ دنوں میں ہوگا اورہماری قوم کی ایک بڑی
مصیبت سے جان چھوٹ جائے گی۔ سائل اورمسؤل علیہ کو تو ساراپتہ ہوتاہے کہ
قاتل کون ہے اورمقتول کون ہے۔ جب ان سے عدالت میں ڈائریکٹ پوچھ گچھ ہو گی
توسارا دودھ کادودھ اورپانی کاپانی ہوجائے گا۔
آپ ذراٹھنڈے دل سے سوچیں کہ عدالت میں دولوگ پیش ہوتے ہیں ایک ظالم اور
دوسرا مظلوم۔ مظلوم عموماًکم پیسے والاغریب آدمی ہوتاہے جبکہ ظالم بے
انتہامالدارہوتاہے۔ اکثرایساہوتاہے ۔ اب مظلوم توبمشکل 5000روپے والاوکیل
کرنے میں کامیاب ہوگا مگرجوظالم ہوتاہے اس کے پاس زیادہ پیسے ہوتے ہیں وہ
لاکھوں روپے بھی وکیل کو دے سکتاہے تووہی وکیل جس کو ظالم سے اسی مقدمے کے
ایک لاکھ روپے مل جائیں وہ کیونکر مظلوم کا مقدمہ لڑے گا۔ پھر جومظلوم کی
حمایت کرے گااسے توہوسکتاہے ثواب بھی مل جائے مگر جوجانتے بوجھتے ہوئے ظالم
کامقدمہ لڑے گااس کے متعلق کیاخیال ہے؟
جب عوام کوقانون کاپتہ ہی نہیں تواسے سزاہی کیوں دی جاتی ہے اگرقرآن وسنت
کو قانون بنایاجائے توپھرتوہربندے کوپتہ ہوگاکہ ملک میں کونسا قانون
بناہواہے۔اس لئے گزارش ہے کہ قانون کواس قدرآسان بنایاجائے کہ ہر شخص کو
پتہ ہوکہ اس نے اگرزناکیا تواسے سنگسارکیاجائے گایاغیرشادی شدہ ہے تواسے
کوڑے مارے جائیں گے۔ اسی طرح ڈاکوکوپتہ ہونا چاہیے کہ اگراس نے ڈکیتی کی
تواسے صلیب پر لٹکا یا جائے گا۔ جب قانون اردوزبان میں ہوتوہر شخص کوعلم
ہوگا کہ کون ساکام قانونی ہے اورکون ساغیرقانونی ۔ توپھر قانون پر
عملدرآمدبھی ہوگا۔
اس کے علاوہ پاکستان کے نظام حکومت میں ایک خرابی یہ ہے کہ کسی بھی شعبے
میں ملازمت دینے کے لئے صرف دنیاوی تعلیم کوہی بنیادبنایاجاتاہے۔ حالانکہ
جوبھی پڑھا لکھاہے چاہے اس نے دینی مدرسے میں ہی پڑھاہواہے اگروہ بھی اہل
ہے تواسے بھی ملازمت ملنی چاہیے۔ بعض اوقات ایساہوتاہے کہ ایک آدمی کوصرف
اس لیے فارغ کردیاجاتاہے کہ اس نے عمامہ پہناہواداڑھی رکھی ہوئی اگرچہ وہ
انگریزی تعلیم یافتہ بھی ہو۔
حکومت پاکستان کے جوارکان ہیں وہ اگراپنے آپ کو عوام کی عدالت میں پیش کرتے
ہیں پڑھے لکھوں کے سامنے پیش بھی کرتے ہیں توکہاں یونیورسٹیوں میں کوئی
پنجاب یونیورسٹی میں توکوئی جی سی یونیورسٹی میں مشرف نے بھی سٹوڈنٹس
کنونشن بلایا توتمام یونیورسٹی کالجز کو بلایا اورجب گورنر نے بلایا تواس
نے بھی جی سی یونیورسٹی کے سامنے خودکوپیش کیا۔ کیا مذہبی لوگ کسی کھاتے
میں نہیں ہیں؟کیا حکومت انھیں انسان نہیں سمجھتی ؟صدر کو یاگورنر کو یاکوئی
بھی لیڈر جب خود کو طلباء کے سامنے لائے تووہ دینی مدارس کے سامنے بھی آئیں
تاکہپوری قوم کے اندریکجہتی کی فضاعام ہو۔ اسی طرح سے جدیدلوگوں میں اور
مذہبی لوگوں میں کشیدگی کم ہوگی۔ |