اکیسویں آئینی ترمیم کے اثرات

کون نہیں جانتا کہ پاکستان اس وقت حالتِ جنگ میں ہے ۔گذشتہ تیرہ سالوں سے دہشت گردوں نے اس ملک کے باسیوں پر دہشت کی فضا مسلط کررکھی ہے ۔ہزاروں کی تعداد میں قیمتی جانیں مسلط کردہ جنگ کی نذر ہو چکی ہیں ۔حالتِ جنگ میں ہمیشہ بڑے فیصلے کرنے پڑتے ہیں۔اگر مخصوص حالات میں بھی مشکل اور بڑے فیصلے نہ کیے جائیں تو وسیع تباہی مقدر بن کر رہتی ہے ۔تیرہ برس میں دہشت گردی کے متعدد دلخراش واقعات ہوئے مگر سولہ دسمبر دو ہزار چودہ کو ہونے والے سانحہ نے پوری قوم کو ہلا کر رکھ دیا۔معصوم بچوں پر دہشت گردوں نے قیامت ڈھادی۔اس سانحہ کے بعد سیاسی و عسکری قیادت نے فیصلہ کیا کہ دہشت گردوں کو اُن کے عبرت ناک انجام تک پہنچا کر دم لیں گے۔یہی وجہ تھی کہ اس ضمن میںکچھ بڑے اور مشکل فیصلے کرنے کی نوبت بھی آئی ،یہ اَمر خوش آئند ہے کہ بڑے فیصلوں کے ضمن میں بھی عسکری اور سیاسی قیادت متفق نظر آئی اور جن چند ایک سیاسی یا سماجی جماعتوں کے تحفظات ہیں،یقینا وہ بھی عنقریب نہیں رہیں گے ۔ جب2جنوری جمعہ کے دن آل پارٹیز کانفرنس کا انعقاد ہواتو اُس میں فوجی عدالتوں کے قیام کے لیے آئینی ترمیم کے حوالے سے اتفاق کیا گیا۔واضح رہے کہ فوجی عدالتیں فوجی سربراہی میں ہوں گی۔کل جماعتی کانفرنس میں موجود سیاسی رہنمائوں نے بیس نکات پر مشتمل مسودے کو حتمی شکل دی تھی۔ کل جماعتی کانفرنس کے بعد وزیرِ اطلاعات پرویز رشید نے فوجی عدالتوں کی خصوصیت بیان کرتے ہوئے کہا تھاکہ خصوصی عدالتوں کے قیام کے لیے آئین اورآرمی ایکٹ میں ترمیم کی جائے گی کیونکہ بچوں اور معصوم شہریوں کے قاتلوں کا ٹرائل عام عدالتوں میں ممکن نہیں ہے۔اس بیس نکاتی مسودے نے سوموار والے دن قومی اسمبلی میں پیش ہونا تھا اور اُس سے اگلے یعنی منگل والے دن سینٹ میں اس پر ووٹنگ ہونا تھی۔اس بیس نکاتی مسودے نے دَرحقیقت 21ویںآئینی ترمیم کی صورت اختیار کرنا تھی۔آل پارٹیز کانفرنس سے وزیرِاعظم نے اپنے خطاب میںکہا تھا کہ اب یہ وقت ہے کہ ہم دہشت گردی کی لعنت سے اس ملک کو پاک کردیں ۔خصوصی عدالتوں کے مثبت نتائج ہمارے سامنے آئیں گے،یہ وقت ٹھوس فیصلوں کا وقت ہے ۔لیکن جب بیس نکاتی مسودہ سوموار کو قومی اسمبلی میں پیش کیا گیا تو آئینی ترمیم کے حوالے سے اتفاق نہ ہو سکا یوں یہ معاملہ اگلے یعنی منگل کے دن تک اُٹھا دیا گیا۔سوموا روالے دن اجلاس سے خطاب میں21ویں آئینی ترمیم کا دفاع کرتے ہوئے وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کا کہنا تھا کہ ہمارے دشمن ہر حد کو پار کر چکے ہیں لہٰذا فوجی عدالتوں کاقیام بہت ضروری ہے ۔دہشت گردوں نے معصوم بچوں کو نہ چھوڑا اور ہمارے چالیس ہزار سے زیادہ لوگ جاں بحق ہو چکے ہیں۔دہشت گردوں نے عبادت گاہوںاور درس گاہوں کو بھی نہ چھوڑا،ہم حالتِ جنگ میںہیں ،دہشت گردوں کوفساد اور ہمیںامن کی ضرورت ہے ،فوجی عدالتیں صرف دہشت گردوں کا ٹرائل کریں گی ،عام شہری اور سیاسی رہنما فوجی عدالتوں کے ٹرائل سے محفوظ رہیں گے۔سوموار والے دن 21ویں آئینی ترمیم کا مسودہ اختلافِ رائے کی نذر ہو گیا ،واضح رہے کہ مذکورہ آئینی ترمیم کے لیے دو سو اَٹھائیس اراکینِ پارلیمنٹ کی ضرورت تھی جب کہ اس تعداد میں اراکین موجود نہ تھے۔لیکن منگل والے دن جب یہ مسودہ پارلیمنٹ میں پیش ہوا تو متفقہ طور پر منظور ہو گیا ۔قومی اسمبلی کے بعد سینٹ میں بھی 21ویں آئینی ترمیم متفقہ طور پر منظور کر لی گئی ۔21ویں آئینی ترمیم کی شق وار منظوری کی گئی بعدازاں اسپیکر کی جانب سے 247ووٹوں سے اس کی منظوری کا اعلان کیاگیا ۔کسی ایک رُکن کی طرف سے مخالفت سامنے نہیں آئی ۔بعدازاں سینٹ کے اجلاس میں اس بل کی منظور ی بھی دے دی گئی تھی۔ دہشت گردوں کے خلاف فوجی عدالتوں کی کارروائیوں کو تحفظ دینے کے لئے 21 آئینی ترمیمی بل اور آرمی ایکٹ ترمیمی بل قومی اسمبلی میں پہلی بار سوموار والے دن پانچ جنوری کوپیش کیا گیا تھا ۔یہ ترامیم بنیادی طور پر ایسے لوگوں ،گروہوں اور جماعتوں کا محاصرہ کرے گی جو مذہب کے نام پر تفرقہ پھیلاتے ہیں جس سے دہشت گردی جنم لیتی ہے ۔ چونکہ اس بل کی منظوری ہو چکی ہے تو اب ملک میں دو سال کے لیے فوجی عدالتیں قائم ہو جائیں گی۔ان عدالتوں میں دہشت گردی سے متعلق مقدمات کے فیصلے فوری طور پر ہوں گے۔فوجی عدالتوں میں دہشت گردوں کے مقدمات نمٹائے جانے کے بہت سارے مثبت پہلو ہیں ۔یہ مقدمات جلد پایہ تکمیل کو پہنچیںگے،ججز کو تحفظ بھی حاصل ہو گا،ان عدالتوں میں بھیجے جانے والے کیسز کی کوئی اپیل نہیں ہو گی،دہشت گردوں کو فوری طور پر اُن کے کیے کی سزا مل جائے گی،مقدمات سست روی کا شکار نہیں ہوں گے،جو بدنام ترین ملزم عدم شہادت کی وجہ سے مقدمات سے بَری ہو جاتے تھے وہ اپنے انجام کو پہنچ کر رہیں گے۔اگرچہ فوجی عدالتیں ایک ایسے سماج میں جہاں جمہوری حکومت کا قیام ہو ،جہاں آزاد عدلیہ موجود ہو ،غیر آئینی اور غیر منطقی محسوس ہوتی ہیں مگر دنیا بھر میں ایسے مخصوص حالات و واقعات میںمخصوص فیصلے کیے جاتے رہے ہیں۔پھر ہمارے ہاں دہشت پسندوں اور ملک دشمن عناصر کو اُن کے انجام تک پہچانے کے لیے ایسی خصوصی عدالتوںکا قیام ناگزیر ہو چکا تھا۔ جب گذشتہ روز قومی اسمبلی نے 21 ویں آئینی ترمیم اور آرمی ایکٹ 1952 میں ترمیم کی متفقہ منظوری دی تواس ترمیم کی منظور ی میں جماعت اسلامی اور جمعیت علمائے اسلام (ف) نے حصہ نہیں لیا،جب کہ پی ٹی آئی پارلیمنٹ میں موجود نہیں ہے ۔ابھی مذکورہ ترمیم کے لیے ووٹنگ کا عمل شروع نہیں ہوا تھا تو خورشید شاہ نے قومی اسمبلی میں اپنے خطاب سے کہا تھا کہ طالبان سے مذاکرات کے معاملے میں ہم نے حکومت کاساتھ اس لیے دیا تھاکہ اگر اس عمل میں ملک کافائدہ ہے تو پیپلز پارٹی حکومت کے ساتھ ہے ،ہم پاکستان کو محفوظ رکھنے کے لیے یہاں جمع ہیں، یہ آئینی ترامیم مذہبی لوگوں کے خلاف نہیں شدت پسندوں کے خلاف ہے ،یہ ترامیم قتل و غارت گری کرنے والوں کے خلاف ہیں ۔واضح رہے کہ اس ترامیم کے خلاف پی پی پی کو کچھ تحفظات تھے۔اس ضمن میں رضا ربانی کا کہنا تھا کہ اس سے پارلیمنٹ کی موت ہے۔لیکن پی پی پی کے ایک اجلاس میں اعتزاز احسن کا کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی ترمیمی بلز میں،فوجی عدالتوں کے سیاسی استعمال کے حوالے سے کچھ اہم شقیں شامل کرانے میں کامیاب ہوئی ہے۔مزید اُن کا کہنا تھا کہ ہماری ہی کوششوں سے یہ قانون محض دو سال کے لیے کارگر رہے گا۔جب کہ مولانا فضل الرحمان کے نزدیک حکومت مدارس کے خلاف ممکنہ طور پر اقدامات اُٹھائے گی ۔نیز اُن کے نزدیک حکومت اپنے اشتہارات میں یہ تصور پیش کر رہی ہے کہ مدارس دہشت گردوں کے مراکز ہیں۔واضح رہے کہ ان فوجی عدالتوں میں مقدمات آرمی ایکٹ کے تحت تو چلائے جائیں گے مگر اس کی منظوری یا اجازت جمہوری حکومت ہی دے گی۔جب ایسے مقدمات جو فوجی عدالتوں میں آرمی ایکٹ کے تحت پیش کیے جائیں گے تومنتقلی کے بعد مزید شہادتوں کی ضرورت نہیںرہے گی۔اس کی وضاحت ان ترامیم کی منظوری کے بعد وزیرِ اعظم نے بھی دی ،اُن کا کہناتھا کہ امن و امان کے قیام اور دہشت گردی کے خاتمے کے لیے یہ آئینی ترامیم بہت اہمیت اختیار کر گئی تھیں اور فوجی عدالتوں میں وہی مقدمات چلیں گے جن کی حکومت اجازت دے گی۔اُن کا کہنا تھا کہ وہ تمام سیاسی جماعتوں کے قائدین اور پارلیمانی قائدین کے شکرگزار ہیں جنہوں نے اس اہم ترین بل پر اپنے مشورے دیئے اور متفقہ رائے سے یہ قانون عمل میں لایا گیا۔وزیرِ اعظم کے نزدیک فوجی عدالتوں کا قیام وقت کی ضرورت ہے۔یہ امر بھی واضح رہے کہ نواز شریف کے دورِ اقتدار میں فوجی عدالتوں کا قیام کوئی نیا یا انوکھا فیصلہ نہیں تھا ،حتیٰ کہ ابھی تیسرے دورِحکومت میں تحفظِ پاکستان آرڈیننس کے تحت خصوصی عدالتوں کاقیام عمل میںلا یا گیا تھا۔
Abdul Rehman
About the Author: Abdul Rehman Read More Articles by Abdul Rehman: 216 Articles with 274857 views I like to focus my energy on collecting experiences as opposed to 'things

The friend in my adversity I shall always cherish most. I can better trus
.. View More