ایک مودی نے کہا تھا کہ سال اچھا ہے

ہندوستان کے تناظر میں ؁۲۰۱۴ کو دو حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے’’ اک انتخاب سے پہلے اک انتخاب کے بعد‘‘ ۔ یہ فرق عنایت علی خان صاحب کی پیروڈی کی مصداق ہے’’پہلے آتی تھی ایک اشارے پر، اب کسی بات پر نہیں آتی‘‘۔ جہاں تک ہنگامہ آرائی کا سوال ہے سو تو وہ دونوں حصوں میں مشترک ہیں لیکن ان کی نوعیت میں زمین و آسمان کا فرق واقع ہو چکا ہے۔ پہلا نصف میں اچھے اچھوں کو یقین سا ہوگیاتھا کہ بس اچھے دن آیا ہی چاہتے ہیں۔ اب برے دنوں کو جانے سے اور اچھے دنوں کو آنے سے کوئی نہیں روک سکتا لیکن بعد میں انکشاف ہوا کہ برےدن سے مراد کانگریس کا اقتدارہے اور اچھے دنوں سے مراد بی جے پی سرکار ہے ۔ اس حدتک تو مودی جی کی بات درست نکلی کہ کانگریس کا صفایہ ہوگیا لیکن وزارت عظمیٰ کے امیدوار نریندر مودی نے تو صرف یہ نہیں کہا تھا بلکہ وہ تو گویا (ترمیم کی معذرت کے ساتھ) صابر دت کی درج ذیل نظم سنا رہے تھے ؎
ایک مودی نے کہا تھا کہ یہ سال اچھا ہے
ظلم کی رات بہت جلد ٹلے گی اب تو
آگ ہر روز ہی چولہوں میں جلے گی اب تو
بھوک کے مارے کوئی بچہ نہیں روئے گا
چین کی نیند ہر ایک شخص یہاں سوئے گا
آندھی نفرت کی چلے گی نہ کہیں اب کے برس
پیار کی فصل اگائیگی زمیں اب کے برس
ملک میں اب نہ کوئی شور شرابہ ہوگا
ظلم ہوگا نہ کہیں خون خرابہ ہوگا
اوس اور دھوپ کے صدمے نہ سہے گا کوئی
اب میرے دیش میں بے گھر نہ رہےگا کوئی
نئے وعدوں کا جو ڈالاتھا وہ جال اچاا تھا
مودی جی نے کہاتھا کہ یہ سال اچھا ہے

بھولے بھالےپریشان حال عوام ان قسموں وعدوں کے جھانسے میں آگئے اور بھول گئے کہ شاعر نے اس نظم کو کس مصرع پر ختم کیا ہے وہ کہتا ہے ’’دل کے خوش رکھنے کو غالب یہ خیال اچھا ہے‘‘۔گزشتہ سال کا آغاز مودی جی نے نائب صدر حامد انصاری کے ساتھ ملاقات کے ساتھ کیا تھا مگرسال کے خاتمہ پر محبوبہ مفتی کو ان کے حق سے محروم کرنے کی سازش رچی جارہی ہے۔ اس طرح گویا’’ سب کا ساتھ سب کا وکاس‘‘ کا جو خواب ایک سال قبل دکھلایا گیا تھا اس کو اپنے ہاتھوں سے چکنا چور کیا جارہا ہے ۔ مولانا آزاد بھون میں حامد انصاری سے ملاقات کرکے مودی جی نے ہندوستان کے سیکولر ہندووں کو یہ پیغام دیا تھا کہ اب وہ مسلمانوں کے خلاف نہیں ہے لیکن کشمیر میں کسی طرح اقتدار کو ہتھیانے کی جدوجہد اس بات کا ثبوت دیا جارہا ہےکہ اب ہمیں مسلمانوں کی پرواہ نہیں ہے۔

راج بھون سے نکلنے کے بعد مودی جی نے باہر موجود نوجوانوں سے ملاقات کرکے انہیں نئے سال کی مبارکباد دی۔ یہ لوگ خواتین کے تحفظ کی خاطر تیارکردہ’’ہمت ‘‘نامی ویب سائٹ کا اجراء کررہے تھے۔ یہ حسن اتفاق تھا کہ ان نوجوانوں کوجس جیوتش نے راج بھون پر جاکریہ کار خیرکرنے کا مشورہ دیا تھا اسی نے مودی جی کیلئے شبھ مہورت نکالا تھا اس کا مطلب سوائے اس کے اور کیا ہوسکتا ہےوہ نوجوان ازخود آئے نہیں تھے بلکہ (خبر بنانے کی خاطر) لائے گئے تھے۔ اس خبر میں یہ پیغام دیا گیا تھا کہ کانگریس کے راج میں خواتین کی عصمت وعفت محفوظ نہیں ہے لیکن ایک سال بعد لیکن وقت بدل گیا۔حال میں جب دہلی کی یوبر ٹیکسی میں عصمت دری کا واقعہ رونما ہوا تو مودی جی کو سانپ سونگھ گیا ۔

اتفاق سےیکم جنوری ؁۲۰۱۵ کی بھی سب بڑی خبر خواتین کے تحفظ کے حوالے سے تھی ۔ اور یہ کوئی معمولی خاتون نہیں بلکہ وزیر اعمل کی اہلیہ محترمہ کی خبر تھی جنہوں نے نومبر کے اواخر میں اپنی حفاظت پر تعینات محافظوں پر اعتراض کرتے ہوئے ان کی معلومات طلب کرنے کیلئے آرٹی آئی کے دروازے پر دستک دی تھی۔مہسانہ پولس نے محترمہ جشودھا بین کو یہ کہہ کر دھتکار دیا کہ یہ معلومات مقامی خفیہ بیورو کے تحت آتی ہیں جو آرٹی آئی سے مستثنیٰ ہیں ۔ اس کے خلاف جشودھا بین نے درخواست کی کہ میں اپنی حفاظت پر تعنیاتی کا جو حکمنامہ مانگا ہے وہ ایل آئی بی(مقامی خفیہ بیورو) کے تحت نہیں آتا ۔ اس کے معنیٰ یہ ہیں کہ جشودھا بین کو نہ صرف ان کے حق سے محروم کیا جارہا ہے بلکہ ان کے ساتھ کذب بیانی کی جارہی ہے۔ جشودھا بین نے یہ الزام لگایا کہ یہ کسی اعلیٰ فرد کے اشارے پر ہورہا ہے۔ اس الزام میں اشارہ کس جانب ہے اسے جاننے کیلئے کسی جیوتش سے رجوع کرنے کی چنداں ضرورت نہیں ہے۔ محترمہ جشودھا بین کی جانب سے اس بات کا اعادہ کہ اندرا گاندھی کو ان کے حفاظتی دستے نے ہلاک کردیا تھا ان کے اندر پائے جانے والے شدید عدم تحفظ کےاحساس کا غماز ہے۔ یہ خبر ۲ جنوری کے انڈین ایکپریس میں منظر عام پر آئی۔

مودی جی کے ازدواجی مسائل سے قطع نظر ان کا سنگھ پریوار فی الحال تعمیر و ترقی کے بجائے تبدیلیٔ مذہب کی مہم میں جٹا ہوا ہے لیکن اجتماعی تبدیلیٔ مذہب کا یہ شوشہ بھیبالآخر لو جہاد کی طرح ٹائیں ٹائیں فش ہوتا جارہا ہے۔جس وقت لو جہاد چھڑا ہوا تھا اس وقت مودی سرکار ہنی مون منا رہی تھی اس لئے حزب اختلاف بھی اس نئی نویلی دلہن کو کھلنے کھیلنے کاموقع دے رہا تھا۔ دولہے راجہ کے قدم زمین پر ٹکنے کا نام نہیں لیتے تھے کبھی نیپال توکبھی بھوٹان ، کبھی برازیل تو کبھی جاپان، کبھی امریکہ تو کبھی آسٹریلیا گویا سپنوں کا سوداگر خوابوں کے حسین سفر میں کھویاہوا تھا۔ وہ اپنی اردھانگنی جشودھا بین کوبراہمن واڑہ میں چھوڑ کر دورگگن کی چھاؤں میں اِدھرسےاُدھر پھدکتا پھرتا تھا ۔بینڈ ماسٹرذرائع ابلاغ آئے دن اچھے دنوں کی آمد آمد کا ڈھول پیٹتااور پریوار والے باراتی دھرتی ماتا کے سینے پرلوجہاد کی شہنائی بجا تے۔ اس بیچ ضمنی انتخاب کے نتائج کا اعلان ہوا۔ اترپردیش اور بہار کی کراری ہار نے مدھو چندرما کو کڑوے کسیلےاماوس میں بدل دیا۔محبت کے جہاد میں سنگھ پریوار شکست فاش سے دوچار ہوگیا۔ایسا اس لئے ہوا کہ مسلمان تو جہاد بھی محبت سے کرتا ہے جبکہ سنگھ پریواردھرم یدھ میں نفرت کاپریوگ کرتا ہے۔ ایسے میں نئے سال کا جشن منانے والے سنگھیوں کو یہی کہنا پڑے گا کہ ؎
نئی سحر کے بہت لوگ منتظر ہیں مگر
نئی سحر بھی جو کجلا گئی تو کیا ہوگا
نہ رہنماؤں کی مجلس میں لے چلو مجھ کو
میں بے ادب ہوں ہنسی آگئی تو کیا ہوگا

جب دہلی کے انتخابات قریب آئے تو بی جے پی نے ارکانِ پارلیمان کو میدان میں اتارا ۔ اس بیچزعفرانی چولے سےعوام کا موہ بھنگ ہو چکا تھا ۔ دہلی کے رائے دہندگاناچھے دنوں کی آمد سے مایوس ہوکر گزرے ہوئے دنوں کو یاد کرنے لگے تھے ۔ انہیں نیلے سویٹر اور لال مفلر والے کیجریوال کی یاد ستانے لگی تھی ۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کے جلسوں میں خالی کرسیاں حسرت بھاری نگاہوں سے التجا کرتی تھیں کہ چند لمحوں کی خاطر سہی ہمارے بھاگ سنوارو لیکن کوئی پھٹکتا نہیں تھا ۔عوام نے مودی جی کو اتنا زیادہ دیکھ لیا تھا کہ وہ نہ ان کی تصویر دیکھنا چاہتے تھے ان کے چیلوںکو سننا چاہتے تھے۔ جس گری راج سنگھ نے مودی مخالف مسلمانوں کو پاکستان بھیجنے کا نعرہ بلند کرکے اپنے آپ کو مرکزی وزارت کا حقدار بنا لیا تھاوہ دہلی کے لوگوں سے کہتا نظر آیا کہ کرپا (مہربانی) کر کے صرف چندمنٹ کیلئے بیٹھ جائیےمیں زیادہ سمے نہیں لوں گا پھر بھی کوئی نہیں بیٹھا۔ہندووں نے سوچا ہوگا یہ مسلمانوں کو توپاکستان بھیج دے گا لیکن ہم۳۸ کروڈ ہندو رائے دہندگان کہاں جائیں گے جنھوں نے مودی کو ووٹ نہیں دیا۔ اکلوتاہندوراشٹر نیپال تو ہمیں اپےم شرن میں لے نہیں سکتا اور اگر وہاں چلے بھی جائیں گے تو کیا ہمالیہ کی برف کھاکر اپنی بھوک مٹائیں گے ۔

گری راج جیسا گھامڑ کندۂ ناتراش تو منھ لٹکا کر لوٹ آیا لیکن سادھوی نرنجن جیوتی نہایت چالاک نکلی اس نے کہہ دیا بھارت واسیو اب آپ کو فیصلہ کرنا ہے کہ آپ رام زادوں کو ووٹ دیں گے یا حرام زادوں کویعنی جو رام زادہ ہے وہ رامزادے کو اور جوحرام زادہ ہے حرام زادے کو ووٹ دے۔ اس طرح سادھوی جی نے ہندوستان کے ۳۱ فیصد رائے دہندگان کو رام زادہ کہہ کر ان کی عزت افزائی کردی اور ۶۹ فیصد رائے دہندگان کو حرام زادہ بنادیا۔ ہندوستان میں مسلمانوں کی آبادی اگر ۱۵ فیصد بھی مان لی جائے اور اسے ۶۹ میں سے کم کردیا جائے تب بھی سادھوی جی کے مطابق۵۴ فیصد ہندو حرام کی اولاد قرار پاتے ہے۔ ہندو سماج کی یہ توہین دولہے راجہ کوزمین پر لے آئی اورگجرات کے فسادات پر اکڑ کر یہ کہنے والاخود سر فرعون کہ اگر میں مجرم ہوں تو مجھے پھانسی چڑھا دو ایوان پارلیمان میں ہاتھ جوڑ کر معافی مانگتا ہوا نظر آیا ۔ مودی جی نے کہا سادھوی جی دیہات سے پہلی مرتبہ منتخب ہو کر ایوان میں آئی ہیں ۔وہ پارلیمانی آداب سے واقف نہیں ہے اور انہوں نے معافی بھی مانگ لی ہے اس لئےکشادہ دلی کا ثبوت دیتے ہوئے ان کو معاف کردینا چاہئے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسی ناتجربہ کار جاہل گنوار کو مودی جی نے وزیر کیوں بنایا ؟ کسی تجربہ کارمہذب بھاجپائی کو کیوں نہیں؟اصل بات یہ ہے کہ مودی جی کو اپنی جماعت کے باصلاحیت لوگوں سے خوف محسوس ہوتا ہے اسی لئے وہ ایک سے ایک نااہل کو پکڑ کر وزارت تھما دیتے ہیں تاکہ احسانمندی اور چاپلوسی کا بول بالارہے۔ان وزراء سےکسی صورت کوئی خطرہ لاحقنہ ہو۔

بی جے پی کیلئے سب سے بڑا چیلنج اپنے ہندو رائے دہندگان کو جوڑے رکھنا ہے۔ اے بی پی چینل کے ایک جائزے کے مطابق مودی جی کی مقبولیت نومبر سے لے کر دسمبر تک میں ۵ فیصد کم ہوئی ہے۔ اس گرتے ہوئے گراف کو روکنے کے لئے غالباً تبدیلیٔ مذہب کا شوشہ چھوڑا گیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ساکشی مہاراج کے گوڈسے کو دیش بھکت قراردینے سے لے کراویدیہ ناتھ کے دھرم پریورتن تک سارے واقعات اتر پردیش میں رونما ہوتے ہیں ۔ بی جےپی کی زیر نگرانی چلنے والی ریاستوں میں کوئی ہنگامہ برپا نہیں کیا جاتااس لئے کہ وہاںریاستی اقتدار قبضے میں آچکا ہے اس لئےضرورت نہیں ہے ۔ لیکن اتر پردیش اور دہلی میں صوبائی حکومت قائم کرنا ہے اس لئے وہیں ساری مہابھارت کھیلی جاتی ہے ۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ بی جےپی کیلئے یہ مذہبی نہیں بلکہ خالص سیاسی مسئلہ ہے۔ لیکن اس نے سنگھ پریوار کولوجہاد بلکہ حرام زادے والے تنازع سے زیادہ رسوا کیا ۔ ساری دنیا نے دیکھ لیا کہ یہ لوگ نہ سیاست سلیقہ سے کر سکتے ہیں اور نہ عبادت ۔

دھرم جاگرن والوں نےآگرہ کےجن مسلمانوں کو ورغلا کر اپنے دام میں پھنسایا تھا وہ تو واپس اپنے دین میں لوٹ گئے مگر دھرم پریورتن سنگھ پریوار کے گلے کی ہڈی بن گیا ۔ پہلے تواس کا سرغنہ والمیکی فرار ہوگیا ۔ بعد میں پتہ چلا کہ وہ پہلے سے شراب کی اسمگلنگ اور غنڈہ گردی میں بھی مطلوب ہے۔ بجرنگیوں نے کہا بھئی ہمیں کیوں پریشان کرتے ہو ہم تو بس چوکیدار ہیں اصلی کرتا دھرتا کو پکڑو ۔ اس کے بعد کرسمس کے دن علی گڑھ میں ہنگامہ کرنے کا اعلان کیا گیا ۔ اویدیہ ناتھ نے بڑے طمطراق سے کہا کہ میں وہاں جاوں گا اگر کوئی روک سکتا ہے تو روک لےلیکن یادو جی کی لاٹھی نے اس کاغذی شیر کو بھیگی بلی بنا دیا اور پروگرام منسوخ ہو گیا۔ ایوان پارلیمان میں اس مسئلہ کو لے کر خوب ہنگامہ آرائی ہوئی اور حزب اختلاف نے ایوان بالا میں اکثریت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے حکومت کے ناکوں چنے چبوا دئیے۔ مودی جی دہلی میں ہونے کے باوجود منہ چھپاتے پھر رہے تھے کہ کانگریس کے ششی تھرور نے ’’وزیراعظم کی گھر واپسی‘‘( یعنی ایوان میں واپسی) کا نعرہ بلند کردیا ۔ سہمے سہمے مودی جی کومجبوراً ایوان میں آنا پڑا لیکن بی جےپی نے اعلان کردیا کہ وہ اس مسئلہ پر بیان نہیں دیں گے۔ حزب اختلاف وزیر اعظم کے جواب پر اڑ گیا اور کارروائیشوروغل کی نذر ہو گئی۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے وزیر اعظم کی زبان پر کس چیز نے قفل ڈال دیا ہے اورلمبی چوڑی ہانکنے والے اس مسئلہ پر بیان دینے سے کیوں گھبرا گئے؟ دراصل مودی جی فی الحال ایک ایسی پل صراط پر چل رہے ہیں جس کے ایک جانب کھائی اور دوسری طرف آگ ہے۔ جو ۳۱ فیصد ووٹ بی جے پی کوملے ہیں اس میں سے ۱۲ فیصد لوگ تو ترقی و خوشحالی کے نام پر جھانسے میں آ گئے تھے اور باقی ۱۹ فیصد کا تعلق سنگھ پریوار سے تھا ۔ اب اگر وہ تبدیلیٔ مذہب کی حمایت کریں تو ۱۲ فیصد ناراض ہوتے ہیں اور مخالفت کریں تو ۱۹ فیصدکی دلآزاری ہوتی ایسے میں وہ بیچارے کریں بھی تو کیا کریں؟سنگھ پریوار والوں کبھی دستور ہند کو تو غور پڑھا نہیں ہے اس لئے انہیں یہ غلط فہمی ہو گئی ہے واضح اکثریت کی مدد سے وہ جو من میں آئے کرسکتے ہیں اسلئے کبھی ہندو راشٹر تو تبدیلیٔ مذہب کے خلاف قانون سازی کی ڈینگ مارتے ہیں ۔ یہ بیچارے نہیں جانتے کہ دستوری ترمیم کیلئے دوتہائی ارکان درکار ہوتے ہیں معمولی اکثریت سے کام نہیں چلتا۔

پارلیمانی انتخاب میں کامیابی کے بعد ریاستی انتخابات میں بی جے پی نے اپنی کامیابیوں کے سلسلے کو جاری و ساری رکھا نیز ہریانہ ، مہاراشٹر ،جھارکھنڈ میں اپنی حکومت قائم کرلی لیکن ان کامیابیوں میں بھییک گونہ فرق ہے۔ ہریانہ کے علاوہ کسی ریاست میں بی جے پی اپنے بل بوتے پر واضح اکثریت نہیں حاصل کرسکی ۔ مہاراشٹر میں اسے مخلوط حکومت بنانے پر مجبور ہونا پڑا ۔ جھارکھنڈ میں بھی اسے ۸۲ میں سے صرف ۳۷ نشستوں پر کامیابی ملی ۵ نشستیں حلیف جماعت اے جے ایس یو کی ہیں جبکہبی جے پی کیلئےاس بار سیاسی حالات نہایت سازگار تھے۔ ہر جگہ انات مخالف خیمہ منتشر تھا ۔ جھارکھنڈ میں کانگریس اور مکتی مورچہ میں اسی طرح دراڑ پڑ چکی تھی جیسے مہاراشٹر میں این سی پی اور کانگریس میں جبکہ بی جے پی دونوں مقامات اپنے حلیفوں کے ساتھ تھی۔ اس کے باوجود اگر بی جے پی نکل نہیں پائی تو جب وہ تنہا الیکشن لڑے گی تو کیا ہوگا؟

کشمیر میں بی جے پی کی لٹیا پوری طرح ڈوب گئی ۔ جموں کشمیر کے کل تین خطے ہیں ۔ ایک میں مسلمان دوسرے میں بدھ مت کے ماننے والےاور تیسرے میں ہندووں کی اکثریت ہے۔ کشمیر کے اندر بی جے پی کے سارے امیدواروں کی ضمانت ضبط ہو گئی گویا مسلمانوں نے زعفرانیوں کوپوری طرحمسترد کر دیا۔ لداخ کے اندر بھی بی جے پی اپنا کھاتہ نہیں کھول پائی ۔ جموں میں بھی جہاں ہندو اکثریت ہے اگر بی جے پی ساری جماعتوں کا صفایہ کردیتی تب بھی وہ سب سے بڑی پارٹی بن سکتی مگر وہ بھی نہ ہوسکا۔ ایسے میں جبکہ سیکولر اور مسلما ن ووٹرس تین خیموں میں تقسیم ہو چکے تھے بی جے پی کا دوسرے نمبر پر آنا اس بات کی علامت ہے کہ بی جے پی کے اچھے دن لد چکے ہیں ۔ اس میں شک نہیں ؁۲۰۱۴ کا نصف اول بی جے پی اوروزیراعظم نریندر مودی کیلئے کامیابیوں کی حسین ترین خواب تھا لیکن ایسا لگتا ہے کہ ؁۲۰۱۵ان خوابوں کی بدترین تعبیر بن کر سامنے آئیگا۔ سال نو کے اختتام پر میں عوام (ترمیم کے ساتھ) یہ شعرپڑھ رہے ہیں ؎
نہ شب و روز ہی بدلے ہیں نہ حال اچھا ہے
کس نریندر نے کہا تھا کہ یہ سال اچھا ہے
Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2124 Articles with 1449035 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.