امریکا کا انتباہ !پاکستان میں
ہمارے سفارتی اہلکاروں کو ہراساں کرنا بند کیا جائے.....؟
امریکا پاکستان سے متعلق اپنے رویوں میں مثبت تبدیلیاں لائے
میں اپنے آج کے کالم کی ابتدا برٹرنڈر سل اور کارنیگی کے دو علیحدہ علیحدہ
اقوال سے کرنا چاہوں گا کہ جو سمجھنے والوں کیلئے ہے ” اگر ہم برائیوں کا
انسداد کرنا چاہتے ہیں تو خود کوئی ایسا کام نہ کریں جس کا شمار برائی کے
زمرے میں ہوتا ہو“...... اور اِسی طرح”اکثر لوگ اپنے ہی متعلق سوچتے رہتے
ہیں کسی کی موت کی خبر کی نسبت اپنے معمولی سردرد کے متعلق زیادہ تشویش کا
اظہار کرتے ہیں“جس طرح ایک خبر جو گزشتہ دنوں ایک پاکستانی نجی ٹی وی چینل
سے ٹیلی کاسٹ کی گئی جس کے مطابق 6جنوری 2010بروز بدھ کو امریکی قونصل جنرل
کی کراچی نمبر پلیٹ کی لینڈ کروزر گاڑی کو تربت سے گوادر جاتے ہوئے اِسے
پہاڑوں میں سفر کے دوران اُس وقت (گرفتار کرلیا)حراست میں لیا گیا جب اِس
میں سوار دو پاکستانی اہلکار اور سندھ پولیس کے کانسٹیبل امریکی ترقیاتی
اعانت کے عملے کی جانب سے پاکستان کے پسماندہ علاقوں میں دورے کے سسلسلے
میں وہاں تیاری میں مصروف تھے ۔
اِس خبر کے بعد ہم پاکستانی عوام میں ذرا سی یہ اُمید ضرور پیدا ہوئی کہ
اُب پاکستان میں قانون کی بالادستی پوری طرح سے قائم ہونے کو ہے اور اِس
واقع نے یہ ثابت کردیا ہے کہ آج 62سال بعد پاکستان میں پاکستانی پولیس نے
کسی امریکی سے بھی اِسی طرح سے پوچھ پاچھ اور پوچھ کچھ کی ہے جس طرح
پاکستانی پولیس گزشتہ نصف صدی سے اپنے ہی پاکستانی بھائیوں کو پکڑ کر کیا
کرتی ہے اور اِس کے ساتھی ہی عوام میں یہ بھی حوصلہ پیداہوا کہ اَب ملک میں
سب برابر ہیں اور کوئی خاص و عام نہیں رہا اور اَب ملک سے امتیازی قانون
ختم ہوگیا ہے جیسا پہلے کبھی ہوتا رہا ہے کہ خاص آدمی کچھ بھی کرلے وہ بچ
نکلتا تھا اور مارا جاتا تھا بیچارہ ایک عام اور غریب آدمی....
مگر یہ کیا کہ گزشتہ دنوں پاکستانی پولیس کا یہ ایک اچھا عمل رہا کہ اِس نے
امریکی قونصل جنرل کی گاڑی اور اِس میں سوار اہلکاروں کو بھی اِسی طرح سے
حراست میں لیا جس طرح پاکستانی پولیس پاکستانیوں کو بلاامتیاز و رنگ و نسل
اِنہیں گُدیوں سے پکڑ کر حراست میں لے لیتی ہے جن میں سے بعض کو تو کچھ مک
مکا کر کے چھوڑ دیتی ہے اور کچھ کو بلا کسی قصور اور جرم کے پابند سلاسل
کردیتی ہے جو بیچارے اپنی ساری ساری عمر بے گناہی کے سبب جیل کی سلاخوں کے
پیچھے گزار دیتے ہیں۔
بہرکیف !اَبھی چھوڑیں اِن باتوں کو یہ ایک الگ بحث ہے اِسے پھر کسی کالم کے
لئے لگ دیتے ہیں اور اَب ہم آتے ہیں اپنے اصل مُوضوع کی طرف جس نے مجھے
اپنا آج کا یہ کالم لکھنے پر متحرک کیا اور مجھ میں یہ ہمت پیدا کی کہ میں
امریکیوں کی عیاری اور مکاری دنیا کے سامنے عیاں کروں کہ امریکا جو آج اپنے
آپ کو ہر مرض کی دوا تصور کئے بیٹھا ہے اِس کی اصلیت کیا ہے اور یہ خود
اپنے آپ کو ایسے روکھے پھیکے اور بے تکے رویوں کے سبب جلد ہی اپنی تباہی
اور بربادی کے دہانے پر لے جارہا ہے اور اگر اِس نے اپنی روش نہ بدلی تو
یقیناً عنقریب ہی امریکا تباہ ہوجائے گا۔
بہرحال !مگر اِس کے ساتھ اگلے ہی روز سرکاری اور کئی نجی ٹی وی چینلز پر یہ
خبر آنے کے بعد عوام کو سخت مایوسی ہوئی کہ جب امریکی حکام نے سات سمندر
پار سے پاکستانی پولیس کے ہاتھوں اپنے اہلکاروں کی حراست میں لئے جانے کے
عمل کو اپنی تضحیک جان کر حکومت پاکستان سے اپنے غصے کا اظہار کچھ اِس طرح
سے کیا کہ پاکستانی حکمران کانپ کر رہ گئے اور پاکستانی قوم اور شائد دنیا
کے دیگر مہذب ممالک بھی اِس امریکی رویے پر ششدر رہ گئے کہ وہ امریکا جو
اپنے یہاں تو دوسرے ممالک سے آئے ہوئے لوگوں سے اپنے قانون کی پاسداری کے
لئے اتنا کچھ کراتا ہے کہ کوئی دوسرا اِس کے ملک میں اِس کے قانون کی خلاف
سانس نہیں لے سکتا ۔
مگر یہ کیا وجہ ہے؟ کہ وہ امریکا جو قانون کی اہمیت سے تو اچھی طرح واقفیت
رکھتا ہے اور اپنے یہاں دنیا کے دیگر ممالک سے آنے والوں سے اپنے قانون کی
اِن کے ہاتھوں زبردستی پاسداری کراتا ہے... کیا یہی وہ امریکا ہے کہ جس نے
پاکستان کے قانون کی دھجیاں اِس طرح سے بکھیر دی ہیں کہ کسی کو یہ یقین
نہیں آرہا کہ امریکا کیا ایسا بھی کرسکتا ہے .....؟جس نے پاکستان میں محض
اپنے سفارت کاروں کی حراست میں لئے جانے کے عمل پر حکومت ِپاکستان کا وقف
سُننے بغیر اِسے بتنگڑ بنا دیا؟ اور وہ امریکا جس کے نزدیک اِس کا اپنا
قانون تو قانون ہے اور کسی دوسرے ملک کے قانون کی کیا کوئی حیثیت نہیں.....
؟ کہ کوئی دوسرا ملک اپنے ہی زمین میں کسی امریکی کو اِس کی غیر قانونی
حرکات و سکنات پر اِس سے پُوچھ کُچھ بھی نہ کرسکے ؟ اور کیا امریکی دنیا
بھر میں اتنے مقدس ہیں کہ یہ دنیا کے جس ملک میں جو چاہیں کرتے پھریں ؟اور
کوئی اِن سے پُوچھے والا نہیں اور جہاں چاہیں اپنا منہ اٹھا کر چلتے بنیں
اُس ملک کے قانون کا اطلاق اِن پر نہیں ہوگا؟
جی ہاں! یہ وہ ہی امریکا ہے جو اِن دنوں اپنی طاقت اور قوت کے گھمنڈ میں
چُور چُور ہے اور جس نے دنیا بھر میں مگر پاکستان میں بالخصوص جو اپنی دادا
گیری (بدمعاشی) قائم کر رکھی ہے اِس سے انکار کرنا ہمارے حکمرانوں کے لئے
اُس وقت ممکن نہیں رہا کہ جب اِس کے پاکستان میں متعین امریکی سفارتی مشن
اور امریکی سفیر این ڈبلیو پپیٹرسن نے پاکستان کی وزارتِ خارجہ کو خبردار
کرتے ہوئے کہا کہ” کوئی پتھر سے نہ مارے ہمارے دیوانوں کو“خبر یہ ہے کہ
امریکی سفیر نے پاکستان کی وزارتِ خارجہ کو انتباہ کیا ہے کہ پاکستان میں
امریکی سفارتی گاڑیوں اور اہلکاروں کو وجہ اور بلاوجہ روکنا اور اِس میں
سوار افراد کو مشتعل کرنے اور ہراساں کرنے کا سلسلہ فوری طور پر روکنے کے
لئے مؤثر طور پر کارروائی کی جائے اور اِس کے ساتھ ہی امریکی سفیر این
ڈبلیو پیٹرسن نے غصے سے اپنا گلا پھاڑتے ہوئے چیخ کر کہا ہے کہ امریکا
کو(ہمیں) پاکستان میں اپنے اہلکاروں کے ساتھ پیش آنے والے اِس قسم کے رویوں
اور سلوک سے پیدا ہونے والی صورتِ حال پر سخت تشویش ہے اور پاکستان کی
وزارتِ خارجہ غیر ملکی (خاص طور پر امریکی) سفارت کاروں کی سلامتی کو درپیش
تحفظات اور اِس طرح کی اور دوسری تشویش کو ختم کرنے کی پابند ہے۔
اور اِس کے ساتھ ہی اُدھر ایک خبر یہ بھی ہے کہ گزشتہ دنوں اسلام آباد میں
امریکی سینیٹر جان مکین کی قیادت میں امریکیوں کے ایک وفد نے بھی وزیراعظم
یوسف رضا گیلانی سے ملاقات کے دوران اپنے سفارت کاروں اور اہلکاروں کو
پاکستان میں ہراساں کئے جانے کے واقعہ پر سخت ناراضگی کا اظہار کیا جبکہ
اِس امریکی ردِعمل کے بعد وزیراعظم اور حکومت پاکستان نے خاموشی سے اپنا
سرخم کرتے ہوئے امریکی وفد کو یہ یقین دلایا کہ ہم اپنے اہلکاروں کو متنبہ
کریں گے کہ آئندہ وہ کسی بھی امریکی کو کسی بھی صورت میں ہراساں نہیں کریں
جس سے ہمارے آقا (امریکا) کو کوئی ٹھیس پہنچے اور ہماری حکومت کے لالے
پڑجائے۔اور امریکی امداد بند ہوجائے۔
اگرچہ یہ اور بات ہے کہ وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی اور حکومت پاکستان کے
دیگر اراکین نے امریکی سینیٹر جان مکین کو اِس موقع پر یہ باور کرایا کہ
امریکا کی جانب سے ڈرون اور سول ایٹمی ٹیکنالوجی پاکستان کو دیئے جانے کے
عمل میں ہچکچاہٹ کا مظاہر کرنے پر پاکستان میں بے شمار تحفظات پیدا ہو رہے
ہیں جس کی وجہ سے پاکستانیوں کا امریکیوں پر سے اعتماد ختم ہورہا ہے۔ میرے
خیال سے حکومتی اراکین نے امریکیوں پر یہ بھی واضح کیا کہ پاکستان اپنے
وعدے کے مطابق امریکا سے اپنی دوستی کی پاداش میں اِس کی جانب سے آنے والے
ہر اچھے اور بُرے حکم کی تکمیل کے خاطر پیش پیش ہے مگر کیا ہی اچھا ہے کہ
امریکا بھی ہماری مجبوریوں کو سمجھے اور ہمارے ساتھ صرف اتنا ہی کچھ کرے کہ
جتنا ہم برداشت کرسکیں۔ اور ہم پر اِیسے احکامات جاری نہ کرے کہ جس سے
حکومت اپنے عوام کو مطمئین نہ کرسکے اور اِس طرح حکومت اور عوام میں دوریاں
پیدا ہوں اور جس کے باعث حکومت اور امریکا کے درمیان بھی کوئی خلش پیدا ہو۔
اور امریکا کو اپنے اِن رویوں میں ضرور تبدیلی لانی ہوگی جس کی وجہ سے
بالخصوص پاکستانی عوام میں امریکا کے لئے نفرت کے جذبات جنم لے رہے ہیں۔ |